ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدل برصغیر پاک و ہند کی فارسی شاعری کا ایک لازوال نام ہیں، صوفیِ با صفا مرزا بیدل اُس دور کی روایت کے برعکس سلاطین اور بادشاہوں کے درباروں پر نہ جھکے اور نہ انکی شان میں مبالغہ آمیز قصیدے کہے بلکہ جب ایک شہزادے نے قصیدہ کہنے کی فرمائش کی تو نوکری چھوڑ دی۔
بیدل کی شاعری خیال آفرینی کی شاعری ہے، ان کے دور میں شاعری کی پامال روش سے تنفر پیدا ہو چکا تھا اور “تازہ گوئی” کا چرچا تھا اور بیدل اسکے امام ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے علاوہ، افغانستان میں اب بھی بیدل کا وہی مقام ہے جو یہاں اقبال کا ہے کہ ہر پڑھے لکھے گھر میں بیدل کے کلیات ضرور ملیں گے۔ ایرانی شعراء اور نقاد کچھ عرصہ قبل تک سبکِ ہندی کے تمام شاعروں بشمول بیدل، عرفی اور غالب وغیرہ کو سرے سے شاعر ہی نہیں مانتے تھے کہ لیکن اب ہوا بدل رہی ہے اور تہران میں بیدل کے عرس کے موقع پر بین الاقوامی کانفرنسیں منقعد ہوتی ہیں۔
اپنی پسند کے چند اشعار درج کرتا ہوں۔
--------
بحرفِ ناملائم زحمتِ دل ہا مَشَو بیدل
کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا
بیدل، تلخ الفاظ (ناروا گفتگو) سے دلوں کو تکلیف مت دے، کہ جہاں کہیں بھی کوئی پتھر ہوتا ہے وہ شیشے کا دشمن ہی ہوتا ہے۔
————
بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر، در دلِ دریا کراں
میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔
————
چنیں کُشتۂ حسرتِ کیستَم من؟
کہ چوں آتش از سوختن زیستَم من
میں کس کی حسرت کا کشتہ ہوں کہ آتش کی طرح جلنے ہی سے میری زیست ہے۔
اگر فانیَم چیست ایں شورِ ھستی؟
و گر باقیَم از چہ فانیستَم من؟
اگر میں فانی ہوں تو پھر یہ شور ہستی کیا ہے اور اگر باقی ہوں تو پھر میرا فانی ہونا کیا ہے۔
نہ شادم، نہ محزوں، نہ خاکم، نہ گردوں
نہ لفظَم، نہ مضموں، چہ معنیستم من؟
نہ شاد ہوں نہ محزوں ہوں، نہ خاک ہوں نہ گردوں ہوں، نہ لفظ ہوں، نہ مضموں ہوں، (تو پھر) میرے معانی کیا ہیں میری ہونے کا کیا مطلب ہے۔
————
رباعی
بیدل رقمِ خفی جلی می خواھی
اسرارِ نبی و رمزِ ولی می خواھی
خلق آئنہ است، نورِ احمد دَریاب
حق فہم، اگر فہمِ علی می خواھی
بیدل، تُو پنہاں اور ظاہر راز (جاننا) چاہتا ہے، نبی (ص) کے اسرار اور ولی (ع) کی رمزیں جاننا چاہتا ہے۔ (تو پھر) خلق آئینہ ہے، احمد (ص) کا نور اس میں دیکھ، اور حق کو پہچان اگر علی (ع) کو پہچاننا چاہتا ہے۔
————
حاصِلَم زیں مزرعِ بے بَر نمی دانم چہ شُد
خاک بُودَم، خُوں شُدَم، دیگر نمی دانم چہ شُد
اس بے ثمر کھیتی (دنیا) سے نہیں جانتا مجھے کیا حاصل ہوا، خاک تھا، خوں ہو گیا اور اسکے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ کیا ہوا۔
دی مَن و صُوفی بہ درسِ معرفت پرداختیم
از رقم گم کرد و مَن دفتر نمی دانم چہ شُد
کل (روزِ ازل؟) میں اور صوفی معرفت کا سبق لے رہے تھے، اُس نے لکھا ہوا گم کر دیا اور میں نہیں جانتا کہ وہ درس (تحاریر، دفتر) کیا تھا۔
————
دل خاکِ سرِ کوئے وفا شُد، چہ بجا شُد
سر در رہِ تیغِ تو فدا شُد، چہ بجا شُد
(ہمارا) دل، کوئے وفا کی خاک ہوگیا، کیا خوب ہوا، اور سر تیری راہ میں تیری تلوار پر فدا ہوگیا، کیا خوب ہوا۔
————
با ہر کمال اندَکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش
ہر کمال کے ساتھ ساتھ تھوڑی آشفتگی (عشق، دیوانگی) بھی اچھی (ضروری) ہے، ہر چند کہ تُو عقلِ کُل ہی ہو جائے، جنون کے بغیر مت رہ۔
————
عالم بہ وجودِ من و تو موجود است
گر موج و حباب نیست، دریا ھم نیست
یہ عالم میرے اور تیرے وجود کی وجہ سے موجود ہے، اگر موج اور بلبلے نہ ہوں تو دریا بھی نہیں ہے۔
————
بسازِ حادثہ ہم نغمہ بُودن آرام است
اگر زمانہ قیامت کُنَد تو طوفاں باش
حادثہ کے ساز کے ساتھ ہم نغمہ ہونا (سُر ملانا) ہی آرام ہے، اگر زمانہ قیامت بپا کرتا ہے تو تُو طوفان بن جا۔
————
اگر عشقِ بُتاں کفر است بیدل
کسے جُز کافر ایمانی ندارَد
بیدل اگر عشقِ بتاں کفر ہے تو کافر کے سوا کوئی ایمان نہیں رکھتا۔
————
چہ لازم با خِرَد ھم خانہ بُودَن
دو روزے می تواں دیوانہ بُودَن
کیا ضروری ہے کہ ہر وقت عقل کے ساتھ ہی رہا جائے (عقل کی بات ہی سنی جائے)، دو روز دیوانہ بن کر بھی رہنا چاہیئے۔
اور اسی شعر کا پر تو اقبال کے اس شعر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
————
بُوئے گُل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزمِ تو برخاست، پریشاں برخاست
غالب نے کہا تھا کہ
طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
لیکن بیدل کے اس شعر کے ساتھ مرزا نے عجب ہی قیامت ڈھائی ہے کہ ہو بہو ترجمہ لکھ ڈالا، یعنی
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
Nov 11, 2008
مرزا عبدالقادر بیدل کے چند اشعار مع ترجمہ
متعلقہ تحاریر : عبدالقادر بیدل,
فارسی شاعری
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
نہایت زبردست مضمون ہے۔ غالب جیسے شخص سے چوری کی توقع تو نہیں کی جا سکتی۔ لگتا ہے توارد ہوا ہو گا جس سے غالب لاعلم رہے۔ کیا خیال ہے آپ کا؟
ReplyDeleteنوازش آپ کی کاشف صاحب تحریر پسند فرمانے کیلیے۔ اور آپ کی رائے سے متفق ہوں، غالب عظیم ترین شاعر ہے اور یہ توارد ہی ہو سکتا ہے۔
Deleteوالسلام
توارد نہیں ترجمہ ہے
Deleteبیدل کو انہوں نے خوب پڑھا اور سمجھا
بہت خوب جناب۔ :)
ReplyDeleteشکریہ حسان صاحب
Deleteاللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے کیا خوبصورت ٰکام کیا ہے آپ نے اس انگریزی دانی او ر حرص و ہوس کی دنیا میں بیدل کا کلام ،واہ کیا خوب پھر کہوں گا اللہ اآپ کو جزائے خیر عطا فرمائے
ReplyDeleteنوازش آپ کی احسن سیلانی صاحب، بہت شکریہ آپ کا۔
Deleteمیں آپ کو اپنا کلام پوسٹ کر رہا ہوں کوئی عروضی و فنی اغلاط ہوں تو درست فرماد یں
ReplyDeleteموجِ نفسِ شیفتہ سے خار بھی ہیں گُلبدن
ReplyDeleteمردِ خود بین و جہاں آرا فروغ ِِ انجمن
کلام سیلانی سے انتخاب
قرطاس پبلشرز
2008
جی یہ شعر وزن میں ہے۔
Deleteمیرا تعارف
ReplyDeleteمیں غلامِ سید نصیر ہوں
شکریہ سید صاحب محترم
Deleteتوارد نہ بھی ہو تو ترجمہ سمجھ لیجئے، کہ غالب کی وجہ سے ہی مجھ سا کم علم اس شعر سے لطف اندوز ہو سکا،
ReplyDeleteبجا فرمایا آپ نے، ویسے بھی مجھے آج تک مذکورہ شعر بیدل کے کلیات میں نہیں مل سکا۔
Deleteماشآء اللہ۔
ReplyDeleteاس دور میں بہت ضرورت ہے اس کی کہ ان اساتزہ کے کلام سے مجھ جیسے کم علموں کو متعارف کرایا جائے۔۔ شکریہ ۔
آپ کا بھی شکریہ قبلہ محترم۔
Deleteمیں نہیں جانتا کہ تو کیا هے
ReplyDeleteعالم هو میں من کی جو کیا هے
لگتا ہے کہ بوئے گل نالہ دل والا شعر کلیات بیدل میں نہیں ہے۔ کیا آپ رہنمائی کریں گے کہ اس غزل کا مطلع کیا ہے
ReplyDeleteجی میں بھی بہت عرصے سے اس کی تلاش میں ہوں، کلیاتِ بیدل میں ابھی تک تو نہیں ملا۔
Delete:)
جناب سید نصیر الدین نصیر نے انکا ایک شعر پڑھا تھا فارسی کا ۔ مجھے وہ پورا شعر چاھیے اسکے ٹوٹے پھوٹے الفاظ یہ ہیں۔
ReplyDeleteبرزلہ ایمائے دا ہر چن دتنی دیم"
جی افسوس میرے علم میں نہیں ہے۔
DeleteAapne bahut achcha article likhaa hai. Padhkar man khush ho gaya hai. Mere rom rom se aapke liye dua nikal rahi hai. Bedil ke liye meri pyaas aapne thodi si bujhaaii. Man bisiyaar mamnoon hastam biradar e azeez
ReplyDeleteبہت شکریہ جناب، نوازش آپ کی۔
Deleteمرزا عبدالقادر بیدل کے اشعار کا ترجمہ مکمل مل سکتا ہے کیا؟؟
ReplyDeleteجی مکمل دیوان کا تو ترجمہ شاید نہیں ہوا لیکن ان کے منتخب اشعار کا ترجمہ ضرور مل جائے گا۔
Deleteاسلام وعلیکم حضور !
ReplyDeleteگزارش ہے کہ بیدل دہلوی کے "گنجور" نامی مجموعے کا اردو ترجمہ دستیاب ہو گا؟
جی گنجور تو ایک ویب سائٹ کا نام ہے جہاں پر فارسی شعرا کا کلام ہے۔ دیوان بیدل کا مکمل اردو ترجمہ شاید نہیں ہے لیکن منتخب غزلیات کا ترجمہ کہیں نے کہیں سے ضرور مل جائے گا۔ آپ کو اردو بازار میں تلاش کرنا پڑے گا۔ سید نصیر الدین نصیر نے بھی بیدل کے کچھ کلام کا شاید ترجمہ کر رکھا ہے۔
Deleteوالسلام
بیدل بہ ہر کجا رگ ابری نشان دہند
ReplyDeleteدر ماتم حسین و حسن گریہ می کند
اس شعر کا رواں ترجمہ درکار ہے۔۔نیز اگر ہوسکے تو پوری غزل یا نظم یا قصیدہ بھیج دیں۔۔شکریہ
Great job. Stay blessed. Prof. Muhammad Aslam Gondal
ReplyDeleteشکریہ پروفیسر صاحب
Deleteوارث صاحب بہت خوب
ReplyDeleteو١رث صاحب کیا بیدل کی اس غزل کاترجمہ کرو دیں گے
ReplyDeleteمن سنگدل چه اثر برم زحضور ذکر دوام او
چو نگین نشد که فرو روم بخود از خجالت نام او
سخن آب گشت و عبارتی نشگافت رمز تبسمش
تگ و تاز حسرت موج می نرسید تا خط جام او
نه سری که سجده بنا کند نه لبی که ترک ثنا کند
بکدام مایه ادا کند عدم ستمزده وام او
به بیانم آنطرف سخن بتامل آنسو وهم و ظن
زچه عالمم که بمن زمن نرسید غیر پیام او
تگ و پوی بیهده یافتم بهزار کوچه شتافتم
دری از نفس نشگافتم که رسم بگرد خرام او
بهوا سری نکشیده ام به نشیمنی نرسیده ام
زپر شکسته تنیده ام بخیال حلقه دام او
نه دماغ دیده گشودنی نه سر فسانه شنودنی
همه را ربوده غنودنی بکنار رحمت عام او
زحسد نمیرسی ای دنی بعروج فطرت (بیدلی)
تو معلم ملکوت شو که نه ئی حریف کلام او
جی میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔
ReplyDeleteشکریہ وارث صاحب۔
ReplyDeleteآپ نے۔جو یہ اشعار لاے ہیں انکی رفرنس چاہے
ReplyDeleteرفرنس چاہچاہتے ہے ہم
ReplyDeleteسرکار اگر ان اشہار کی خاص کر جس کے متعلق آپ نے کہا کہ غالب نے ترجمہ کیا ہے، اس کا ریفرینس زرا عنایت کریں۔۔ نوازش ہوگی۔
ReplyDeleteڈاکٹر تقی عابدی کی کتاب سے لیا تھا، بیدل کے دیوان میں نہیں ہے، میں نے ڈاکٹر تقی عابدی صاحب سے بھی پوچھا تھا لیکن جواب نہیں ملا۔
Delete