مشہور فارسی شاعر مرزا محمد علی صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار
گرفتم سہل سوزِ عشق را اوّل، ندانستم
کہ صد دریائے آتش از شرارے می شود پیدا
اول اول میں نے سوزِ عشق کو آسان سمجھا اور یہ نہ جانا کہ اسی ایک چنگاری سے آگ کے سو سو دریا جنم لیتے ہیں۔
---------
مرا ز روزِ قیامت غمے کہ ھست، اینست
کہ روئے مردُمِ عالم دوبارہ باید دید
(روزِ قیامت کا مجھے جو غم ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کے لوگوں کا چہرہ دوبارہ دیکھنا پڑے گا)
---------
|
مجسمہ صائب تبریزی |
ہَماں بہتر کہ لیلٰی در بیاباں جلوہ گر باشَد
ندارَد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی
یہی بہتر ہے کہ لیلٰی کسی بیاباں میں جلوہ گر ہو، کہ تنگنائے شہر (شہر کے تنگ کوچے / تنگ دل لوگ) حسنِ صحرائی کی تاب (قدر) نہیں رکھتے۔
---------
صائب دوچیز می شکند قدرِ شعر را
تحسینِ ناشناس و سکوتِ سخن شناس
اے صائب، دو چیزیں (کسی) شعر کی قدر و قیمت ختم کر دیتی ہیں، ایک (سخن) ناشناس کی پسندیدگی (شعر کی داد دینا) اور دوسری سخن شناس کا خاموش رہنا (شعر کی داد نہ دینا)۔
---------
خواھی بہ کعبہ رو کن و خواھی بہ سومنات
از اختلافِ راہ چہ غم، رھنما یکے است
چاہے کعبہ کی طرف جائیں یا سومنات کی طرف، اختلافِ راہ کا غم (نفرت؟) کیوں ہو کہ راہنما تو ایک ہی ہے۔
ایں ما و من نتیجۂ بیگانگی بود
صد دل بہ یکدگر چو شود آشنا، یکے است
یہ میرا و تیرا (من و تُو کا فرق) بیگانگی کا نتیجہ ہے۔ سو دل بھی جب ایک دوسرے کے آشنا ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ہی ہوتے ہیں (ایک ہی بن جاتے ہیں)۔
---------
من آں وحشی غزَالَم دامنِ صحراے امکاں را
کہ می لرزَم ز ہر جانب غبارے می شوَد پیدا
میں وہ وحشی (رم خوردہ) ہرن ہوں کہ صحرائے امکان میں کسی بھی جانب غبار پیدا ہو (نظر آئے) تو لرز لرز جاتا ہوں۔
---------
خار در پیراهنِ فرزانہ می ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می ریزیم ما
ہم فرزانوں کے پیراہن پر کانٹے (اور خاک) ڈالتے ہیں، اور دامن میں جو گل ہیں وہ دیوانوں کے سر پر ڈالتے ہیں۔
در دلِ ما شکوهٔ خونیں نمی گردد گره
هر چہ در شیشہ است، در پیمانہ می ریزیم ما
ہمارے دل میں کوئی خونی شکوہ گرہ نہیں ڈالتا (دل میں کینہ نہیں رکھتے) جو کچھ بھی ہمارے شیشے میں ہے وہ ہم پیمانے میں ڈال دیتے ہیں۔
---------
اگرچہ وعدۂ خوباں وفا نمی دانَد
خوش آں حیات کہ در انتظار می گذرَد
اگرچہ خوباں کا وعدہ، وفا ہونا نہیں جانتا (وفا نہیں ہوتا، لیکن) میں اس زندگی سے خوش ہوں کہ جو (تیرے) انتظار میں گزر رہی ہے۔
---------
ز چرخ شیشہ و از آفتاب ساغر کُن
بطاقِ نسیاں بگزار جام و مینا را
آسمان کو شیشہ (بوتل) اور سورج کو پیمانہ بنا، اور جام و مینا کو طاقِ نسیاں پر رکھ دے۔
---------
دوست دشمن می شود صائب بوقتِ بے کسی
خونِ زخمِ آہواں رہبر شود صیاد را
مشکل وقت میں دوست بھی دشمن ہو جاتے ہیں جیسے ہرن کے زخموں سے بہنے والا خون شکاری کی رہنمائی کرتا ہے
---------
گر چہ صائب دستِ ما خالیست از نقدِ جہاں
چو جرَس آوازۂ در کارواں داریم ما
صائب اگرچہ ہمارے ہاتھ دنیا کے مال و دولت سے خالی ہیں لیکن ہم کارواں میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو جرس کی آواز کی ہوتی ہے (کہ اسی آواز پر کارواں چلتے ہیں)۔
---------
مولانا شبلی نعمانی، 'شعر العجم' میں میرزا صائب تبریزی کے احوال میں، سرخوش کے تذکرہ 'کلمات الشعراء' کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"ایک دفعہ [صائب تبریزی] راہ میں چلا جا رہا تھا، ایک کتے کو بیٹھا ہوا دیکھا، چونکہ کتا جب بیٹھتا ہے تو گردن اونچی کر کے بیٹھتا ہے، فوراً یہ مضمون خیال میں آیا
شوَد ز گوشہ نشینی فزوں رعونتِ نفس
سگِ نشستہ ز استادہ، سرفراز ترست"
گوشہ نشینی سے رعونتِ نفس اور بھی بڑھ گئی کہ بیٹھے ہوئے کتے کا سر کھڑے ہوئے کتے سے بھی بلند ہوتا ہے۔ 'سرفراز' کا لفظ عجب لطف دے رہا ہے شعر میں۔
---------
مزید پڑھیے۔۔۔۔