محمد افضل صاحب (میرا پاکستان) نے خاکسار کی ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع لکھوں، سو لکھ رہا ہوں۔ پہلے اس وجہ سے نہیں لکھی تھی کہ اس وقت میں چاہ رہا تھا کہ پہلے علمِ عروض پر کچھ ضروری باتیں لکھ دوں تا کہ تقطیع کو پڑھتے ہوئے اس بلاگ کے قارئین اسے سمجھ بھی سکیں۔ اور اب جب کہ علمِ عروض اور تقطیع پر کچھ بنیادی باتیں لکھ چکا ہوں سو امید کرتا ہوں کہ وہ قارئین جو ان تحاریر کو 'فالو' کر رہے ہیں ان کو اس تقطیع کے سمجھنے میں کچھ آسانی ضرور ہوگی۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام 'بحرِ مُتَدارِک' ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں 'مفاعیلن' چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن 'فاعِلُن' ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو 'تسبیغ' کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ 'مقطع' بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
اب ہم تقطیع دیکھتے ہیں۔
مُصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُص طَ فا - 212 - فاعلن
جا نِ رح - 212- فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (عملِ تسبیغ نوٹ کریں، اور یہ بھی کہ لاکھوں کے کھوں کو عروضی متن میں صرف 'کو' لکھا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ اور دو چشمی ھ، دونوں کا عروض میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور یہ ایک اصول ہے۔)
شَم عِ بز - 212 - فاعلن
مے ہِ دا - 212 - فاعلن (اشباع کا عمل نوٹ کریں یعنی شاعر نے بزمِ کی میم کے نیچے جو اضافت زیر ہے اس کو کھینچ کر 'مے' یعنی ہجائے بلند بنایا ہے کیونکہ بحر کے مطابق یہاں ہجائے بلند یا 2 کی ضرورت تھی)۔
یَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
شہر یارِ ارَم، تاجدارِ حرَم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شہ ر یا - 212 - فاعلن (شہر کا صحیح تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، اکثر لوگ اس کا غلط تلفظ شہَر کرتے ہیں)۔
رے اِ رَم - 212 - فاعلن (اشباع نوٹ کریں)۔
تا ج دا - 212 - فاعلن
رے حَ رَم - 212 - فاعلن (رے میں پھر اشباع نوٹ کریں)۔
نو بَ ہا - 212 - فاعلن
رے شِ فا - 212 - فاعلن (رے میں عملِ اشباع)۔
عت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس کِ سج - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں یعنی کے کی ی شاعر نے گرا دی ہے کہ یہاں پر بحر کے مطابق اسے ہجائے کوتاہ کی ضرورت تھی)۔
دے کُ مح - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں)۔
را بِ کع - 212 - فاعلن
بہ جُ کی - 212 - فاعلن
ان بَ ؤ - 212 - فاعلن (دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں اور ؤ کو ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ سمجھنا شاعر کی صوابدید ہے یہاں شاعر نے اسے ہجائے بلند باندھا ہے کہ بحر کا یہی تقاضہ تھا)۔
کی لِ طا - 212 - فاعلن
فَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
وہ دَ ہن - 212 - فاعلن
جس کِ ہر - 212 - فاعلن (کی میں اخفا کا عمل)۔
با ت وح - 212 - فاعلن
یے خُ دا - 212 - فاعلن (عمل اشباع)۔
چش مَ اے - 212 - فاعلن (ہمزۂ اضافت کو اے تلفظ کر کے ایک ہجائے بلند بنایا ہے کہ بحر میں اسی کی ضرورت تھی)۔
عل م حک - 212 - فاعلن (علم و حکمت کی جو اضافت واؤ ہے شاعر نے اسکا کوئی وزن نہیں لیا اور یہ شاعر کی صوابدید ہے)۔
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وہ ز با - 212 - فاعلن (نوٹ کریں کہ زبان کی جگہ شاعر نے زباں یعنی نون غنہ استعمال کیا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اگر یہاں زبان نون معلنہ کے ساتھ ہوتا تو وزن بگڑ جاتا)۔
جس کُ سب - 212 - فاعلن (کو میں عملِ اخفا)۔
کُن کِ کُن - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
جی کَ ہے - 212 - فاعلن
اُس کِ نا - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
فذ حَ کو - 212 - فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
کُل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
کُل جَ ہا - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
مل ک ار - 212 - فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
ٹی غَ ذا - 212 - فاعلن
اس شِ کم - 212 - فاعلن
کی قَ نا - 212 - فاعلن
عَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
سیّدہ ، زاہرہ ، طیّبہ ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سی یَ دہ - 212 - فاعلن (تشدید والا حرف دو بار بولا جاتا ہے سو تقطیع میں جس حرف پر تشدید ہوتی ہے اس کو دو بار لکھا جاتا ہے یعنی اسکا وزن ہوتا ہے جیسے یہاں ی پر تشدید ہے اور اسی سے وزن پورا ہوا ہے)۔
زا ہ را - 212 - فاعلن
طی یَ بہ - 212 - فاعلن (تشدید پھر نوٹ کریں)۔
طا ہ رہ - 212 - فاعلن
جا نِ اح - 212 - فاعلن
مد کِ را - 212 - فاعلن (اخفا)۔
حَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام 'بحرِ مُتَدارِک' ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں 'مفاعیلن' چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن 'فاعِلُن' ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو 'تسبیغ' کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ 'مقطع' بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
اب ہم تقطیع دیکھتے ہیں۔
مُصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُص طَ فا - 212 - فاعلن
جا نِ رح - 212- فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (عملِ تسبیغ نوٹ کریں، اور یہ بھی کہ لاکھوں کے کھوں کو عروضی متن میں صرف 'کو' لکھا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ اور دو چشمی ھ، دونوں کا عروض میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور یہ ایک اصول ہے۔)
شَم عِ بز - 212 - فاعلن
مے ہِ دا - 212 - فاعلن (اشباع کا عمل نوٹ کریں یعنی شاعر نے بزمِ کی میم کے نیچے جو اضافت زیر ہے اس کو کھینچ کر 'مے' یعنی ہجائے بلند بنایا ہے کیونکہ بحر کے مطابق یہاں ہجائے بلند یا 2 کی ضرورت تھی)۔
یَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
شہر یارِ ارَم، تاجدارِ حرَم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شہ ر یا - 212 - فاعلن (شہر کا صحیح تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، اکثر لوگ اس کا غلط تلفظ شہَر کرتے ہیں)۔
رے اِ رَم - 212 - فاعلن (اشباع نوٹ کریں)۔
تا ج دا - 212 - فاعلن
رے حَ رَم - 212 - فاعلن (رے میں پھر اشباع نوٹ کریں)۔
نو بَ ہا - 212 - فاعلن
رے شِ فا - 212 - فاعلن (رے میں عملِ اشباع)۔
عت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس کِ سج - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں یعنی کے کی ی شاعر نے گرا دی ہے کہ یہاں پر بحر کے مطابق اسے ہجائے کوتاہ کی ضرورت تھی)۔
دے کُ مح - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں)۔
را بِ کع - 212 - فاعلن
بہ جُ کی - 212 - فاعلن
ان بَ ؤ - 212 - فاعلن (دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں اور ؤ کو ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ سمجھنا شاعر کی صوابدید ہے یہاں شاعر نے اسے ہجائے بلند باندھا ہے کہ بحر کا یہی تقاضہ تھا)۔
کی لِ طا - 212 - فاعلن
فَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
وہ دَ ہن - 212 - فاعلن
جس کِ ہر - 212 - فاعلن (کی میں اخفا کا عمل)۔
با ت وح - 212 - فاعلن
یے خُ دا - 212 - فاعلن (عمل اشباع)۔
چش مَ اے - 212 - فاعلن (ہمزۂ اضافت کو اے تلفظ کر کے ایک ہجائے بلند بنایا ہے کہ بحر میں اسی کی ضرورت تھی)۔
عل م حک - 212 - فاعلن (علم و حکمت کی جو اضافت واؤ ہے شاعر نے اسکا کوئی وزن نہیں لیا اور یہ شاعر کی صوابدید ہے)۔
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وہ ز با - 212 - فاعلن (نوٹ کریں کہ زبان کی جگہ شاعر نے زباں یعنی نون غنہ استعمال کیا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اگر یہاں زبان نون معلنہ کے ساتھ ہوتا تو وزن بگڑ جاتا)۔
جس کُ سب - 212 - فاعلن (کو میں عملِ اخفا)۔
کُن کِ کُن - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
جی کَ ہے - 212 - فاعلن
اُس کِ نا - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
فذ حَ کو - 212 - فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
کُل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
کُل جَ ہا - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
مل ک ار - 212 - فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
ٹی غَ ذا - 212 - فاعلن
اس شِ کم - 212 - فاعلن
کی قَ نا - 212 - فاعلن
عَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
سیّدہ ، زاہرہ ، طیّبہ ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سی یَ دہ - 212 - فاعلن (تشدید والا حرف دو بار بولا جاتا ہے سو تقطیع میں جس حرف پر تشدید ہوتی ہے اس کو دو بار لکھا جاتا ہے یعنی اسکا وزن ہوتا ہے جیسے یہاں ی پر تشدید ہے اور اسی سے وزن پورا ہوا ہے)۔
زا ہ را - 212 - فاعلن
طی یَ بہ - 212 - فاعلن (تشدید پھر نوٹ کریں)۔
طا ہ رہ - 212 - فاعلن
جا نِ اح - 212 - فاعلن
مد کِ را - 212 - فاعلن (اخفا)۔
حَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔
متعلقہ تحاریر : بحر متدارک,
تقطیع,
علم عروض,
نعت
سبحان اللہ
ReplyDeleteاور جزاک اللہ
اب شاعری پڑھنے کا الگ ہی لطف آتا ہے۔۔۔
جس کے لئے آپ کا مشکور ہوں
اس میں شک نہیں تقطیع آتی ہو تو شاعری پڑھنے کے ساتھ ساتھ بندہ جراح بھی ہوجاتا ہے.
ReplyDeleteاخفا اور اشباع واؤل کو چھوٹا بڑا کرلینا ہی ہے نا؟
بہت شکریہ وارث صاحب
ReplyDeleteبہت ہی مفید و معلوماتی مراسلہ ہے ۔
بہت بہت شکریہ
شکریہ آپ سب کا نوازش۔
ReplyDeleteالسلام علیکم سر بہت عرصے کے بعد آپ کے علم خانہ کا چکر لگا بُرانی یاد تازہ ہوگئی بہت شکریہ بہت مزہ آیا پڑھ کر انشاءاللہ اب تو میں یہاں چکر لگاتا رہوں گا جزاک اللہ خیر
ReplyDeleteبہت شکریہ خرم اور باز خوش آمدید۔ شاکر صاحب آپ بالکل صحیح سمجھے۔
ReplyDeleteاے رسولِ امیں خاتم المرسلیں
ReplyDeleteتجھ سا کوئی نہیں تجھ ساکوئی نہیں
اے رسو۔212۔فاعلن۔
لے امی ۔212۔فاعلن۔ے اشباع کی وجہ سے ہے
خاتمل ۔212۔فاعلن۔
مرسلی ۔212۔فاعلن۔
تج سَ کو۔212۔فاعلن۔سا کا الف اخفاء کی وجہ سے ساقط ہے
ئی نہی ۔212۔فاعلن۔
تج سَ کو۔212۔فاعلن۔سا کا الف اخفاء کی وجہ سے ساقط ہے
ئی نہی ۔212۔فاعلن۔
مجھ میں ان کی ثنا کا سلیقہ کہاں
وہ شہِ دو جہاں وہ کہاں میں کہاں
مج مِ ان۔212۔فاعلن۔میں کی ی اخفاء کی وجہ سے ساقط ہے
کی ثنا ۔212۔فاعلن۔
کا سلی ۔212۔فاعلن۔
قہ کہا ۔212۔فاعلن۔
وہ شہے۔212۔فاعلن۔ ے اشباع کی وجہ سے بڑھی ہے
دو جہا۔212۔فاعلن۔
وہ کہا۔212۔فاعلن۔
مے کہا ۔212۔فاعلن۔
اے مرے ہمنشیں چل کہیں اور چل
اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
اے مرے۔212۔فاعلن۔
ہم نشی ۔212۔فاعلن۔
چل کہی ۔212۔فاعلن۔
او رچل ۔212۔فاعلن۔
اس چمن۔212۔فاعلن۔
مے ابپ ۔212۔فاعلن۔ الف کا وصال ہوا ہے
نا گزا۔212۔فاعلن۔
را نہی ۔212۔فاعلن۔
بحر متدارک میں علامہ اقبال کے اشعار نہیں مل سکے آپ ہی کچھ راہنمائی فرما دیجیے
باسم محنت آپ کر رہے ہیں اور خوشی مجھے ہو رہی ہے کہ کم از کم ان تحاریر سے آپ کو فائدہ پہنچ رہا ہے، آپ واقعی میرے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور اس بار متدارک کو خوب پہچانا آپ نے اور تقطیع بھی صحیح لکھی ہے، ماشاءاللہ۔
ReplyDeleteبحر متدارک اردو شاعری میں اتنی مستعمل نہیں جتنی کہ دیگر معروف بحریں، اور ہو سکتا ہے کہ علامہ نے اس استعمال نہ کیا ہو۔
ہمیں جب تھام کر چلتے ہو بحرِ بے کراں میں تم
ReplyDeleteتو قطعِ موج رہ جاتی ہے بس اک کھیل کی صورت
او ہو یہ تو الٹ ہوگیا درست یوں ہے
ReplyDeleteتمیں جب تھام کر چلتے ہیں بحرِ بے کراں میں ہم
تو قطعِ موج رہ جاتی ہے بس اک کھیل کی صورت
واہ باسم بہت خوبصورت شعر ہے لیکن کن کا ہے، اور میں کچھ کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں اس شعر کا مطلب :)
ReplyDeleteیہ پوچھیے کس کا ہے جواب بھی مل جائے گا
ReplyDeleteیہ بات ہے قبلہ تو پھر ہمیں پوری غزل سنائیے۔
ReplyDeleteتعارف ہو چکا ہے بس ہمارا شعر سے اب تک
ReplyDeleteغزل سے اجنبی ہیں تم کرادو میل کی صورت
باسم، ہل من مزید۔
ReplyDeleteیہاں پابندئ افکار ہے، اظہار ہے ہر سو
ReplyDeleteعجب آزاد ہے دنیا بظاہر جیل کی صورت
محترمی و مکرمی جناب محمد وارث صاحب سلمہ
ReplyDeleteالسلام علیکم ! کے بعد از خیریت کے عرض ہے کہ
سب سے پہلے تو اللہ تعالی آپ کو صحت اور سلامتی سے رکھے(آمین) کہ بلا شبہ
آپ کا وجود ہمارے لئے اتنا ضروری ہے جتنا کہ پھولوں کیلئے خوشبو !!!
بعد ازاں قبلہ ، اپنا ایک شعر بھیج رہا ہوں براہ کرم اس کا اپنی عمیق نظر
سے مطالعہ کر کے حوصلہ افزائی فرماویں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ع ترا مجھ سے محبت کا نباہ ہے آفریں جاناں
تجھی سے زندگی کی ہر ادا ہے دلنشیں جاناں
نعمان نیر کلاچوی سینیئر ایڈیٹر روزنامہ درپن لاہور اینڈ ڈیرہ اسمٰعیل خان
باسم دو اشعار مزید اور غزل مکمل لیکن قافیہ تنگ ہے، اساتذہ، شاید مولانا حالی یا مولانا شبلی نعمانی، کہتے ہیں کہ غزل سے پہلے دیکھ لو کہ کم از کم پندرہ بیس قافیے ہوں اور پھر ان میں سے چھ سات اپنی غزل کیلیے بہتر سے بہتر سے منتخب کرو، خیر، ابتدائے عشق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteکلاچوی صاحب، ماشاءاللہ بہت اچھا شعر ہے، بحر ہزج ہے مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن، باسم بھی اسی بحر میں مشق کر رہے ہیں، امید ہے کہ آپ اس غزل کو مکمل کریں گے۔
بہت شکریہ وارث بھائی. آج تک جس چیز کو درد سر سمجھ کر دور رہا تھا، آپ نے بلاشبہ بہت ہی آسان ترین الفاظ میں ذہن نشین کرادیا. میرے دفتری شعراء ساتھی بھی محظوظ ہوئے. ایک ساتھی ندیم احمد ندیم کا سوال ہے کہ
ReplyDeleteمہرِ چرخِ نبوت پہ روشن درود
گلِ باغِ رسالت پہ لاکھوں سلام
اس شعر کے دوسرے مصرع کا پہلا رکن فعلن (مخبون) ہے. ایسے ہی تقریبا اس سلام میں چھ کے قریب اشعار ہے. کیا ایسا کرنے کی رعایت ہے؟
السلام علیکم
ReplyDeleteوارث بھائٰی
بڑامعلوماتی مراسلہ ہے جزاک اللہ
فقط و السلام
فقیر محمد ابراہیم میسوری،ہند
بہت شکریہ عمار آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا ذرہ نوازی کیلیے!
ReplyDeleteمخبون رکن، صدر و ابتدا میں، کئی بحروں میں ضرور آتا ہے لیکن اس بحر ‘متدارک مثمن سالم‘ میں اسکی اجازت شاید نہیں ہے۔
اس خیال کی کچھ وجوہات جو میرے ذہن میں آئیں:
سالم بحروں میں اس مزاحف رکن کا اجتماع سالم رکن کے ساتھ جائز نہیں ہے، اور یہ بھی ایک سالم بحر ہے۔
مولوی نجم الغنی رامپوری کی 'بحر الفصاحت' اور میزا یگانہ چنگیزی کی 'چراغِ سخن' دونوں خاموش ہیں۔ اردو میں اس علم پر یہ دونوں کتابیں 'اتھارٹی' ہیں۔ ان کتب میں مصنفین نے جہاں جہاں کسی رعایت کی اجازت ہے وہاں وہاں اسکا ذکر ضرور کر دیا ہے، پھر سیّد قدرت نقوی نے بحر الفاصحت کی تمام بحثوں کا خلاصہ کر کے کتاب میں مذکور تمام بحروں کا ایک "اشاریہ" بنا کر جو ضمیمہ شامل کیا ہے اس میں بھی اجازتوں کا ذکر ضرور کیا ہے، اسکی اگر اجازت ہوتی تو یہ سارے علماء و فضلاء کبھی چپ نہ رہتے۔
ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس سلام کے نیٹ پر موجود اشعار میں بہت غلطیاں ہیں، اور اوپر میں نے بھی اسکے اشعار منتخب کرتے ہوئے ان اشعار کو ترجیح دی جو نا صرف تمام 'مستند' سائیٹس پر مشترکہ تھے بلکہ 'ٹھیک' بھی تھے۔ اگر اس سلام کا کوئی اصل طبع شدہ نسخہ مل جائے تو شاید کچھ صحیح علم ہو سکے۔
اسکے باوجود اگر امام احمد رضا بریلوی، جو کہ قادر الکلام شاعر بھی تھے' نے مخبون رکن کئی اشعار میں استعمال کیا ہے تو ضرور انکے پاس کوئی وجہ رہی ہوگی۔
محترم محمد ابراہیم میسوری صاحب، بلاگ پر بہت خوش آمدید اور نوازش آپ کی، امید ہے تشریف لاتے رہیں گے۔
ReplyDeleteوالسلام
محترمی و مکرمی جناب محمد وارث صاحب سلمہ
ReplyDeleteالسلام علیکم ! کے بعد از خیریت کے عرض ہے کہ قبلہ !
یہ جو مفعولات ہے یہ کس بحر کا رکن ہے اور کیا یہ بحر اردو میں
مستعمل ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہے تو براہ کرم اسی بحر میں کوئی شعر اگر
آپ کو یاد ہو تو ضرور تحریر فرمادیں تاکہ یہ کم علم بھی آپ کے وسیع ترین
علم سے استفادہ کر سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعمان نیر کلاچوی سینیئر ایڈیٹر روزنامہ درپن لاہور اینڈ ڈیرہ اسمٰعیل خان
کلاچوی صاحب، مفعولات 2 2 2 1، عروض کے آٹھ ارکان میں سے ایک رکن ہے، لیکن اردو میں اسکی حیثیت محض کتابی ہے کیونکہ کسی بحر میں استعمال نہیں ہوتا: کوئی مفرد بحر اس سے نہیں بنتی، جن مرکب بحروں میں یہ آتا ہے مثلاً بحرِ منسرح (مستفعلن مفعولات مستفعلن مفعولات) اور بحر مقتضب (مفعولات مستفعلن مفعولات مستفعلن) وغیرہ وہ اردو میں استعمال نہیں ہوتیں، مثال کے طور پر کہے ہوئے اشعار ملتے ہیں لیکن صرف عروض کی کتب میں۔ تیسری صورت یہ ہے کہ یہ رکن مزاحف ہو کر استعمال ہو، اور ہوتا بھی ہے لیکن اس صورت میں اسکا وزن مفعولات نہیں رہتا بلکہ بدل جاتا ہےجیسے بحر سریع وغیرہ میں کہ وہاں مفعولات، فاعلن یا فاع یا فع کی شکل میں آتا ہے، سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مفعولات اردو میں استعمال نہیں ہوتا۔
ReplyDeleteمحترمی ومکرمی جناب محمد وارث صاحب سدا سکھی رہو بمع تمام اہل و عیال کے(آمین)
ReplyDeleteالسلام علیکم ! یا قبلہ
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے ۔۔۔۔۔
سب سے پہلے تو قبلہ مفعولات کی مکمل وضاحت مہیا کرنے پر احقر آپ کا تہی دل سے شکریہ ادا کرتا ہے اوردعا گو ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے (آمین)
قبلہ ! گزارش خدمت یہ ہے کہ عروض کے آٹھ بنیادی ارکان کیا یہ ہیں ؟ یا اسکے علاوہ
بھی کوئی بنیادی رکن پایا جاتا ہے اردو بحور میں ؟
1 ہزج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعیلن ۔۔۔۔۔۔ مفرد بحر
2 رجز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مستفعلن ۔۔۔۔۔ مفرد بحر
3 متقارب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعولن ۔۔۔۔۔ مفرد بحر
4 کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متفاعلن ۔۔۔۔ مفرد بحر
5 متدارک ۔۔۔۔۔۔۔ فاعلن ۔۔۔۔۔ مفرد بحر
6 رمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن ۔۔۔۔ مفرد بحر
7 وافر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلتن ۔۔۔۔ مفرد بحر
8 منسرح ، سریع اور مرکب بحریں ۔۔۔۔۔۔ مفعولات
قبلہ ! اپنی عمیق نظر ان پر ڈال کر وضاحت فرمادیں کہ کہیں احقر سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی اور اگر ہوگئی ہے تو براہ کرم مکمل وضاحت فرما دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
نعمان نیر کلاچوی سینیئر ایڈیٹر رونامہ درپن لاہور اینڈ ڈیرہ اسمٰعیل خان
کلاچوی صاحب آپ نے آٹھ ارکان اور بحریں صحیح تحریر فرمائی ہیں، صرف یہ کہ وافر بالکل ہی اردو میں استعمال نہیں ہوتی، کامل کم کم، رمل سالم بھی بہت کم۔
ReplyDeleteجہاں تک ارکان کی بات ہے تو ان آٹھ ارکان سے زحافات کی مدد سے سو کے قریب ارکان تو بنتے ہونگے جیسے صرف مفاعیلن کے اٹھارہ فروع بحر الفصاحت میں لکھی ہیں جن میں، مفاعلن، مفعولن، مفاعیل، مفعول، فاعلن، فعولن، فعَل، فاع، فع، مفاعیلان وغیرہ شامل ہیں، رباعی کے چوبیس اوزان بھی اسی مفاعیلن اور اسکی فروعات سے حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح دیگر سات اراکان کی بھی کئی کئی فروع ہیں جو عام استعمال ہوتی ہیں۔
الٰہی تیرا بندہ تیرے در پہ تیرا طالب ہے
ReplyDeleteاٹھا رکھا ہے ہاتھوں کو بناکر ذیل کی صورت
باسم بہت اچھا حمدیہ شعر ہے، لیکن ‘ذیل کی صورت‘؟ کیا یہ ‘ریل‘ ہے؟ لکڑی کا تختہ جس میں قرآن شریف رکھتے ہیں۔ اگر ‘ریل‘ ہے تو افسوس مجھے کئی لغات میں یہ لفظ نہیں ملا اور نہ ہی یہ جان سکا کہ یہ کس زبان کا لفظ ہے، پنجابی یا شاید کسی اور علاقائی زبان کا ہے، ایسے الفاظ پر اکثر سخت اعتراضات وارد ہوتے ہیں، جو شاید کسی حد صحیح بھی ہوتے ہیں۔
ReplyDeleteاستاذ محترم یہ ذیل (دامن) ہے جو عربی زبان کا لفظ ہے
ReplyDeleteحوالے کیلیے کرلپ اردو لغت کا ربط حاضر ہے
http://crulp.org/oud/ViewWord.aspx?refid=9548
اور اس میں دیا گیا یہ نعتیہ شعر بھی
میں ڈھونڈوں سایہ طوبٰی کو کیوں میدانِ محشر میں
مجھے کافی ہے ذیلِ سیّدِ ابرار کا سایہ
( 1873ء، دیوانِ فدا، 289 )
شکریہ باسم، میری معلومات میں اضافے کیلیے، نوازش۔
ReplyDeleteیہ جو آپکے تعارف والا حصہ ہے اس میں اپنا ای میل بھی لکھ دیں۔۔۔ بڑی مہربانی ہو گی۔۔۔
ReplyDeleteنعیم صاحب، میرا ای میل ایڈریس تو لکھا ہے، کچھ تفصیلات میرے متعلق والا صفحہ دیکھیئے وہاں دو لکھے ہیں اور بلاگر کی پروفائل میں بھی ہے۔
ReplyDeleteوالسلام
سلام رضا کے چند اشعار کی تقطیع پر مبارک باد
ReplyDeleteجزاک اللہ۔ نوازش آپ کی رضوی صاحب
DeleteAoA
ReplyDeletejanab e wala intehai malumati blog hai Khuda ap ki tofeeqat mein izafa kre aur aap younhi ta daer chaman e adab ki aabiyari krte rhein
Qibla ap say 2 araaz hain pehli ye k jis tara aap urooz jaise intehai saqeel aur khushk ilm ko aasaan kr k bayan krte hain to huzoor hum tashnagan e ilm k liye ho ske to aik mufassil or mukammalpost san'at e shairi ki bhi krdein bilkul isi tarah aasan alfaz mein
Doosra yeh k aik misraa hai agar hoske to is ki taqtee kr dijiye
"Khayal e gaisoo-e-Akbar mein Raat kali hai "
Baqi Khuda aap ko ar aap say muta'aliq her shay or fard ko apni khas nazr e karam mein rkhe
وعلیکم السلام جناب اور بلاگ پر خوش آمدید۔
Deleteان کلماتِ خیر کیلیے آپ کا ممنون ہوں، جزاک اللہ۔
جی شعری صنعتوں پر انشاءاللہ لکھنے کی کوشش کرونگا بس کچھ مصروفیات آڑے آتی رہتی ہیں۔
جو مصرع آپ نے لکھا ہے یعنی
خیالِ گیسوئے اکبر میں رات کالی ہے
اسکی تقطیع کچھ یوں ہے
بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔
علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع -
خیال گے - مفاعلن - 2121
سُ ء اکبر - فعلاتن - 2211
مِ رات کا - مفاعلن - 2121
لی ہے - فعلن - 22
والسلام
السلام علیکم
ReplyDeleteمحترم لفظ ماتے کا مطلب بتا دیجیے گا
سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں
شعر کے مصرع ثانی میں لفظ ماتے ہے اس کا مطلب بتا دیجیے گا
شکر گزار ہوں گا
ماتا کا ایک مطلب مستی ہے یعنی نیند کے ماتے مطلب نیند کے مستی یا نیند کے جھولے وغیرہ۔
DeleteExcelant very good
ReplyDeleteمحمد وارث صاحب آپ نے شاعری پر کتاب یا کتابیں تو لکھیں ہو گیں ان کا نام بتا دیں تاکہ میں وہ لے کر ان سے مستفید ہو سکو ۔
ReplyDeleteآپ کی نوازش ہوگی۔
میں نے شاعری سیکھنا شروع کیا ہوا ہے مجھے بہت مشکل ہو رہی ہے۔ آپ کی مندرجہ بالا نعت کی تقطیع دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے بہت سہل انداز میں اس کو پیش کیا ہے۔ اس لیے جناب اپ کی کتاب بھی بہت سہل ہو گی اسی بنا پر اس کا نام بتا دیں۔
یا ایسی کتاب کا نام بتا دیں جو شاعری پر عام فہم اور آسان اور سہل طریقہ سے لکھی گئی ہو ۔
آپ کی مہربانی ہوگی۔
میرا واٹسپ نمبر یہ ہے 03429997885
اس پر کتاب کا نام یا آپ کے پاس کوئی شاعری پر کتاب موجود ہو تو سینڈ کر دینا۔
آپ بڑی مہربانی ہوگی۔
محمد یعقوب
ملتان سے
شکریہ محترم، علم عروض پر میری کوئی کتاب نہیں ہے، جو بھی ہے وہ یہیں بلاگ پر موجود ہے۔ والسلام
Deleteگلِ باغ رسالت پہ لاکھوں سلام کی تقطیع کیسے ہوگی
Deleteگلِ کی زیر کو ساکن سے بدل سکتے ہیں کیا؟
جزاک اللہ خیرا کثیرا