چوھدری خوشی محمد ناظر کی نظم “جوگی” کا شمار اردو کلاسکس میں ہوتا ہے۔ اور مجھے یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے کہ اس طویل نظم، جو دو حصوں “نغمۂ حقیقت” اور “ترانۂ وحدت” پر مشتمل ہے، کو پہلی بار مکمل طور پر پیش کر رہا ہوں۔ یہ نظم خوشی محمد ناظر کے دیوان “نغمۂ فردوس” سے لی ہے۔
Khushi Muhammad Nazir, خوشی محمد ناظر, |
نغمۂ حقیقت
کل صبح کے مطلعِ تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوئے، خورشید کا نور ظہور ہوا
مستانہ ہوائے گلشن تھی، جانانہ ادائے گلبن تھی
ہر وادی وادیٔ ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا
جب بادِ صبا مضراب بنی، ہر شاخِ نہال رباب بنی
شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو و سمن طنبور ہوا
سب طائر مل کر گانے لگے، مستانہ وہ تانیں اُڑانے لگے
اشجار بھی وجد میں آنے لگے، گلزار بھی بزمِ سرُور ہوا
سبزے نے بساط بچھائی تھی اور بزمِ نشاط سجائی تھی
بن میں، گلشن میں، آنگن میں، فرشِ سنجاب و سمور ہوا
تھا دل کش منظرِ باغِ جہاں اور چال صبا کی مستانہ
اس حال میں ایک پہاڑی پر جا نکلا ناظر دیوانہ
چیلوں نے جھنڈے گاڑے تھے، پربت پر چھاؤنی چھائی تھی
تھے خیمے ڈیرے بادل کے، کُہرے نے قنات لگائی تھی
یاں برف کے تودے گلتے تھے، چاندی کے فوارے چلتے تھے
چشمے سیماب اگلتے تھے، نالوں نے دھوم مچائی تھی
اک مست قلندر جوگی نے پربت پر ڈیرا ڈالا تھا
تھی راکھ جٹا میں جوگی کی اور انگ بھبوت رمائی تھی
تھا راکھ کا جوگی کا بستر اور راکھ کا پیراہن تن پر
تھی ایک لنگوٹی زیبِ کمر جو گھٹنوں تک لٹکائی تھی
سب خلقِ خدا سے بیگانہ، وہ مست قلندر دیوانہ
بیٹھا تھا جوگی مستانہ، آنکھوں میں مستی چھائی تھی
جوگی سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھک کر ہم نے سلام کیا
تیکھے چتون سے جوگی نے تب ناظر سے یہ کلام کیا
کیوں بابا ناحق جوگی کو تم کس لیے آ کے ستاتے ہو؟
ہیں پنکھ پکھیرو بن باسی، تم جال میں ان کو پھنساتے ہو؟
کوئی جگھڑا دال چپاتی کا، کوئی دعویٰ گھوڑے ہاتھی کا
کوئی شکوہ سنگی ساتھی کا، تم ہم کو سنانے آتے ہو؟
ہم حرص ہوا کو چھوڑ چکے، اِس نگری سے منہ موڑ چکے
ہم جو زنجیریں توڑ چکے، تم لا کے وہی پہناتے ہو؟
تم پُوجا کرتے ہو دھن کی، ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی
ہم جوت لگاتے ہیں من کی، تم اُس کو آ کے بجھاتے ہو؟
سنسار سے یاں مُکھ پھیرا ہے، من میں ساجن کا ڈیرا ہے
یاں آنکھ لڑی ہے پیتم سے، تم کس سے آنکھ ملاتے ہو؟
یوں ڈانٹ ڈپٹ کر جوگی نے جب ہم سے یہ ارشاد کیا
سر اُس کے جھکا کر چرنوں پر، جوگی کو ہم نے جواب دیا
ہیں ہم پردیسی سیلانی، یوں آنکھ نہ ہم سے چُرا جوگی
ہم آئے ہیں تیرے درشن کو، چِتون پر میل نہ لا جوگی
آبادی سے منہ پھیرا کیوں؟ جنگل میں کِیا ہے ڈیرا کیوں؟
ہر محفل میں، ہر منزل میں، ہر دل میں ہے نورِ خدا جوگی
کیا مسجد میں، کیا مندر میں، سب جلوہ ہے “وجہُ اللہ” کا
پربت میں، نگر میں، ساگر میں، ہر اُترا ہے ہر جا جوگی
جی شہر میں خوب بہلتا ہے، واں حسن پہ عشق مچلتا ہے
واں پریم کا ساگر چلتا ہے، چل دل کی پیاس بجھا جوگی
واں دل کا غنچہ کِھلتا ہے، گلیوں میں موہن ملتا ہے
چل شہر میں سنکھ بجا جوگی، بازار میں دھونی رما جوگی
پھر جوگی جی بیدار ہوئے، اس چھیڑ نے اتنا کام کیا
پھر عشق کے اِس متوالے نے یہ وحدت کا اِک جام دیا
اِن چکنی چپڑی باتوں سے مت جوگی کو پھسلا بابا
جو آگ بجھائی جتنوں سے پھر اس پہ نہ تیل گرا بابا
ہے شہروں میں غل شور بہت اور کام کرودھ کا زور بہت
بستے ہیں نگر میں چور بہت، سادھوں کی ہے بن میں جا بابا
ہے شہر میں شورشِ نفسانی، جنگل میں ہے جلوہ روحانی
ہے نگری ڈگری کثرت کی، بن وحدت کا دریا بابا
ہم جنگل کے پھل کھاتے ہیں، چشموں سے پیاس بجھاتے ہیں
راجہ کے نہ دوارے جاتے ہیں، پرجا کی نہیں پروا بابا
سر پر آکاش کا منڈل ہے، دھرتی پہ سہانی مخمل ہے
دن کو سورج کی محفل ہے، شب کو تاروں کی سبھا بابا
جب جھوم کے یاں گھن آتے ہیں، مستی کا رنگ جماتے ہیں
چشمے طنبور بجاتے ہیں، گاتی ہے ملار ہوا بابا
جب پنچھی مل کر گاتے ہیں، پیتم کی سندیس سناتے ہیں
سب بن کے برچھ جھک جاتے ہیں، تھم جاتے ہیں دریا بابا
ہے حرص و ہوا کا دھیان تمھیں اور یاد نہیں بھگوان تمھیں
سِل، پتھر، اینٹ، مکان تمھیں دیتے ہیں یہ راہ بھلا بابا
پرماتما کی وہ چاہ نہیں اور روح کو دل میں راہ نہیں
ہر بات میں اپنے مطلب کے تم گھڑ لیتے ہو خدا بابا
تن من کو دھن میں لگاتے ہو، ہرنام کو دل سے بھلاتے ہو
ماٹی میں لعل گنواتے ہو، تم بندۂ حرص و ہوا بابا
دھن دولت آنی جانی ہے، یہ دنیا رام کہانی ہے
یہ عالَم، عالَمِ فانی ہے، باقی ہے ذاتِ خدا بابا
ترانۂ وحدت
جب سے مستانے جوگی کا مشہورِ جہاں افسانہ ہوا
اُس روز سے بندۂ ناظر بھی پھر بزم میں نغمہ سرا نہ ہوا
کبھی منصب و جاہ کی چاٹ رہی، کبھی پیٹ کی پوجا پاٹ رہی
لیکن یہ دل کا کنول نہ کِھلا اور غنچۂ خاطر وا نہ ہوا
کہیں لاگ رہی، کہیں پیت رہی، کبھی ہار رہی، کبھی جیت رہی
اِس کلجگ کی یہی ریت رہی، کوئی بند سے غم کے رہا نہ ہوا
یوں تیس برس جب تیر ہوئے، ہم کارِ جہاں سے سیر ہوئے
تھا عہدِ شباب سرابِ نظر، وہ چشمۂ آبِ بقا نہ ہوا
پھر شہر سے جی اکتانے لگا، پھر شوق مہار اٹھانے لگا
پھر جوگی جی کے درشن کو ناظر اک روز روانہ ہوا
کچھ روز میں ناظر جا پہنچا پھر ہوش رُبا نظّاروں میں
پنجاب کے گرد غباروں سے کشمیر کے باغ بہاروں میں
پھر بن باسی بیراگی کا ہر سمت سراغ لگانے لگا
بنہال کے بھیانک غاروں میں، پنجال کی کالی دھاروں میں
اپنا تو زمانہ بیت گیا، سرکاروں میں درباروں میں
پر جوگی میرا شیر رہا پربت کی سونی غاروں میں
وہ دن کو ٹہلتا پھرتا تھا ان قدرت کے گلزاروں میں
اور رات کو محوِ تماشہ تھا انبر کے چمکتے تاروں میں
برفاب کا تھا اک تال یہاں یا چاندی کا تھا تھال یہاں
الماس جڑا تھا زمُرّد میں، یہ تال نہ تھا کہساروں میں
تالاب کے ایک کنارے پر یہ بن کا راجہ بیٹھا تھا
تھی فوج کھڑی دیوداروں کی، ہر سمت بلند حصاروں میں
یاں سبزہ و گل کا نظارہ تھا اور منظر پیارا پیارا تھا
پھولوں کا تخت اتارا تھا، پریوں نے ان کہساروں میں
یاں بادِ سحر جب آتی تھی، بھیروں کا ٹھاٹھ جماتی تھی
تالاب رباب بجاتا تھا، لہروں کے تڑپتے تاروں میں
کیا مستِ الست نوائیں تھیں ان قدرت کے مِزماروں میں
ملہار کا روپ تھا چشموں میں، سارنگ کا رنگ فواروں میں
جب جوگی جوشِ وحدت میں ہرنام کی ضرب لگاتا تھا
اک گونج سی چکّر کھاتی تھی، کہساروں کی دیواروں میں
اس عشق و ہوا کی مستی سے جب جوگی کچھ ہشیار ہوا
اس خاک نشیں کی خدمت میں یوں ناظر عرض گزار ہوا
کل رشکِ چمن تھی خاکِ وطن، ہے آج وہ دشتِ بلا جوگی
وہ رشتۂ اُلفت ٹوٹ گیا، کوئی تسمہ لگا نہ رہا جوگی
برباد بہت سے گھرانے ہوئے، آباد ہیں بندی خانے ہوئے
شہروں میں ہے شور بپا جوگی، گاؤں میں ہے آہ و بکا جوگی
وہ جوشِ جنوں کے زور ہوئے، انسان بھی ڈنگر ڈھور ہوئے
بچوں کا ہے قتل روا جوگی، بوڑھوں کا ہے خون ہَبا جوگی
یہ مسجد میں اور مندر میں، ہر روز تنازع کیسا ہے؟
پرمیشر ہے جو ہندو کا، مسلم کا وہی ہے خدا جوگی
کاشی کا وہ چاہنے والا ہے، یہ مکّے کا متوالا ہے
چھاتی سے تو بھارت ماتا کی دونوں نے ہے دودھ پیا جوگی
ہے دیس میں ایسی پھوٹ پڑی، اک قہر کی بجلی ٹوٹ پڑی
روٹھے متروں کو منا جوگی، بچھڑے بِیروں کو ملا جوگی
کوئی گرتا ہے، کوئی چلتا ہے، گرتوں کو کوئی کچلتا ہے
سب کو اک چال چلا جوگی، اور ایک ڈگر پر لا جوگی
وہ میکدہ ہی باقی نہ رہا، وہ خم نہ رہا، ساقی نہ رہا
پھر عشق کا جام پلا جوگی، یہ لاگ کی آگ بجھا جوگی
پربت کے نہ سوکھے روکھوں کو یہ پریم کے گیت سنا جوگی
یہ مست ترانہ وحدت کا چل دیس کی دھن میں گا جوگی
بھگتوں کے قدم جب آتے ہیں، کلجُگ کے کلیش مٹاتے ہیں
تھم جاتا ہے سیلِ بلا جوگی، رک جاتا ہے تیرِ قضا جوگی
ناظر نے جو یہ افسانۂ غم رُودادِ وطن کا یاد کیا
جوگی نے ٹھنڈی سانس بھری اور ناظر سے ارشاد کیا
بابا ہم جوگی بن باسی، جنگل کے رہنے والے ہیں
اس بن میں ڈیرے ڈالے ہیں، جب تک یہ بن ہریالے ہیں
اس کام کرودھ کے دھارے سے ہم ناؤ بچا کر چلتے ہیں
جاتے یاں منہ میں مگر مچھ کے، دریا کے نہانے والے ہیں
ہے دیس میں شور پکار بہت اور جھوٹ کا ہے پرچار بہت
واں راہ دکھانے والے بھی بے راہ چلانے والے ہیں
کچھ لالچ لوبھ کے بندے ہیں، کچھ مکر فریب کے پھندے ہیں
مورکھ کو پھنسانے والے ہیں، یہ سب مکڑی کے جالے ہیں
جو دیس میں آگ لگاتے ہیں، پھر اُس پر تیل گراتے ہیں
یہ سب دوزخ کا ایندھن ہیں اور نرگ کے سب یہ نوالے ہیں
بھارت کے پیارے پُوتوں کا جو خون بہانے والے ہیں
کل چھاؤں میں جس کی بیٹھیں گے، وہی پیڑ گرانے والے ہیں
جو خون خرابا کرتے ہیں، آپس میں کٹ کٹ مرتے ہیں
یہ بیر بہادر بھارت کو، غیروں سے چھڑانے والے ہیں؟
جو دھرم کی جڑ کو کھودیں گے، بھارت کی ناؤ ڈبو دیں گے
یہ دیس کو ڈسنے والے ہیں، جو سانپ بغل میں پالے ہیں
جو جیو کی رکھشا کرتے ہیں اور خوفِ خدا سے ڈرتے ہیں
بھگوان کو بھانے والے ہیں، ایشور کو رجھانے والے ہیں
دنیا کا ہے سُرجن ہار وہی، معبود وہی، مختار وہی
یہ کعبہ، کلیسا، بت خانہ، سب ڈول اسی نے ڈالے ہیں
وہ سب کا پالن ہارا ہے، یہ کنبہ اسی کا سارا ہے
یہ پیلے ہیں یا کالے ہیں، سب پیار سے اس نے پالے ہیں
کوئی ہندی ہو کہ حجازی ہو، کوئی ترکی ہو یا تازی ہو
جب نیر پیا اک ماتا کا، سب ایک گھرانے والے ہیں
سب ایک ہی گت پر ناچیں گے، سب ایک ہی راگ الاپں گے
کل شام کھنّیا پھر بن میں مرلی کو بجانے والے ہیں
آکاش کے نیلے گنبد سے یہ گونج سنائی دیتی ہے
اپنوں کے مٹانے والوں کو کل غیر مٹانے والے ہیں
یہ پریم سندیسہ جوگی کا پہنچا دو ان مہاپرشوں کو
سودے میں جو بھارت ماتا کے تن من کے لگانے والے ہیں
پرماتما کے وہ پیارے ہیں اور دیس کے چاند ستارے ہیں
اندھیر نگر میں وحدت کی جو جوت جگانے والے ہیں
ناظر یہیں تم بھی آ بیٹھو اور بن میں دھونی رما بیٹھو
شہروں میں گُرو پھر چیلوں کو کوئی ناچ نچانے والے ہیں
متعلقہ تحاریر : اردو شاعری,
اردو نظم,
خوشی محمد ناظر,
نظم جوگی
Excellent. Refreshed memories of early school days. Thanks
ReplyDeleteشکریہ جناب
Deleteیہ طویل نظم ہمارے آٹھویں کلاس کی اردو کی کتاب میں تھی ۔ ہمارے ٹیچر نے
ReplyDeleteیہ نظم کئی روز میں بڑی لے سے ہمٰیں سنائی تھی ۔یہ نظم ہمیں اتنی اچھی لگتی تھی کہ اس کے اشعار آج بھی ہمیں یاد تھے ۔ پہلا شعر ہی گوگل پر لکھا تو پوری نظم نکل آئی ۔ یہ نظم ایک دو سال ہی سلیبس میں رہی پھر ایسی غائب ہوئی کہ آج ملی ہے ۔ شکریہ گوگل
آپ درست فرماتے ہیں یہ نظم کسی زمانے میں درسی نصاب میں تھی، میرے والد صاحب مرحوم نے نصاب میں پڑھی تھی اور وہی مجھے اس کے چند مصرعے سنایا کرتے تھے۔
Deleteجب یہ نصاب میں تھی تب سے مجھے زبانی یاد ھے آج اسے پڑھا تو بہت سے الفاظ مختلف لگے ہیں بہت ہی پیاری غزل ھے
Deleteیہ نظم میں نے بھی آٹھویں جماعت میں پڑھی تھی
ReplyDeleteمیرے نصاب میں نہیں تھی لیکن میرے والد صاحب مرحوم مجھے اس کے مصرعے سنایا کرتے تھے۔
Deleteاس نظم کے اشعار کی ترتیب بھی بدل دی گئی ھے
ReplyDeleteھمارے میٹرک کے نصاب میں تھی 1996 میں
اور بہت سارے اشعار کے الفاظ کو بدل دیا ھے
جو کہ شاعر کے کلام کے ساتھ زیادتی ھے
اگر آپ واقعی درستگی کرنا چاھتے ہیں تو صحیح الفاظ کی نشاندھی کی جاسکتی ھے
میں نے تو شاعر کے دیوان سے ہی دیکھ کر لکھی تھی، ہو سکتا ہے نصابِ تعلیم والوں نے الفاظ یا ترتیب بدلی ہو۔ بہرحال مجھے وہ درکار نہیں ہے۔
Deleteیہ نظم ہماری آٹھویں کی اردو کی کتاب میں شامل تھی پھر یہ ایسی غائب ہوئی کہ شکریہ گوگل آج مل گئی
ReplyDeleteاس کے اشعار مجھے بہت پسند ہیں
بہت خوبصورت
ReplyDeleteشکریہ
Delete