(28)
ہستی بہ نظر، چہ شد اگر پنہانی
ایں رازِ نہفتہ را تو ہم می دانی
چوں شمع ز فانوس نمائی خود را
پیوستہ دریں لباسِ خود عریانی
تو میری نظر میں موجود ہے کیا ہوا اگر تو پنہاں ہے۔ اور یہ راز میرے ساتھ ساتھ تُو بھی جانتا ہے۔ جیسے شمع اگر فانوس میں بھی ہو تو نمایاں ہوتی ہے تو بھی ایسے ہی نمایاں ہے، تیرے اس لباس یعنی مستور ہونے سے بھی تیری عریانی یعنی ظاہر ہونا پیوستہ ہے۔
------
(29)
گر مُتّقیَم، کار بہ یار است مرا
با سبحہ و زنّار چہ کار است مرا
ایں خرقہٴ پشمینہ کہ صد فتنہ دروست
بارَش نہ کشم بدوش، عار است مرا
اگر میں متقی ہوں تو میرا کام صرف میرے یار ہی سے ہے(نہ کہ دنیا کو دکھانے کیلیے متقی بنا ہوا ہوں)۔ اس لیے مجھے تسبیح اور زنار سے کیا کام۔ یہ خرقہٴ پشمینہ کہ اس میں (ریا کار صوفیوں کے) سو سو فتنے ہیں، میں اس کا وزن اپنے کندھوں پر نہیں اٹھاتا کہ یہ میرے لیے عار ہے۔
------
(30)
آں کس کہ ترا تاجِ جہانبانی داد
مار را ہمہ اسبابِ پریشانی داد
پوشاند لباس ہر کرا عیبے دید
بے عیباں را لباسِ عریانی داد
وہ کہ جس نے تجھے جہانبانی کا تاج پہنایا اس نے ہمیں اسبابِ پرشیان دیے یعنی جمع کرنے کی ہر فکر سے آزاد کر دیا۔ یعنی جہاں جہاں اس نے عیب دیکھے ان کیلیے لباس دے دیا اور اور جس میں کوئی عیب نہیں تھا اس کو لباسِ عریانی یعنی کچھ نہیں دیا۔
-----
(31)
در کوئے مغاں، موسمِ گُل، منزل کُن
خود را بدرِ جنوں بزن، غافل کُن
ایں خرقہٴ پشمینہ کہ بارست و وبال
از دوش بنہ، فراغتے حاصل کُن
موسمِ گُل میں کوئے مغاں میں جا کر بیٹھ جا، خود پر جنون طاری کر لے اور ہر چیز سے غافل ہوجا، یہ خرقہٴ پشمینہ کہ جو بوجھ اور وبال بنا ہوا ہے اس کے اپنے کاندھے سے اتار دے اور ہر قسم کے بوجھ اور وبال سے فارغ ہوجا۔
------
(32)
من تخمِ ہوس کاشتہ ام، غمگینم
صد رنگ گُلِ داغ ازو می چینم
طوفاں بشود اگر نہ گردد خاموش
ایںِ آتشِ خواہش کہ بخود می بینم
میں نے ہوس اور لالچ کے بیج بوئے سو ہر وقت غمگین ہی رہتا ہوں۔ اور ان بیجوں سے سو سو قسم کے بدنما پھول حاصل کر رہا ہوں۔ اگر خاموش نہ ہوئی اور نہ بجھی تو ایک طوفان بن جائے گی یہ خواہشوں کی آگ جو میں اپنے آپ میں لگی دیکھ رہا ہوں۔
-----
|
Mazar Sufi Sarmad Shaheed, مزار صوفی سرمد شہید |
(33)
ہرگز بخدا زہدِ ریائی نہ کنم
غیر از درِ معرفت گدائی نہ کنم
شاہی کنم و ملکِ فراغت گیرم
پیوستہ ز میخانہ جدائی نہ کنم
بخدا میں نے ہرگز ہرگز بھی ریاکاری کا زہد نہیں اپنایا اور درِ معرفت کے سوا کسی بھی در کی گدائی نہیں کی۔ میں اپنے ملکِ فراغت کی بادشاہی کرتا ہوں یعنی ہر طرح کی خواہشات سے بے فکر ہوں، میخانے سے پیوستہ ہوں اور اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتا۔
------
(34)
دل باز گرفتارِ نگارے شدہ است
از فکر و غمِ لالہ عذارے شدہ است
من پیر و دلم ذوقِ جوانی دارد
ہنگامِ خزاں جوشِ بہارے شدہ است
دل ایک بار پھر محبوب کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہے، اور اس لالہ رخ کے فکر و غم میں مبتلا ہو گیا ہے۔ میں بوڑھا ہوں لیکن میرا دل ذوقِ جوانی رکھتا ہے۔ یعنی خزاں کے ہنگام میں جوشِ بہاری پیدا ہو گیا ہے۔
------
(35)
از مردمِ دنیا و ز دنیا وحشت
ہرچند بگیری، نہ کف آری راحت
ہنگامِ بہار و ہم خزانش دیدم
در باغِ جہاں نیست گُلے جز عبرت
دنیا کے لوگوں اور دنیا سے وحشت اور دُوری ہی بہتر ہے۔ ہرچند کہ کہ تو اس کو چاہے اور حاصل کر لے ازلی راحت تیرے ہاتھ نہ آئے گی بلکہ دنیاوی خواہشات بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ میں نے بہار کے ہنگامے اور اسکی خزاں کے جلوے سب دیکھے ہیں لیکن دنیا کے باغ میں کوئی پھول نہیں ہے بجز عبرت کے پھول کے۔
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔