کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے قبیلے، اپنی قوم، اپنی ملت، اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی علامت بن جاتا ہے، انکی پہچان اور تشخص بن جاتا ہے۔ یہ بلند رتبہ خدا جسے دے دے۔
حافظ شیرازی نے کہا تھا۔
ہزار نُکتۂ باریک تر ز مُو اینجاست
نہ ہر کہ سر بَتَراشَد قلندری دانَد
یہ وہ مقام ہے کہ یہاں ہزار ہا نازک اور لطیف اور بال سے باریک نکات ہیں، ہر کوئی سر ترشوانے سے قلندر تھوڑی بن جاتا ہے۔
اقبالِ کے قلندر ہونے سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ اپنی اردو و فارسی شاعری میں ان لطیف و عظیم اسرار و رموز کو فاش کیا ہے کہ کوئی سر ترشوانے والا قلندر بھی کیا بیان کرے گا۔
علامہ کے پیشِ نظر یقیناً حافظ کا شعر تھا جب علامہ نے اپنے متعلق کہا تھا، اور کیا خوب کہا ہے۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال |
اگرچہ سَر نَتَراشَد قلندری دانَد
اقبال کی مجلس کی طرف آ اور ایک دو ساغر کھینچ، اگرچہ اس کا سر مُنڈھا ہوا نہیں ہے (لیکن پھر بھی) وہ قلندری رکھتا (قلندری کے اسرار و رموز جانتا) ہے۔
اے کاش کہ ہمیں بھی ایک آدھ جرعہ نصیب ہو جائے!
اقبال کا سارا کلام عشق رسول پر ہے کی محد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ھے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ReplyDelete