Jun 23, 2010

خدا کہوں گا تمھیں، ناخدا کہوں گا تمھیں ۔ جمیل الدین عالی کی ایک غزل

جمیل الدین عالی یوں تو اردو شاعری میں اپنے دوہوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، اور انکے چند دوہے پہلے لکھ چکا ہوں لیکن انہوں نے خوبصورت غزلیں بھی کہی ہیں اور انہی میں ایک غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔

خدا کہوں گا تمھیں، ناخدا کہوں گا تمھیں
پکارنا ہی پڑے گا تو کیا کہوں گا تمھیں

مری پسند مرے نام پر نہ حرف آئے
بہت حسین بہت با وفا کہوں گا تمھیں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Jamil-ud-Din Aali, جمیل الدین عالی
Jamil-ud-Din Aali, جمیل الدین عالی
ہزار دوست ہیں، وجہِ ملال پوچھیں گے
سبب تو صرف تمھی ہو، میں کیا کہوں گا تمھیں

ابھی سے ذہن میں رکھنا نزاکتیں میری
کہ ہر نگاہِ کرم پر خفا کہوں گا تمھیں

ابھی سے اپنی بھی مجبوریوں کو سوچ رکھو
کہ تم ملو نہ ملو مدعا کہوں گا تمھیں

الجھ رہا ہے تو الجھے گروہِ تشبیہات
بس اور کچھ نہ کہوں گا ادا کہوں گا تمھیں

قسم شرافتِ فن کی کہ اب غزل میں کبھی
تمھارا نام نہ لوں گا صبا کہوں گا تمھیں

----

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -

خدا کہوں گا تمھیں، ناخدا کہوں گا تمھیں
پکارنا ہی پڑے گا تو کیا کہوں گا تمھیں

خُدا کہو - مفاعلن - 2121
گَ تُ مے نا - فعلاتن - 2211
خدا کہو - مفاعلن -2121
گَ تُ مے - فعلن - 211
پکارنا - مفاعلن - 2121
ہِ پَ ڑے گا - فعلاتن - 2211
تُ کا کہو - مفاعلن - 2121
گَ تُ مے - فعلن - 211


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 18, 2010

مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم - جاوید نامہ از علامہ اقبال سے ایک اقتباس

زندہ رود (علامہ اقبال) کا افلاک کا سفر پیر رومی کی معیت میں جاری ہے اور انکے ساتھ ساتھ ہمارا بھی۔ اس سے پہلے کی دو پوسٹس میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ فلکِ قمر پر علامہ نبوت کی چار تعلیمات (طواسین) دیکھتے ہیں اور وہیں علامہ نے "طاسینِ محمد (ص)" کے تحت حرمِ کعبہ میں ابوجہل کی روح کا نوحہ لکھا ہے۔

فلکِ قمر سے رومی و علامہ، فلکِ عطارد پر پہنچتے ہیں اور وہاں سید جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح کی زیارت کرتے ہیں۔ کافی دلچسپ حصہ ہے اور علامہ ان دونوں مصلحان سے اسلامی اور عالمی امور پر گفتگو کرتے ہیں جیسے اشتراکیت و ملوکیت، محکماتِ عالمِ قرآنی، خلافتِ آدم، حکومت الٰہی وغیرہ۔ اسکے علاوہ روسی قوم کے نام جمال الدین افغانی کا ایک پیغام بھی اس حصے میں شامل ہے۔

فلکِ عطارد سے علامہ اور انکے راہبر پیرِ رومی، فلکِ زہرہ کی طرف پرواز کر جاتے ہیں، اور یہی حصہ ہماری اس پوسٹ کا موضوع ہے۔ فلکِ زہرہ کا تعارف کرواتے ہوئے، رومی علامہ سے فرماتے ہیں۔

اندروں بینی خدایانِ کہن
می شناسم من ہمہ را تن بہ تن

یہاں، زہرہ کے اندر، تُو قدیم خداؤں کو دیکھے گا اور میں ان سب کو ایک ایک کر کے پہچانتا ہوں۔

اور وہ خدا کون کون سے تھے

بعل و مردوخ و یعوق و نسر و فسر
رم خن و لات و منات و عسر و غسر

یہ سب بتوں کے نام ہیں جو قدیم عرب، بابل اور مصر کے معبود و خدا تھے

رومی، علامہ کی معلومات میں مزید اضافہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ

بر قیامِ خویش می آرد دلیل
از مزاجِ ایں زمانِ بے خلیل

یہ سارے مرے اور مٹے ہوئے معبود ایک بار پھر اپنے قیام یعنی زندہ ہونے پر موجودہ زمانے کے مزاج سے جو کہ بغیر خلیل (ع) کے ہے، دلیل لاتے ہیں یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں کوئی بُت شکن نہیں ہے سو ہم پھر سے زندہ ہو گئے ہیں۔

اس تمہید کے بعد رومی علامہ کو زہرہ کے اندر لے جاتے ہیں، اس موقع پر علامہ نے زہرہ کی فضا کی نقشہ کشی دلپذیر انداز میں کی ہے، اور وہاں وہ ایک مجلس دیکھتے ہیں، "مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم" یعنی قدیم اقوام کے خداؤں کے مجلس۔ علامہ مجلس کی نقشہ کشی کرنے کے بعد اس مجلس کے اراکین کا تعارف کچھ یوں کرواتے ہیں۔

اندریں وادی خدایانِ کہن
آں خدائے مصر و ایں رب الیمن

اس وادی کے اندر پرانے خدا تھے، وہ اگر مصر والوں کا خدا تھا تو یہ یمن والوں کا رب۔

آں ز اربابِ عرب ایں از عراق
ایں الہ الوصل و آں رب الفراق

کوئی عرب والوں کے خداؤں میں سے تھا تو کوئی عراق والوں کے، کوئی وصال (صلح و امن) کا الہ تھا تو کوئی فراق (جنگ و جدل) کا خدا۔

ایں ز نسلِ مہر و دامادِ قمر
آں بہ زوجِ مشتری دارد نظر

کوئی سورج کی نسل میں سے تھا (سوریہ ونشی) تو کوئی چاند کا داماد تھا اور کسی نے مشتری سے شادی کرنے پر نظر رکھی ہوئی تھی یعنی مشتری کا چاہنے والا دیوتا تھا۔

آں یکے در دستِ اُو تیغِ دو رو
واں دگر پیچیدہ مارے در گلو

ایک کے ہاتھ میں دو منہ والی تلوار تھی تو دوسرے نے سانپ اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے تھے۔

ہر یکے ترسندہ از ذکرِ جمیل
ہر یکے آزردہ از ضربِ خلیل

لیکن یہ سب کے سب ذکرِ جمیل یعنی ذکرِ حق سے ڈرے ہوئے تھے اور ضربِ خلیل (ع) ) سے آزردہ خاطر تھے کہ اس ضرب نے ان کو پاش پاش کر دیا تھا۔

اسی منظر کی نقشہ کشی جمی انجنیئر نے بھی کی ہے، جو کہ اقبال اکادمی کے شائع کردہ جاوید نامہ ڈیلکس ایڈیشن میں شامل ہے، وہ ملاحظہ کیجیئے، بڑی تصویر دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی

اب اس تعارف کے بعد، اس مجلس کی کچھ روداد بھی سنیے۔

گفت مردوخ، آدم از یزداں گریخت
از کلیسا و حرم نالاں گریخت

مردوخ نے کہا، (آج کا آدمی) خدا سے دُور بھاگ گیا ہے، وہ کلیسا اور حرم یعنی مذہب سے نالہ و فریاد (یعنی اسکی برائیاں) کرتا ۔ہوا نکل آیا ہے

تا بیَفزایَد بہ درّاک و نظر
سوئے عہدِ رفتہ باز آید نگر

یہ آدمی (اس امید میں کہ) اپنے ادراک و عقل و سمجھ و نطر کو فزوں کرے یعنی بڑھائے، دیکھو گزرے ہوئے یعنی ہمارے عہد کی طرف دوبارہ واپس آ رہا ہے۔

می برد لذّت ز آثارِ کہن
از تجلی ہائے ما دارد سخن

وہ پرانے آثار سے لذت حاصل کر رہا ہے، اور ہماری تجلیوں کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے۔

روزگار افسانۂ دیگر کشاد
می وزد زاں خاکداں بادِ مراد

اس زمانے نے ایک اور افسانے کا باب کھولا ہے، اور اس خاکدان سے ہمارے لیے بادِ مراد آ رہی ہے یعنی یہ زمانہ ہمارے لیے سازگار ہو رہا ہے۔

بعل از فرطِ طرب خوش می سرود
بر خدایاں راز ہائے ما کشود

بعل (مرودوخ کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور) فرطِ خوشی میں نغمہ گانے لگا اور ان خداؤں پر ہمارے یعنی موجودہ انسان کے راز کھولنے لگا۔

اب نغمۂ بعل بھی سن لیجیے

نغمۂ بعل
پہلا پند

آدم ایں نیلی تتق را بر درید
آں سوئے گردوں خدائے را ندید

انسان نے اس آسمان کو تو پھاڑ ڈالا ہے یعنی ستاروں تک پہنچ رہا ہے لیکن اُس نے آسمان کی دوسری طرف خدا کو نہیں دیکھا۔

در دلِ آدم بجز افکار چیست
ہمچو موج ایں سر کشید و آں رمید

انسان کے دل میں افکار کے سوا اور کچھ نہیں ہے، اور بھی سب عارضی کہ موج کی طرح سر اٹھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

جانش از محسوس می گیرد قرار
بو کہ عہدِ رفتہ باز آید پدید

اُس کی جان صرف محسوسات یعنی حواسِ خمسہ ہی سے چین و قرار پاتی ہے اور اس وجہ سے پوری امید ہے کہ گزرا ہوا دور یعنی ہمارا عہد واپس آ جائے گا۔

زندہ باد افرنگیِ مشرق شناس
آں کہ ما را از لحد بیروں کشید

مشرق کے مزاج کو پہچانچے والا فرنگی زندہ رہے کہ اس نے ہمیں ہماری قبروں سے باہر کھینچ لیا ہے یعنی پھر سے زندہ کر دیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

دوسرا بند

در نگر آں حلقۂ وحدت شکست
آلِ ابراہیم بے ذوقِ الست

دیکھو، وہ توحید کا حلقہ ٹوٹ گیا ہے، آلِ ابراہیم الست کے ذوق کے بغیر ہے، تلمیح ہے آیت الست بربکم (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں) کی طرف۔

صحبتش پاشیدہ، جامش ریز ریز
آن کہ بود از بادۂ جبریل مست

اُس کی محفل پراگندہ اور اسکے جام ریزہ ریزہ ہیں، وہ کہ جو کبھی بادۂ جبریل سے مست تھا۔

مردِ حر افتاد در بندِ جہات
با وطن پیوست و از یزداں گسست

آزاد مرد جہات (حواسِ خمسہ) کی قید میں جکڑا ہوا ہے، وہ وطن سے جڑ گیا ہے اور خدا سے جدا ہو گیا ہے۔

خونِ اُو سرد از شِکوہِ دیریاں
لا جرم پیرِ حرم زنار بست

اُس کا خون دیر والوں (کافروں) کی شان و شوکت سے سرد ہو چکا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ پیرِ حرم نے زنار پہن لیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

تیسرا بند

در جہاں باز آمد ایّامِ طرب
دیں ہزیمت خوردہ از ملک و نسب

دنیا میں ہماری خوشی کا دور پھر واپس آ گیا ہے، دین نے ملک و نسب سے شکست کھا لی ہے۔

از چراغِ مصطفیٰ اندیشہ چیست؟
زاں کہ او را پف زند صد بولہب

اب ہمیں چراغِ مصطفیٰ (یعنی اسلام سے) کیا ڈر اور خطرہ کہ اس چراغ کو بجھانے کیلیے سینکڑوں ابولہب پھونکیں مار رہے ہیں۔

گرچہ می آید صدائے لا الہٰ
آں چہ از دل رفت کے ماند بہ لب

اگرچہ ابھی تک لا الہٰ کی صدا آ رہی ہے لیکن جو دل سے چلا گیا ہے وہ لب پر بھی کب تک رہے گا۔

اہرمن را زندہ کرد افسونِ غرب
روزِ یزداں زرد رو از بیمِ شب

مغرب کے جادو نے اہرمن (شیطان) کو زندہ کر دیا ہے، اور خدا کا دن رات کے خوف سے زرد ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

چوتھا بند

بندِ دیں از گردنش باید کشود
بندۂ ما بندۂ آزاد بود

اُس یعنی مسلمانوں کی گردن سے دین کا پھندا کھول دینا چاہیئے کیونکہ ہمارا بندہ تو آزاد بندہ تھا اور یہ مخلتف قیود و حدود میں جکڑے ہوئے ہیں۔

تا صلوٰۃ او را گراں آید ہمے
رکعتے خواہیم و آں ہم بے سجود

چونکہ اس کیلیے نماز ایک کارِ گراں اور بوجھ بن چکی ہے سو ہم چاہتے ہیں کہ اس کیلیے ایک ہی رکعت ہو اور وہ بھی بغیر سجدے کے۔

جذبہ ہا از نغمہ می گردد بلند
پس چہ لذت در نمازِ بے سرود

چونکہ نغمہ و موسیقی سے جذبات بلند ہوتے ہیں سو اس نماز میں کیا لذت ہوگی جس میں راگ رنگ نہ ہو (سو ہماری نماز میں راگ رنگ بھی شامل ہوگا)۔

از خداوندے کہ غیب او را سزد
خوشتر آں دیوے کہ آید در شہود

اُس خدا سے جو غیب میں رہنا پسند کرتا ہے، (انسانوں کیلیے) وہ دیوتا زیادہ بہتر ہے جو سامنے اور مشاہدے میں ہو۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
سو اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

یہاں علامہ اور انکے راہبر پیر رومی اس مجلس کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں اور فلکِ زہرہ کے دریا میں اترتے ہیں اور وہاں حضرت موسیٰ والے فرعون اور فیلڈ مارشل ہربرٹ کچنر کی روحوں کو دیکھتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہین۔ لارڈ کچنر ایک مشہور اور متنازعہ انگریز جنرل تھا جس نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشہور مجاہد مہدی سوڈانی کی قبر کھود ڈالی اور لاش کو سزا دی۔

اس ملاقات میں اسی واقعے کے متعلق باتیں ہیں لیکن ہم یہاں اس خوبصورت مجلس سے جدا ہوتے ہیں اس وعدے کے ساتھ کہ اس محفل میں پھر حاضر ہونگے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 15, 2010

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری - آتش کی ایک غزل

خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Khwaja Haider Ali Aatish, خواجہ حیدر علی آتش, classical urdu poetry, کلاسیکی اردو شاعری
خواجہ حیدر علی آتش
Khwaja Haider Ali Aatish
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری

دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری

مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری

شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری

جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری

کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری

زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری

------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

خُ شا وُ دل - مفاعلن - 2121
ک ہُ جس دل - فعلاتن - 2211
مِ آ ر زو - مفاعلن - 2121
تے ری - فعلن - 22
خُ شا د ما - مفاعلن - 2121
غ جِ سے تا - فعلاتن - 2211
زَ رک کِ بُو - مفاعلن - 2121
تے ری - فعلن - 22

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 9, 2010

شورشِ زنجیر بسم اللہ - فیض

فیض احمد فیض کی ایک نظم جو مجھے بہت پسند ہے۔

شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جنوں والے
دریدہ دامنوں والے، پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض

گِنو سب داغ دل کے، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرسش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالۂ شبگیر بسم اللہ

ستم کی داستاں، کشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیرِ لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مُصر ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہیے
لگی ہے حرفِ نا گفتہ پر اب تعزیر بسم اللہ

سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ

لاہور جیل
جنوری 1959ء
------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو اردو طریقے سے پڑھیں یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1 پہلے ہے)
تقطیع -
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرام دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہُ ئی پر ام - مفاعیلن - 2221
تِ حا نے عش - مفاعیلن - 2221
ق کی تد بی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221
ہَ رِک جا نب - مفاعیلن - 2221 (الف کا وصال نوٹ کریں)۔
مچا کہرا - مفاعیلن - 2221
مِ دا رو گی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221
گلی کو چو - مفاعیلن - 2221
مِ بکری شو - مفاعیلن - 2221
ر شے زن جی - مفاعیلن - 2221
ر بس مِل لا - مفاعیلن - 2221

لفظ 'اللہ' کے وزن کے بارے میں ایک وضاحت یہ کہ اسکا صحیح وزن تو ال لا ہ یعنی مفعول یا 2 2 1 ہے اور کچھ ماہرینِ عروض اس لفظ کی آخری 'ہ' کو گرانا جائز نہیں سمجھتے لیکن شعرا عموماً اسکی پروا نہیں کرتے اور بلا تکلف اس کو 'ال لا' یعنی فعلن 2 2 باندھتے ہیں۔ لیکن اس نظم میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے گو میں نے تقطیع میں ہ کو حذف کر دیا ہے لیکن اگر ہ کو نہ بھی گرایا جائے تو آخری رکن مفاعیلن کی جگہ مفاعیلان بنے گا جو کے اسے بحر میں جائز ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 6, 2010

شیخ فخر الدین عراقی کی ایک غزل - دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم

شیخ فخر الدین عراقی نامور صوفی شاعر تھے، انکے کچھ حالات اور ایک غزل پہلے لکھ چکا ہوں، انکی ایک اور خوبصورت غزل لکھ رہا ہوں۔

دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم
ہمہ ہستی تو ای فی الجملہ ایں و آں نمی دانم

تُو دل ہے یا دلبر، تُو جان ہے یا جاناں، میں نہیں جانتا۔ ہر ہستی و ہر چیز تو تُو ہی ہے، میں یہ اور وہ کچھ نہیں جانتا۔

بجز تو در ہمہ عالم دگر دلبر نمی دانم
بجز تو در ہمہ گیتی دگر جاناں نمی دانم

سارے جہان میں تیرے علاوہ میں اور کسی دلبر کو نہیں جانتا، ساری دنیا میں تیرے علاوہ میں اور کسی جاناں کو نہیں پہچانتا۔

بجز غوغائے عشقِ تو، درونِ دل نمی یابم
بجز سودائے وصلِ تو، میانِ جاں نمی دانم

تیرے عشق کے جوش و خروش کے علاوہ میں اپنے دل میں کچھ اور نہیں پاتا، تیرے وصل کے جنون کے علاوہ میں اپنی جان میں کچھ اور نہیں دیکھتا۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Fakhruddin Iraqi, شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqi
مرا با توست پیمانے، تو با من کردہ ای عہدے
شکستی عہد، یا ہستی بر آں پیماں؟ نمی دانم
میرے ساتھ تیرے پیمان ہیں اور تو نے میرے ساتھ عہد کیے، تُو نے اپنے عہد توڑ دیے یا ابھی تک انہی پر ہے، میں کچھ نہیں جانتا، یعنی مجھے اس سے غرض نہیں ہے، عشق میں عہد و پیمان کچھ معنی نہیں رکھتے۔

بہ اُمّیدِ وصالِ تو دلم را شاد می دارم
چرا دردِ دلِ خود را دگر درماں نمی دانم؟

تیرے وصال کی امید سے اپنے دل کو شاد رکھتا ہوں، میں اسی لیے اپنے دل کے درد کیلیے کوئی اور درمان نہیں ڈھونڈتا، یعنی صرف اور صرف تیرے وصل کی امید ہی دردِ دل کا پہلا اور آخری علاج ہے۔

نمی یابم تو را در دل، نہ در عالم، نہ در گیتی
کجا جویم تو را آخر منِ حیراں؟ نمی دانم

مجھ (ہجر کے مارے) کو نہ تُو دل میں ملتا ہے اور نہ جہان و کائنات میں، میں حیران (و پریشان) نہیں جانتا کہ آخر تجھ کو کہاں ڈھونڈوں؟ شاعر کا حیران ہونا ہی اس شعر کا وصف ہے کہ یہیں سے سارے راستے کھلیں گے۔

عجب تر آں کہ می بینم جمالِ تو عیاں، لیکن
نمی دانم چہ می بینم منِ ناداں؟ نمی دانم

یہ بھی عجیب ہے کہ تیرا جمال ہر سُو اور ہر طرف عیاں دیکھتا ہوں، اور میں نادان یہ بھی نہیں جانتا کہ کیا دیکھ رہا ہوں۔

ھمی دانم کہ روز و شب جہاں روشن بہ روئے توست
و لیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم

یہ جانتا ہوں کہ جہان کے روز و شب تیرے ہی جمال سے روشن ہیں لیکن یہ نہیں جانتا کہ تو سورج ہے یا تابناک چاند۔ یہ شعر اور اس سے قبل کے دو اشعار قطعہ محسوس ہوتے ہیں۔

بہ زندانِ فراقت در عراقی پائے بندم شد
رہا خواہم شدن یا نے؟ ازیں زنداں، نمی دانم

عراقی کے پاؤں ہجر کے قید خانے میں بندھے ہوئے ہیں، اور اس قید سے رہا ہونا بھی چاہتا ہوں یا نہیں، نہیں جانتا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 5, 2010

چند تازہ رباعیاں، بلاگ کے حوالے سے

صریرِ خامۂ وارث کو اس "نقار خانے" میں دو سال ہو گئے، اسی حوالے سے کچھ رباعیاں کل شام سے ذہن میں گردش کر رہی تھیں سو "جیسی ہیں جہاں ہیں" کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں۔ ان رباعیوں میں اگر آپ کو دل برداشتہ اور قلم برداشتہ نظر آؤں تو مجھے انسان سمجھ کر معاف فرما دیں کہ "پتھّر نہیں ہوں میں"، اور کیا لکھوں کہ باقی سب کچھ تو رباعیوں میں لکھ دیا ہے، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ بلاگ سے یاری جاری ہے۔

اک رسم تھی، سو ہے اب تلک وہ جاری
محنت جو لگی خوب تو چوٹیں کاری
جانے کیا سوچ کے بنایا تھا بلاگ
خود ہی میں لکھاری ہوں خود ہی قاری

سوچا ہے سیاست پہ لکھوں گا میں بھی
یعنی کہ غلاظت پہ لکھوں گا میں بھی
اپنی تو نظر آتی نہیں کوئی برائی
اوروں کی نجاست پہ لکھوں گا میں بھی

قاری بڑھ جائیں گے، لکھوں مذہب پر
الفاظ و افکار کے ماروں پتھّر
عالِم ہوں، فاضِل ہوں, پڑھا ہے کلمہ
بس میں ہوں مسلماں باقی سب کافر

یہ بھی ہے بلاگ پہ لکھوں میں گالی
پھر دیکھنا کیسے بجتی ہے تالی
جو عقلِ سلیم آئے سمجھانے کو
تو کہہ دوں، چل بھاگ، حرامی، سالی

محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ
اپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھ
کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد
چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ

والسلام


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 3, 2010

صادقین کی کچھ رباعیات

عالمی شہرفت یافتہ سید صادقین احمد نقوی مرحوم، دنیائے خطّاطی و نقّاشی و مصوّری میں ایک زندہ و جاوید نام ہیں۔ اس درویش صفت انسان کی ہمہ جہتی شخصیت کا ایک پہلو ان کی اردو رباعیات ہیں، رباعی سے شاید انہیں اتنا ہی عشق تھا جتنا اپنی خطاطی اور مصوری سے۔ رباعیات پر مشتمل ان کی دو کتب، "رباعیاتِ صادقین خطّاط" اور "رباعیاتِ صادقین نقّاش" چھپ چکی ہیں۔

اپنے بلاگ کے قارئین کیلیے صادقین کی کچھ رباعیات لکھ رہا ہوں، یہ رباعیات "صادقین فاؤنڈیشن" ویب سائٹ اور اردو محفل سے حاصل کی ہیں۔ صادقین کی سوانح عمری اور انکی فن و شخصیت کے بارے میں کچھ خوبصورت اردو مضامین اس ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں

(1)
ہم، حُسن پرستی کے قرینوں کے لیے
ہوجاتے ہیں معتکف مہینوں کے لیے
تصویر بناتے ہیں خود اپنی خاطر
اور شاعری کرتے ہیں حسینوں کے لیے

(2)
کرتا ہے یہ شور و شین، آیا کیوں ہے؟
کیا اس کو نہیں ہے چین، آیا کیوں ہے؟
خیّام نے سرمد سے یہ پوچھا، آخر
اِس کُوچے میں صادقین آیا کیوں ہے؟

(3)
ہو شغلِ مے و جام میں، آوارہ ہو
لگ جاؤ کسی کام میں، آوارہ ہو
اے سیّدِ صادقین احمد نقوی
کیوں کوچۂ خیّام میں آوارہ ہو

(4)
جاناں کے جمال کا جو کچھ ہو ادراک
ہوجاتی ہے اظہار کی صورت بیباک
لیلائے خیالات کا تن ڈھانپنے کو
ہیں طغرہ و تصویر و رباعی پوشاک

(5)
میں خانۂ زردار سجاؤں کیسے؟
افسانہ، حقیقت کو بتاؤں کیسے؟
موجود ہیں زندہ خار، آخر تصویر
اِن کاغذی پھولوں کی بناؤں کیسے؟

(6)
ہم اپنے ہی دل کا خوں بہانے والے
اک نقشِ محبّت ہیں بنانے والے
عشرت گہِ زردار میں کھینچیں تصویر؟
ہم کوچۂ جاناں کو سجانے والے

(7)
خون اپنا بہانے کو ہے حاضر فنکار
اِس بات پہ لیکن وہ نہیں ہے تیّار
جاسوس جہاں کھیل رہے ہوں پتّے
ہو ایسی کمیں گاہ میں اُس کا شہکار

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Sadequain, صادقین, Rubai, رباعی
Sadequain, صادقین
(8)
کر کے کوئی تدبیر نہیں کھینچنے کا
نقش ایسا یہ دلگیر نہیں کھینچنے کا
رانی کی بناؤں گا کہ مہ وش وہ ہے
راجہ کی میں تصویر نہیں کھینچنے کا

(9)
ہر نقش میں تھا جلوۂ ایماں ساقی
آ کر ہوئے مایوس و پریشاں ساقی
کل میری نمائش میں بڑے مولوی آئے
یہ سُن کے کہ تصویریں ہیں عریاں ساقی

(10)
حرفِ غیرت مٹا گیا ہے پانی
نقشِ وحشت بنا گیا ہے پانی
سُن کر مری تصویروں کے دو اک عنوان
ملّاؤں کے منہ میں آ گیا ہے پانی

(11)
میں نے، تھی جگہ خالی، تو لکھّیں آیات
دیکھیں لٹیں جب کالی تو لکھّیں آیات
آیات کو دیکھا تو بنائے مکھڑے
مکھڑوں پہ نظر ڈالی تو لکھّیں آیات

(12)
دیکھا قد و گیسو میں کمالِ محبوب
اُف کتنے حسیں ہیں خد و خالِ محبوب
یہ طغرہ و تصویر نہیں لوحوں پر
ہے سایۂ سایۂ جمالِ محبوب

(13)
یہ دیکھ کے، رکھتا ہے خیالاتِ جدید
اس کو زر و دینار سے نفرت ہے شدید
پھر رُوح القدس کے ہاتھ بھیجی تھی مجھے
ابجد کے خزانے کی مشّیت نے کلید

(14)
منہ میں لیے اک چاندی کا چمچہ ساقی
دشمن ہوا اک قصر میں پیدا ساقی
اور چٹکی میں ابجد کے خزانے کی کلید
میں لے کے ہوں آفاق میں آیا ساقی


urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Sadequain, صادقین, Rubai, رباعی
سید صادقین احمد نقوی
Sadequain
(15)
مہ پاروں کے گھیرے میں بھی لکھ سکتا ہوں
شام اور سویرے میں بھی لکھ سکتا ہوں
مکھڑوں کے تصوّر کے جلا کے میں چراغ
زلفوں کے اندھیرے میں بھی لکھ سکتا ہوں

(16)
لو وادیٔ الہام میں آ پہنچا ہے
لو، مملکتِ جام میں آ پہنچا ہے
مانی بھی اُسی شوخ کا جلوہ کرنے
اب کوچۂ خیّام میں آ پہنچا ہے

(17)
ہیں گیسو و ابرو کے یہی خم اے یار
خامے میں ہے موقلم کا عالَم اے یار
عرفی کم و بیش تھا مصوّر جتنا
اتنا ہی میں شاعر ہوں کم از کم اے یار

(18)
دو دن کو ہوں اس شہر میں اشعار کے میں
جو کچھ ہے چلا جاؤں گا سب ہار کے میں
کرتا ہوں نگارِ شعر، تیری خاطر
معشوقۂ تصویر کا حق مار کے میں

(19)
عاشق کیلیے رنج و الم رکھے ہیں
شاہوں کیلیے تاج و علم رکھے ہیں
میرے لیے کیا چیز ہے؟ میں نے پوچھا
آئی یہ صدا لوح و قلم رکھے ہیں

(20)
اس صنف پہ عاشق تھا گواہی دو نجوم
تختی پہ لکھا کرتا تھا جب تھا معصوم
طفلی میں رباعیاں کئی تھیں مجھے یاد
کیا لفظ غزل ہے یہ نہیں تھا معلوم

(21)
روٹھا جو جمال ہے منایا میں نے
اک جشنِ وصال ہے منایا میں نے
اس عمرِ عزیز کا رباعی کہہ کر
چالیسواں سال ہے منایا میں نے

(22)
تخلیق میں معتکف یہ ہونا میرا
اب تک شبِ ہستی میں نہ سونا میرا
خطّاطی ادھر ہے تو ادھر نقّاشی
وہ اوڑھنا میرا یہ بچھونا میرا


urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Sadequain, صادقین, Rubai, رباعی
Sadequain, صادقین
(23)
مکھڑے کی تو تنویر سے باتیں کی تھیں
اور زلف کی زنجیر سے باتیں کی تھیں
کل اک تری تصویر بنا کر میں نے
پھر کچھ تری تصویر سے باتیں کی تھیں

(24)
ایک بار میں ساحری بھی کرکے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کرکے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوّری بھی کرکے دیکھوں

(25)
کیں لغزشیں شاعری میں واپس آیا
پھر کوچۂ بت گری میں واپس آیا
تصویروں نے سینے سے لگایا مجھ کو
جب شہرِ مصوّری میں واپس آیا

(26)
وعدہ جو کیا نورِ سحر سے میں نے
مقتل میں وفا کیا وہ سر سے میں نے
جلّاد کا کرنے کے لیے استقبال
چھڑکاؤ کیا خونِ جگر سے میں نے

(27)
یہ تو نہیں قدرت کا اشارہ نہ ہوا
میں پھر چلا سوئے کفر، یارا نہ ہوا
اسلام سے بندے کا مشرّف ہونا
اسلام کے مفتی کو گوارا نہ ہوا

(28)
سختی سے چٹانوں کی نہ ہمّت ہارا
پھر موم سے بھی نرم تھا سنگِ خارا
پھوٹا وہیں فوّارۂ آبِ شیریں
کل سنگ پہ پھاوڑہ جو میں نے مارا

(29)
دنیا کو اٹھا تھا میں دکھانے کیا کیا
دنیا ہی سے بیٹھا ہوں چھپانے کیا کیا
قالین کے اوپر ہیں صحیفے لیکن
قالین کے نیچے ہے نہ جانے کیا کیا

(30)
دل کی مرے دنیا کہ بڑی ہے کالی
باتوں میں مری چھائی ہوئی ہریالی
جس شخص کو دیتا ہوں میں دل میں گالی
کہتا ہوں زبان سے، جنابِ عالی

مزید پڑھیے۔۔۔۔