Jun 15, 2010

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری - آتش کی ایک غزل

خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری

خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش, classical urdu poetry, کلاسیکی اردو شاعری
خواجہ حیدر علی آتش
Khwaja Haider Ali Aatish
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری

دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری

مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری

شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری

جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری

کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری

زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری

------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

خُ شا وُ دل - مفاعلن - 2121
ک ہُ جس دل - فعلاتن - 2211
مِ آ ر زو - مفاعلن - 2121
تے ری - فعلن - 22
خُ شا د ما - مفاعلن - 2121
غ جِ سے تا - فعلاتن - 2211
زَ رک کِ بُو - مفاعلن - 2121
تے ری - فعلن - 22

متعلقہ تحاریر : اردو شاعری, اردو غزل, بحر مجتث, تقطیع, حیدر علی آتش, کلاسیکی اردو شاعری

6 comments:

  1. السلام و علیکم!

    محترم وارث بھائی بعد از سلام عید الاضحیٰ کی مبارکباد بھی قبول فرمائیے۔

    عرصہ قبل چند حوالہ جات کی تلاش اتفاقاً آپ کی بلاگ پر کھینچ لائی تھی اور آپ کی تحاریر اور بلاگ پر موجود مواد کے علاوہ آپ کی علم و ادب سے محبت اور عرق ریزی سے بڑا متاثر ہوا اور دل میں احترام اور محبت کے جذبات ہیدا ہوئے۔ لیکن شومئی قسمت سے بلاگ کا لنک گم ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے جھنجھٹوں میں گم ہو گیا۔

    جناب کی ستائش و تشکر کی ادئیگی کے قرضِ واجب کا بوجھ تاخیر سے ہی سہی ؑرصہ بعد آج اتارنے کی توفیق اللہ نے آج عنایت کر دی ہے۔ الحمد للہ

    دیر آئید درست آئید

    بہت کچھ سیکھنے کے علاوہ بے حد محظوظ ہونے کو بھی ملا جس کے لئے بے حد مشکور ہوں۔

    آج یہاں یوں آن بھٹکا کہ ایک ابگریزی لفظ سٹیٹس کو کے ہم معنی اردو اصطلاح کی تلاش تھی اور اس ضمن میں برادر ابو شامل کی بلاگ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اصطلاح تو ہاتھ نہ آئی لیکن ابو شامل کے توسظ سے ایک گوہر یکتا ہاتھ آگیا جس کا نام صریرِ خامئہ وارث ہے۔ ابو شامل کا بھی بہت شکریہ

    جو کچھ لکھا، ڈرتے دل اور کانپتے ہاتھوں لکھا ہے کہ سورج کو چراغ سے کیا نسبت اور ویسے بھی اردو میں لکھنا لکھانا اپنے بس کی بات نہیں۔

    دعا گو

    محمود

    ReplyDelete
  2. محترم جناب محمود صاحب، بلاگ پر خوش آمدید اور بہت شکریہ آپ کی نیک خواہشات کیلیے، امید ہے تشریف لاتے رہیں گے۔
    والسلام

    ReplyDelete
  3. جدید اردو غزل گو شاعروں کے کلام کا بہت بڑا حصہ اس بحر میں ہے. شروع شروع میں اس بحر اور بحر رمل مخبون مخذوف یا مقطوع میں تفریق کرنا نہایت ہی مشکل لگا. مگر پریکٹس کے بعد اس پر بھی قابو پا لیا ہے. اس میں کوئی شک نہیں.عروض کا علم مسلسل مشق اور محنت کا نام ہے. آپ کی کاوشیں قابل تحسین ہیں.

    ReplyDelete
  4. پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
    پرے ہ مش /رِ قُ مغ رب /سِ تا جنو /بُ شُ مال

    تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
    تلا شکی / ہِ صَ نم ہم / نِ چا رسو / تے ری

    شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
    شبے فرا / قَ مِ اک دم /نہی قرا/ ر آیا

    خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری
    خدا گوا / ہے شا ہد /ہِ آ رزو / تے ری

    میں نے تقطیع تو کردی ہے اب پتہ نہیں کتنے نمبر ملتے ہیں۔

    ReplyDelete
  5. وہاب صاحب آپ نے درست فرمایا، اس علم میں بھی مسلسل مشق اور محنت ہی کامیابی کی کلید ہے۔

    آپ نے تقطیع تقریباً درست کی ہے، فقط ایک آدھ بات

    شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
    شبے فرا / قَ مِ اک دم /نہی قرا/ ر آیا

    آخری رکن پر غور کریں "ر آیا" اگر اس کو ایسے ہی تقطیع کریں تو یہ "فعولن" بن رہا ہے جو کہ اس بحر میں نہیں آ سکتا۔ دراصل یہاں الفِ وصل ساقط ہوا ہے۔ الف ممدوہ میں دو الف سمجھے جاتے ہیں ایک ساقط ہوا تو "ر آیا" کی جگہ "را یا" رہ گیا جو کہ فعلن ہے اور یہی چاہیے اس بحر کے مطابق۔

    خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری
    خدا گوا / ہے شا ہد /ہِ آ رزو / تے ری

    یہاں دوسرے رکن کے شروع میں گواہ کی "ہ" شاید آپ لکھنا بھول گئے وگرنہ تقطیع صحیح ہے۔ یعنی "ہ ہِ شاہد" فعلاتن۔

    یہ بحر واقعی بہت استعمال ہوتی ہے اور ہے بھی خوبصورت بحر، عرض کیا ہے

    بلا کشانِ محبت کی رسم جاری ہے
    وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے
    :)

    ReplyDelete