غالب کی مندرجہ ذیل غزل صوفی تبسم کے پنجابی ترجمے اور غلام علی کی گائیکی کی وجہ سے شہرہ آفاق مقبولیت حاصل کر چکی ہے اور میری بھی پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ہے۔
شعرِ غالب
ز من گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا
اردو ترجمہ خواجہ حمید یزدانی
میں تیرے انتظار میں ہوں، اگر تجھے اس کا یقین نہیں ہے تو آ اور دیکھ لے۔ اس ضمن میں بہانے مت تلاش کر، بے شک لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ۔
منظوم ترجمہ پنجابی صوفی تبسم
میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کی تو سوچنا ایں سِتمگار آ جا
منظوم اردو ترجمہ صوفی تبسم
دکھا نہ اتنا خدا را تو انتظار آ جا
نہ ہو ملاپ تو لڑنے کو ایک بار آ جا
منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ
نہیں جو مانتے تم میرا انتظار آؤ
بہانہ جو نہ بنو، ہاں ستیزہ کار آؤ
منظوم ترجمہ اردو افتخار احمد عدنی
تجھے ہے وہم، نہیں مجھ کو انتظار آجا
بہانہ چھوڑ، مری جاں ستیزہ کار آجا
انگلش ترجمہ پروفیسر رالف رسل
You cannot think my life is spent in waiting? Well then, come
Seek no excuses; arm yourself for battle and then come
مرزا غالب, Mirza Ghalib |
بہ یک دو شیوہ ستم دل نمی شوَد خرسند
بہ مرگِ من، کہ بہ سامانِ روزگار بیا
یزدانی
میرا دل تیرے دو ایک اندازِ ستم سے خوش نہیں ہوتا، تجھے میری موت کی قسم تو اس سلسلے میں زمانے بھر کا سامان لے کر آ۔
باجوہ
ستم کی اک دو ادا سے نہیں یہ دل خورسند
بلا ہو، موت ہو، آشوبِ روزگار آؤ
عدنی
جفا میں بخل نہ کر، میرے دل کی وسعت دیکھ
ستم کی فوج لیے مثلِ روز گار آجا
رسل
These meager modes of cruelty bring me no joy. By God
Bring all the age’s armoury to use on me, and come
شعرِ غالب
بہانہ جوست در الزامِ مدّعی شوقَت
یکے بَرَغمِ دلِ نا امیدوار بیا
یزدانی
ہمارا دل تیرے عشق میں رقیب پر الزام دھرنے کے بہانے سوچتا رہتا ہے یعنی یہ کہ رقیب تجھے ہماری طرف نہیں آنے دیتا، تو کبھی یا ذرا ہمارے اس نا امید دل کی اس سوچ کے برعکس آ۔
باجوہ
تمھارے شوق کو الزامِ مدعی کا ہےعذر
کبھی بَرَغمِ دلِ نا امیدوار آؤ
شعرِ غالب
ہلاکِ شیوۂ تمکیں مخواہ مستاں را
عناں گسستہ تر از بادِ نو بہار بیا
یزدانی
تو اپنے مستوں یعنی عاشقوں کیلیے یہ مت چاہ یا پسند کر کے وہ تیرے شیوہء تمکیں (دبدبہء غرورِ حسن) کے نتیجے میں ہلاک ہو جائیں، تو نو بہار کی ہوا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آ۔
باجوہ
ہلاکِ شیوۂ تمکیں نہ کیجیے مستوں کو
عناں گسستہ مرے ابرِ نو بہار آؤ
عدنی
ہلاک شیوۂ تمکیں سے کر نہ مستوں کو
حجاب چھوڑ کر اے بادِ نو بہار آجا
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم, Sufi Tabassum |
Why seek to slay your lovers by your awesome majesty
Be even more unbridled than the breeze of spring, and come
شعرِ غالب
ز ما گسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست استوار بیا
یزدانی
تو نے ہم سے تو پیمانِ وفا توڑ لیا اور دوسروں یعنی رقیبوں کے ساتھ یہ عہد باندھ لیا۔ آ، تو ہماری طرف آ کیونکہ عہدِ وفا کوئی محکم عہد نہیں ہے۔
باجوہ
جو ہم سے کٹ کے بندھا غیر سے ہے عہد نیا
جہاں میں عہدِ وفا کب ہے استوار آؤ
عدنی
جو تو نے غیر سے باندھا اسے بھی توڑ صنم
ہوا ہے عہدِ وفا کب سے استوار آ جا
رسل
You broke with me, and now you pledge yourself to other men
But come, the pledge of loyalty is never kept. So come
شعرِ غالب
وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارَد
ہزار بار بَرَو، صد ہزار بار بیا
یزدانی
فراق اور وصل دونوں میں اپنی اپنی ایک لذت ہے، تو ہزار بار جا اور لاکھ بار آ۔
تبسم پنجابی
بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووئے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نے
میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا
تبسم اردو
وداع و وصل میں ہیں لذّتیں جداگانہ
ہزار بار تو جا، صد ہزار بار آ جا
باجوہ
جدا جدا ہے وداع اور وصل کی لذّت
ہزار بار اگر جاؤ، لاکھ بار آؤ
عدنی
وداع و وصل ہیں دونوں کی لذّتیں اپنی
ہزار بار جدا ہو کے لاکھ بار آجا
افتخار احمد عدنی, Iftikhar Ahmed Adani |
Parting and meeting - each of them has its distinctive joy
Leave me a hundred times; turn back a thousand times, and come
شعرِ غالب
تو طفل سادہ دل و ہمنشیں بد آموزست
جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا
یزدانی
تو ایک بھولے بھالے بچے کی طرح ہے اور رقیب تجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے، سو اگر تو ہمارا جنازہ نہیں دیکھ سکا تو کم از کم ہمارے مزار پر ہی آ جا۔
تبسم پنجابی
تُو سادہ تے تیرا دل سادہ ،تینوں ایویں رقیب کُراہ پایا
جے تو میرے جنازے تے نیں آیا، راہ تکدا اے تیری مزار آ جا
تبسم اردو
تو سادہ دل ہے بہت اور رقیب بد آموز
نہ وقتِ مرگ گر آیا، سرِ مزار آ جا
باجوہ
ہو تم تو سادہ مگر ہمنشیں ہے بد آموز
جنازہ مل نہ سکے گا، سرِ مزار آؤ
شعرِ غالب
فریب خوردۂ نازَم، چہا نمی خواہَم
یکے بہ پُرسَشِ جانِ امیدوار بیا
یزدانی
میں ناز و ادا کا فریب خوردہ یعنی مارا ہوا ہوں، میں کیا کیا نہیں چاہتا، یعنی میری بہت سی آرزوئیں ہیں، تو ہماری امیدوار جان کا حال احوال تو پوچھنے آ۔
باجوہ
فریب خوردہ ہوں میں ناز کا اسے چھوڑو
برائے پرسشِ جانِ امیدوار آؤ
شعرِ غالب
ز خوئے تُست نہادِ شکیب نازک تر
بیا کہ دست و دِلَم می رَوَد ز کار بیا
یزدانی
تیری نزاکت طبع کے ہاتھوں ہمارے صبر کی بنیاد بہت ہی نازک ہوگئی ہے، تو آ کہ تیرے اس رویے کے باعث میرا دست و دل بیکار ہو کر رہ گئے ہیں۔
باجوہ
تمھاری خو سے سرشتِ شکیب نازک ہے
چلا میں، صبر کا دامن ہے تار تار آؤ
شعرِ غالب
رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مَرَو
متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا
یزدانی
خانقاہوں میں غرور و تکبر کا رواج ہے، دیکھیو ادھر مت جائیو، جبکہ میکدہ کی دولت و سرمایہ مستی ہے، وہاں ذرا چوکنا ہو کر آجا۔
تبسم پنجابی
ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نے ،ہوش کر، بن کے ہوشیار آ جا
تبسم اردو
رواجِ صومعہ ہستی ہے واں نہ جا ہر گز
متاعِ میکدہ مستی ہے بے شمار آ جا
باجوہ
رواجِ صومعہ ہستی ہے مت ادھر جاؤ
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آؤ
عدنی
رواجِ صومعہ، ہستی ہے، اس طرف مت جا
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آجا
رالف رسل, Ralph Russell |
The mosque is all awareness. Mind you never go that way
The tavern is all ecstasy. So be aware, and come
شعر غالب
حصار عافیَتے گر ہوس کُنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا
یزدانی
اے غالب اگر تجھے کسی عافیت کے قلعے کی خواہش ہے تو ہماری طرح رندانِ خاکسار کے حلقہ میں آ جا۔
تبسم پنجابی
سُکھیں وسنا جے تُوں چاہونا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا، ایتھے بیٹھ دے نے خاکسار آ جا
تبسم اردو
حصارِ امن اگر چاہیے تجھے غالب
درونِ حلقۂ رندانِ خاکسار آ جا
باجوہ
حصار امن کی خواہش ہے گر تمھیں غالب
اِدھر ہے حلقۂ رندانِ خاکسار آؤ
عدنی
حصارِ امن کی خواہش ہے گر تجھے غالب
میانِ حلقۂ رندانِ خاکسار آجا
رسل
If you desire a refuge, Ghalib, there to dwell secure
Find it within the circle of us reckless ones, and come
——–
بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن میں فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع -
ز من گرت نہ بود باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا
ز من گَرَت - مفاعلن - 2121
نہ بوَد با - فعلاتن - 2211
وَ رنتظا - مفاعلن - 2121 (الف وصل استعمال ہوا ہے)
ر بیا - فَعِلن - 211
بہانَ جو - مفاعلن - 2121
ء مبا شو - فعلاتن - 2211
ستیزَ کا - مفاعلن - 2121
ر بیا - فَعِلن - 211
----
اور یہ غزل غلام علی کی آواز میں
سبحان اللہ! سبحان اللہ!
ReplyDeleteآج غالب کی یہ غزل گوگل پر تلاش کر رہا تھا اور گوگل مجھے آپ کے بلاگ پر لے آیا گویا
تذکرہ کوئی ہو، ذکر تیرا رہا
اوّل و آخرش، درمیاں درمیاں
اس سے پہلے ایک ایک اور مصرع ذہن میں آیا تھا مگر اس شعر کے مصرع اولیٰ نے مجھے وہ مصرع لکھنے سے بھی باز رکھا۔ وہ مصرع تھا "اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی":))
بہرحال قبلہ آپ نے غالب کی اس فارسی غزل کے تمام تراجم اکٹھے کر کے یقیناً کمال کر دیا ہے۔ جزاکم اللہ خیراً
حیرت انگیز! اور انتہائی خوشگوار۔
ReplyDeleteوارث بھائی، آپ اتنی سنجیدگی سے اتنی مشقت اٹھا رہے ہیں۔ ایسے ایسے گراں مایہ گہر تلاش کر کے احبابِ ادب کے ذوق کا سامان کر رہے ہیں۔
اللہ آپ کے جذبوں اور ہمت کو جوان رکھے۔ اس عظیم ورثے کا آپ جیسا وارث تا دیر احباب میں موجود رہے۔ اپنا تو اب کے چل چلاؤ ہے۔
زندہ رہئے، پرجوش رہئے، اور تا دیر رہئے!
فقط ۔۔۔ محمد یعقوب آسی
پس نوشت:
آپ کی اجازت سے یہ صفحہ حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کے سہ ماہی خبرنامہ کاوش کے آئندہ شمارے (دسمبر 2010) میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ نوازش!۔
Thank you for your time and sharing
Deleteآپ کا بھی شکریہ جناب
Deleteبہت شکریہ آسی صاحب، ضرور شامل کیجیے۔ والسلام۔
ReplyDeleteوجود آدمی از عشق میرسد به کمال
ReplyDeleteگر این کمال نیابی، کمال نقصان است
میرے خیال سے یہ شعر رومی کے بجائے فروغی بسطامی کا ہے
شکریہ آپ کا مطلع کرنے کے لیے، میں نے کسی کتاب میں یہ مولانا سے منسوب دیکھا تھا۔
Deleteپیام باد بهار از وصال جانان است
ReplyDeleteبیار باده که هنگام مستی جان است
قدم به کوچهٔ دیوانگی بزن چندی
که عقل بر سر بازار عشق حیران است
وجود آدمی از عشق میرسد به کمال
گر این کمال نیابی، کمال نقصان است
بقای عاشق صادق ز لعل معشوق است
حیات خضر پیمبر ز آب حیوان است
به راستی همه کس قدر وصل کی داند
مگر کسی که به محنتسرای هجران است
پسند خاطر مشکل پسند جانان نیست
وگر نه جان گرانمایه دادن آسان است
عجب مدار که در عین درد خاموشم
که در دیار پریچهره محص درمان است
چراغ چشم من آن روی مجلس افروز است
طناب عمر من آن موی عنبر افشان است
به یاد کاکل پرتاب و زلف پر چینش
دل من است که هم جمع و هم پریشان است
مهی که راز من از پرده آشکارا کرد
هنوز صورت او زیر پرده پنهان است
مه صفر ز برای همین مظفر شد
که ماه عید همایون شاه ایران است
ابوالمظفر منصور ناصرالدین شاه
که زیر رایت او آفتاب تابان است
طلوع صبح جمالش فروغ آفاق است
بساط مجلس عیدش نشاط دوران است
فروغی از غزل عید شاه شادی کن
که شادکامی شاعر ز عید سلطان است
اب جرمانے کے طورپر آپ تمام غزل کا ترجمہ کیجئے
ReplyDeleteجی ضرور کوشش کرونگا کہ یہ جرمانہ ادا کر سکوں
Delete:)
شکریہ
ReplyDeleteتشریف آوری کے لیے آپ کا بھی شکریہ۔
Deleteاچھی کاوش ہے آپ کی۔غالب کی اتنی پیاری غزل کے اتنے تراجم ایک ساتھ جمع کر کے آپ نے دل موہ لیا ہے۔شکریہ
ReplyDeleteشکریہ جناب
Delete