گر ببینی ناکساں بالا نشیند صبر کن
روئے دریا کف نشیند، قعرِ دریا گوہر است
اگر تُو دیکھے کہ نااہل اور نالایق لوگ رتبے میں تجھ سے بلند ہیں تو صبر کر، کیونکہ سمندر کے اوپر جھاگ ہوتی ہے اور گوہر سمندر کی تہہ میں ہوتا ہے۔
----------
اظہارِ عجز پیشِ ستم پیشگاں خطاست
اشکِ کباب باعثِ طغیانِ آتش است
ستم پیشہ، ظالم لوگوں کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا غلطی ہے کیونکہ کباب سے گرنے والے قطرے آگ کو مزید بڑھکا دیتے ہیں۔
----------
می شوند از گردشِ چشمِ بُتاں زیر و زبر
عشقبازاں را غمے از گردشِ افلاک نیست
وہ تو چشمِ بتاں کی گردش سے ہی زیر و زبر ہو جاتے ہیں، عاشقوں کو گردشِ افلاک کا تو کوئی غم نہیں ہے۔
----------
چندیں ہزار شیشۂ دل را بہ سنگ زد
افسانہ ایست ایں کہ دلِ یار نازک است
اُس نے تو ہزاروں شیشے جیسے دل پتھر پر دے مارے اور توڑ دیے، یہ بات کہ محبوب کا دل بڑا نازک ہے، افسانہ ہی ہے۔
----------
یادگارِ جگرِ سوختۂ مجنوں است
لالۂ چند کہ از دامنِ صحرا برخاست
مجنوں کے سوختہ جگر کی یادگار ہیں، وہ چند لالے کے پھول جو صحرا کے دامن میں کھلتے ہیں۔
----------
ما ز غفلت رہزناں را کارواں پنداشتیم
موجِ ریگِ خشک را آبِ رواں پنداشتیم
ہم نے اپنی غفلت سے لٹیروں کو ہی کارواں سمجھ لیا اور خشک ریت کی موج (سُراب) کو ہی آبِ رواں سمجھ لیا۔
----------
رنگِ شکستہ را بہ زباں احتیاج نیست
صائب عبث چہ دردِ خود اظہار می کُنی
اُڑے ہوئے رنگ کو زبان سے اظہار کی ضرورت نہیں ہے، صائب تُو کیوں عبث ہی اپنے درد کا اظہار کرتا ہے۔
----------
صائب از گردِ خجالت، شدہ در خاک نہاں
موجۂ رحمتِ دریائے عطائے تو کجاست
صائب شرمندگی کی گرد سے خاک میں جا چُھپا ہے، تیری عطا کے دریا کی موجِ رحمت کہاں ہے؟
----------
گُل چہ می دانَد کہ سیرِ نکہتِ اُو تا کجاست
عاشقاں را از سرانجامِ دلِ شیدا مپرس
پُھول کیا جانے کہ اُس کی خوشبو کہاں کہاں تک پہنچتی ہے، لہذا عاشقوں سے اُن کے دلِ شیدا کے سرانجام کے بارے میں کچھ مت پوچھ۔
----------
از عالمِ پُرشور مجو گوہرِ راحت
کایں بحر بجز موجِ خطر ہیچ ندارد
فتنہ و فساد و شورش و آشوب سے بھرے عالم میں راحت کے موتی مت تلاش کر کہ اِس دریا میں موجِ خطر کے سوا کچھ بھی نہیں۔
----------
مزید پڑھیے۔۔۔۔