Apr 2, 2012

رباعیاتِ سرمد شہید مع اردو ترجمہ -۳


(13)
سرمد اگرش وفاست خود می آید
گر آمدنش رواست خود می آید
بیہودہ چرا درپئے اُو می گردی
بنشیں، اگر اُو خداست خود می آید

سرمد اگر وہ با وفا ہے تو خود ہی آئے گا۔ اگر اس کا آنا روا اور ممکن ہے تو وہ خود ہی آئے گا۔ تُو کاہے اسکی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، آرام سے بیٹھ رہ، اگر وہ خدا ہے تو خود ہی آئے گا۔


(14)
از جُرم فزوں یافتہ ام فضل ترا
ایں شد سببِ معصیتِ بیش مرا
ہر چند گنہ بیش، کرم بیش تر است
دیدم ہمہ جا و آزمودم ہمہ را

میرے گناہوں سے تیرا فضل بہت بڑھ کے ہے اور میرے گناہ اسی وجہ سے زیادہ ہیں۔ ہر چند کہ میرے گناہ بہت زیادہ ہیں لیکن تیرا کرم ان سے بہت ہی زیادہ ہے اور یہی بات میں نے ہر جگہ دیکھی ہے اور یہی بات ہر کسی کا تجربہ ہے۔

(15)
دیوانہٴ رنگینیِ یارِ دگرم
حیرت زدہٴ نقش و نگارِ دگرم
عالم ہمہ در فکر و خیالِ دگر است
من در غم و اندیشہٴ کارِ دگرم

میں کسی اور ہی محبوب کی رنگینی کا دیوانہ ہوں۔ میں کسی اور ہی کے نقش و نگار سے حیرت زدہ ہوں۔ ساری دنیا اوروں کے خیال میں محو ہے جبکہ میں اور ہی طرح کے غموں میں مگن ہوں۔

(16)
مشہور شدی بہ دلربائی ہمہ جا
بے مثل شدی در آشنائی ہمہ جا
من عاشقِ ایں طورِ تو ام، می بینم
خود را نہ نمائی و نمائی ہمہ جا

ہر جگہ تیری دلربائی کہ وجہ سے تیرے چرچے ہیں، اور آشنائی میں بھی تو بے مثل ہے۔ میں تیرے انہی طور طریقوں پر عاشق ہوں اور دیکھتا ہوں کہ تُو خود کو عیاں نہیں کرتا اور ہر جگہ عیاں بھی ہے۔

mazar, sarmad, shaheed, mazar sarmad shaheed, persian, persian poetry, farsi, farsi poetry, rubai, مزار، مزار سرمد شہید، سرمد، شہید، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی
مزار سرمد شہید mazar sarmad shaheed
(17)
اے جلوہ گرِ نہاں، عیاں شو بدر آ
در فکر بجستیم کہ ہستی تو کجا
خواہم کہ در آغوش وکنارت گیرم
تاچند تو در پردہ نمائی خود را

اے تو کہ جو پردوں کے پیچھے ہے، ظاہر ہو اور سامنے آ، میں اسی فکر میں سرگرداں رہتا ہوں کہ تیری ہستی کیا ہے۔  میری خواہش ہے کہ تیرا وصال ہو اور میں تجھے چھوؤں اور اپنی آغوش میں لوں، یہ پردوں کے پیچھے سے اپنے آپ کو نمایاں کرنا کب تک۔

(18)
ہرچند کہ صد دوست بہ من دشمن شُد
از دوستیِ یکے دلم ایمن شد
وحدت بگزیدم و ز کثرت رستم
آخر من ازو شدم و اُو از من شد

اگرچہ سینکڑوں دوست میرے دشمن بن گئے لیکن ایک کی دوستی نے  میری روح کو امن و قرار دے دیا (اور مجھے سب سے بے نیاز کر دیا)۔ میں نے ایک کو پکڑ لیا اور کثرت کو چھوڑ دیا اور آخرِ کار میں وہ بن گیا اور وہ میں بن گیا۔

(19)
دنیا نَشَود آخرِ دم بہ تو رفیق
در راہِ خدا کوش، رفیق است شفیق
خواہی کہ بسر منزلِ دلدار رسی
گفتم بہ تو اے دوست، ہمیں است طریق

دنیا تیرے آخری دموں تک تیری رفیق نہیں بنے گی لیکن خدا کی راہ میں لگا رہ کہ جو نہ صرف رفیق ہے بلکہ شفیق بھی ہے۔ اگر تو چاہتا کہ اپنے دلدار تک پہنچے تو پھر اے دوست تجھ سے یہی کہتا ہوں کہ طریقہ یہی ہے (جو میں نے تجھے بتایا)۔

(20)
ہر نیک و بدے کہ ہست در دستِ خداست
ایں معنیٴ پیدا و نہاں در ہمہ جاست
باور نہ کنی اگر دریں جا بنگر
ایں ضعفِ من و قوّتِ شیطاں ز کجاست

ہر نیکی اور بدی جو کچھ بھی ہے سب خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ بات چاہے ظاہر ہو یا چھپی ہوئی ہر جگہ ہے، اگر تو اس بات کا یقین نہیں کرتا تو میری طرف دیکھ کہ یہ میرا ضعف اور شیطان کی قوت کہاں سے آئی ہے۔

حصہٴ اول
حصہٴ دوم

متعلقہ تحاریر : رباعی, سرمد شہید, فارسی شاعری

2 comments: