Nov 4, 2008

ملک الشعراء ابوالفیض فیضی کے چند اشعار مع ترجمہ

دربارِ اکبری میں جن چند افراد نے بامِ عروج دیکھا ان میں علامہ مبارک ناگوری اور اسکے دو بیٹے، ابو الفضل علامی اور ملک الشعراء ابوالفیض فیضی بھی شامل ہیں۔ فیضی کا شمار، برصغیر کے عظیم ترین فارسی گو شعرا میں ہوتا ہے۔ اپنے باپ اور بھائی کی طرح وہ مذہب اور سیاست کی بجائے شعر و شاعری کا قتیل تھا اور نوعمری میں شروع کی گئی شاعری وہ آخری دم تک کرتا رہا۔
کلیاتِ فیضی میں سے اپنی پسند کے چند شعر درج کرتا پوں۔
قصّۂ عاشقی مَگو اے دل
بَگُذار ایں خَصُوص را بَعَمُوم
اے دل عاشقی کا قصہ مت کہہ، اس خاص ترین بات کو عمومی طور پر (سرسری) گزار دے۔
فیضی اسرارِ عشق را ھرگز
نَتَواں یافتَن بَکَسبِ علُوم
فیضی، عشق کے اسرار ہر گز (فقط) علوم میں مہارت سے نہیں ملتے (کھلتے)۔
————
حدیثِ عقل و دیں با ما مَگوئید
خِرَد مَنداں، سُخَن بے جا مَگوئید
عقل اور دین کی باتیں ہم سے مت کرو، اے خرد مندو یہ بے جا باتیں مت کرو۔
کُجَا عقل و کُجَا دین و کُجَا مَن
مَنِ دیوانہ را ایں ہا مَگوئید
کہاں عقل اور دین اور کہاں میں، مجھ دیوانے سے اسطرح کی باتیں مت کرو۔
مَرا دَر عشق پروائے کسے نیست
بَگوئید ایں حکایت یا مَگوئید
عشق میں مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے، یہ حکایت (کھل کر) بیان کروں یا کہ نہ کروں۔
————–
ساقی و جامِ مے و گوشۂ دیرست اینجا
للہِ الحمد کہ احوال بخیرست اینجا
ساقی ہے، مے کا جام ہے اور بتخانے کا گوشہ ہے، اللہ کا شکر ہے کہ یہاں سب کچھ خیریت سے ہے۔
نکتۂ عشق مَپُرسید کہ ھوشم باقیست
سُخَن از یار مَگوئید کہ غیرست اینجا
نکتۂ عشق مت پوچھو کہ ابھی ہوش باقی ہیں، ہم یار سے کلام نہیں کریں گے کہ ابھی اس جگہ غیر (ہوش) موجود ہے۔
———–
شوریست عَجَب در سَرَم از جامِ محبّت
سَرمَستم و جُز نعرۂ مَستانہ نَدارَم
میرے سر میں جامِ محبت سے عجب خمار ہے کہ (ہر وقت) سر مست ہوں اور مستانہ نعرے کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھتا (کرتا)۔
فیضی ز غَم و شادیِ عالم خَبَرے نیست
شادَم کہ بَدِل جُز غمِ جانانہ نَدارَم
فیضی، مجھے دنیا کے غم و خوشی کی کوئی خبر نہیں ہے، میں (اسی میں) خوش ہوں کہ دل میں غمِ جاناں کے سوا اور کچھ نہیں رکھتا۔
——–
تو اے پروانہ، ایں گرمی ز شمعِ محفِلے داری
چو مَن دَر آتشِ خود سوز گر سوزِ دِلے داری
اے پروانے تُو نے یہ گرمی محفل کی شمع سے حاصل کی ہے، میری طرح اپنی ہی آگ میں جل (کر دیکھ) اگر دل کا سوز رکھتا ہے۔
اس شعر کو دوام علامہ اقبال نے بانگِ درا میں اس پر تضمین کہہ کر بخشا ہے۔

متعلقہ تحاریر : فارسی شاعری, فیضی

2 comments:

  1. وارث صاحب اگر ممکن ہو تو فیضی کی یہ غزل اردو میں ترجمہ کردیں
    صبح دم خیز و صراحی ز سر طاق بگیر

    ReplyDelete