Showing posts with label بحر رمل. Show all posts
Showing posts with label بحر رمل. Show all posts

May 16, 2011

ایک زمین تین شاعر - غالب، داغ، امیر مینائی

اپنے بلاگ کے قارئین کی خدمت میں اس سے پہلے فارسی کے تین شعراء، مولانا رومی، مولانا عراقی اور علامہ اقبال کی تین غزلیات پیش کی تھیں جو ایک ہی زمین میں تھیں، آج اردو کے تین مشہور شعراء، مرزا غالب، نواب داغ دہلوی اور مُنشی امیر مینائی کی غزلیات پیش کر رہا ہوں جو ایک ہی زمین میں ہیں۔ غالب کی غزل تو انتہائی مشہور ہے، دیگر دونوں غزلیں بھی خوب ہیں۔ غزلیات بشکریہ کاشفی صاحب، اردو محفل فورم۔

غزلِ غالب

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Mirza Ghalib, مرزا غالب
Mirza Ghalib, مرزا غالب
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسِل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں‌ نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائلِ تصوّف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

------------------

غزلِ داغ

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

کوئی فتنہ تاقیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا

جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا؟

غمِ عشق میں مزہ تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر، مئے خوشگوار ہوتا

نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
Dagh Dehlvi, داغ دہلوی
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا، نہ مجھے قرار ہوتا

ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

یہ وہ دردِ دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار ملتا، تو ہزار بار ہوتا

گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشمِ مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دیتی، جو نہ بادہ خوار ہوتا

مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
درِ یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا

تمہیں ناز ہو نہ کیونکر، کہ لیا ہے داغ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی، نہ یہ افتخار ہوتا

---------------------

غزلِ امیر مینائی

مرے بس میں یا تو یا رب، وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا

پسِ مرگ کاش یوں ہی، مجھے وصلِ یار ہوتا
وہ سرِ مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا

ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Ameer Meenia, امیر مینائی
Ameer Meenia, امیر مینائی
مرے اتّقا کا باعث، تو ہے میری ناتوانی
جو میں توبہ توڑ سکتا، تو شراب خوار ہوتا

میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا

نہیں پوچھتا ہے مجھ کو، کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا تو گلے کا ہار ہوتا

وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب
مرے دونوں پہلوؤں میں، دلِ بے قرار ہوتا

دمِ نزع بھی جو وہ بُت، مجھے آ کے مُنہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرم سار ہوتا

نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لَحَد فشار دیتی
سرِ راہِ کوئے قاتل، جو مرا مزار ہوتا

جو نگاہ کی تھی ظالم، تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا، جو جگر کے پار ہوتا

میں زباں سے تم کو سچّا، کہو لاکھ بار کہہ دُوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا

مری خاک بھی لَحَد میں، نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک، نہیں اعتبار ہوتا

------------
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن / فَعِلاتُ فاعِلاتُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا بھی ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی اس میں عملِ تسبیغ کیا جا سکتا ہے۔
اشاری نظام - 1211 2212 / 1211 2212
ہندسوں کو اردو طرز پر پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 1211 کا ٹکڑا پہلا ہے اور اس میں بھی 11 پہلے ہے۔
تقطیع
غالب کے مطلعے کی تقطیع درج کر رہا ہوں، تینوں غزلوں کے تمام اشعار اس بحر میں تقطیع ہونگے۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

یِ نہ تھی ہَ - فعلات - 1211
ما رِ قسمت - فاعلاتن - 2212
کہ و صا ل - فعلات - 1211
یار ہوتا - فاعلاتن - 2212

اَ گَ رو ر - فعلات - 1211 (الفِ وصل کا ساقط ہونا نوٹ کریں)۔
جی تِ رہتے - فاعلاتن - 2212
یَ ہِ ان تِ - فعلات - 1211
ظار ہوتا - فاعلاتن - 2212

----------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2009

امیر خسرو علیہ الرحمہ کی ایک غزل مع تراجم - نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے

شعرِ خسرو
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

ترجمہ
پورے شہر میں کوئی اور شخص (تیری محبت میں) مجھ جیسا گرفتار نہیں ہے، غموں کے تیر سے کوئی اور مجھ جیسا زخمی نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
شہر میں کوئی گرفتار نہیں ہے مجھ سا
تیر سے غم کے دل افگار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
بر سرِ کُوئے تو، دانم، کہ سگاں بسیار اند
لیک بنمائی وفادار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں جانتا ہوں کہ تیرے کوچے میں بہت سے سگ ہیں لیکن ان میں کوئی بھی مجھ سا وفادار نہیں ہے۔
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
قریشی
یوں تو کوچے میں ترے سگ ہیں بہت سے لیکن
ایک بھی ان میں وفادار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
کارواں رفت و مرا بارِ بلائے در دل
چوں رَوَم، نیست گرانبار تر از من دِگَرے

ترجمہ
کارواں چلا گیا اور میرے دل میں جدائی کا بوجھ ڈال گیا، کسطرح چلوں کہ کوئی اور مجھ سا گراں بار نہیں ہے۔

قریشی
سب گئے، رہ گیا میں بارِ بلا دل میں لئے
ان میں کوئی بھی گرانبار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
ساقیا بر گزر از من کہ بخوابِ اجَلَم
باز جُو اکنوں تو ہشیار تر از من دِگَرے

ترجمہ
اے ساقی تو جانتا ہے کہ میں خوابِ اجل (مرنے کے قریب) ہوں لیکن مجھ سے گزر کے اس کے باوجود میکدے میں مجھ سے ہوشیار کوئی اور نہیں ہے۔

قریشی
ساقیا خوابِ اجل میں ہوں پہ تو جانتا ہے
میکدے میں کوئی ہشیار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
خسروَم، بہرِ بُتاں کُوئے بکو سرگرداں
در جہاں بود نہ بیکار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں خسرو، کوبکو بتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوں، اس جہاں میں مجھ سا بیکار کوئی نہیں ہے۔

قریشی
کُو بہ کُو بہرِ بُتاں خسرو ہوا سرگرداں
کوئی اس دنیا میں بیکار نہیں ہے مجھ سا

----------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
۔تقطیع -
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

نیس در شہ - فاعلاتن - 2212 (نیست میں چونکہ اوپر تلے تین ساکن ہیں، ی، سین اور ت، اور تقطیع کا اصول ہے کہ جہاں اس طرح اوپر تلے تین ساکن ہوں اس میں آخری ساکن محسوب نہیں ہوتا یعنی اسکا کوئی وزن شمار نہیں کیا جاتا سو اسے چھوڑ دیتے ہیں، یعنی نیست کی ت کو چھوڑ دیا، اس طرح کے دیگر الفاظ میں دوست، گوشت، پوست، چیست، کیست وغیرہ شامل ہیں)۔
ر گرفتا - فعلاتن - 2211
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (یہاں تر اور از کے درمیان میں الفِ وصال ساقط ہوا ہے، الفِ واصل اسے کہتے ہیں کہ پچھلا حرف ساکن ہو اور حرفِ علت نہ ہو یعنی الف، واؤ یا ی نہ ہو تو اسکے فوری بعد والے الف کو ختم کر کے یعنی وصل کروا کے پچھلے حرف کو اگلے حرف کے ساتھ ملا دیتے ہیں جیسے تر اور از میں، الف کے وصال کی سبھی شرطیں پوری ہوتی ہیں سو اس کو ساقط کر کے لفظ تر از سے تَ رز بنا لیا اور یوں وزن پورا ہوا)۔
دِ گِ رے - فَعِلُن - 211 (فاعلن کی جگہ فعِلن نوٹ کریں)۔
نَ بُ دز تی - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل اور مخبون رکن دونوں نوٹ کریں)۔
رِ غَ مَفگا - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
دِ گَ رے - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 17, 2009

حافظ شیرازی کی ایک شاہکار غزل - در خراباتِ مُغاں نورِ خدا می بینَم

در خراباتِ مُغاں نورِ خدا می بینَم
ویں عجب بیں کہ چہ نُورے ز کجا می بینَم
مغاں کہ میکدے میں نورِ خدا دیکھتا ہوں، اس تعجب انگیز بات کو دیکھو (غور کرو) کہ کیا نور ہے اور میں کہاں دیکھتا ہوں۔

کیست دُردی کشِ ایں میکدہ یا رب، کہ دَرَش
قبلۂ حاجت و محرابِ دعا می بینَم
یا رب، اس میکدے کی تلچھٹ پینے والا یہ کون ہے کہ اس کا در مجھے قبلۂ حاجات اور دعا کی محراب نظر آتا ہے۔

جلوہ بر من مَفَروش اے مَلِکُ الحاج کہ تو
خانہ می بینی و من خانہ خدا می بینَم
اے حاجیوں کے سردار میرے سامنے خود نمائی نہ کر کہ تُو گھر کو دیکھتا ہے اور میں گھر کے مالک خدا کو دیکھتا ہوں۔

سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر، نالۂ شب
ایں ہمہ از اثَرِ لطفِ شُما می بینَم
سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر اور نالۂ شب، یہ سب آپ کی مہربانی کا اثر ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Hafiz Sheerazi, مزار حافظ شیرازی
مزار خواجہ حافظ شیرازی
Mazar Hafiz Sheerazi
خواہم از زلفِ بتاں نافہ کشائی کردَن
فکرِ دُورست، ہمانا کہ خطا می بینَم
چاہتا ہوں کہ زلفِ بتاں سے نافہ کشائی (خوشبو حاصل) کروں مگر یہ ایک دُور کی سوچ ہے، بیشک میں غلط ہی خیال کر رہا ہوں۔

ہر دم از روئے تو نقشے زَنَدَم راہِ خیال
با کہ گویم کہ دریں پردہ چہا می بینَم
ہر دم تیرے چہرے کا اک نیا نقشہ میرے خیال پر ڈاکہ ڈالتا ہے، میں کس سے کہوں کہ اس پردے میں کیا کیا دیکھتا ہوں۔

کس ندیدست ز مشکِ خُتَن و نافۂ چیں
آنچہ من ہر سحر از بادِ صبا می بینَم
کسی نے حاصل نہیں کیا مشکِ ختن اور نافۂ چین سے وہ کچھ (ایسی خوشبو) جو میں ہر صبح بادِ صبا سے حاصل کرتا ہوں۔

نیست در دائرہ یک نقطہ خلاف از کم و بیش
کہ من ایں مسئلہ بے چون و چرا می بینَم
اس دائرے (آسمان کی گردش) میں ایک نقطہ کی بھی کمی بیشی کا اختلاف نہیں ہے، اور میں اس مسئلے کو بے چون و چرا جانتا ہوں۔

منصبِ عاشقی و رندی و شاہد بازی
ہمہ از تربیتِ لطفِ شُما می بینَم
منصبِ عاشقی، رندی اور شاہدی بازی، یہ سب کچھ آپ کی تربیت کی مہربانی سے مجھے حاصل ہوا ہے۔

دوستاں، عیبِ نظر بازیِ حافظ مَکُنید
کہ من او را، ز مُحبّانِ خدا می بینَم
اے دوستو، حافظ کی نظر بازی پر عیب مت لگاؤ، کہ میں اُس کو (حافظ کو) خدا کے دوستوں میں سے دیکھتا ہوں۔
----------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -
در خراباتِ مغاں نورِ خدا می بینم
ویں عجب بیں کہ چہ نُورے ز کجا می بینم

در خَ را با - 2212 - فاعلاتن
تِ مُ غا نُو - 2211 - فعلاتن
رِ خُ دا می - 2211 - فعلاتن
بی نَم - 22 - فعلن

وی عَ جَب بی - 2212 - فاعلاتن
کہ چہ نورے - 2211 - فعلاتن
ز کُ جا می - 2211 - فعلاتن
بی نم - 22 - فعلن
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 4, 2009

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا - جوش ملیح آبادی

کچھ شعراء کا خیال ہوتا ہے کہ اگر غزل میں ایک یا دو شعر بھی اچھے نکل گئے تو غزل سمجھو پار لگی، بہتر شاعر کم از کم تین جاندار اشعار کا التزام کرتے ہیں، مطلع، حسنِ مطلع اور مقطع، اور کسی غزل کے سارے اشعار کا خوب ہونا اور اس میں کسی بھرتی کے شعر کا نہ ہونا واقعی ایک مشکل کام ہے لیکن ایک غزل کے تمام اشعار کا ادب میں اپنا مستقل مقام حاصل کرنا چند خوش نصیب شاعروں اور غزلوں کے حصے میں ہی آیا ہے۔ انہی میں سے جوش ملیح آبادی کی یہ غزل ہے، ایک ایک شعر لاجواب ہے، جوش گو غزل کے شاعر نہیں تھے بلکہ نظم اور رباعی ان کو زیادہ پسند تھی لیکن ایسی طرح دار غزلیں بھی کہی ہیں کہ بڑے بڑے غزل گو شعراء کے حصے میں ایسی غزلیں نہیں ہیں۔

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, josh malihabadi, جوش ملیح آبادی
Josh Malihabadi, جوش ملیح آبادی
اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
--------
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
سوزِ غم دے - فاعلاتن
کِ مجے اس - فعلاتن
نِ یہ ارشا - فعلاتن
د کیا - فَعِلن
جا تجے کش - فاعلاتن
مَ کَ شے دہ - فعلاتن
ر سِ آزا - فعلاتن
د کیا - فَعِلن
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 21, 2009

عبدالحمید عدم کی ایک غزل - ہر پری وَش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں

ہر پری وَش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں
کتنا سودائی ہوں، کیا تسلیم کر لیتا ہوں میں

مے چُھٹی، پر گاہے گاہے اب بھی بہرِ احترام
دعوتِ آب و ہوا تسلیم کر لیتا ہوں میں

بے وفا میں نے، محبّت سے کہا تھا آپ کو
لیجیئے اب با وفا تسلیم کر لیتا ہوں میں
Abdul Hameed Adam, عبدالحمید عدم, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Abdul Hameed Adam, عبدالحمید عدم
جو اندھیرا تیری زلفوں کی طرح شاداب ہو
اُس اندھیرے کو ضیا تسلیم کر لیتا ہوں میں

جُرم تو کوئی نہیں سرزد ہوا مجھ سے حضور
با وجود اِس کے سزا تسلیم کر لیتا ہوں میں

جب بغیر اس کے نہ ہوتی ہو خلاصی اے عدم
رہزنوں کو رہنما تسلیم کر لیتا ہوں میں

(رُسوائیِ نقاب - عبدالحمید عدم)
--------
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
ہر پری وَش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں
کتنا سودائی ہوں، کیا تسلیم کر لیتا ہوں میں
ہر پری وش - فاعلاتن - 2212
کو خدا تس - فاعلاتن - 2212
لیم کر لے - فاعلاتن - 2212
تا ہُ مے - فاعلن - 212
کتنَ سودا - فاعلاتن - 2212
ئی ہُ کا تس - فاعلاتن - 2212
لیم کر لے - فاعلاتن - 2212
تا ہُ مے - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 26, 2008

علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل مع اردو ترجمہ - می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر

پیامِ مشرق علامہ اقبال کی خوبصورت ترین کتب میں سے ہے، اسی لا جواب کتاب سے ایک لا جواب غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔ یہ غزل نہ صرف علامہ کی خیال آفرینی کی بہترین مثال ہے بلکہ تغزل سے بھی بھر پور ہے جو کہ علامہ کا ‘ٹریڈ مارک’ تو نہیں ہے لیکن پیامِ مشرق کی کافی غزلیں اس رنگ میں ہیں۔

می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
رَست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر
ہماری فکر ہر دم ایک نیا خدا تراشتی ہے، جب وہ ایک قید سے نکلتی ہے تو کسی اور قید میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

برسَرِ بام آ، نقاب از چہرہ بیباکانہ کش
نیست در کوئے تو چُوں من آرزو مندے دِگر
بام پر آ اور بے باک ہو کر اپنے چہرے سے نقاب اتار دے کہ تیرے کوچے میں مجھ جیسا تیرا کوئی اور آرزو مند نہیں ہے۔

بسکہ غیرت می بَرَم از دیدۂ بیناے خویش
از نگہ بافَم بہ رخسارِ تو رُوبندے دِگر
تیرا نظارہ کرنے والی اپنی ہی آنکھ سے مجھے غیرت آرہی ہے۔ اسلیے میں نظروں سے تیرے رخسار پر ایک اور نقاب بن رہا ہوں۔

یک نگہ، یک خندۂ دُزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دِگر
ایک نگاہ، ایک زیرِ لب تبسم، ایک چمکتا ہوا آنسو، محبت کے پیمان کیلیے اس کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
Allama Iqbal, علامہ اقبال
عشق را نازم کہ از بیتابیِ روزِ فراق
جانِ ما را بست با دردِ تو پیوندے دِگر
اپنے عشق پر نازاں ہوں کہ اس نے فراق کے دن کی بیتابی سے میری جان کا تیرے غم کے ساتھ ایک اور پیوند لگا دیا ہے۔

تا شَوی بیباک تر در نالہ اے مرغِ بہار
آتشے گیر از حَریمِ سینہ ام چندے دِگر
اے بہار کے پرندے تا کہ تو اپنے نالے میں زیادہ بیباک ہوجائے، میرے سینے سے کچھ اور آگ لے لے۔

چنگِ تیموری شکست، آہنگِ تیموری بجاست
سُر بروں می آرد از سازِ سمرقندے دِگر
تیمور کا رباب تو ٹوٹ گیا مگر اس سے نکلنے والی آواز اب تک باقی ہے۔ وہی نغمہ اب ایک اور سمرقند کے ساز سے باہر آرہا ہے۔ (علامہ کا یہ شعر انقلابِ رُوس اور کمیونزم کے پس منظر میں ہے)۔

رہ مَدہ در کعبہ اے پیرِ حرم اقبال را
ہر زماں در آستیں دارَد خداوندے دِگر
اے حرم کے پیر، اقبال کو کعبہ میں جانے کیلیے راہ نہ دے، کہ وہ ہر زمانے میں اپنی آستیں میں ایک نیا خدا رکھتا ہے۔
————

بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
می تَراشَد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
رَست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر

می تراشد - فاعلاتن - 2212
فکرِ ما ہر - فاعلاتن -2212
دم خداون - فاعلاتن - 2212
دے دگر - فاعلن - 212

رست از یک - فاعلاتن - 2212
بند تا اف - فاعلاتن - 2212
تاد در بن - فاعلاتن - 2212
دے دگر - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 24, 2008

امیر خسرو کی ایک غزل مع تراجم - جاں ز تَن بُردی و دَر جانی ہنوز

امیر خسرو کی ایک خوبصورت فارسی غزل مع تراجم۔
شعرِ خسرو
جاں ز تَن بُردی و دَر جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز
تُو میرے جسم سے دل کو نکال کر لے گیا لیکن اسکے اندر جان ابھی باقی ہے، تو نے بہت درد دیئے لیکن انکا علاج ابھی باقی ہے۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
تن سے جاں لے کر بھی تُو جاں ہے ابھی
درد دے کر بھی تو درماں ہے ابھی
شعرِ خسرو
آشکارا سینہ ام بشگافتی
ہم چُناں در سینہ پنہانی ہنوز
تو نے میرے سینے کو پھاڑ دیا ہے لیکن ابھی تک تُو اسی طرح میرے سینے میں پوشیدہ ہے۔
مسعود قریشی
سینہ میرا آشکارا کر کے چاک
میرے سینے میں تو پنہاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
مُلکِ دل کردی خراب از تیغِ ناز
داندریں ویرانہ سلطانی ہنوز
اپنی تیغِ ناز سے تُو نے میرے دل کے ملک کو ویران کر دیا لیکن اس ویرانے میں ابھی تک تیری ہی حکمرانی ہے۔
مسعود قریشی
ملکِ دل ویراں ہے تیغِ ناز سے
تو ہی ویرانے میں سلطاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز
تو نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے، اپنا نرخ بڑھا کہ یہ ابھی تک ارزاں ہے۔
مسعود قریشی
اپنی قیمت دو جہاں تُو نے کہی
نرخ اونچا کر، تُو ارزاں ہے ابھی
شعرِ خسرو
جور کردی سالہا چوں کافراں
بہرِ رحمت نامسلمانی ہنوز
کافروں کی طرح تو نے سال ہا سال ظلم و ستم کئے لیکن رحمت کیلیئے ابھی تک نا مسلمانی موجود ہے۔
شعرِ خسرو
جاں ز بندِ کالبد آزاد گشت
دل بہ گیسوئے تو زندانی ہنوز
جان جسم کی قید سے آزاد ہو گئی ہے لیکن دل ابھی تک تیری زلفوں کی قید میں ہے۔
مسعود قریشی
جاں ہوئی آزاد تن کی قید سے
دل کو تیری زلف زنداں ہے ابھی
شعرِ خسرو
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
پیری و شاہد پرستی نا خوش است
خسروا تا کے پریشانی ہنوز
وقتِ پیری شاہد پرستی اچھی بات نہیں، خسرو تو کب تک اس پریشانی سے دوچار رہے گا کہ جو ابھی تک ہے۔
مسعود قریشی
پیر ہو کر بھی وہ ہے شاہد پرست
اس لئے خسرو پریشاں ہے ابھی
————
بحر - بحر رمل مسدس محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 212
(آخری رکن میں 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
جاں ز تن بُردی و در جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز
جا ز تن بر - فاعلاتن - 2212
دی و در جا - فاعلاتن - 2212
نی ہنوز - فاعلان - 1212
درد ہا دا - فاعلاتن - 2212
دی و در ما - فاعلاتن - 2212
نی ہنوز - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 8, 2008

احمد ندیم قاسمی کی ایک غزل - ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے

احمد ندیم قاسمی مرحوم کی درج ذیل غزل مجھے بہت پسند ہے، اسے کم و بیش دو دہائیاں قبل ریڈیو پاکستان سے سلامت علی کی آواز میں سنا تھا اور تب سے یہ میری پسندیدہ غزلوں میں سے ہے۔
ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے

زندہ رہنے کی ہو نیّت تو شکایت کیسی
میرے لب پر جو گِلے ہیں وہ بہانے میرے

رخشِ حالات کی باگیں تو مرے ہاتھ میں تھیں
صرف میں نے کبھی احکام نہ مانے میرے

میرے ہر درد کو اس نے اَبَدیّت دے دی
یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے میرے

میری آنکھوں میں چراغاں سا ہے مستقبل کا
اور ماضی کا ہیولٰی ہے سَرھانے میرے

تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا
اس قدر بوجھ کے لائق نہیں شانے میرے

راستہ دیکھتے رہنے کی بھی لذّت ہے عجیب
زندگی کے سبھی لمحات سہانے میرے

جو بھی چہرہ نظر آیا ترا چہرہ نکلا
تو بصارت ہے مری، یار پرانے میرے

Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی. Ilm-Arooz, Taqtee, Urud Poetry, اردو شاعری
Ahmed Nadeem Qasmi,
 احمد ندیم قاسمی
سوچتا ہوں مری مٹّی کہاں اڑتی ہوگی
اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے

صرف اِک حسرتِ اظہار کے پر تو ہیں ندیم
میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے
———–
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع
ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے
ٹوٹتے جا - فاعلاتن - 2212
تِ ہِ سب آ - فعلاتن - 2211
ء نَ خانے - فعلاتن - 2211
میرے - فعلن - 22
وقت کی زد - فاعلاتن - 2212
مِ ہِ یادو - فعلاتن - 2211
کِ خزانے - فعلاتن - 2211
میرے - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 31, 2008

حکیم مومن خان مومن کی ایک خوبصورت غزل - ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے

تابِ نظّارہ نہیں، آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر، جو حیراں ہوں گے

تو کہاں جائے گی، کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے

ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے

ہم نکالیں گے سن اے موجِ ہوا، بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے
مومن خان مومن, Momin Khan Momin, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مومن خان مومن
منّتِ حضرتِ عیسٰی نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لیے شرمندۂ احساں ہوں گے؟

چاکِ پردہ سے یہ غمزے ہیں، تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا کہ سبھی چاک گریباں ہوں گے

پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مُغیلاں ہوں گے

سنگ اور ہاتھ وہی، وہ ہی سر و داغِ جنوں
وہی ہم ہوں گے، وہی دشت و بیاباں ہوں گے

عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

(حکیم مومن خان مومن)
——-
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع
ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے
ناوکن دا - فاعلاتن - 2212 (الفِ وصل استعمال ہوا ہے)
ز جدر دی - فعلاتن - 2211
دَ ء جانا - فعلاتن - 2211
ہو گے - فعلن - 22
نیم بسمل - فاعلاتن - 2212
کَ ء ہو گے - فعلاتن - 2211
کَ ء بے جا - فعلاتن - 2211
ہو گے - فعلن - 22
-----

اور یہ خوبصورت غزل مہدی حسن کی آواز میں








مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 23, 2008

غزلِ خسرو مع تراجم - کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست

شعرِ خسرو
کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
ترجمہ
میں عشق کا کافر ہوں، مجھے مسلمانی درکار نہیں، میری ہر رگ تار تار ہوچکی ہے، مجھے زُنار کی حاجت نہیں۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
کافرِ عشق ہوں، ایماں مجھے درکار نہیں
تار، ہر رگ ہے، مجھے حاجتِ زنار نہیں
شعرِ خسرو
از سَرِ بالینِ مَن بَرخیز اے ناداں طبیب
دردمندِ عشق را دارُو بَجُز دیدار نیست
ترجمہ
اے نادان طبیب میرے سرہانے سے اٹھ جا، عشق کے بیمار کو تو صرف دیدار ہی دوا ہے۔
قریشی
میرے بالیں سے اٹھو اے مرے نادان طبیب
لا دوا عشق کا ہے درد، جو دیدار نہیں
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
شعرِ خسرو
شاد باش اے دل کہ فَردَا برسَرِ بازارِ عشق
مُژدۂ قتل است گرچہ وعدۂ دیدار نیست
ترجمہ
اے دل تو خوش ہوجا کہ کل عشق کے بازار میں، قتل کی خوش خبری ہے اگرچہ دیدار کا وعدہ نہیں ہے۔
قریشی
اے دلِ زار ہو خوش، عشق کے بازار میں کَل
مژدۂ قتل ہے گو وعدۂ دیدار نہیں
شعرِ خسرو
ناخُدا در کشتیٔ ما گر نَباشد گو مَباش
ما خُدا داریم، ما را ناخُدا درکار نیست
ترجمہ
اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کوئی ڈر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
قریشی
ناخدا گر نہیں کشتی میں نہ ہو، ڈر کیا ہے
ہم کہ رکھتے ہیں خدا، وہ ہمیں درکار نہیں
شعرِ خسرو
خلق می گویَد کہ خُسرو بُت پرستی می کُنَد
آرے آرے می کُنَم، با خلق ما را کار نیست
ترجمہ
خلق کہتی ہے کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں، میں کرتا ہوں مجھے خلق سے کوئی کام نہیں ہے۔
قریشی
بُت پرستی کا ہے خسرو پہ جو الزام تو ہو
ہاں صنم پوجتا ہوں، خلق سے کچھ کار نہیں
———–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع میں ہے۔)
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری رکن 212 میں 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
کافرے عش - فاعلاتن - 2212
قم مسلما - فاعلاتن - 2212
نی مرا در - فاعلاتن - 2212
کار نیس - فاعلان - 1212
ہر رگے من - فاعلاتن - 2212
تار گشتہ - فاعلاتن - 2212
حاجتے زُن - فاعلاتن - 2212
نار نیس - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 3, 2008

بیدل حیدری کی ایک غزل - بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے

بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچّے

ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچّے

کیا بھروسہ ہے سمندر کا، خدا خیر کرے
سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچّے

ہو گیا چرخِ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا
مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچّے

یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے
ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچّے
(بیدل حیدری)
———
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُنپہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچّے
بھوک چہرو - فاعلاتن - 2212
پ لِ یے چا - فعلاتن - 2211
د سِ پارے - فعلاتن - 2211
بچ چے - فعلن - 22
بیچتے پر - فاعلاتن - 2212
تِ ہِ گلیو - فعلاتن - 2211
مِ غبارے - فعلاتن - 2211
بچ چے - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 4, 2008

احمد فراز کی ایک غزل - اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے

اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے
وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے

سانحے وہ تھے کہ پتھرا گئیں آنکھیں میری
زخم یہ ہیں تو مرے دل کو بھی پتھّر کر دے

صرف آنسو ہی اگر دستِ کرم دیتا ہے
میری اُجڑی ہوئی آنکھوں کو سمندر کر دے
Ahmed Faraz, احمد فراز, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Ahmed Faraz, احمد فراز

مجھ کو ساقی سے گلہ ہو نہ تُنک بخشی کا
زہر بھی دے تو مرے جام کو بھر بھر کر دے

شوق اندیشوں سے پاگل ہوا جاتا ہے فراز
کاش یہ خانہ خرابی مجھے بے در کر دے
(احمد فراز)
——–
بحر - بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع:
اے خدا آج اسے سب کا مقدّر کر دے
وہ محبّت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے
اے خدا آ - فاعلاتن - 2212
ج ا سے سب - فعلاتن - 2211
کَ مُ قد در - فعلاتن - 2211
کر دے - فعلن - 22
وہ محّبت - فاعلاتن - 2212
کِ جُ انسا - فعلاتن - 2211
کُ پیمبر - فعلاتن - 2211
کر دے - فعلن - 22
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 2, 2008

میں روزے سے ہوں - سیّد ضمیر جعفری

سید ضمیر جعفری اردو ادب کا ایک بہت بڑا اور معتبر نام ہیں، انکی شاعری ‘طنزیہ و مزاحیہ’ شاعری میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ رمضان کے حوالے سے سید ضمیر جعفری کے گہرے طنز کے حامل اشعار:
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں

ہر اک شے سے کرب کا اظہار، میں روزے سے ہوں
دو کسی اخبار کو یہ تار، میں روزے سے ہوں

میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار، میں روزے سے ہوں

میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرعہ لکھ دیا
کام ہو سکتا نہیں سرکار، میں روزے سے ہوں
Syyed Zamir Jafari, سیّد ضمیر جعفری, Urdu Peotry, Ilm-e-Arooz, Taqtee, اردو شاعری
Syyed Zamir Jafari, سیّد ضمیر جعفری
اے مری بیوی مرے رستے سے کچھ کترا کے چل
اے مرے بچو ذرا ہوشیار، میں روزے سے ہوں

شام کو بہرِ زیارت آ تو سکتا ہوں مگر
نوٹ کرلیں دوست رشتہ دار، میں روزے سے ہوں

تو یہ کہتا ہے لحن تر ہو کوئی تازہ غزل
میں یہ کہتا ہوں کہ برخوردار، میں روزے سے ہوں
(سید ضمیر جعفری)
——–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن(آخری رکن یعنی فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع:
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں
مج سِ مت کر - فاعلاتن - 2212
یار کچ گف - فاعلاتن - 2212
تار مے رو - فاعلاتن - 2212
زے سِ ہو - فاعلن - 212
ہو نَ جائے - فاعلاتن - 2212
تج سِ بی تک - فاعلاتن - 2212
رار مے رو - فاعلاتن - 2212
زے سِ ہو - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 25, 2008

غلام ہمدانی مصحفی کی ایک غزل - ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا

تجھے کس نے روک رکھّا، ترے جی میں کیا یہ آئی
کہ گیا تو بھول ظالم، اِدھر التفات کرنا

ہوئی تنگ اس کی بازی مری چال سے، تو رخ پھیر
وہ یہ ہمدموں سے بولا، کوئی اس سے مات کرنا
Mushafi, مصحفی، urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Mushafi, مصحفی

یہ زمانہ وہ ہے جس میں، ہیں بزرگ و خورد جتنے
انہیں فرض ہو گیا ہے گلۂ حیات کرنا

جو سفر میں ساتھ ہوں ہم تو رہے یہ ہم پہ قدغن
کہ نہ منہ کو اپنے ہر گز طرفِ قنات کرنا

یہ دعائے مصحفی ہے، جو اجل بھی اس کو آوے
شبِ وصل کو تُو یا رب، نہ شبِ وفات کرنا
(غلام ہمدانی مصحفی)
——–
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن فَعِلاتُ فاعِلاتُن
(یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 1211 2212 1211 2212
تقطیع
ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا
ت رِ کو چِ - فعلات - 1211
ہر بہانے - فاعلاتن - 2212
مُ جِ دن سِ - فعلات - 1211
رات کرنا - فاعلاتن - 2212
کَ بِ اس سِ - فعلات - 1211
بات کرنا - فاعلاتن - 2212
کَ بِ اس سِ - فعلات - 1211
بات کرنا - فاعلاتن - 2212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 23, 2008

صائب تبریزی کی ایک غزل کے اشعار - خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما

خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می‌ ریزیم ما
ہم فرزانوں کے پیراہن پر کانٹے (اور خاک) ڈالتے ہیں، اور دامن میں جو گل ہیں وہ دیوانوں کے سر پر ڈالتے ہیں

قطره، گوهر می ‌شود در دامنِ بحرِ کرم
آبروئے خویش در میخانہ می ‌ریزیم ما
قطرہ، بحرِ کرم کے دامن میں گوھر بن جاتا ہے (اسی لیئے) ہم اپنی آبرو مے خانے میں نثار کر رہے ہیں۔

در خطرگاهِ جہاں فکرِ اقامت می ‌کنیم
در گذارِ سیل، رنگِ خانہ می ‌ریزیم ما
اس خطروں والے جہان میں ہم رہنے کی فکر کرتے ہیں، سیلاب کے راستے میں رنگِ خانہ ڈالتے ہیں (گھر بناتے ہیں)

در دلِ ما شکوه‌ٔ خونیں نمی ‌گردد گره
هر چہ در شیشہ است، در پیمانہ می‌ ریزیم ما
ہمارے دل میں کوئی خونی شکوہ گرہ نہیں ڈالتا (دل میں کینہ نہیں رکھتے) جو کچھ بھی ہمارے شیشے میں ہے وہ ہم پیمانے میں ڈال دیتے ہیں۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, saib tabrizi, صائب تبریزی
صائب تبریزی - ایک خاکہ، saib tabrizi
انتظارِ قتل، نامردی است در آئینِ عشق
خونِ خود چوں کوهکن مردانہ می ‌ریزیم ما
عشق کے آئین میں قتل ہونے (موت) کا انتظار نامردی ہے، ہم اپنا خون فرہاد کی طرح خود ہی مردانہ وار بہا رہے ہیں۔
——–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن یعنی فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می‌ ریزیم ما
خار در پے - فاعلاتن - 2212
را ہَ نے فر - فاعلاتن - 2212
زانَ می رے - فاعلاتن - 2212
زیم ما - فاعلن - 212
گل بَ دامن - فاعلاتن - 2212
بر سَرے دی - فاعلاتن - 2212
وانَ می رے - فاعلاتن - 2212
زیم ما - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 16, 2008

غالب کی ایک شاہکار فارسی غزل مع منظوم تراجم - دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش

غالب کی مندرجہ ذیل غزل نہ صرف غالب کی ایک شاہکار غزل ہے بلکہ غالب کے فلسفے و فکر کو سمجھنے میں مشعلِ راہ بھی ہے۔ صوفی تبسم اس غزل کے تعارف میں فرماتے ہیں کہ “غالب نے اس غزل کے بیشتر شعروں میں اس کائنات کے بارے میں ایک خاص زاویہ نظر پیش کیا ہے کہ یہ سب کچھ جو ہمیں نظر آرہا ہے اس کا وجود خارجی کوئی نہیں، یہ انسانی ذہن ہی کی تخلیق ہے۔ یہ ایک سیمیا ہے۔ ایک طلسم ہے جو انسانی وہم نے باندھ رکھا ہے”۔
جس زاویہ نظر کی طرف صوفی تبسم نے اشارہ کیا ہے، فلسفے میں یہ ایک باقاعدہ سکول آف تھاٹ ہے اور نام اسکا “مثالیت پسندی” یا آئیڈیل ازم ہے اور یہ مادیت پسندی یا میٹریل ازم کی عین ضد ہے۔ لبِ لباب اس سلسلہ فکر کا وہی ہے جو صوفی صاحب نے بیان کر دیا ہے، اسکے برعکس مادیت پسند، مادے کو ہی سچائی قرار دیتے ہیں اور مادے کو ذہن پر ترجیح دیتے ہیں۔ مثالیت پسندی کی ابتدا تو شاید قبل از سقراط قدیم یونانی فلسفیوں فیثا غورث اور پارمی نائدیس نے کی تھی لیکن اسکا پہلا جاندار مبلغ افلاطون تھا اور جرمن فلاسفر ہیگل نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس سلسلہ فکر کے چند مشہور فلاسفہ میں فلاطینوس، ڈیکارٹ، لائبنیز، ہولباخ، جارج برکلے، عمانویل کانٹ، فشٹے وغیرہم شامل ہیں۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ غالب کو تصوف سے خاص شغف تھا، اور وہ وحدت الوجودی تھے، جیسا کہ مولانا حالی اور دیگر شارحین و ناقدینِ غالب نے بیان فرمایا ہے، جیسے ڈاکٹر شوکت شبزواری صاحب “فلسفہ کلامِ غالب” میں اور کئی مشہور و معروف ناقدین “نقدِ غالب” میں بیان فرماتے ہیں۔ طوالت کے خوف سے اقتباسات خذف کرتا ہوں۔
دراصل وحدت الوجود اور مثالیت پسندی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مثالیت پسندی، وحدت الوجود کا حصہ ہے۔ وحدت الوجود کا فلسفہ مسلمانوں میں شام کے نسطوری عیسائیوں کے ذریعے آیا تھا جنہوں نے اسے اسکندریہ کے صوفی مثالیت پسند فلسفی فلاطینوس سے حاصل کیا تھا۔ یہی وہ فلاطینوس ہے جسکی تحریروں کو ایک زمانے تک مسلم مفکر ارسطو کی تحریریں سمجھتے رہے۔ قصہ مختصر، غالب چونکہ “وجودی” تھے لامحالہ مثالیت پسندی انکے کلام میں آگئی۔
غزل پیشِ خدمت ہے۔

شعرِ غالب
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خوابِ پریشان زد، جہاں نامیدمش
صوفی تبسم۔ ترجمہ
خیالِ خام کا ایک دھواں سا ہمارے سر پر چھا گیا، میں نے اسکا نام آسمان رکھ دیا۔ آنکھوں نے ایک پریشان خواب دیکھا اور میں نے اسے جہان کہہ دیا۔
صوفی تبسم۔ منظوم ترجمہ
دود افسون نظر تھا، آسماں کہنا پڑا
ایک پریشاں خواب دیکھا اور جہاں کہنا پڑا
افتخار احمد عدنی
دود کا پردہ تھا جس کو آسماں کہتا تھا میں
اور اک خوابِ پریشاں کو جہاں کہتا تھا میں
پروفیسر رالف رسل
My hot sighs raised a canopy: I said, this is the sky
My eyes beheld a troubled dream: I said, this is the world

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mirza Ghalib, مرزا غالب
مرزا غالب, Mirza Ghalib
شعرِ غالب
وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش
تبسم
وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
تھا غبارِ وہم وہ، میں نے بیاباں کہہ دیا
تھا گداز قطرہ، بحرِ بیکراں کہنا پڑا
عدنی
ایک مٹھی خاک تھی صحرا جسے سمجھا کیا
اور اک قطرے کو بحرِ بیکراں کہتا تھا میں
رسل
My fancies threw dust in my eyes: I said, this is the desert
The drop of water spread: I said, this is the boundless sea


شعرِ غالب
باد دامن زد بر آتش نو بہاراں خواندمش
داغ گشت آں شعلہ، از مستی خزاں نامیدمش
تبسم
ہوا نے آگ کو بھڑکایا میں نے اسے بہار کہہ دیا۔ اسی آگ کے شعلے جل کر جب داغ بن کر رہ گئے تو میں نے اسے خزاں کا نام دیا۔
تبسم، منظوم
آگ بھڑکائی ہوا نے، میں اسے سمجھا بہار
شعلہ بن کر داغ جب ابھرا خزاں کہنا پڑا

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sufi Tabassum, صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
صوفی تبسم, Sufi Tabassum
عدنی
آگ بھڑکی جب ہوا سے میں یہ سمجھا ہے بہار
داغ جب شعلے ہوئے، ان کو خزاں کہتا تھا میں
رسل
I saw flames leaping in the wind: I cried out, spring is coming
They danced themselves to ashes, and I said, autumn has come


شعرِ غالب
قطرہٴ خونے گرہ گردید، دل دانستمش
موجِ زہرابے بہ طوفاں زد زباں نامیدمش
تبسم
ایک قطرہء خوں تھا بل کھا کر گرہ بن گیا اور میں نے اسے دل سمجھ لیا۔ ایک زہراب کی لہر تھی اس میں تلاطم برپا ہوا میں نے اسے زباں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
قطرۂ خوں کا تھا پیچ و تاب، دل جانا اسے
لہر تھی زہراب غم کی اور زباں کہنا پڑا
عدنی
قطرہء خوں کی گرہ تھی جس کو دل جانا کیا
موج تھی زہراب کی جس کو زباں کہتا تھا میں
رسل
The drop of blood became a clot: I knew it as my heart
A wave of bitter water rolled: I said, this is my speech


شعرِ غالب
غربتم نا سازگار آمد، وطن فہمیدمش
کرد تنگی حلقہء دام آشیاں نامیدمش

تبسم
پردیس مجھے راس نہ آیا ناچار میں نے اسے وطن سمجھ لیا۔ حلقہء دام تنگ نکلا میں نے اسے آشیاں کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
ناموافق تھی بہت غربت، وطن کہتے بنی
تنگ نکلا حلقہء دام آشیاں کہنا پڑا
عدنی
جب نہ غربت راس آئی میں اسے سمجھا وطن
تنگ ہوا جب حلقہء دام آشیاں کہتا تھا میں

رسل
In exile I felt lost: I said, this country is my country
I felt the snare’s noose tightening: I said, this is my nest


شعرِ غالب
بود در پہلو بہ تمکینے کہ دل می گفتمش
رفت از شوخی بہ آئینے کہ جاں نامیدمش
تبسم
وہ ہمارے پہلو میں اس شان سے بیٹھا تھا کہ میں نے اسے دل کہا، وہ اس انداز سے اٹھ کر گیا کہ اسے جاں کہنا پڑا۔
تبسم، منظوم
اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ جیسے دل تھا وہ
اس روش سے وہ گیا اٹھ کر کہ جاں کہنا پڑا
عدنی
تھا وہ جب تمکین سے پہلو میں، دل سمجھا اسے
اور شوخی سے ہوا رخصت تو جاں کہتا تھا میں

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Iftikhar Ahmed Adani, افتخار احمد عدنی
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani
رسل
She sat in pride close to my side: I said, she is my heart
Capriciously she rose and left: There goes my soul


شعرِ غالب
ہر چہ از جاں کاست در مستی بہ سود افزودمش
ہرچہ با من ماند از ہستی زیاں نامیدمش
تبسم
مستی کے عالم میں جو کچھ زندگی میں کمی واقع ہوئی میں نے اسے نفع میں شمار کیا اور میری ہستی میں سے جو کچھ بچ رہا اسے نقصان سمجھ لیا۔ یعنی زندگی کے وہی لمحات تھے جو عالمِ مستی اور ذوق و شوق میں گزر گئے، بقیہ زندگی تو گویا زندگی ہی نہ تھی۔
تبسم، منظوم
کٹ گئی جو عمر مستی میں وہی تھا سودِ زیست
بچ رہا جو کچھ بھی مستی میں زیاں کہنا پڑا
عدنی
عمر جو مستی میں گزری اس کو جانا میں نے سود
ہوش میں جتنی کٹی اس کو زیاں کہتا تھا میں
رسل
All that I lost in ecstasy accrued to me as gain
All that remained of consciousness I designated loss


شعرِ غالب
تا ز من بگسست عمرے، خوشدلش پنداشتم
چو بہ من پیوست لختے، بد گماں نامیدمش
تبسم
جب تک وہ مجھ سے ایک طویل عرصے کیلیے الگ ہو کر رہا میں اسے ایک خوش ذوق انسان سمجھتا رہا۔ جب وہ تھوڑی مدت کیلیے مجھ سے آ ملا تو میں نے اسے بد گماں کا لقب دیا۔
عدنی
مہرباں سمجھا کیا جب تک رہا وہ مجھ سے دور
اور قریب آیا تو اس کو بد گماں کہتا تھا میں
رسل
For years she held aloof from me: I said, she favours me
She came close for a while: I said, she has her doubts of me


شعرِ غالب
اُو بہ فکر کشتنِ من بود، آہ از من کہ من
لاابالی خواندمش، نامہرباں نامیدمش
تبسم
وہ میرے مارنے کی فکر میں تھا۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ میں اسے لا ابالی کہتا رہا اور نامہرباں کے نام سے پکارتا رہا۔
عدنی
گھات میں تھا قتل کی وہ اور اسے سمجھے بغیر
لا ابالی بے خبر، نا مہرباں کہتا تھا میں
رسل
She was intent on slaying me. Alas for me, that I
Declared she was indifferent, said that she was unkind


شعرِ غالب
تانہم بروے سپاس خدمتے از خویشتن
بود صاحب خانہ امّا میہماں نامیدمش
تبسم
وہ صاحبِ خانہ تھا اور میں اسے میہماں کہتا رہا تاکہ میں اسکی کوئی خدمت کرکے اس پر کوئی احسان دھر سکوں۔
تبسم، منظوم
تھا مجھے منظور اسے مرہونِ منت دیکھنا
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہنا پڑا
عدنی
اپنی خدمت کا فقط احساں جتانے کیلیے
تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہتا تھا میں
رسل
To make her feel obliged to me for all I did for her
She was my host, and yet I told myself, she is my guest


شعرِ غالب
دل زباں را راز دان آشنائی ہا نخواست
گاہ بہماں گفتمش، گاہے فلاں نامیدمش
تبسم
میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میری زباں محبت اور دوستی کی رازداں ہو اس لیے جب بھی محبوب کا تذکرہ آیا میں نے اسے کبھی فلاں، کبھی فلاں کہا۔
شعرِ غالب
ہم نگہ جاں می ستاند، ہم تغافل می کشد
آں دمِ شمشیر و ایں پشتِ کماں نامیدمش
تبسم
اسکا التفات بھی جاں ستاں ہے اور اسکا تغافل بھی مار ڈالتا ہے۔ اسکی توجہ تلوار کی دھار ہے اور اسکی بظاہر بے التفاتی پشتِ کمان کی طرح ہے کہ جس سے تیر نکل کر زخم لگاتا ہے۔


شعرِ غالب
در سلوک از ہر چہ پیش آمد گزشتن داشتم
کعبہ دیدم نقش پائے رہرواں نامیدمش
تبسم
راہِ سلوک میں جو کچھ راستے میں آیا اسے نظر انداز کرکے آگے نکل گیا۔ کعبے کو دیکھا تو اسے رہروانِ راہِ سلوک کا نقشِ پا کہہ دیا۔
تبسم، منظوم
یوں طریقت میں ہر اک شے سے نظر آگے پڑی
کعبے کو بھی نقش پائے رہرواں کہنا پڑا
عدنی
چھوڑ پیچھے راہِ حق میں جو نظر آیا بڑھا
کعبے کو اک نقشِ پائے رہرواں کہتا تھا میں
رسل
I journeyed on beyond each stage I set myself to cover
I saw the Kaba as the tracks of those who had gone on

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Ralph Russell, رالف رسل
رالف رسل, Ralph Russell
شعرِ غالب
بر امیدِ شیوہء صبر آزمائی زیستم
تو بریدی از من و من امتحاں نامیدمش

تبسم
میں اس امید پر جیتا تھا کہ تیرا جور و ستم کا شیوہ میری طاقتِ صبر کو آزمانے کیلیے ہے، تو مجھ پر ستم ڈھاتا رہے گا اور میں زندہ رہوں گا۔ لیکن تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور میں نے اس ترے چلے جانے کو امتحان قرار دیا۔
تبسم، منظوم
شیوہء صبر آزمائی پر ترے جیتا تھا میں
یوں تری فرقت کو اپنا امتحاں کہنا پڑا
عدنی
شیوہء صبر آزمائی کے سہارے میں جیا
تو ہوا مجھ سے الگ تو امتحاں کہتا تھا میں
رسل
My hopes told me, she likes to try my powers of endurance
You served all our ties: I said, she is just testing me


شعرِ غالب
بود غالب عندلیبے از گلستانِ عجم
من ز غفلت طوطیِ ہندوستاں نامیدمش
تبسم
غالب تو گلستانِ ایران کی ایک بلبل تھا، میں نے غفلت میں اسے طوطیِ ہندوستاں کہہ دیا۔
--------


بحر - بحر رمل مثمن محذوف


افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)


اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)


تقطیع -
دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
دیدہ بر خواب پریشان زد، جہاں نامیدمش


دود سودا - فاعلاتن - 2212
ئے تتق بس - فاعلاتن - 2212
تاسما نا - فاعلاتن - 2212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
میدمش - فاعلن - 212


دیدَ بر خا - فاعلاتن - 2212
بے پریشا - فاعلاتن - 2212
زد جہاں نا - فاعلاتن - 2212
میدمش - فاعلن - 212

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 3, 2008

امیر خسرو کی غزل - خَبَرَم رسید اِمشب کہ نگار خواہی آمد

امیر خسرو کی خوبصورت ترین غزلوں میں سے ایک غزل پیش کر رہا ہوں، یوں تو خسرو کا سارا کلام ہی تصوف کی چاشنی سے مملو ہے کہ آپ خود ایک صاحبِ حال صوفی تھے، لیکن کچھ غزلیں تو کمال کی ہیں اور یہ غزل بھی انہی میں سے ایک ہے۔
اس غزل کے اشعار مختلف نسخوں میں مختلف ملتے ہیں، میں نے لوک ورثہ اشاعت گھر کے شائع کردہ انتخاب کو ترجیح دی ہے۔ اس غزل کو استاد نصرت فتح علی خان نے بہت دلکش انداز میں گایا ہے۔
شعرِ خسرو
خَبَرَم رسید اِمشب کہ نگار خواہی آمد
سَرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
ترجمہ
مجھے خبر ملی ہے کہ اے میرے محبوب تو آج رات آئے گا، میرا سر اس راہ پر قربان جس راہ پر تو سوار ہو کر آئے گا۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ملا ہے رات یہ مژدہ کہ یار آئے گا
فدا ہُوں راہ پہ جس سے سوار آئے گا
شعرِ خسرو
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد
ترجمہ
جنگل کے تمام ہرنوں نے اپنے سر اتار کر اپنے ہاتھوں میں رکھ لیے ہیں اس امید پر کہ کسی روز تو شکار کیلیے آئے گا۔
قریشی
غزالِ دشت، ہتھیلی پہ سر لئے ہوں گے
اس آس پر کہ تو بہرِ شکار آئے گا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار امیر خسو, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
کَشَشے کہ عشق دارَد نہ گُزاردَت بدینساں
بجنازہ گر نیائی بہ مزار خواہی آمد
ترجمہ
عشق میں جو کشش ہے وہ تجھے اسطرح زندگی بسر کرنے نہیں دے گی، تو اگر میرے جنازے پر نہیں آیا تو مزار پر ضرور آئے گا۔
قریشی
کشش جو عشق میں ہے، بے اثر نہیں ہوگی
جنازہ پر نہ سہی، بر مزار آئے گا
شعرِ خسرو
بہ لبَم رسیدہ جانَم تو بیا کہ زندہ مانَم
پس ازاں کہ من نَمانَم بہ چہ کار خواہی آمد
ترجمہ
میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آجا کہ میں زندہ رہوں۔ اسکے بعد جبکہ میں زندہ نہ رہوں گا تو پھر تو کس کام کیلیے آئے گا۔
قریشی
لبوں پہ جان ہے، تُو آئے تو رہوں زندہ
رہا نہ میں، تو مجھے کیا کہ یار آئے گا
شعرِ خسرو
بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شَوَد اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد
ترجمہ
تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔
قریشی
فدا کئے دل و دیں اک جھلک پر خسرو نے
کرے گا کیا جو تُو دو تین بار آئے گا
——–
بحر - بحر رمل مثمن مشکول
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بحر مجتث میں‌ ہے)
افاعیل - فَعِلاتُ فاعِلاتُن فَعِلاتُ فاعِلاتُن
اشاری نظام - 1211 2212 1211 2212
تقطیع -
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد
خَ بَ رم رَ - فعلات - 1211
سید امشب - فاعلاتن - 2212
کِ نِ گا ر - فعلات - 1211
خا ہِ آمد - فاعلاتن - 2212
سَ رِ من فِ - فعلات - 1211
دا ء راہے - فاعلاتن - 2212
کِ سَوار - فعلات - 1211
خا ہِ آمد - فاعلاتن - 2212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 20, 2008

فریدون مشیری کی نظم - معراج

فریدون مشیری جدید فارسی شاعری کا ایک معتبر نام ہیں اور نوجوان ایرانی نسل میں انتہائی مقبول، انکی ایک نظم پیش کر رہا ہوں جو مجھے بہت پسند آئی۔ اس نظم میں کوئی "انوکھی" بات نہیں ہے بلکہ وہی خیال ہے جو شعراء کرام کے ہاں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اسے علامہ اقبال نے بھی بہت خوبصورتی سے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔
انکا کلام اس ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، وہیں سے یہ نظم حاصل کی ہے۔ اردو ترجمہ کرنے کی ‘جرأت’ خود ہی کی ہے اسلیے اگر کہیں خامی نظر آئے تو درگزر کا طلبگار ہوں۔ فریدون مشیری کی آفیشل ویب سائٹ ملاحظہ کیجیئے۔

Fereydoon Moshiri, فریدون مشیری, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Fereydoon Moshiri, فریدون مشیری
معراج


گفت: آنجا چشمۂ خورشید هاست
(اُس نے کہا، اس جگہ سورجوں کا چشمہ ہے)
آسماں ها روشن از نور و صفاست
(آسمان نور سے روشن اور منور ہیں)
موجِ اقیانوس جوشانِ فضاست
(فضا سمندروں کی طرح جوش مار رہی ہے)
باز من گفتم که: بالاتر کجاست
(میں نے پھر پوچھا کہ اس سے اوپر کیا ہے)
گفت : بالاتر جهانی دیگر است
(اس نے کہا اس سے بالا ایک دوسرا جہان ہے)
عالمی کز عالمِ خاکی جداست
(وہ ایک ایسا عالم ہے کہ عالمِ خاکی سے جدا ہے)
پهن دشتِ آسماں بے انتهاست
(اور آسمانوں کے طول و عرض، پہنائیاں بے انتہا ہیں)
باز من گفتم که بالاتر کجاست
(میں پھر پوچھا کہ اس سے پرے کیا ہے)
گفت : بالاتر از آنجا راه نیست
(اس نے کہا، اس سے آگے راستہ نہیں ہے)
زانکه آنجا بارگاهِ کبریاست
(کیونکہ اس جگہ خدا کی بارگاہ ہے)
آخریں معراجِ ما عرشِ خداست
(ہماری آخری معراج، رسائی خدا کا عرش ہی ہے)
باز من گفتم که : بالاتر کجاست
(میں نے پھر پوچھا کہ اس سے بالاتر کیا ہے)
لحظه ای در دیگانم خیره شد
(ایک لحظہ کیلیئے میری اس بات سے وہ حیران و پریشان ہو گیا)
گفت : ایں اندیشه ها بس نارساست
(اور پھر بولا، تمھاری یہ سوچ اور بات بے تکی اور ناقابلِ برداشت ہے)
گفتمش : از چشمِ شاعر کن نگاه
(میں نے اس سے کہا، ایک شاعر کی نظر سے دیکھ)
تا نپنداری که گفتاری خطاست
(تا کہ تجھے یہ خیال نہ رہے کہ یہ بات خطا ہے)
دور تر از چشمۂ خورشید ها
(سورجوں کے چشمے سے دور)
برتر از ایں عالمِ بے انتها
(اس بے انتہا عالم سے بر تر)
باز هم بالاتر از عرشِ خدا
(اور پھر خدا کے عرش سے بھی بالا)
عرصۂ پرواز مرغِ فکرِ ماست
(ہماری فکر کے طائر کی پرواز کی فضا ہے)
——–
بحر - بحر رمل مسدس محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)۔
تقطیع -
گفت: آنجا چشمۂ خورشید هاست
آسماں ها روشن از نور و صفاست
گفت آ جا - فاعلاتن - 2212
چشمَ اے خُر - فاعلاتن - 2212
شید ھاس - فاعلان - 1212
آسما ھا - فاعلاتن - 2212
روشَ نز نو - فاعلاتن - 2212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)۔
رُو صفاس - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 26, 2008

امیر خسرو کی ایک غزل - ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا

شعرِ خسرو
ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا
چوں کنَم دل بہ چنیں روز ز دلدار جدا
ترجمہ
برسات کا موسم ہے اور میں اپنے دوست سے جدا ہو رہا ہوں، ایسے (شاندار) دن میں، میں کسطرح اپنے دل کو دلدار سے جدا کروں۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ابر روتا ہے، ہُوا مجھ سے مرا یار جدا
دل سے ایسے میں کروں کیسے مَیں دلدار جدا
شعرِ خسرو
ابر باران و من و یار ستادہ بوداع
من جدا گریہ کناں، ابر جدا، یار جدا
ترجمہ
برسات جاری ہے، میں اور میرا یار جدا ہونے کو کھڑے ہیں، میں علیحدہ گریہ و فریاد کر رہا ہوں، باراں علیحدہ برس رہی ہے، اور یار علیحدہ رو رہا ہے۔
قریشی
ابر برسے ہے، جدائی کی گھڑی ہے سر پر
میں جدا روتا ہوں اور ابر جدا، یار جدا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Amir Khusro, مزار امیر خسرو
مزار خسرو رح، دہلی انڈیا, Mazar Amir Khusro
شعرِ خسرو
سبزہ نوخیز و ہوا خرم و بستان سرسبز
بلبلِ روئے سیہ ماندہ ز گلزار جدا
ترجمہ
تازہ تازہ اگا ہوا سبزہ اور دل خوش کرنے والی ہوا اور سرسبز باغ ہے، اور ایسے میں سیاہ چہرے والی بد قسمت بلبل گلزار سے جدا ہونے کو ہے
قریشی
سبزہ نوخیز، ہوا شاد، گلستاں سرسبز
کیا قیامت ہے کہ بلبل سے ہے گلزار جدا
شعرِ خسرو
اے مرا در تہ ہر موی بہ زلفت بندے
چہ کنی بند ز بندم ہمہ یکبار جدا
ترجمہ
اے میرے محبوب تو نے مجھکو اپنی زلف کے ہر بال کی تہ کے نیچے باندھ لیا ہے، تو کیا باندھے گا جب تو مجھے یکبار ہی اس بند سے جدا کردے گا۔
شعرِ خسرو
دیدہ از بہر تو خونبار شد، اے مردم چشم
مردمی کن، مشو از دیدہء خونبار جدا
ترجمہ
اے آنکھ، میری آنکھ کی پتلی تیرے لیے پہلے ہی خونبار ہو گئی ہے، مہربانی کر اب تو ان خون بہانے والی آنکھوں سے جدا نہ ہونا۔
شعرِ خسرو
نعمتِ دیدہ نخواہم کہ بماند پس ازیں
ماندہ چون دیدہ ازان نعمتِ دیدار جدا
ترجمہ
میں نہیں چاہتا کہ اس کے بعد میری آنکھوں کی نعمت دیدار کی نعمت سے جدا رہے۔
قریشی
نعمتِ چشم ہے میرے لئے سامانِ عذاب
گر مری آنکھ سے ہو نعمتِ دیدار جدا
شعرِ خسرو
حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا
ترجمہ
اے محبوب تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔
قریشی
ہو کے خسرو سے جدا، حسن رہے گا نہ ترا
کب بقا پھول کو ہے، اس سے ہو جب خار جدا
——–
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)۔
تقطیع -
ابر می بارَد و من می شَوَم از یار جدا
چوں کنَم دل بہ چنیں روز ز دلدار جدا
ابر می با - فاعلاتن - 2212
رَ دَ من می - فعلاتن - 2211
شَ وَ مز یا - فعلاتن - 2211 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ر جدا - فَعِلن - 211
چو کنم دل - فاعلاتن - 2212
بَ چنی رو - فعلاتن - 2211
ز ز دلدا - فعلاتن - 2211
ر جدا - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 12, 2008

ایک قصیدے کے چند اشعار

مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے اپنی کتاب ‘آبِ کوثر’ میں شیخ جلال خان جمالی کے ایک قصیدے کے سات اشعار لکھے ہیں (یہ قصیدہ انہوں نے اپنے مرشد کی مدح میں لکھا ہے اور مذکورہ اشعار تشبیب کے اشعار ہیں)، وہی پیش کر رہا ہوں اور ترجمہ کرنے کی جرأت بھی کر رہا ہوں کہ یہ اشعار مجھے بہت پسند آئے۔
ز آسماں گر تیغ بارَد سر نَخَارَد اہلِ دِل
نیشِ سوزَن بر دِلِ نامرد زخمِ خنجَر است
اگر آسمان تلوار بھی چلا دے تو اہلِ دل سر نہیں اٹھاتے (اور) نامرد کے دل کیلیئے سوئی کی چھبن بھی خنجر کے زخم کی طرح ہوتی ہے۔
مرد نتواں گفت اُو را کُو تن آرایَد بہ زَر
زینتِ مرداں ست آہن، زر زناں را زیوَر است
اسے مرد مت کہو کہ جس کا جسم (مال و) زو سے سجا ہوا ہے کہ مردوں کی زینت آہن (لوہا) ہے اور زر عورتوں کیلیئے زیور ہے۔
مرد را کردارِ عالی قدر گردانَد نہ نام
ہر کسے کُو را علی نام است نے چُوں حیدَر است
کسی بھی شخص کو اسکا کردار عالی قدر بناتا ہے نہ کہ اسکا نام، ہر وہ جس کا نام علی ہو، حیدر (ع) کی طرح نہیں ہے۔
از معانی افتخارِ سینۂ عالم بُوَد
عزّتِ معدن نہ از کوہ است بل از گوہَر است
مطالب اور معانی ہی سینۂ عالم کا افتخار ہوتے ہیں (نا کہ بلند و بانگ لاتعداد الفاظ)، کہ معدن (کان) کی عزت (بلند و بالا) پہاڑ سے نہیں بلکہ گوہر سے ہوتی ہے۔
سُرخیِ روئے مُنافِق لالہ را مانَد کہ اُو
اسود القلب است اگرچہ رنگِ رویَش احمَر است
منافق کے چہرے کی سرخی لالہ (کے پھول) کی مانند ہوتی ہے کہ اسکا (لالہ اور منافق کا) دل سیاہ ہوتا ہے اگرچہ اسکا رخ کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔
نے کسے کاہل بیاباں شُد دمِ وحدت زنَد
خونِ ہر آہوئے صحرائی نہ مُشکِ اذفَر است
کسی کاہل سے بیاباں ایک ہی لمحے میں عبور نہیں ہو سکتا (وہ تیز رفتار نہیں ہوسکتا) کہ ہر صحرائی ہرن کا خون اذفر کی خوشبو نہیں ہوتا (مشکِ اذفر: ایک خاص خوشبو ہے جو ایک خاص ہرن سے نکلتی ہے)
اصلِ ایماں در نیابی در فقیہِ بے اصول
کامتحانِ دینِ اُو در احتضارِ محضَر است
ایمان کی اصل کسی بے اصول فقیہ سے نہیں ملے گی کہ اس کے دین کا امتحان تو موت کے پروانوں میں ہے (کہ لوگوں کی موت کے فیصلے اور کفر و ایمان کے فتوے اس کی اپنی خواہشات و پسند و ناپسند پر مبنی ہوتے ہیں)
——–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آسکتا ہے)
تقطیع -
ز آسماں گر تیغ بارَد سر نخارَد اہلِ دل
نیشِ سوزن بر دلِ نامرد زخم خنجر است
زا س ما گر - فاعلاتن - 2212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
تیغ بارد - فاعلاتن - 2212
سر نخارد - فاعلاتن - 2212
اہلِ دل - فاعلن - 212
نیش سوزن - فاعلاتن - 2212
بر دلے نا - فاعلاتن - 2212
مرد زخمے - فاعلاتن - 2212
خنجرست - فاعلان - 1212 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
مزید پڑھیے۔۔۔۔