کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
ترجمہ
میں عشق کا کافر ہوں، مجھے مسلمانی درکار نہیں، میری ہر رگ تار تار ہوچکی ہے، مجھے زُنار کی حاجت نہیں۔
منظوم ترجمہ مسعود قریشی
کافرِ عشق ہوں، ایماں مجھے درکار نہیں
تار، ہر رگ ہے، مجھے حاجتِ زنار نہیں
شعرِ خسرو
از سَرِ بالینِ مَن بَرخیز اے ناداں طبیب
دردمندِ عشق را دارُو بَجُز دیدار نیست
ترجمہ
اے نادان طبیب میرے سرہانے سے اٹھ جا، عشق کے بیمار کو تو صرف دیدار ہی دوا ہے۔
قریشی
میرے بالیں سے اٹھو اے مرے نادان طبیب
لا دوا عشق کا ہے درد، جو دیدار نہیں
![]() |
Amir Khusro, امیر خسرو |
شاد باش اے دل کہ فَردَا برسَرِ بازارِ عشق
مُژدۂ قتل است گرچہ وعدۂ دیدار نیست
ترجمہ
اے دل تو خوش ہوجا کہ کل عشق کے بازار میں، قتل کی خوش خبری ہے اگرچہ دیدار کا وعدہ نہیں ہے۔
قریشی
اے دلِ زار ہو خوش، عشق کے بازار میں کَل
مژدۂ قتل ہے گو وعدۂ دیدار نہیں
شعرِ خسرو
ناخُدا در کشتیٔ ما گر نَباشد گو مَباش
ما خُدا داریم، ما را ناخُدا درکار نیست
ترجمہ
اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کوئی ڈر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔
قریشی
ناخدا گر نہیں کشتی میں نہ ہو، ڈر کیا ہے
ہم کہ رکھتے ہیں خدا، وہ ہمیں درکار نہیں
شعرِ خسرو
خلق می گویَد کہ خُسرو بُت پرستی می کُنَد
آرے آرے می کُنَم، با خلق ما را کار نیست
ترجمہ
خلق کہتی ہے کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں، میں کرتا ہوں مجھے خلق سے کوئی کام نہیں ہے۔
قریشی
بُت پرستی کا ہے خسرو پہ جو الزام تو ہو
ہاں صنم پوجتا ہوں، خلق سے کچھ کار نہیں
———–
بحر - بحر رمل مثمن محذوف
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع میں ہے۔)
افاعیل - فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلاتُن فاعِلُن
(آخری رکن فاعلن میں فاعِلان بھی آ سکتا ہے)
اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
(آخری رکن 212 میں 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
کافرے عش - فاعلاتن - 2212
قم مسلما - فاعلاتن - 2212
نی مرا در - فاعلاتن - 2212
کار نیس - فاعلان - 1212
ہر رگے من - فاعلاتن - 2212
تار گشتہ - فاعلاتن - 2212
حاجتے زُن - فاعلاتن - 2212
نار نیس - فاعلان - 1212
مزید پڑھیے۔۔۔۔