Mar 13, 2009

ماما (انگریزی والا)۔۔۔۔۔

پہلے واضح کر دوں کہ یہ 'ماما' پنجابی والا نہیں ہے بلکہ انگریزی والا لفظ ہے اور اس وضاحت کی یوں ضرورت محسوس ہوئی کہ پنجابی والا 'ماما' جو کہ اب ایک گالی بن چکا ہے (نہ جانے کیوں) اور چونکہ ڈر ہے کہ گالیوں کے عنوان والے بلاگز کی رسم ہی نہ چل نکلے، آغاز تو الا ماشاءاللہ ہو ہی چکا، تو واضح کر دوں، اور یہ بھی کہ میں گالی پر نہیں گل پر لکھنا چاہ رہا ہوں۔ گُل جو چمن میں کھلتا ہے تو بہار آ جاتی ہے، ہر طرف نغمۂ ہزار گونجتا ہے، اور پژمُردہ دلوں میں جان پڑ جاتی ہے۔


اور اب شاید یہ واضح کرنا بھی ضروری ہو کہ یہ وہ گُل نہیں ہیں جن کے بارے میں علامہ فرماتے ہیں کہ تصویرِ کائنات میں رنگ انہی 'گلوں' کے وجود سے ہے بلکہ یہ تو وہ گل ہیں جو ان سنگلاخ چٹانوں کے سینوں پر کھلتے ہیں جن کی آبیاری تیشۂ فرہاد سے ہوتی ہے، وہ نرم و نازک گل جو سخت بلکہ کرخت سینوں میں دھڑکتے ہیں۔ خونِ جگر سے سینچ کر غنچہ امید وا کرنا حاشا و کلا آسان کام نہیں ہے۔


نہ جانے کیوں زکریا اجمل المعروف بہ 'زیک' کی طرف میرا دھیان جب بھی جاتا ہے تو ذہن میں ایک ماں کا تصور ہی ابھرتا ہے، اس بات کی کوئی وجہ میرے ذہن میں نہیں آتی بجز اسکے کہ اردو، اردو ویب، اور اردو محفل کیلیے اللہ نے انہیں ایک ماں کا دل ہی عطا کیا ہے، اپنے بچے کی ذرا سی پریشانی پر بے اختیار ہو ہو جانا اور اس کی نگہداشت و پرداخت ہمیشہ نگاہ میں رکھنا اور اسکی ترقی و کامیابی کو ہمیشہ دل میں رکھنا اور اس کے مستقبل کی طرف سے ہمیشہ پریشان رہنا، میں نے تو زیک کو جب بھی دیکھا انہی حالتوں میں دیکھا۔ اب اگر انہیں اردو ویب کی 'ماما' نہ لکھوں تو کیا لکھوں اور کیا کہوں۔


دل اگر ماں کا ہے تو دماغ اللہ نے انہیں ایسا حکیمانہ عطا کیا ہے کہ انکی خاموشی بہت ساروں کے لیے سند ہے، مطلب ہے آپ کسی ایسے خشک موضوع پر لکھیئے جس میں حقائق ہیں یا اعداد و شمار ہیں (نہ کہ ایسے گل و بلبل کی باتوں مگر صرف باتوں والے موضوعات جن پر ہم بزعمِ خود طبع آزمائی کرتے ہیں) اور اگر کوئی غلطی ہے تو زیک ضرور اس کو درست کریں گے، گویا زیک انہی اساتذہ کی لڑی میں سے ہیں جن کی خاموشی سند سمجھی جاتی تھی۔ علامہ اقبال کسی مشاعرے کی صدارت فرما رہے تھے اور مبتدی پڑھ رہے تھے، علامہ اپنے مشہورِ زمانہ اسٹائل میں ہتھیلی پر سر ٹکائے بیزار سے بیٹھے تھے اور انکی خاموشی ہی اس بات کی سند تھی کہ اشعار ٹھیک ہی ہیں کہ دفعتہً ایک شعر پر علامہ بے اختیار 'ہُوں' پکار اٹھے، اور وہ شاعر یہ بات اپنی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ سمجھتا رہا کہ علامہ انکے اشعار پر نہ صرف خاموش رہے تھے بلکہ ایک شعر پر 'ہُوں' بھی کہا تھا، اور میں نے نہیں دیکھا زیک کو کبھی 'ہُوں' بھی کہتے ہوئے۔


زیک اور اپنے آپ میں کوئی مماثلت ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا بجز ایک دُور کی کوڑی کے، کہ بقولِ زیک انہیں اردو بلاگ لکھنے کا خیال ایک فارسی بلاگ کو دیکھ کر آیا تھا اور میں شاید اردو بلاگ لکھتا ہی اس لیے ہوں کہ اپنی پسند کے فارسی اشعار کسی طرح محفوظ کر سکوں۔ زیک کو اللہ تعالیٰ نے بہت بردبار اور ٹھنڈے دل و دماغ کا مالک بھی بنایا ہے اور فی زمانہ یہ ایک اتنی بڑی خوبی ہے کہ انسان ہونے کی نشانی ہے اور شاید یہی اوصاف رکھنے والے کسی انسان کے بارے میں مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا تھا، (دیکھیے فارسی کا ذکر زبان پر آیا نہیں اور میں ہر پھر کر فارسی اشعار پر اتر آیا)۔


دی شیخ با چراغ ھمی گشت گردِ شہر

کز دیو و دَد ملولَم و انسانَم آرزوست


کل رات ایک بزرگ ہاتھ میں چراغ لیے سارے شہر میں گھوما کیا اور کہتا رہا کہ میں شیطانوں اور درندوں سے تنگ آ گیا ہوں اور کسی انسان کو دیکھنے کا آرزومند ہوں۔


بات انسان تک پہنچی ہے تو خدا تک بھی ضرور پہنچے گی کہ زیک کی زندگی کے اس رخ کے بارے میں کوئی بات کرنا میں معیوب سمجھتا ہوں مگر یہ کہ زیک میں اگر کہیں میری رُوح ہوتی تو رات کی کیا تخصیص، وہ ہر وقت شہر کی گلیوں میں غالب کا یہ نعرۂ مستانہ لگا کر مجنونانہ گھومتے۔


ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی

جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں


اور چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ بات ایک وضاحت سے شروع ہوئی تھی اور ایک وضاحت پر ہی ختم ہو رہی ہے کہ یہ خاکہ، یا اگر بلاگ کے حوالے سے مجھے ایک بدعت کی اجازت دیں تو کہوں کہ یہ 'بلاخاکہ' میں نے زیک کی اجازت لیے بغیر لکھ مارا اور وہ یہ سوچ کر کہ اگر اجازت لیکر ہی خاکے لکھے جاتے تو "گنجے فرشتے" کبھی تخلیق نہ ہو پاتی۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 10, 2009

احمد فراز کی شاعری: ایک مختصر تاثر از احمد ندیم قاسمی

ایک عظیم مرحوم شاعر کا ایک دوسرے عظیم مرحوم شاعر کی شاعری کے بارے میں یہ ایک لاجواب مضمون ہے جو اکادمی ادبیات پاکستان کے سہ ماہی مجلے 'ادبیات' اسلام آباد کی خصوصی اشاعت 1994ء میں چھپا تھا، چونکہ اس مجلے میں غیر مطبوعہ تحاریر ہی شائع ہوتی تھیں اس لیے یہ تو طے ہے کہ 'ادبیات' سے پہلے قاسمی مرحوم کا یہ مضمون کہیں نہیں چھپا تھا، نہیں جانتا کہ اس کے بعد یہ کہیں چھپا یا نہیں، بہرحال یہ خوبصورت مضمون قارئین کی نذر۔

احمد فراز کی شاعری: ایک مختصر تاثر
احمد ندیم قاسمی
چند ہفتے پہلے کا واقعہ ہے کہ احمد فراز، امجد اسلام امجد، سجاد بابر اور میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے احرام باندھے مکہ مکرمہ پہنچے۔ ہم طوافِ کعبہ مکمل کر چکے اور سعی کے لیے صفا و مروہ کا رخ کرنے والے تھے کہ ایک خاتون لپک کر آئی اور احمد فراز کو بصد شوق مخاطب کیا۔ "آپ احمد فراز صاحب ہیں نا؟" فراز نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بولی۔ "ذرا سا رکئے گا، میرے بابا جان کو آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق ہے۔" وہ گئی اور ایک نہایت بوڑھے بزرگ کا بازو تھامے انہیں فراز کے سامنے لے آئی۔ بزرگ اتنے معمر تھے کہ بہت دشواری سے چل رہے تھے مگر انکا چہرہ عقیدت کے مارے سرخ ہو رہا تھا اور انکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ بولے "سبحان اللہ، یہ کتنا بڑا کرم ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس نے اپنے ہی گھر میں مجھے احمد فراز صاحب سے ملوا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ احمد فراز جو میرے محبوب شاعر ہیں اور جنہوں نے میر اور غالب کی روایت کو توانائی بخشی ہے۔" عقیدت کے سلسلے میں انہوں نے اور بہت کچھ کہا اور جب ہم ان سے اجازت لیکر سعی کے لیے بڑھے تو میں نے فراز سے کہا۔ "آج آپ کی شاعری پر سب سے بڑے الزام کا ثبوت مل گیا ہے۔" سب نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا تو میں نے کہا "دیکھا نہیں آپ نے، یہ "ٹین ایجر" فراز سے کتنی فریفتگی کا اظہار کر رہا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اس ٹین ایجر کی عمر اسی پچاسی سے متجاوز تھی۔"

"فراز ٹین ایجرز کا شاعر ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فراز صرف عنفوانِ شباب میں داخل ہونے والوں کا شاعر ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"فراز کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبہ کا شاعر ہے اور بس۔"۔۔۔۔۔۔۔۔فراز پر یہ الزامات ہر طرف سے وارد ہوتے رہے ہیں مگر وہ اس گھٹیا الزام تراشی سے بے نیاز، نہایت خوبصورت شاعری تخلیق کیے جا رہا ہے۔ اگر حسن و جمال اور عشق و محبت کی اعلیٰ درجے کی شاعری گھٹیا ہوتی تو میر اور غالب، بلکہ دنیا بھر کے عظیم شاعروں کے ہاں گھٹیا شاعری کے انباروں کے سوا اور کیا ہوتا۔ فراز کی شاعری میں بیشتر یقیناً حسن و عشق ہی کی کارفرمائیاں ہیں اور یہ وہ موضوع ہے جو انسانی زندگی میں سے خارج ہو جائے تو انسانوں کے باطن صحراؤں میں بدل جائیں، مگر فراز تو بھر پور زندگی کا شاعر ہے۔ وہ انسان کے بنیادی جذبوں کے علاوہ اس آشوب کا بھی شاعر ہے جو پوری انسانی زندگی کو محیط کیے ہوئے ہے۔ اس نے جہاں انسان کی محرومیوں، مظلومیتوں اور شکستوں کو اپنی غزل و نظم کا موضوع بنایا ہے وہیں ظلم و جبر کے عناصر اور آمریت و مطلق العنانی پر بھی ٹوٹ ٹوٹ کر برسا ہے اور اس سلسلے میں غزل کا ایسا ایسا شعر کہا ہے اور ایسی ایسی نظم لکھی ہے کہ پڑھتے یا سنتے ہوئے اسکے مداحین جھومتے ہیں اور اسکے معترضین کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں۔ یہ دونوں پہلو زندگی کی حقیقت کے پہلو ہیں اور حقیقت ناقابلِ تقسیم ہوتی ہے۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی
ایک بار ایک معروف شاعر نے چند دوسرے ہردلعزیز شعراء کے علاوہ احمد فراز پر بھی تُک بندی کا الزام عائد کر دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ شاعر اگر احمد فراز کا سا ایک شعر بھی کہہ لیتے تو احساسِ کمتری کا مظاہرہ کرنے کا تکلف نہ فرماتے۔ مثال کے طور پر فراز کے صرف دو شعر دیکھئے، اگر یہ تک بندی ہے تو نہ جانے اعلیٰ معیار کی شاعری کسے کہتے ہیں۔

ذکر اس غیرتِ مریم کا جب آتا ہے فراز
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں
---------
آج اُس نے شرَفِ ہم سفَری بخشا تھا
اور کچھ ایسے کہ مجھے خواہشِ منزل نہ رہی

میں صرف ان دو شعروں کے حوالے سے کہوں گا کہ جب میں یہ شعر پڑھتا ہوں تو مجھے ان میں پوری فارسی اور اردو غزل کی دلآویز روایات گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔


Ahmed Faraz, احمد فراز, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Ahmed Faraz, احمد فراز
احمد فراز کے والد مرحوم اردو کے علاوہ فارسی کے بھی اچھے شاعر تھے، پھر فراز کی تعلیم و تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں بیدل، سعدی، حافظ، عرفی، نظیری اور غالب کی فارسی شاعری کے چرچے رہتے تھے۔ کوہاٹ اور پشاور میں اردو شعر و شاعری کا ایک بھر پور ماحول پیدا ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ احمد فراز کی غزل دراصل صنفِ غزل کی تمام روشن روایات کے جدید اور سلیقہ مندانہ اظہار کا نام ہے۔ اس کا ایک ایک مصرعہ ایسا گھٹا ہوا ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک لفظ کی تبدیلی کی گنجائش بھی باقی نہیں چھوڑتا۔ اور چونکہ فراز کی غزل تکمیل (پرفیکشن) کی ایک انتہا ہے اس لیے جب وہ نظم کہتا ہے تو اسکی بھی ایک ایک لائن برجستہ اور بے ساختہ ہوتی ہے۔ چنانچہ احمد فراز غزل اور نظم کا ایسا شاعر ہے جو دورِ حاضر کے چند گنے چنے معتبر ترین شعراء میں شمار ہوتا ہے۔

یہ جو بعض لوگ دُور کی کوڑی لاتے ہیں کہ فراز کے ہاں حسن و عشق کی نرمیوں کے ساتھ ساتھ تغیر و انقلاب کی جو للکار ہے وہ اسے تضادات کا شکار بنا دیتی ہے تو یہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ حسن و عشق کی منازل سے گزرے بغیر انقلاب کی للکار اعتماد سے محروم رہتی ہے اور وہی شعراء صحیح انقلابی ہوتے ہیں جو انسانی ضمیر کی گہرائیوں کے اندازہ داں ہوتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ فراز کا یہ کمال بھی لائقِ صد تحسین ہے کہ کڑی آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود وہ اپنی انقلابی شاعری میں بھی سچا شاعر رہا ہے۔ وہ نعرہ زنی نہیں کرتا، صورتحال کا تجزیہ کرتا ہے اور پڑھنے سننے والوں کو اپنی سوچ کے مطابق سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اُس کا یہ دعویٰ صد فیصد درست ہے کہ

دیکھو تو بیاضِ شعر میری
اک حرف بھی سرنگوں نہیں ہے

فراز کے یہ نام نہاد "تضادات" تو اُس کے فن کی توانائی ہیں، بصورتِ دیگر وہ ذات اور کائنات کو ہم رشتہ کیسے کر سکتا تھا اور اسطرح کے شعر کیسے کہہ سکتا تھا کہ

تم اپنی شمعِ تمنا کو رو رہے ہو فراز
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے

خود آگاہی کا یہ وہ مقام ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے عمریں درکار ہوتی ہیں۔

میں فراز کے شاعرانہ کمالات کے اس نہایت مختصر تاثر کے آخر میں اسکی غزل میں تغزل کی اس بھر پور فضا سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں جو غزل کی سی لطیف صنفِ سخن کی سچی شناخت ہے۔ یہ صرف چند اشعار ہیں جو اس وقت یادداشت میں تازہ ہیں۔

تری قُربت کے لمحے پُھول جیسے
مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں
--------
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اُڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
--------
ایسا گُم ہوں تری یادوں کے بیابانوں میں
دل نہ دھڑکے تو سنائی نہیں دیتا کچھ بھی
--------
بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
--------
اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تُو کرے

یہ اس دور کی غزل ہے جس پر احمد فراز نے سالہا سال تک حکمرانی کی ہے اور جو اردو شاعری کی تاریخ میں ایک الگ باب کی متقاضی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 5, 2009

بے خَبری

آج دفتر کے ایک ساتھی سے کھانے کے دوران، پانچ چھ ماہ کی واقفیت کے بعد، پہلی دفعہ ایک ذاتی سا مکالمہ ہوا جو کچھ انہوں نے اسطرح سے شروع کیا۔
"آپ نے رات وہ تجزیہ سنا تھا؟"انہوں نے ایک پروگرام کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"آپ اُن صاحب کے پروگرام تو دیکھتے ہونگے" انہوں نے اس تجزیہ نگار کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"آپ خبریں تو دیکھتے ہیں ناں"
"جی نہیں"
"تو پھر ٹی وی پر کیا دیکھتے ہیں۔"
"کچھ بھی نہیں، میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔"
"واقعی!!!۔۔۔۔۔اچھا تو پھر فلمیں دیکھتے ہونگے۔"
"اب وہ بھی نہیں دیکھتا۔"
"وہ فلم دیکھی ہے آپ نے" انہوں نے کسی فلم کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"تو پھر گھر جا کر آپ کیا کرتے ہیں"
اسکے بعد اس مکالمے کے طول و عرض میں تو ضرور وسعت پیدا ہوئی لیکن مجھے کچھ مزید "الٹے سیدھے" سوالوں کا جواب دینا پڑا، جیسے وصی شاہ یا نسیم حجازی یا عشق کے عین، شین یا الف، ب، جیم، دال وغیرہ وغیرہ کے متعلق لیکن یہ واقعہ میرے بلاگز کی فہرست میں اضافہ ضرور کر گیا۔

اسے میری بے خبری کہیئے، یا غفلت یا جہالت یا بے حسی یا کچھ اور لیکن یہ حقیقت ہے کہ حالاتِ حاضرہ نام کی چیز کی طرف سے میرے دل میں ایک بیزاری سی پیدا ہو گئی ہے، وجہ تو ماہرینِ نفسیات ہی بتا سکتے ہیں اور شکر کے میرے بلاگ کا قاری فرائڈ نہ ہوا ورنہ کچھ نادر قسم کی وجہ دریافت ہوتی لیکن میں اس بیزاری پر بہت خوش ہوں کہ زندگی میں چین اور سکون ہے، کم از کم حالاتِ حاضرہ کی طرف سے، اور فی زمانہ اس طرف سے سکون کا مطلب ہے کہ آپ کی بے شمار پریشانیاں ختم ہو گئیں جن پر بحث بحث کر کروڑوں انسان بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔

زمانے کی رفتار عجب ہے، ایک شور شرابہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا تیار، مرزا عبدالقادر بیدل نے شاید اسی لیے کہا تھا۔

بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر، در دلِ دریا کراں
ترجمہ، میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل (صدف) میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔

یہ شعر مجھے برابر دن رات یاد آتا ہے یا اگر اسے خودنمائی نہ سمجھا جائے تو عرض کروں کہ اپنی یہ رباعی بھی اکثر یاد آتی ہے جو کم و بیش ایک سال پہلے کہی تھی۔

شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 2, 2009

حرمِ کعبہ میں ابوجہل کی روح کا نوحہ - جاوید نامہ از اقبال سے اشعار

جاوید نامہ اقبال کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کو وہ اپنا حاصلِ زندگی سمجھتے تھے اور وہ ہے بھی۔ دراصل یہ اقبال کا افلاک کا ایک سفر نامہ ہے جس پر مولانا رومی انہیں ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس سفر میں وہ مختلف سیاروں اور آسمانوں کی سیر کرتے ہیں اور کئی مشاہیر سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
جاوید نامہ کا تفصیلی تعارف انشاءاللہ پھر کسی وقت لکھوں گا، یہاں پر نیچے جو تین بند ہیں انکا سیاق و سباق لکھ دیتا ہوں تا کہ ان کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔
اقبال اور رومی جب آسمانوں کے سفر پر نکلتے ہیں تو سب سے پہلے "فلکِ قمر" پر پہنچتے ہیں۔ فلک قمر پر انکی ملاقات ایک "جہاں دوست" سے ہوتی ہے، جہاں دوست دراصل ایک قدیم ہندو رشی "وشوامتر" ہے۔ وشوامتر سے باتیں کر کے وہ چاند کی ایک وادی یرغمید کی طرف جاتے ہیں جسے فرشتوں نے وادیِ طواسین کا نام دے رکھا ہے (یہ دونوں نام ظاہر ہے اقبال نے ہی دیے ہیں)۔
طواسین، دراصل طاسین کی جمع ہے، اور منصور حلاج کی کتاب کا نام ہے، منصور نے طواسین سے مراد تجلیات لیا ہے جبکہ علامہ نے یہاں اس سے مراد تعلیمات لیا ہے۔ وادیِ طواسین میں علامہ نے گوتم بدھ، زرتشت، حضرت عیسٰی (ع) اور حضرت مُحمّد (ص) کی تعلیمات بیان کی ہیں۔
اس مقام پر میں پچھلے کئی برسوں سے اٹکا ہوا ہوں اور جب بھی جاوید نامہ کا یہ حصہ نظر سے گزرتا ہے دل بے اختیار اقبال کی عظمت کو سلام کر اٹھتا ہے۔ اقبال کی فکر کا عروج ہے کہ یہ تعلیمات چار مختلف انداز سے بیان کی ہیں۔ گوتم کی تعلیمات کا عنوان ہے "طاسینِ گوتم، توبہ آوردن زنِ رقاصہ عشوہ فروش" یعنی ایک عشوہ فروش رقاصہ کا توبہ کرنا۔ اس میں گوتم بدھ اور رقاصہ کا مکالمہ لکھا ہے۔ زرتشت کی تعلیمات کا عنوان "آزمایش کردن اہرمن زرتشت را" یعنی اہرمن (شیطان) کا زرتشت کی آزمایش کرنا اور ان دونوں کا مکالمہ ہے۔ حضرت مسیح (ع) کی تعلیمات "رویائے حکیم طالسطائی" یعنی مشہور روسی ناول نگار، مفکر اور مصلح ٹالسٹائی کے خواب کی صورت میں بیان کی ہیں۔
حضرت مُحمّد (ص) کی تعلیمات "نوحہ رُوحِ ابو جہل در حرمِ کعبہ" یعنی ابوجہل کی روح کا حرم کعبہ میں نوحے کی صورت میں بیان کی ہیں۔ ایک بار پھر یہاں اقبال کی عظمت اور اوجِ خیال اور انفرادیت کو سلام کرتے ہی بن پڑتی ہے۔ اقبال نے یہاں اس انسانی اور نفسیاتی نکتے سے کام لیا ہے کہ آپ کا دشمن آپ پر جو جو الزام لگائے گا اور جو جو آپ کے نقائص بیان کرے گا وہ دراصل آپ کی خوبیاں ہیں۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ علامہ کیا فرماتے ہیں۔
طاسینِ مُحمّد
نوحہ رُوحِ ابوجہل در حرمِ کعبہ

سینۂ ما از مُحمّد داغ داغ
از دمِ اُو کعبہ را گل شُد چراغ
ہمارا سینہ محمد (ص) کی وجہ سے داغ داغ ہے، اسکے دم (پھونک) سے کعبہ کا چراغ بجھ گیا۔
از ہلاکِ قیصر و کسریٰ سرُود
نوجواناں را ز دستِ ما ربُود
اُس نے قیصر و کسریٰ (بادشاہوں) کی بربادی کی باتیں کیں، وہ نوجوانوں کو ہمارے ہاتھوں میں سے اچک کر لے گیا۔
ساحر و اندر کلامَش ساحری است
ایں دو حرفِ لااِلٰہ خود کافری است
وہ جادوگر ہے اور اس کے کلام کے اندر جادوگری ہے، یہ دو حرف لاالہ (کوئی معبود نہیں) تو خود کافری ہے کہ ہر کسی کا انکار کیا جا رہا ہے۔
تا بساطِ دینِ آبا دَر نَوَرد
با خداوندانِ ما کرد، آنچہ کرد
جب اس نے ہمارے آبا و اجداد کے دین کی بساط الٹ دی تو ہمارے خداؤں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ناقابل بیان ہے۔Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
پاش پاش از ضَربتَش لات و منات
انتقام از وے بگیر اے کائنات
اس کی ضرب سے لات و منات پاش پاش ہو گئے، اے کائنات (اسکے اس فعل و جرأت پر) اس سے انتقام لے۔
دل بہ غایب بست و از حاضر گَسَست
نقشِ حاضر را فسونِ او شکست
اس نے غائب سے دل لگایا ہے اور جو حاضر ہیں (بُت) ان سے ناطہ توڑا، اسکے جادو نے حاضر کے نقش کو توڑ دیا۔
دیدہ بر غایب فرو بَستَن خطاست
آنچہ اندر دیدہ می نایَد کجاست
غایب پر نگاہ مرکوز رکھنا (دل لگانا) خطا ہے، جو نظر ہی نہیں آتا وہ کہاں ہے (اس کا کیا وجود جو نظر ہی نہ آئے)۔
پیشِ غایب سجدہ بردَن کُوری است
دینِ نو کُور است و کوری دُوری است
غایب کے سامنے سجدہ کرنا تو اندھا پن ہے، یہ نیا دین اندھا پن ہے اور اندھا پن (حاضر کو نہ دیکھ پانا) تو دوری ہے، فراق ہے۔
خُم شُدَن پیشِ خدائے بے جہات
بندہ را ذوقے نَبَخَشد ایں صلٰوت
بے جہات خدا کے سامنے جھکنا، بندے کو یہ (ایسی) نماز کوئی ذوق عطا نہیں کرتی، اس شعر میں اقبال نے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے اسی نماز میں ذوق ہے جس میں بندہ خدا کو سامنے دیکھے یعنی مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے۔

مذہَبِ اُو قاطعِ مُلک و نسَب
از قریش و منکر از فضلِ عرَب
اس کا مذہب ملک و نسب کو کاٹتا ہے، یعنی مساوات کا درس دیتا ہے، وہ قریش اور عرب کی فضیلت کا منکر ہے۔
در نگاہِ اُو یکے بالا و پست
با غُلامِ خویش بر یک خواں نشست
اسکی نگاہ میں اعلٰی اور ادنٰی ایک برابر ہیں، وہ اپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھا۔
قدرِ احرارِ عرب نشناختہ
با کَلِفتانِ حبَش در ساختہ
اس نے عرب کے آزاد بندوں کی قدر نہیں جانی، اس نے افریقہ کے بد صورتوں (اور غلاموں) سے موافقت پیدا کر لی۔
احمَراں با اسوَداں آمیختَند
آبروئے دُودمانے ریختَند
اس نے سرخ رنگ والوں (عربوں) کو سیاہ رنگ والوں (حبشیوں) کے ساتھ ملا دیا، اس نے خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی۔
ایں مساوات ایں مواخات اعجمی است
خوب می دانَم کہ سلماں مزدکی است
یہ مساوات اور بھائی چارے کی باتیں عجمی ہیں، میں خوب جانتا ہوں کہ سلمان (فارسی رض) مزدکی ہے۔ مزدک پانچویں صدی عیسوی کے آخر اور چھٹی صدی کے قبل کا ایک ایرانی مصلح تھا جس نے مساوات کی بات کی، ایرانی بادشاہ صباد نے اسکے نظریات قبول بھی کر لیے لیکن بعد میں اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد خسرو نوشیرواں کے ہاتھوں مزدک اور اسکے لاکھوں معتقدین کا قتلِ عام کروا دیا۔ ابو جہل یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ سلمان فارسی (رض) بھی مزدکی ہیں اور انہوں ہی نے ہی حضرت محمد (ص) کو مساوات کی باتیں سکھائی ہیں وگرنہ عرب میں ان باتوں کا کیا کام۔
ابنِ عبداﷲ فریبَش خوردہ است
رستخیزی بر عرب آوردہ است
عبداللہ کے بیٹے (حضرت محمد ص) نے اسی (سلمان) کا فریب کھایا ہے اور عرب پر (مساوات) کی جنگ مسلط کر دی ہے۔
عترتِ ہاشم ز خود مہجور گشت
از دو رکعت چشمِ شاں بے نور گشت
ہاشم کا خاندان اپنے آپ (اپنی فضیلت) سے ہی دور ہو گیا ہے، دو رکعت کی نماز نے انکی آنکھوں کو بے نور کر دیا ہے۔
اعجمی را اصلِ عدنانی کجاست
گنگ را گفتارِ سحبانی کجاست
عجمیوں کو عدنانیوں (قریش کے جدِ امجد عدنان) سے کیا نسبت ہو سکتی ہے، گونگا کہاں اور سبحانی کی گفتار کہاں۔ (سبحاں زمانۂ اسلام کا ایک نامور اور شعلہ بیاں خطیب و مقرر تھا، فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اور بعد میں امیر معاویہ کے مصاحبین مین شامل ہو کر خطیب العرب کا خطاب پایا)۔
چشمِ خاصانِ عرب گردیدہ کور
بر نیائے اے زہَیر از خاک گور
عرب کے خاص لوگوں کی آنکھ اندھی ہو گئی ہے، اے زُہیر اپنی قبر سے اٹھ کھڑا ہو۔ (زہیر عرب کا نامور شاعر جو اسلام کے خلاف شعر کہہ کر عربیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا)۔
اے تو ما را اندریں صحرا دلیل
بشکن افسونِ نوائے جبرئیل
اے (زہیر) تو صحرا (عرب) میں ہمارا رہبر ہے، تو جبرائیل کی نوا یعنی قرآن کا جادو (اپنی شاعری سے) توڑ دے۔

باز گو اے سنگِ اسوَد باز گوے
آں چہ دیدیم از مُحمّد باز گوے
پھر بیان کر اے کالے پتھر (حجر اسود در کعبہ) پھر بیان کر، محمد (ص) کے ہاتھوں جو کچھ ہم نے دیکھا (ہم ہر جو گزری وہ اتنی دردناک کہانی ہے کہ) پھر بیان کر۔
اے ہبَل، اے بندہ را پوزش پذیر
خانۂ خود را ز بے کیشاں بگیر
اے ہبل (قریش کا مشہور بت و معبود) اے بندوں کے عذر قبول کرنے والے، اپنے گھر (کعبہ) کو ان بے دینوں سے واپس لے لے۔
گلّۂ شاں را بہ گُرگاں کن سبیل
تلخ کن خرمائے شاں را بر نخیل
ان کے بھیڑوں کے گلے کو بھیڑیوں کے حوالے کر، انکی کھجوروں کو درختوں پر ہی تلخ کر دے۔
صرصرے دہ با ہوائے بادیہ
"أَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَۃ"
ان پر صحرا کی ہوا کو صرصر (تند و تیز و گرم طوفانی ہوا) بنا کر بھیج، تا کہ وہ اس طرح گر جائیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے۔ دوسرا مصرع سورۃ الحاقہ کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے۔
اے منات اے لات ازیں منزل مَرَو
گر ز منزل می روی از دل مَرَو
اے لات و منات اس منزل (کعبہ) سے مت جاؤ، اگر اس منزل سے چلے بھی جاؤ تو ہمارے (عرب و قریش) کے دلوں سے مت جاؤ۔
اے ترا اندر دو چشمِ ما وثاق
مہلتے، "اِن کُنتِ اَزمَعتِ الِفراق"
اے وہ کہ تمھارا ہماری آنکھوں کے اندر گھر ہے، اگر تم نے جدا ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مہلت تو دو، کچھ دیر تو ٹھہرو۔ عربی ٹکڑا مشہور عربی شاعر امراء القیس کے ایک شعر کا پارہ ہے۔

انہی اشعار کے ساتھ اقبال فلکِ قمر سے رومی کی معیت میں فلکِ عطارد کی طرف سفر کر جاتے ہیں۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 26, 2009

غزلِ امیر خُسرو مع ترجمہ - دِلَم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا

امیر خسرو کی ایک اور خوبصورت غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔
دِلَم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا
تَنَم از بیدِلی بیچارہ شد، بیچارہ تر بادا
ترجمہ
میرا دل عاشقی میں آوارہ ہو گیا ہے، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔ میرا جسم بے دلی سے بیچارہ ہو گیا ہے، اور زیادہ بیچارہ ہوجائے۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
مرا دل عشق میں آوارہ ہے، آوارہ تر ہوجائے
مرا تن غم سے بے چارہ ہوا، بے چارہ تر ہوجائے
گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ آں آوارۂ کوئے بُتاں، آوارہ تر بادا
ترجمہ
اگر اے زاہد تو میرے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو میرے لیے یہ کہہ کہ کوئے بتاں کا آوارہ، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔
قریشی
اگر مجھ کو دعائے خیر دینی ہے تو کہہ زاہد
کہ وہ آوارۂ کوئے بتاں آوارہ تر ہو جائے
دِلِ من پارہ گشت از غم نہ زاں گونہ کہ بہ گردَد
اگر جاناں بدیں شاد است، یا رب پارہ تر بادا
ترجمہ
میرا دل غم سے ٹکرے ٹکرے ہوگیا ہے اور اسطرح بھی نہیں کہ وہ ٹھیک ہوجائے، اگر جاناں اسی طرح خوش ہے تو یا رب میرا دل اور پارہ پارہ ہوجائے۔
قریشی
مرا دل پارہ پارہ ہے، نہیں امّید بہتر ہو
اگر جاناں اسی میں شاد ہے تو پارہ تر ہو جائے
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
ہمہ گویند کز خونخواریَش خلقے بجاں آمد
من ایں گویَم کہ بہرِ جانِ من خونخوارہ تر بادا
ترجمہ
سبھی کہتے ہین کہ اسکی خونخواری سے خلق کی جان تنگ ہوگئی ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ میری جان کیلیے وہ اور زیادہ خونخوار ہو جائے
قریشی
سبھی کہتے ہیں خونخواری سے اُسکی خلق عاجز ہے
میں کہتا ہوں وہ میری جان پر خونخوارہ تر ہو جائے
چو با تر دامنی خُو کرد خُسرو با دوچشمِ تر
بہ آبِ چشمِ مژگاں دامِنَش ہموارہ تر بادا
ترجمہ
اے خسرو، اگر تیری دو بھیگی ہوئی آنکھوں نے تر دامنی کو اپنی عادت بنا لیا ہے تو تیرا دامن آنکھوں کے آنسوؤں سے اور زیادہ بھیگ جائے۔
قریشی
دو چشمِ تر سے خسرو کو ہوئی تر دامنی کی خُو
برستی آنکھ سے دامن مگر ہموارہ تر ہو جائے
----------
بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
تقطیع -
دلم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا
تَنم از بیدِلی بیچارہ شد، بیچارہ تر بادا
دِلَم در عا - مفاعیلن - 2221
ش قی آوا - مفاعیلن - 2221
رَ شُد آوا - مفاعیلن - 2221
رَ تر بادا - مفاعیلن - 2221
تَنم از بی - مفاعیلن - 2221
دِلی بیچا - مفاعیلن - 2221
رَ شد، بیچا - مفاعیلن - 2221
رَ تر بادا - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 25, 2009

ٹانویں ٹانویں تارے - احمد راہی

کلّے کلّے رُکھ نے تے ٹانویں ٹانویں تارے
سہکدے نے تیریاں وچھوڑیاں دے مارے
ٹانویں ٹانویں تارے

بُھلّے میرے لیکھ، تیرے وعدیاں تے بُھل گئی
پیار دیاں لشکدیاں رنگاں اُتّے ڈُلّھ پئی
گہری گہری اَکھّیں مینوں تک دے نے سارے
ٹانویں ٹانویں تارے
Ahmed Rahi, احمد راہی, Punjabi Poetry, پنجابی شاعری
Ahmed Rahi, احمد راہی
اساں دل دتّا سی، تُوں دھوکا دے کے ٹُر گیوں
سانوں ساری عمراں دا رونا دے کے ٹُر گیوں
کدی تیرے ساڈے وی تے ہون گے نتارے
ٹانویں ٹانویں تارے

(ترنجن - احمد راہی)
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 22, 2009

علامہ اقبال کی ایک نظم 'از خوابِ گِراں خیز' مع ترجمہ

'زبور عجم' کا علامہ اقبال کے کلام میں ایک اپنا مقام ہے، اس کتاب میں علامہ کی وہ مخصوص شاعری ہے جس کا پرچار وہ ساری زندگی کرتے رہے، عمل کی تلقین سے بھری اس کتاب میں سے 'انقلاب' کے موضوع پر ایک نظم پہلے پوسٹ کر چکا ہوں، یہ نظم بھی اسی موضوع پر ہے اور کیا خوبصورت نظم ہے۔
اس نظم میں جو ٹِیپ کا مصرع (بار بار آنے والا) 'از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گراں خیز' (گہری نیند سے اٹھ) ہے، اسکے متعلق کبھی کسی اخبار کے ایک کالم میں پڑھا تھا کہ لاہور کا ایک کاروباری شخص کسی سلسلے میں وسطی ایشیا کے ایک ملک میں مقیم تھا، یہ وہ دن تھے جب وسطی ایشیائی ملک آزادی حاصل کر رہے تھے، اسکا کہنا ہے کہ ایک دن وہاں ہزاروں مظاہرین صبح سے لیکر شام تک صرف اسی مصرعے کے نعرے لگاتے رہے، وہ واپس آیا تو اس نے اپنے کسی دوست سے ذکر کیا تو اس نے اسے بتایا کہ یہ مصرع تو اقبال کا ہے۔ اور اقبال کی یہی شاعری ہے کہ انقلاب کے دوران ایرانی اس بات پر پچھتاتے رہے کہ اقبال کے اولین مخاطب تو ہم ہیں لیکن عرصۂ دراز تک اس کے کلام کو سمجھا ہی نہیں۔ اپنے ملک میں ماشاءاللہ اقبال کی فارسی شاعری کا جو حال ہے اسکا نوحہ پڑھنے سے بہتر مجھے یہ لگا کہ اقبال کی یہ خوبصورت اور لازوال نظم پڑھی جائے۔

اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نِگَراں خیز
کاشانۂ ما، رفت بتَاراجِ غماں، خیز
از نالۂ مرغِ چمن، از بانگِ اذاں خیز
از گرمیِ ہنگامۂ آتش نفَساں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز
اے سوئے ہوئے غنچے، نرگس کی طرف دیکھتے ہوئے اٹھ، ہمارا گھرغموں اور مصیبتوں نے برباد کر دیا، اٹھ، چمن کے پرندے کی فریاد سے اٹھ، اذان کی آواز سے اٹھ، آگ بھرے سانس رکھنے والوں کی گرمی کے ہنگامہ سے اٹھ، (غفلت کی) گہری نیند، گہری نیند، (بہت) گہری نیند سے اٹھ۔

خورشید کہ پیرایہ بسیمائے سحر بست
آویزہ بگوشِ سحر از خونِ جگر بست
از دشت و جبَل قافلہ ہا، رختِ سفر بست
اے چشمِ جہاں بیں بہ تماشائے جہاں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز

سورج جس نے صبح کے زیور سے ماتھے کو سجھایا، اس نے صبح کے کانوں میں خونِ جگر سے بندہ لٹکایا، یعنی صبح ہو گئی، بیابانوں اور پہاڑوں سے قافلوں نے سفر کیلیے سامان باندھ لیا ہے، اے جہان کو دیکھنے والے آنکھ، تُو بھی جہان کے تماشا کیلیے اٹھ، یعنی تو بھی اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔

خاور ہمہ مانندِ غبارِ سرِ راہے است
یک نالۂ خاموش و اثر باختہ آہے است
ہر ذرّۂ ایں خاک گرہ خوردہ نگاہے است
از ہند و سمر قند و عراق و ہَمَداں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز

مشرق (خاور) سب کا سب راستے کے غبار کی مانند ہے، وہ ایک ایسی فریاد ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک ایسی آہ ہے جو بے اثر ہے، اور اس خاک کا ہر ذرہ ایک ایسی نگاہ ہے جس پر گرہ باندھ دی گئی ہے (نابینا ہے)، (اے مشرقیو) ہندوستان و سمرقند (وسطی ایشیا) و عراق (عرب) اور ہمدان(ایران، عجم) سے اٹھو، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھو۔

دریائے تو دریاست کہ آسودہ چو صحرا ست
دریائے تو دریاست کہ افزوں نہ شُد وکاست
بیگانۂ آشوب و نہنگ است، چہ دریاست؟
از سینۂ چاکش صِفَتِ موجِ رواں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز

تیرا دریا ایک ایسا دریا ہے کہ جو صحرا کی طرح پرسکون (بے آب) ہے، تیرا دریا ایک ایسا دریا ہے کہ جو بڑھا تو نہیں البتہ کم ضرور ہو گیا ہے، یہ تیرا دریا کیسا دریا ہے کہ وہ طوفانوں اور مگر مچھوں (کشمکشِ زندگی) سے بیگانہ ہے، اس دریا کے پھٹے ہوئے سینے سے تند اور رواں موجوں کی طرح اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
Allama Iqbal, علامہ اقبال
ایں نکتہ کشائندۂ اسرارِ نہاں است
ملک است تنِ خاکی و دیں روحِ رواں است
تن زندہ و جاں زندہ ز ربطِ تن و جاں است
با خرقہ و سجّادہ و شمشیر و سناں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز

یہ بات چھپے ہوئے بھیدوں کو کھولنے والی ہے (غور سے سن)، تیرا خاکی جسم اگر ملک ہے تو دین اسکی جان اور روحِ رواں اور اس پر حکمراں ہے، جسم اور جان اگر زندہ ہیں تو وہ جسم اور جان کے ربط ہی سے زندہ ہیں، لہذا خرقہ و سجادہ و شمشیر و تلوار کے ساتھ (یعنی صوفی، زاہد اور سپاہی) اٹھ، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند میں ڈوبے ہوئے اٹھ۔

ناموسِ ازَل را تو امینی، تو امینی
دارائے جہاں را تو یَساری تو یَمینی
اے بندۂ خاکی تو زمانی تو زمینی
صہبائے یقیں در کش و از دیرِ گماں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز

ازل کی ناموس کا تو ہی امانت دار ہے، جہان کے رکھوالے کا تو ہی دایاں اور بایاں (خلیفہ) ہے، اے مٹی کے انسان تو ہی زمان ہے اور تو ہی مکان ہے (یعنی انکا حکمران ہے) تو یقین کے پیمانے سے شراب پی اور وہم و گمان و بے یقینی کے بتکدے سے اٹھ کھڑا ہو، گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو، بہت گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو۔

فریاد ز افرنگ و دل آویزیِ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ
معمارِ حرم، باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز

فریاد ہے افرنگ سے اور اسکی دل آویزی سے، اسکی شیریں (حسن) اور پرویزی (مکاری) سے، کہ تمام عالم افرنگ کی چنگیزیت سے ویران اور تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھراس (تباہ و برباد) جہان کو تعمیر کرنے کیلیے اٹھ کھڑا ہو، (لیکن تُو تو خوابِ غفلت میں پڑا ہوا ہے) اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 21, 2009

عبدالحمید عدم کی ایک غزل - ہر پری وَش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں

ہر پری وَش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں
کتنا سودائی ہوں، کیا تسلیم کر لیتا ہوں میں

مے چُھٹی، پر گاہے گاہے اب بھی بہرِ احترام
دعوتِ آب و ہوا تسلیم کر لیتا ہوں میں

بے وفا میں نے، محبّت سے کہا تھا آپ کو
لیجیئے اب با وفا تسلیم کر لیتا ہوں میں
Abdul Hameed Adam, عبدالحمید عدم, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Abdul Hameed Adam, عبدالحمید عدم
جو اندھیرا تیری زلفوں کی طرح شاداب ہو
اُس اندھیرے کو ضیا تسلیم کر لیتا ہوں میں

جُرم تو کوئی نہیں سرزد ہوا مجھ سے حضور
با وجود اِس کے سزا تسلیم کر لیتا ہوں میں

جب بغیر اس کے نہ ہوتی ہو خلاصی اے عدم
رہزنوں کو رہنما تسلیم کر لیتا ہوں میں

(رُسوائیِ نقاب - عبدالحمید عدم)
--------
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
ہر پری وَش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں
کتنا سودائی ہوں، کیا تسلیم کر لیتا ہوں میں
ہر پری وش - فاعلاتن - 2212
کو خدا تس - فاعلاتن - 2212
لیم کر لے - فاعلاتن - 2212
تا ہُ مے - فاعلن - 212
کتنَ سودا - فاعلاتن - 2212
ئی ہُ کا تس - فاعلاتن - 2212
لیم کر لے - فاعلاتن - 2212
تا ہُ مے - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 20, 2009

طائرِ لاہوتی از واصف علی واصف

طائرِ لاہوتی

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیِ رندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا

میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی
ناسوتی نے کب مجھ کو، اس حال میں پہچانا

میں سوز محبّت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ
واصف علی واصف, Wasif Ali Wasif, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
واصف علی واصف, Wasif Ali Wasif
میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ

میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ
(شب چراغ - واصف علی واصف)
————
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن مَفعُولُ مَفَاعِیلُن
اشاری نظام - 122 2221 122 2221
تقطیع -
میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیِ رندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
مے نعرَ - مفعول - 122
ء مستانہ - مفاعیلن - 2221
مے شوخِ - مفعول - 122
یِ رندانہ - مفاعیلن - 2221
مے تشنَ - مفعول - 122
کہا جاؤ - مفاعیلن - 2221
پی کر بِ - مفعول - 122
کہا جانا - مفاعیلن - 2221

اور یہ عابدہ پروین کی آواز میں


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 18, 2009

کرکٹ: جنون سے سکون تک

کرکٹ سے میری شناسائی پرانی ہے، اتنی ہی پرانی جتنی میری ہوش۔ بچپن ہی سے کرکٹ میرے خون میں رچی بسی تھی بلکہ خون سے باہر بھی ٹپکتی تھی، کبھی ناک پر کرکٹ بال لگنے سے نکسیر پھوٹی تو کبھی ہونٹ کٹے اور منہ خون سے بھر گیا لیکن یہ جنون ختم نہ ہوا۔ میں اپنے محلے کی دو ٹیموں میں کھیلا کرتا تھا وجہ اسکی یہ تھی کہ ہر لڑکا ہی آل راؤنڈر ہوتا تھا سو جس کو بلے بازی میں باری ملتی تھی اس کو گیند بازی نہیں ملتی تھی اور جس کو گیند بازی ملتی تھی اس کی بیٹنگ میں باری نہیں آتی تھی سو اس کا حل میں نے یہ سوچا تھا کہ دو ٹیموں میں کھیلا کرتا تھا ایک میں بحیثیت اوپننگ بلے باز کے اور دوسری میں بحیثیت اٹیک باؤلر کے، گو اس طرح مجھے دگنا چندہ دینا پڑتا تھا لیکن راہِ عشق میں دام و درم کو کون دیکھنا ہے۔ چند کاغذوں کو سی کر میں نے اپنی ایک پرائیوٹ ریکارڈ بُک بھی بنا رکھی تھی جس میں اپنے میچوں کے اعداد و شمار لکھا کرتا تھا۔

کھیلنے کا جنون تو تھا ہی دیکھنے کا بھی تھا، پانچ پانچ دن سارے ٹیسٹ میچ دیکھنا اور پھر ان پر تبصرے کرنا، اور تو اور جناح اسٹیڈیم سیالکوٹ میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان میچ دیکھنے کیلیے پولیس کے ڈنڈے بھی کھائے اور آنسو گیس بھی سہی لیکن یہ جنون کسی طور کم نہیں ہوا۔

لیکن نہ جانے کیا ہوا ہے پچھلے دو سالوں میں کہ زندگی کم از کم کرکٹ کی طرف سے پر سکون ہو گئی ہے، کھیلنا اور دیکھنا تو درکنار میں اب کسی سے اس موضوع پر بات بھی نہیں کرتا اور اگر کوئی کرنے کی کوشش بھی کرے تو اسے کوئی شعر سنا کر چپ کرا دیتا ہوں۔ میری زندگی کے چالیس سال پورے ہونے میں تو ابھی تین چار سال باقی ہیں لیکن شاید عقل آ گئی ہے اگر کرکٹ سے صریحاً قطع تعلقی کوئی عقل کا کام ہے تو، ہاں اگر کوئی اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ میں کرکٹ کے شائقین کو بیوقوف کہہ رہا ہوں تو دروغ بر گردنِ راوی!
مزید پڑھیے۔۔۔۔