پروین شاکر کی ایک خوبصورت غزل
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی
اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی
شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
Parveen Shakir, پروین شاکر |
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی
بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی
اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی
(پروین شاکر)
-------
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)
اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
زندگی سے - فاعلاتن - 2212
نظر ملا - مفاعلن - 2121
ؤ کبی - فَعِلن - 211
ہار کے بع - فاعلاتن - 2212
د مسکرا - مفاعلن - 2121
ؤ کبی - فَعِلن - 211
---------
متعلقہ تحاریر : اردو شاعری,
اردو غزل,
بحر خفیف,
پروین شاکر,
تقطیع
بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
ReplyDeleteآنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی
بہت خوب وارث بھائی بہت اچھی غزل کا انتخاب کیا ہے آپ نے۔
شکریہ احمد صاحب
ReplyDeleteاچھی غزل ہے۔
ReplyDeleteغزل تو خوبصورت ہے ہی مگر آپ کی تشریح کے بعد اس کی خوبصورتی اور کھل کر سامنے آئی ہے۔
ReplyDeleteمشورہ
آپ کے بلاگ کا بائیں طرف والا کالم کچھ زیادہ طوالت پکڑ گیا ہے۔ آپ یا تو تین کالمی بلاگ بنالیں اور بائیں کالم کا آدھا بوجھ دائیں کالم پر ڈال دیں۔
وقتی طور پر آپ مضمون والے کالم میں ایک سے زیادہ تحاریر بھی دکھا سکتے ہیں اس طرح اس کی لمبائی بائیں کالم جتنی ہو جائے گی اور بائیں کالم کو آخر تک اکیلے پن کا احصاس نہیں ہو گا۔
بہت اچھا کام کر رہے ہیں آپ۔کیا آپ آپ علامہ اقبال کی نظم مسجد قرطبہ کی نظم کی بحر پر روشنی ڈلیں گے
ReplyDeleteنیازمند
کے اشرف
بہت شکریہ آپ سب دوستوں کا، نوازش۔
ReplyDeleteافضل صاحب آپ کے مشورے پر یقیناً عمل کرنے کو کوشش کرونگا۔
خواجہ اشرف صاحب اقبال کی نظم مسجد قرطبہ بحر منسرح مثمن مطوی مکسوف میں ہے اور افاعیل مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلن ہیں۔ یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر ٹکڑے میں مسبغ رکن آ سکتا ہے یعنی یہاں دونوں فاعلن کو فاعلان میں بدلا جا سکتا ہے،
سلسلہٴ روز و شب ، نقش گرِ حادثات
سلسلہٴ روز و شب ، اصلِ حيات و ممات
سلسلہٴ - مفتعلن
روز شب - فاعلن
نقش گ رے - مفتعلن
حادثات - فاعلان
وارث بھائی، کیا یاد کروا دیا آپ نے۔ زندگی میں پہلی و آخری بڑی شکست کے بعد میں نے کسی کو یہ غزل لکھ کر دی تھی۔ "اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے"
ReplyDeleteفہد صاحب چلیں اسی بہانے آپ کی کچھ یادیں تازہ ہوئیں ناگوار ہی سہی لیکن یادیں تو ہیں
ReplyDelete:)
بہت اچھا انتخاب ہے۔
ReplyDeleteشکریہ آپ کا کوثر بیگ صاحبہ
ReplyDelete