ایک دن خواجہ الطاف حسین حالی کے پاس مولوی وحید الدین سلیم (لٹریری اسسٹنٹ سر سید احمد خان) بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور مولانا حالی سے پوچھنے لگا۔
"حضرت، میں نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تجھ پر تین طلاق، لیکن بعد میں مجھے اپنے کیے پر افسوس ہوا، بیوی بھی راضی ہے مگر مولوی کہتے ہیں کہ طلاق پڑ گئی، اب صلح کی کوئی شکل نہیں، خدا کے لیے میری مشکل آسان فرمائیں اور کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ میری بیوی گھر میں دوبارہ آباد ہو سکے۔"
ابھی مولانا حالی کوئی جواب نہیں دینے پائے تھے کہ مولوی سلیم اس شخص سے کہنے لگے۔
"بھئی یہ بتاؤ کہ تُو نے طلاق 'ت' سے دی تھی یا 'ط' سے؟"
اس شخص نے کہا۔ "جی میں تو ان پڑھ اور جاہل آدمی ہوں، مجھے کیا پتہ کہ ت سے کیسی طلاق ہوتی ہے اور ط سے کیسی ہوتی ہے۔"
مولوی صاحب نے اس سے کہا کہ "میاں یہ بتاؤ کہ تم نے قرأت کے ساتھ کھینچ کر کہا تھا کہ "تجھ پر تین طلاق" جس میں ط کی آواز پوری نکلتی ہے یا معمولی طریقہ پر کہا تھا جس میں ط کی آواز نہیں نکلتی بلکہ ت کی آواز نکلتی ہے۔"
بیچارے غریب سوال کنندہ نے کہا۔ "جی مولوی صاحب، میں نے معمولی طریقہ پر کہا تھا، قرأت سے کھینچ کر نہیں کہا تھا۔"
یہ سننے کے بعد مولوی سلیم صاحب نے پورے اطمینان کے ساتھ اس سے کہا۔
"ہاں بس معلوم ہو گیا کہ تُو نے ت سے تلاق دی تھی اور ت سے کبھی طلاق پڑ ہی نہیں سکتی، ت سے تلاق کے معنی ہیں 'آ محبت کے ساتھ مل بیٹھ'، تُو بے فکر ہو کر اپنی بیوی کو گھر لے آ، اور اگر کوئی مولوی اعتراض کرے تو صاف کہہ دیجو کہ میں نے تو ت سے تلاق دی تھی ط سے ہر گز نہیں دی۔"
-------
حفیظ جالندھری سر عبد القادر کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں چندہ جمع کرنے کی غرض سے اپنی نظم سنا رہے تھے۔ جلسے کے اختتام پر منتظم جلسہ نے بتایا کہ 300روپیہ جمع ہوئے۔
حفیظ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ میری نظم کا اعجاز ہے۔
"لیکن حضور!" منتظم نے متانت سے کہا ، "200 روپیہ ایک ایسے شخص نے دئے ہیں جو بہرا تھا۔"
---------
ایک دفعہ کسی نے مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ "آپ کے بڑے بھائی ذوالفقار علی کا تخلص 'گوہر' ہے، آپ کے دوسرے بھائی محمد علی کا تخلص 'جوہر' ہے، آپ کا کیا تخلص ہے؟"
"شوہر" مولانا نے فرمایا۔
------
کچھ نقاد حضرات اردو کے ایک شاعر کی مدح سرائی کر رہے تھے، ان میں سے ایک نے کہا۔
"صاحب کیا بات ہے، بہت بڑے شاعر ہیں، اب تو حکومت کے خرچ سے یورپ بھی ہو آئے ہیں۔"
ہری چند اختر نے یہ بات سنی تو نہایت متانت سے کہا۔
"جناب اگر کسی دوسرے ملک میں جانے سے کوئی آدمی بڑا شاعر ہو جاتا ہے تو میرے والد صاحب ملکِ عدم جا چکے ہیں لیکن خدا گواہ ہے کہ کبھی ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکے۔"
------
میر تقی میر سے لکھنو میں کسی نے پوچھا۔ "کیوں حضرت آج کل شاعر کون کون ہے۔"
میر صاحب نے کہا۔ "ایک تو سودا ہے اور دوسرا یہ خاکسار، اور پھر کچھ تامل سے بولے، آدھے خواجہ میر درد۔"
اس شخص نے کہا، "حضرت، اور میر سوز؟"
میر صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا۔ "میر سوز بھی شاعر ہیں؟"
اس نے کہا۔ "آخر بادشاہ آصف الدولہ کے استاد ہیں۔"
کہا۔ "خیر اگر یہ بات ہے تو پونے تین سہی۔"
------
مرزا رفیع سودا اردو کے بڑے نامور شاعر تھے۔ بادشاہ شاہ عالم نے جب انکی شاگردی اختیار کی تو ایک روز سودا سے کہا کہ آپ ایک روز میں کتنی غزلیں کہہ لیتے ہیں۔
سودا نے جواب دیا کہ وہ ایک دن میں دو چار شعر کہہ لیتے ہیں۔
یہ سن کر بادشاہ نے کہا، واہ استادِ محترم، ہم تو پاخانے میں بیٹھے بیٹھے چار غزلیں کہہ لیتے ہیں۔
سودا نے جواب میں کہا۔
"حضور ان غزلوں میں بُو بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔"
یہ کہا اور بادشاہ کے پاس سے چلے آئے اور بعد میں بادشاہ کے بار بار بلاوے پر بھی اسکی خدمت میں نہ گئے۔
------
غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہو گئے۔ ان کو جب وہاں کے کمانڈنگ آفیسر کرنل براؤن کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا کی وضع قطع دیکھ کر پوچھا۔
ویل، ٹم مسلمان ہے۔
مرزا نے کہا، جناب، آدھا مسلمان ہوں۔
کرنل بولا۔ کیا مطلب؟
مرزا نے کہا، جناب شراب پیتا ہوں، سؤر نہیں کھاتا۔
کرنل یہ جواب سن کر ہنس پڑا اور مرزا کو بے ضرر سمجھ کر چھوڑ دیا۔
--------
جگر مراد آبادی کے ایک شعر کی تعریف کرتے ہوئے ایک زندہ دل نے ان سے کہا۔
"حضرت، آپ کی غزل کے ایک شعر کو لڑکیوں کی ایک محفل میں پڑھنے کے بعد میں بڑی مشکل سے پٹنے سے بچا ہوں۔"
جگر صاحب ہنس کر بولے۔
"عزیزم، میرا خیال ہے کہ شعر میں کوئی خامی رہ گئی ہوگی، وگرنہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ آپ کو مارا پیٹا نہ جاتا۔"
-------
ایک محفل میں شبیر حسن خان المعروف جوش ملیح آبادی اپنی نظم سنا رہے تھے تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے (جو کہ جوش کے قریبی دوست تھے) حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
"دیکھیے کم بخت پٹھان ہو کر کیسے عمدہ شعر پڑھ رہا ہے۔"
جوش صاحب نے فورا جواب دیا۔
"اور دیکھو، ظالم سکھ ہو کر کیسی اچھی داد دے رہا ہے۔"
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔