مجید امجد کی ایک انتہائی خوبصورت نظم
توسیع ِ شہر
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم
Majeed Amjad, مجید امجد |
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل
مجید امجد
متعلقہ تحاریر : اردو شاعری,
اردو نظم,
مجید امجد
بہت ہی خوبصورت
ReplyDeleteبہت ہی عمدہ
ReplyDeleteبہت ہی نادر خیال
آپ سب کا شکریہ
ReplyDelete