Sep 22, 2011

ثلاثی - حمایت علی شاعر

ثلاثی - حمایت علی شاعر

نیچے دیے گئے پہلے تین ثلاثی (شاعر، انتباہ اور ارتقا) "فنون" لاہور، اشاعت خاص نمبر 2، جولائی 1963ء میں حمایت علی شاعر صاحب کے اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔

"تین مصرعوں کی نظموں کے لیے میں نے ایک نیا نام "تثلیث"(مثلث کی رعایت سے) تجویز کیا تھا لیکن مدیرانِ "فنون" [احمد ندیم قاسمی اور حبیب اشعر دہلوی] کے مشوروں کی روشنی میں اس کا نام "ثلاثی" منتخب کیا ہے۔ شاعر"۔

urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Himayat Ali Shair, حمایت علی شاعر, salasi, ثلاثی
حمایت علی شاعر - موجدِ  ثلاثی
Himayat Ali Shair
اس تحریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حمایت علی شاعر صنفِ ثلاثی کے موجد ہیں۔ دراصل صنفِ ثلاثی بہت حد تک اردو ہائیکو سے مماثلت رکھتی ہے لیکن ہائیکو میں کچھ بندشیں یا پابندیاں ہیں کہ وہ ہمیشہ ایک ہی وزن یا بحر میں کہے جاتے ہیں لیکن ثلاثی کسی بھی بحر میں کہے جا سکتے ہیں۔

سب سے پہلے حمایت علی شاعر کے وہ تین ثلاثی جو "فنون" میں شائع ہوئے تھے۔

شاعر
ہر موجِ بحر میں کئی طوفاں ہیں مشتعل
پھر بھی رواں ہوں ساحلِ بے نام کی طرف
لفظوں کی کشتیوں میں سجائے متاعِ دل

انتباہ
کہہ دو یہ ہوا سے کہ وہ یہ بات نہ بھُولے
جم جائیں تو بن جاتے ہیں اک کوہِ گراں بھی
ویرانوں میں اُڑتے ہوئے خاموش بگُولے

ارتقا
یہ اوج، بے فراز ہے آوارہ بادلو
کونپل نے سر اُٹھا کے بڑے فخر سے کہا
پاؤں زمیں میں گاڑ کے سُوئے فلک چلو

حمایت علی شاعر صاحب کے کچھ مزید ثلاثی

یقین
دشوار تو ضرور ہے، یہ سہل تو نہیں
ہم پر بھی کھل ہی جائیں گے اسرارِ شہرِ علم
ہم ابنِ جہل ہی سہی، بو جہل تو نہیں

ابن الوقت
سورج تھا سر بلند تو محوِ نیاز تھے
سورج ڈھلا تو دل کی سیاہی تو دیدنی
کوتاہ قامتوں کے بھی سائے دراز تھے

کرسی
جنگل کا خوں خوار درندہ کل تھا مرا ہمسایہ
اپنی جان بچانے میں جنگل سے شہر میں آیا
شہر میں بھی ہے میرے خون کا پیاسا اک چوپایہ

الہام
کوئی تازہ شعر اے ربّ ِ جلیل
ذہن کے غارِ حرا میں کب سے ہے
فکر محوِ انتظارِ جبرئیل

نمائش
قرآں، خدا، رسول ہے سب کی زبان پر
ہر لفظ آج یوں ہے معانی سے بے نیاز
لکھی ہو جیسے نام کی تختی مکان پر

----

متعلقہ تحاریر : اردو شاعری, اردو نظم, ثلاثی, حمایت علی شاعر

6 comments:

  1. بہت عمدہ تعارف اور انتخاب !!!
    آپ کی معرفت پہلی بار معلوم ہوا کہ ثلاثی بھی کوئی صنف ِ شاعری ہے۔ شکریہ
    غلام مرتضیٰ علی

    ReplyDelete
  2. بہت شکریہ غلام مرتضیٰ علی صاحب۔

    ReplyDelete
  3. اس کا مطلب ہے کہ علم کا سمندر بے حد اتاہ ہے ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی آپ نے درست کہا، علم کے بحرِ بے کراں کی اتھاہ گہرائیوں کی خبر کون لا سکا ہے بھلا۔

      Delete
  4. اِس صنف پر بہت کُچھ لکھا گیا ہے لیکن یہاں تشنگی کا احساس ہو رہا ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. جناب نے درست فرمایا، یہاں اس تحریر کا مقصد فقط تاریخی حیثیت تھی۔ جو تلاثی اولین بار فنون میں شائع ہوئے تھے وہی لکھ دیئے۔

      Delete