سعد اللہ شاہ صاحب نے، "انتخابِ میرا جی" کے نام سے ان کا کچھ کلام مرتب کیا تھا جس میں نظمیں، گیت اور کچھ غزلیں شامل ہیں انہیں میں سے میرا جی کی غزلیات لکھ رہا ہوں، کچھ غزلیں نقوش کے "غزل نمبر" سے لی ہیں۔ ویب پر بھی میرا جی کی کچھ غزلیں ملتی ہیں لیکن وہ یا تو نامکمل ہیں یا اغلاط سے بھری ہوئی، جو جو غزل مکمل کر سکتا تھا وہ میں نے کر دی ہے۔
(1)
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہوگا
چپکے چپکے بہا کر آنسو، دل کے دکھ کو دھونا ہوگا
بیرن ریت بڑی دنیا کی، آنکھ سے ٹپکا جو بھی موتی
پلکوں ہی سے اٹھانا ہوگا، پلکوں ہی سے پرونا ہوگا
پیاروں سے مل جائیں پیارے، انہونی کب ہونی ہوگی
کانٹے پھول بنیں گے کیسے، کب سکھ سیج بچھونا ہوگا
بہتے بہتے کام نہ آئے لاکھوں بھنور طوفانی ساگر
اب منجدھار میں اپنے ہاتھوں جیون ناؤ ڈبونا ہوگا
میرا جی کیوں سوچ ستائے، پلک پلک ڈوری لہرائے
قسمت جو بھی رنگ دکھائے، اپنے دل میں سمونا ہوگا
Meera Ji, میرا جی |
(2)
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بُھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
کیا بُھولا، کیسے بُھولا، کیوں پوچھتے ہو؟ بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی، بھولا بھالا بھول گیا
کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے، پہلے پیار کا سُندر سپنا بھول گیا
اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا، شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ، بھول گیا
یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دکھ میں سکھ ہے، سکھ میں دکھ ہے، بھید یہ نیارا بھول گیا
ایک نظر کی، ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مِٹا جب اک پل بیتا بھول گیا
سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے، من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر ٹپکا، ساگر گہرا بھول گیا
ہنسی ہنسی میں، کھیل کھیل میں، بات کی بات میں رنگ مٹا
دل بھی ہوتے ہوتے آخر گھاؤ کا رِسنا بھول گیا
اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دل نے جان لیا
ہنستے ہنستے جیون بیتا رونا دھونا بھول گیا
جس کو دیکھو اُس کے دل میں شکوہ ہے تو اتنا ہے
ہمیں تو سب کچھ یاد رہا، پر ہم کو زمانہ بھول گیا
کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا، کہہ دو جو کچھ جی میں ہے
میرا جی کہہ کر پچھتایا اور پھر کہنا بھول گیا
----
(3)
لذّتِ شام، شبِ ہجر خدا داد نہیں
اِس سے بڑھ کر ہمیں رازِ غمِ دل یاد نہیں
کیفیت خانہ بدوشانِ چمن کی مت پُوچھ
یہ وہ گُلہائے شگفتہ ہیں جو برباد نہیں
یک ہمہ حُسنِ طلب، یک ہمہ جانِ نغمہ
تم جو بیداد نہیں ہم بھی تو فریاد نہیں
زندگی سیلِ تن آساں کی فراوانی ہے
زندگی نقش گرِ خاطرِ ناشاد نہیں
اُن کی ہر اِک نگہ آموختۂ عکسِ نشاط
ہر قدم گرچہ مجھے سیلیِ استاد نہیں
دیکھتے دیکھتے ہر چیز مٹی جاتی ہے
جنّتِ حُسنِ نفَس و جنّتِ شدّاد نہیں
ہر جگہ حُسنِ فزوں اپنی مہک دیتا ہے
باعثِ زینتِ گُل تو قدِ شمشاد نہیں
خانہ سازانِ عناصر سے یہ کوئی کہہ دے
پُرسکوں آبِ رواں، نوحہ کناں باد نہیں
--------
(4)
خاکِ جامِ مے ہے گردِ کارواں
اب نہیں اندیشۂ سود و زیاں
اب نَفَس کا زیر و بم کیا ہے؟ فقط
حاصلِ امّید مرگِ ناگہاں
عشرتِ حُسنِ نظر ہے بازگشت
اور تفکّر اک فریبِ رائیگاں
اب نجاتِ دائمی ہےایک لفظ
اور وہ اک لفظ بھی رازِ عیاں
ایک پردہ روز و شب شام و سحر
راز جُو اور جستجو کے درمیاں
اک تخیّل کے سوا کچھ بھی نہیں
رشتۂ دورِ زماں، دورِ مکاں
حاصلِ عمر دو روزہ ہے بہت
گر کبھی منزل کرے عمرِ رواں
کیوں نہ یہ تارِ رگِ جاں توڑیے
دیکھیے پھر کیوں نہ عیشِ جاوداں
سوچتے ہی سوچتے آیا خیال
کچھ نہیں ہستی سوائے جسم و جاں
وقت کی پرواز کے ہمدوش ہی
بہتا جائے گا یہ دریائے رواں
تم بھی یہ کہتے ہو بڑھتے چلو
الاماں، منزل کہاں، منزل کہاں؟
-----
Meera Ji, میرا جی |
غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا، کیا اب تم سے بیان کریں
غم بھی راس نہ آیا دل کو، اور ہی کچھ سامان کریں
کرنے اور کہنے کی باتیں، کس نے کہیں اور کس نے کیں
کرتے کہتے دیکھیں کسی کو، ہم بھی کوئی پیمان کریں
بھلی بُری جیسی بھی گزری، اُن کے سہارے گزری ہے
حضرتِ دل جب ہاتھ بڑھائیں، ہر مشکل آسان کریں
ایک ٹھکانا آگے آگے، پیچھے پیچھے مسافر ہے
چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے، منزل کا اعلان کریں
مجبوروں کی مختاروں سے دُوری اچھی ہوتی ہے
مل بیٹھیں تو مبادا دونوں باہم کچھ احسان کریں
دستِ مزد میں خشتِ رنگیں اس کا اشارہ کرتی ہے
ایک ہی نعرہ کافی ہے، بربادیِ ہر ایوان کریں
میر ملے تھے میرا جی سے، باتوں سے ہم جان گئے
فیض کا چشمہ جاری ہے، حفظ ان کا بھی دیوان کریں
---
(6)
نہیں سنتا دلِ ناشاد میری
ہوئی ہے زندگی برباد میری
رہائی کی اُمیدیں مجھ کو معلوم
تسّلی کر نہ اے صیّاد میری
نہیں ہے بزم میں ان کی رسائی
یہ کیا فریاد ہے فریاد میری
میں تم سے عرض کرتا ہوں بہ صد شوق
سنو گر سن سکو روداد میری
مجھے ہر لمحہ آئے یاد تیری
کبھی آئی تجھے بھی یاد میری
------
(7)
دل محوِ جمال ہو گیا ہے
یا صرفِ خیال ہو گیا ہے
اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے
جینا بھی محال ہو گیا ہے
ہر لمحہ ہے آہ آہ لب پر
ہر سانس وبال ہو گیا ہے
وہ درد جو لمحہ بھر رکا تھا
مُژدہ کہ بحال ہو گیا ہے
چاہت میں ہمارا جینا مرنا
آپ اپنی مثال ہو گیا ہے
پہلے بھی مصیبتیں کچھ آئیں
پر اب کے کمال ہو گیا ہے
--------
(8)
زندگی ایک اذیّت ہے مجھے
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے
دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال
تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے
تری صورت، تری زلفیں، ملبوس
بس انہی چیزوں سے رغبت ہے مجھے
مجھ پہ اب فاش ہوا رازِ حیات
زیست اب سے تری چاہت ہے مجھے
تیز ہے وقت کی رفتار بہت
اور بہت تھوڑی سی فرصت ہے مجھے
سانس جو بیت گیا، بیت گیا
بس اسی بات کی کلفت ہے مجھے
آہ میری ہے، تبسّم تیرا
اِس لیے درد بھی راحت ہے مجھے
اب نہیں دل میں مرے شوقِ وصال
اب ہر اک شے سے فراغت ہے مجھے
اب نہ وہ جوشِ تمنّا باقی
اب نہ وہ عشق کی وحشت ہے مجھے
اب یونہی عمر گذر جائے گی
اب یہی بات غنیمت ہے مجھے
---
(9)
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں
لیکن میں آزاد ہوں ساقی چھوٹے سے پیمانے میں
عمر ہے فانی، عمر ہے باقی، اس کی کچھ پروا ہی نہیں
تو یہ کہہ دے وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں
تجھ سے دُوری، دُوری کب تھی، پاس اور دُور تو دھوکا ھیں
فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں
دو پل کی تھی اندھی جوانی، نادانی کی، بھر پایا
عمر بھلا کیوں بیتے ساری رو رو کر پچھتانے میں
پہلے تیرا دیوانہ تھا اب ہے اپنا دیوانہ
پاگل پن ہے ویسا ہی، کچھ فرق نہیں دیوانے میں
خوشیاں آئیں؟ اچھا، آئیں مجھ کو کیا احساس نہیں
سُدھ بُدھ ساری بھول گیا ہوں دکھ کے گیت سنانے میں
اپنی بیتی کیسے سنائیں، بدمستی کی باتیں ہیں
میرا جی کا جیون بیتا، پاس کے اک مے خانے میں
----
(10)
ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے
میرا جی دانا تو نہیں ہے، عاشق ہے، سودائی ہے
صبح سویرے کون سی صورت پھلواری میں آئی ہے
ڈالی ڈالی جھوم اٹھی ہے، کلی کلی لہرائی ہے
جانی پہچانی صورت کو اب تو آنکھیں ترسیں گی
نئے شہر میں جیون دیوی نیا روپ بھر لائی ہے
ایک کھلونا ٹوٹ گیا تو اور کئی مل جائیں گے
بالک، یہ انہونی تجھ کو کس بیری نے سُجھائی ہے
دھیان کی دھن ھے امر گیت، پہچان لیا تو بولے گا
جس نے راہ سے بھٹکایا تھا، وہی راہ پر لائی ہے
بیٹھے ہیں پھلواری میں، دیکھیں کب کلیاں کِھلتی ہیں
بھنور بھاؤ تو نہیں ہے، کس نے اتنی راہ دکھائی ہے؟
جب دل گھبرا جاتا ھے تو آپ ہی آپ بہلتا ہے
پریم کی ریت اسے جانو پر ہونی کی چترائی ہے
اُمّیدیں، ارمان سبھی جل دے جائیں گے، جانتے تھے
جان جان کے دھوکے کھائے، جان کے بات بڑھائی ہے
اپنا رنگ بھلا لگتا ہے، کلیاں چٹکیں، پھول بنیں
پھول پھول یہ جھوم کے بولا، کلیو، تم کو بدھائی ہے
آبشار کے رنگ تو دیکھے، لگن منڈل کیوں یاد نہیں
کِس کا بیاہ رچا ہے؟ دیکھو، ڈھولک ہے شہنائی ہے
ایسے ڈولے من کا بجرا جیسے نین بیچ ہو کجرا
دل کے اندر دھوم مچی ہے، جگ میں اداسی چھائی ہے
لہروں سے لہریں ملتی ہیں، ساگر اُمڈ آتا ہے
منجدھار میں بسنے والے نے ساحل پر جوت جگائی ہے
آخری بات سنائے کوئی، آخری بات سنیں کیوں ہم نے
اس دنیا میں سب سے پہلے آخری بات سنائی ہے
---
Meera Ji, میرا جی |
جیسے ہوتی آئی ہے، ویسے بسر ہو جائے گی
زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی
گیسوئے عکسِ شبِ فرقت پریشاں اب بھی ہے
ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی
انتظارِ منزلِ موہوم کا حاصل یہ ہے
ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی
سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحلِ اُمّید پر
جستجو، آئینۂ مدّ و جزر ہو جائے گی
درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف
اب دعا، اندیشہ یہ ہے، کارگر ہو جائے گی
سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے
ایک دن، اُمّید ہے اُن کو خبر ہو جائے گی
----
(12)
دیدۂ اشکبار ہے اپنا
اور دل بے قرار یے اپنا
رشکِ صحرا ھے گھر کی ویرانی
یہی رنگِ بہار ہے اپنا
چشمِ گریاں سے چاکِ داماں تک
حال سب آشکار ہے اپنا
ہاؤ ہو میں ہر ایک کھویا ہے
کون یاں غمگسار ہے اپنا
بزم سے ان کی جب سے نکلا ہوں
دل غریب الدّیار ہے اپنا
ہم کو ہستی رقیب کی منظور
پھول کے ساتھ خار ہے اپنا
ہے یہی رسمِ میکدہ شاید
نشّہ ان کا خمار ہے اپنا
کیا غلط سوچتے ہیں میرا جی
شعر کہنا شعار ہے اپنا
----
(13)
گناہوں سے نشو و نما پا گیا دل
درِ پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل
اگر زندگی مختصر تھی تو پھر کیا
اسی میں بہت عیش کرتا گیا دل
یہ ننھی سی وسعت یہ نادان ہستی
نئے سے نیا بھید کہتا گیا دل
نہ تھا کوئی معبود، پر رفتہ رفتہ
خود اپنا ہی معبود بنتا گیا دل
نہیں گریہ و خندہ میں فرق کوئی
جو روتا گیا دل تو ہنستا گیا دل
پریشاں رہا آپ تو فکر کیا ھے
ملا جس سے بھی اس کو بہلا گیا دل
کئی راز پنہاں ہیں لیکن کھلیں گے
اگر حشر کے روز پکڑا گیا دل
بہت ہم بھی چالاک بنتے تھے لیکن
ہمیں باتوں باتوں میں بہکا گیا دل
مزید پڑھیے۔۔۔۔