Showing posts with label فارسی شاعری. Show all posts
Showing posts with label فارسی شاعری. Show all posts

Apr 2, 2012

رباعیاتِ سرمد شہید مع اردو ترجمہ -۳


(13)
سرمد اگرش وفاست خود می آید
گر آمدنش رواست خود می آید
بیہودہ چرا درپئے اُو می گردی
بنشیں، اگر اُو خداست خود می آید

سرمد اگر وہ با وفا ہے تو خود ہی آئے گا۔ اگر اس کا آنا روا اور ممکن ہے تو وہ خود ہی آئے گا۔ تُو کاہے اسکی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، آرام سے بیٹھ رہ، اگر وہ خدا ہے تو خود ہی آئے گا۔


(14)
از جُرم فزوں یافتہ ام فضل ترا
ایں شد سببِ معصیتِ بیش مرا
ہر چند گنہ بیش، کرم بیش تر است
دیدم ہمہ جا و آزمودم ہمہ را

میرے گناہوں سے تیرا فضل بہت بڑھ کے ہے اور میرے گناہ اسی وجہ سے زیادہ ہیں۔ ہر چند کہ میرے گناہ بہت زیادہ ہیں لیکن تیرا کرم ان سے بہت ہی زیادہ ہے اور یہی بات میں نے ہر جگہ دیکھی ہے اور یہی بات ہر کسی کا تجربہ ہے۔

(15)
دیوانہٴ رنگینیِ یارِ دگرم
حیرت زدہٴ نقش و نگارِ دگرم
عالم ہمہ در فکر و خیالِ دگر است
من در غم و اندیشہٴ کارِ دگرم

میں کسی اور ہی محبوب کی رنگینی کا دیوانہ ہوں۔ میں کسی اور ہی کے نقش و نگار سے حیرت زدہ ہوں۔ ساری دنیا اوروں کے خیال میں محو ہے جبکہ میں اور ہی طرح کے غموں میں مگن ہوں۔

(16)
مشہور شدی بہ دلربائی ہمہ جا
بے مثل شدی در آشنائی ہمہ جا
من عاشقِ ایں طورِ تو ام، می بینم
خود را نہ نمائی و نمائی ہمہ جا

ہر جگہ تیری دلربائی کہ وجہ سے تیرے چرچے ہیں، اور آشنائی میں بھی تو بے مثل ہے۔ میں تیرے انہی طور طریقوں پر عاشق ہوں اور دیکھتا ہوں کہ تُو خود کو عیاں نہیں کرتا اور ہر جگہ عیاں بھی ہے۔
mazar, sarmad, shaheed, mazar sarmad shaheed, persian, persian poetry, farsi, farsi poetry, rubai, مزار، مزار سرمد شہید، سرمد، شہید، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی
مزار سرمد شہید mazar sarmad shaheed
(17)
اے جلوہ گرِ نہاں، عیاں شو بدر آ
در فکر بجستیم کہ ہستی تو کجا
خواہم کہ در آغوش وکنارت گیرم
تاچند تو در پردہ نمائی خود را

اے تو کہ جو پردوں کے پیچھے ہے، ظاہر ہو اور سامنے آ، میں اسی فکر میں سرگرداں رہتا ہوں کہ تیری ہستی کیا ہے۔  میری خواہش ہے کہ تیرا وصال ہو اور میں تجھے چھوؤں اور اپنی آغوش میں لوں، یہ پردوں کے پیچھے سے اپنے آپ کو نمایاں کرنا کب تک۔

(18)
ہرچند کہ صد دوست بہ من دشمن شُد
از دوستیِ یکے دلم ایمن شد
وحدت بگزیدم و ز کثرت رستم
آخر من ازو شدم و اُو از من شد

اگرچہ سینکڑوں دوست میرے دشمن بن گئے لیکن ایک کی دوستی نے  میری روح کو امن و قرار دے دیا (اور مجھے سب سے بے نیاز کر دیا)۔ میں نے ایک کو پکڑ لیا اور کثرت کو چھوڑ دیا اور آخرِ کار میں وہ بن گیا اور وہ میں بن گیا۔

(19)
دنیا نَشَود آخرِ دم بہ تو رفیق
در راہِ خدا کوش، رفیق است شفیق
خواہی کہ بسر منزلِ دلدار رسی
گفتم بہ تو اے دوست، ہمیں است طریق

دنیا تیرے آخری دموں تک تیری رفیق نہیں بنے گی لیکن خدا کی راہ میں لگا رہ کہ جو نہ صرف رفیق ہے بلکہ شفیق بھی ہے۔ اگر تو چاہتا کہ اپنے دلدار تک پہنچے تو پھر اے دوست تجھ سے یہی کہتا ہوں کہ طریقہ یہی ہے (جو میں نے تجھے بتایا)۔

(20)
ہر نیک و بدے کہ ہست در دستِ خداست
ایں معنیٴ پیدا و نہاں در ہمہ جاست
باور نہ کنی اگر دریں جا بنگر
ایں ضعفِ من و قوّتِ شیطاں ز کجاست

ہر نیکی اور بدی جو کچھ بھی ہے سب خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ بات چاہے ظاہر ہو یا چھپی ہوئی ہر جگہ ہے، اگر تو اس بات کا یقین نہیں کرتا تو میری طرف دیکھ کہ یہ میرا ضعف اور شیطان کی قوت کہاں سے آئی ہے۔

حصہٴ اول
حصہٴ دوم
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 17, 2012

متفرق فارسی اشعار - 5

غلط گفتی "چرا سجّادۂ تقویٰ گِرو کردی؟"
بہ زہد آلودہ بودم، گر نمی کردم، چہ می کردم؟

(یغمائے جندقی)

تُو نے یہ غلط کہا ہے کہ "پارسائی کا سجادہ (پیر مغاں کے پاس) گروی کیوں رکھ دیا؟"۔ میں زہد سے آلودہ ہو گیا تھا اگر ایسا نہ کرتا تو کیا کرتا؟
-----

حافظ از بادِ خزاں در چمنِ دہر مرنج
فکرِ معقول بفرما، گلِ بے خار کجاست

(حافظ شیرازی)

حافظ، زمانے کے چمن میں خزاں کی ہوا سے رنج نہ کر، صحیح بات سوچ، بغیر کانٹے کے پھول کہاں ہے؟
-----

شمع خود را می گدازَد درمیانِ انجمن
نورِ ما چوں آتشِ سنگ از نظر پنہاں خوش است

(میر رضی دانش)

شمع انجمن میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے (اور صبح تک ختم ہو جاتی ہے)، ہمارا نور آتشِ سنگ کی طرح نظر سے پنہاں ہے لیکن اچھا ہے (کہ دائمی ہے)۔
-----

مَپُرس وجہ سوادِ سفینہ ہا غالب
سخن بہ مرگِ سخن رس سیاہ پوش آمد

غالب، میری بیاضوں کی سیاہی کا سبب مت پوچھ، (کہ میری) شاعری سخن شناس انسانوں کی موت پر سیاہ (ماتمی) لباس پہنے ہوئے ہے۔

(غالب دھلوی)
-----

شاخِ نہالِ سدرۂ، خار و خسِ چمن مَشو
منکرِ او اگر شدی، منکرِ خویشتن مشو

(علامہ اقبال)

تُو سدرہ کے پودے کی شاخ ہے، چمن کا کوڑا کرکٹ مت بن، اگر تُو اُس کا منکر ہو گیا ہے تو اپنا منکر تو نہ بن۔
-----
جاں بہ جاناں کی رسد، جاناں کُجا و جاں کُجا
ذرّه است ایں، آفتاب است، ایں کجا و آں کجا

(ھاتف اصفہانی)

(اپنی) جان، جاناں پر کیا واروں کہ جاناں کہاں اور (میری) جان کہاں۔ یہ (جان) ذرہ ہے، (وہ جاناں) آفتاب ہے، یہ کہاں اور وہ کہاں۔
-----

رباعی

در کعبہ اگر دل سوئے غیرست ترا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دیرست ترا
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکده ‌ای
مے نوش کہ عاقبت بخیرست ترا

(ابوسعید ابوالخیر)

کعبہ میں اگر تیرا دل غیر کی طرف ہے، (تو پھر) تیری ساری طاعت بھی سب فسق ہے اور کعبہ بھی تیرے لیے بتخانہ ہے۔ اور (اگر) تیرا دل خدا کی طرف ہے اور تو (چاہے) میکدے میں رہتا ہے تو (بے فکر) مے نوش کر کہ (پھر) تیری عاقبت بخیر ہے۔
-----

من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری

(امیر خسرو دہلوی)

میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔
-----

دل کہ جمع است، غم از بے سر و سامانی نیست
فکرِ جمعیّت اگر نیست، پریشانی نیست

(نظیری نیشاپوری)

دل (خاطر) جمع ہے، سو بے سر و سامانی کا کوئی غم نہیں ہے، اگر جمع کرنے کی فکر نہ ہو تو (دنیا میں) کوئی پریشانی نہیں ہے۔
-----

آں کیست نہاں در غم؟ ایں کیست نہاں در دل؟
دل رقص کناں در غم، غم رقص کناں در دل

(جگر مراد آبادی، شعلۂ طور)

وہ کیا ہے جو غم میں چُھپا ہے، یہ کیا ہے جو دل میں چُھپا ہے، (کہ) دل غم میں رقص کناں ہے، اور غم دل میں رقص کناں ہے۔
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 23, 2012

رباعیاتِ سرمد شہید مع اردو ترجمہ - ۲

سرمد شہید کی کچھ مزید رباعیات، پہلی پوسٹ اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

(6)
صد شُکر کہ دلدار ز من خوشنُود است
ہر دم بہ کرم و ہر نفَس در جُود است
نقصاں بہ من از مہر و محبت نہ رسید
سودا کہ دلم کرد، تمامش سُود است

خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہمارا دلدار ہم سے خوش ہے۔ ہر دم اور ہر لحظہ اسکے جوُد و کرم مجھ پر ہیں۔ اس مہر و محبت میں مجھے ذرہ بھر نقصان نہیں پہنچا کہ میرے دل نے جو سودا کیا ہے وہ تمام کا تمام منافع ہی ہے۔
mazar, sarmad, shaheed, mazar sarmad shaheed, persian, persian poetry, farsi, farsi poetry, rubai, مزار، مزار سرمد شہید، سرمد، شہید، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی
مزار سرمد شہید mazar sarmad shaheed
(7)
آں شوخ بہ من نظر نہ دارَد، چہ کُنَم
آہِ دلِ من اثر نہ دارَد، چہ کُنَم
با آنکہ ہمیشہ در دلم می مانَد
از حالِ دلم خبر نہ دارَد، چہ کُنَم

وہ شوخ ہم پر نظر ہی نہیں کرتا، کیا کروں۔ میرے دل کی آہ کچھ اثر ہی نہیں رکھتی، کدھر جاؤں۔ وہ کہ جو ہمیشہ میرے دل میں جا گزیں ہے، اسے میرے دل کے حال کی کچھ خبر ہی نہیں ہے، ہائے کیا کروں، کدھر جاؤں۔

(8)
ہر چند گل و خار دریں باغ خوش است
بے یار دل از باغ نہ از راغ خوش است
چوں خونِ دلم، لالہ بہ بیں در رنگست
ایں چشم و چراغ نیز با داغ خوش است

ہرچند کہ اس گلستان میں پھول اور  کانٹے خوب ہیں لیکن دوست کے بغیر دل نہ گلستان سے خوش ہے اور نہ ہی چمن زار سے۔ دیکھو کہ لالہ کا رنگ میرے دل کے خون کی طرح ہے، لیکن چمنستان کا یہ چشم و چراغ خوبصورت اسی وجہ سے ہے کہ اس کے دل میں بھی داغ ہے۔

(9)
دُوری نَفَسے مرا از اُو ممکن نیست
ایں یک جہتی بہ گفتگو ممکن نیست
اُو بحر، دلم سبوست، ایں حرفِ غلط
گنجائشِ بحر در سبو ممکن نیست

اس سے ایک لمحے کے لیے بھی دُوری میرے لیے ممکن نہیں، اور یہ یک جہتی باتوں باتوں میں ممکن نہیں۔ وہ سمندر ہے، میرا دل پیمانہ ہے، یہ سب باتیں غلط، کیونکہ سبو میں سمندر کی گنجائش ممکن ہی نہیں۔

(10)
دلخواہ نہ شد دو چار بارے بہ جہاں
غمخوار نہ دیدیم بکارے بہ جہاں
آں گل کہ دہد بوئے وفا نایاب است
کُن سیرِ خزانے و بہارے بہ جہاں

اس دنیا میں جسے میرا دل چاہتا ہے ایک بار بھی نہیں ملا اور نہ ہی یہاں کوئی غمخوار ملا ہے۔ وہ پھول کہ جس سے بوئے وفا آتی ہو نایاب ہے، چاہے تم اس جہان کی خزاں میں سیر کر لو چاہے بہار میں۔

(11)
تنہا نہ ہمیں دیر و حرم خانہٴ اُوست
ایں ارض و سما تمام کاشانہٴ اُوست
عالم ہمہ دیوانہٴ افسانہٴ اُوست
عاقل بوَد آں کسے کہ ویوانہٴ اُوست

صرف یہ دیر و حرم ہی اسکے ٹھکانے نہیں ہیں بلکہ یہ تمام ارض و سماوات اسکے کاشانے ہیں۔ ساری دنیا اسکے افسانوں میں کھوئی ہوئی ہے لیکن عقل مند وہی ہے جو صرف اسکا دیوانہ ہے۔


(12)
سرمد در دیں عجب شکستے کردی
ایماں بہ فدائے چشمِ مستے کردی
با عجز و نیاز، جملہ نقدِ خود را
رفتی و نثارِ بُت پرستے کردی

سرمد تو نے مذہب میں عجب شکست و ریخت کر دی کہ اپنا ایمان ان مست نظروں پر قربان کر دیا اور اپنا  سب کا سب (دین و دنیا کا) سرمایہ بُت پرست پر عجز و نیاز کے ساتھ نثار کر دیا۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 16, 2012

کہ چوب و تار و صدائے تنن تنن ہمہ اُوست - غزل شاہ نیاز احمد

شاہ نیاز احمد بریلوی (رح) سلسلہٴ چشتیہ نظامیہ کے ایک نامور صوفی تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اردو اور فارسی کے بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ اور دہلی میں نامور اردو شاعر اور مسلم الثبوت استاذ، مصحفی کے استاذ تھے جیسا کہ مصحفی نے خود اپنی کتاب "ریاض الفصحاء" میں ذکر کیا ہے۔ انہی شاہ نیاز کی ایک خوبصورت فارسی غزل آپ دوستوں کی خدمت میں پیش کررہا ہوں جو کہ صوفیا کے مشہور و معروف نظامِ فکر "ہمہ اوست" کی نمائندگی کرتی ہے اور جس کی بازگشت عراقی اور رومی سے لیکر متاخرین تک کے تمام صوفی شعراء کے کلام میں دیکھی جا سکتی ہے۔

شاہ نیاز کی یہ غزل، پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اپنی مشہور کتاب "تاریخِ مشائخِ چشت" میں درج کی ہے۔ شاہ صاحب کی شاعری اور مصحفی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔۔

"جب مصحفی لکھنؤ چلے گئے اور ان کے شاعرانہ کمالات کا شہرہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے کانوں تک پہنچا تو اپنی ایک غزل مصحفی کو لکھ کر بھیجی۔"

نظامی صاحب نے یہ غزل بغیر اردو ترجمے کے درج کی ہے سو ترجمہ لکھ رہا ہوں اور کسی کمی بیشی کیلیے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔

کسیکہ سرّ ِ نہاں است۔۔۔۔۔۔۔۔ہمہ اُوست
عروسِ خلوت و ہم شمعِ انجمن ہمہ اُوست


افسوس کہ یہ خوبصورت مطلع، مصرعِ اولیٰ کے ایک یا دو الفاظ نہ ہونے کی وجہ سے نامکمل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پروفیسر نظامی صاحب کو بھی یہ مصرع مکمل نہ ملا ہو یا پھر ناشر کی کارستانی بھی ہو سکتی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ شاہ نیاز کا دیوان شائع ہو چکا ہے لہذا دوستوں سے گذارش ہے کہ اگر کسی کے پاس شاہ نیاز کا دیوان ہو اور اس میں یہ غزل ہو تو مکمل مصرع عطا فرما کر مشکور ہوں۔ دوسرے مصرعے کا مطلب کچھ یوں ہے کہ تنہائی کی رونق اور سرخوشی بھی وہی ہے اور شمعِ انجمن بھی وہی ہے۔

ز مصحفِ رُخِ خوباں ہمیں موذِ رقم
کہ خط و خال و رُخ و زلفِ پُر شکن ہمہ اُوست


رُخِ خوباں کے مصحف پر یہی رقم ہے کہ خط و خال اور رخ اور زلفِ پُر شکن سبھی کچھ وہی ہے۔ موذ لفظ باوجود تلاش کے کسی لغت میں نہیں ملا، اسکا مطلب کسی دوست کے علم میں ہو تو مطلع فرما کر مشکور ہوں۔

نظر بہ عیب مکن در ظہورِ باغِ وجود
کہ طوطیانِ چمن و زاغ و ہم زغن ہمہ اُوست


اس وجود کے گلستان کے ظاہر پر عیب کی نظر مت ڈال کہ طوطیان چمن بھی وہی ہے اور زاغ و زغن بھی وہی ہے۔

از سرّ ِ عشق چو واقف شوی، یقیں دانی
کہ قیس و لیلیٰ و شیریں و کوہ کن ہمہ اُوست


جب تُو عشق کے اسرار سے واقف ہو جائے تو یقین کر لے کہ قیس بھی وہی ہے اورو لیلیٰ بھی، شیریں بھی وہی ہے اور فرہاد بھی۔
Shah Niaz Ahmed, Farsi, Farsi with urdu translation, persian, persian poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، شاہ نیاز احمد بریلوی
مزار شاہ نیاز احمد، بریلی، ہندوستان
Mazar Shah Niaz Ahmed
شنیدہ ام بہ صنم خانہ از زبانِ صنم
صنم پرست و صنم گر و صنم شکن ہمہ اُوست


میں نے صنم خانے میں صنم کی زبان سے سنا ہے کہ صنم پرست بھی وہی ہے اور صنم گر بھی وہی ہےا ور صنم شکن بھی وہی ہے۔

رساند مطربِ خوش گو ہمیں ندا در گوش
کہ چوب و تار و صدائے تنن تنن ہمہ اُوست


مطربِ خوش گو کی یہی آواز ہمارے کانوں تک پہنچی ہے کہ (ساز کی ) چوب بھی وہی ہے اور تار بھی اور صدائے تنن تنن بھی وہی ہے۔
---------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 14, 2012

سرمد شہید کی رباعیات - ١

سرمد شہید کا اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھوں قتل مذہب کے پردے میں ایک سیاسی قتل تھا، جیسا کہ مؤرخین اور صوفیاء کا خیال ہے اور علماء میں سے بھی امامِ الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی ایسا ہی لکھا ہے اور مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے بھی "رودِ کوثر" میں سرمد شہید کے حالات کے تحت اس واقعے پر روشنی ڈالی ہے۔ سرمد شہید کے قتل کی اصل وجہ انکی اورنگ زیب عالمگیر کے صوفی منش بھائی شہزادہ دارا شکوہ سے مصاحبت تھی لیکن الزام کفر اور زندقہ کا لگا۔ خیر یہاں مقصودِ نظر مذہب اور سیاست نہیں ہے بلکہ سرمد شہید کی شاعری ہے۔ سرمد شہید ایک انتہائی اچھے شاعر تھے۔ انکی رباعیات انتہائی پُر لطف اور پُر کیف ہیں اور سوز و مستی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

سرمد شہید کی کچھ رباعیات اپنے ٹوٹے پھوٹے ترجمے کے ساتھ پیش کر رہا ہوں، امید ہے اہلِ علم ترجمے کی فروگزاشات سے صرفِ نظر کریں گے کہ خاکسار ترجمے کی جرات فقط اپنے قارئین کیلیے کرتا ہے۔

(1)
سرمد غمِ عشق بوالہوس را نہ دہند
سوزِ دلِ پروانہ مگس را نہ دہند
عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
ایں دولتِ سرمد ہمہ کس را نہ دہند

اے سرمد، غمِ عشق کسی بوالہوس کو نہیں دیا جاتا۔ پروانے کے دل کا سوز کسی شہد کی مکھی کو نہیں دیا جاتا۔ عمریں گزر جاتی ہیں اور پھر کہیں جا کر یار کا وصال نصیب ہوتا ہے، یہ سرمدی اور دائمی دولت ہر کسی کو نہیں دی جاتی۔
--------

(2)
سرمد تو حدیثِ کعبہ و دیر مَکُن
در کوچۂ شک چو گمرہاں سیر مَکُن
ہاں شیوہٴ بندگی ز شیطان آموز
یک قبلہ گزیں و سجدۂ غیر مَکُن

سرمد تو کعبے اور بُتخانے کی باتیں مت کر، شک و شبہات کے کوچے میں گمراہوں کی طرح سیر مت کر، ہاں تو بندگی کا شیوہ شیطان سے سیکھ کہ ایک قبلہ پسند کر لے (پکڑ لے) اور ﴿پھر ساری زندگی﴾ غیر کو سجدہ مت کر۔
--------
mazar, sarmad, shaheed, mazar sarmad shaheed, persian, persian poetry, farsi, farsi poetry, rubai, مزار، مزار سرمد شہید، سرمد، شہید، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی
مزار سرمد شہید mazar sarmad shaheed
(3)
سرمد گلہ اختصار می باید کرد
یک کار ازیں دو کار می باید کرد
یا تن برضائے یار می باید داد
یا قطع نظر ز یار می باید کرد

سرمد گلے شکوے کو مختصر کر دے اور ان دو کاموں میں سے ایک کام کر، یا اپنے آپ کو یار کی رضا پر چھوڑ دے، یا (اگر ہو سکے تو) یار سے قطع نظر کر لے۔
--------

(4)
انتہائی خوبصورت نعتیہ رباعی

اے از رُخِ تو شکستہ خاطر گُلِ سُرخ
باطن ہمہ خونِ دل و ظاہِر گُلِ سرخ
زاں دیر برآمدی ز یُوسُف کہ بباغ
اوّل گُلِ زرد آمد و آخِر گُلِ سُرخ

اے کہ آپ (ص) کے رخ (کے جمال) سے گُلِ سرخ شکستہ خاطر ہے، اُس کا باطن تو سب دل کا خون ہے اور ظاہر گل سرخ ہے۔ آپ (ص) یوسف (ع) کے بعد اس لیئے تشریف لائے کہ باغ میں، پہلے زرد پھول آتا (کھلتا) ہے اور سرخ پھول بعد میں۔
--------

(5)
از منصبِ عشق سرفرازَم کردند
وز منّتِ خلق بے نیازَم کردند
چو شمع در ایں بزم گدازم کردند
از سوختگی محرمِ رازم کردند

مجھے منصبِ عشق سے سرفراز کر دیا گیا، اور خلق کی منت سماجت سے بے نیاز کر دیا گیا، شمع کی طرح اس بزم میں مجھے پگھلا دیا گیا اور اس سوختگی کی وجہ سے مجھے محرمِ راز کر دیا گیا۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 14, 2012

متفرق فارسی اشعار - 4

بسازِ حادثہ ہم نغمہ بُودن آرام است
اگر زمانہ قیامت کُنَد تو طوفاں باش

(مرزا عبدالقادر بیدل)

حادثہ کے ساز کے ساتھ ہم نغمہ ہونا (سُر ملانا) ہی آرام ہے، اگر زمانہ قیامت بپا کرتا ہے تو تُو طوفان بن جا۔
------

گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را

(شاعر: نا معلوم)

کبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کر، اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں۔
------
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,

بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مَجو
در سینہ ہائے مردمِ عارف مزارِ ما

(سعدی شیرازی)

وفات کے بعد میری قبر زمین میں تلاش مت کرنا، کہ عارف لوگوں کہ سینوں میں میرا مزار ہے۔

------
رباعی

خواہی کہ ترا دولتِ ابرار رسَد
مپسند کہ از تو بہ کس آزار رسَد
از مرگ مَیَندیش و غمِ رزق مَخور
کایں ھر دو بہ وقتِ خویش ناچار رسَد

(شیخ ابو سعید ابو الخیر)

اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے نیک لوگوں کی دولت مل جائے (تو پھر) نہ پسند کر کہ تجھ سے کسی کو آزار پہنچے، موت کی فکر نہ کر اور رزق کا غم مت کھا، کیوں کہ یہ دونوں اپنے اپنے وقت پر چار و ناچار (لازماً) پہنچ کر رہیں گے۔
------

حافظ اگر سجدہ تو کرد مکن عیب
کافرِ عشق اے صنم گناہ ندارد

(حافظ شیرازی)

حافظ نے اگر تجھے سجدہ کیا تو کوئی عیب نہیں کہ اے صنم عشق کے کافر پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
------

گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ آں آوارۂ کوئے بتاں، آوارہ تر بادا

(امیر خسرو دہلوی)

اگر اے زاہد تو میرے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو میرے لیے یہ کہہ کہ کوئے بتاں کا آوارہ، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔
------

حاصلِ خاقانی است دفترِ غم ہائے تو
زاں چوں قلم بر درت راہ بہ سر می رود

(خاقانی شروانی)

خاقانی کا حاصل تیرے غموں کے قصے ہیں کہ قلم کی طرح تیرے در کے راستے پر سر کے بل چلتا ہے۔
------

چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردن
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن

(نظیری نیشاپوری)

کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا پھر سے آغاز کرنا، بیتی باتوں کو یاد کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
------

من خکم و من گردم من اشکم و من دردم
تو مہری و تو نوری تو عشقی و تو جانی

(شاہد افلکی)

میں خاک ہوں (تُو آفتاب ہے)، میں گرد و غبار ہوں (تُو نور ہے)، میں آنسو ہوں (تُو عشق ہے)، میں درد ہوں (تُو جان ہے)۔
------

یک نگہ، یک خندۂ دزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دگر

(اقبال لاہوری)

ایک نگاہ، (پھر) ایک زیرِ لب تبسم، (اور اسکے بعد آنکھوں سے بہتا ہوا) ایک چمکتا آنسو، محبت کے پیمان کیلیے اس کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں ہے۔
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 13, 2011

متفرق فارسی اشعار - ۳

شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل
کُجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا

(حافظ شیرازی)

اندھیری رات ہے، اور موج کا خوف ہے اور ایسا خوفناک بھنور ہے۔ ساحلوں کے بے فکرے اور انکی سیر کرنے والے، ہمارا حال کیسے جان سکتے ہیں؟
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
--------
بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر در دلِ دریا کراں

(عبدالقادر بیدل)

میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔
--------

بہیچ گونہ دریں گلستاں قرارے نیست
تو گر بہار شدی، ما خزاں شدیم، چہ شُد؟

(اقبال)

اس گلستان (کائنات) میں کسی بھی چیز کو قرار نہیں ہے، (آج) تو اگر بہار ہے اور ہم خزاں ہیں تو پھر کیا ہوا؟
--------

سلطنت سہل است، خُود را آشنائے فقر کُن
قطرہ تا دریا تَوانَد شُد، چرا گوھر شَوَد

(شہزادہ دارا شکوہ قادری)

حکومت کرنا تو آسان ہے، اپنے آپ کو فقر کا شناسا کر، (کہ) قطرہ جب تک دریا میں نہ جائے گا، گوھر کیسے بنے گا؟
--------

خلق می گوید کہ خسرو بُت پرستی می کُند
آرے آرے می کنم، با خلق ما را کار نیست

(امیر خسرو)

لوگ کہتے ہیں کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں کرتا ہوں مجھے لوگوں سے کوئی کام نہیں ہے۔
--------

تو اے پروانہ، ایں گرمی ز شمعِ محفلے داری
چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری

(فیضی)

اے پروانے تُو نے یہ گرمی محفل کی شمع سے حاصل کی ہے، میری طرح اپنی ہی آگ میں جل (کر دیکھ) اگر دل کا سوز رکھتا ہے۔
--------

وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش

(غالب دہلوی)

وہم نے میری آنکھوں میں خاک ڈال دی اور وہ خاک مجھے بیاباں بن کر نظر آئی۔ ایک قطرہ تھا جو پگھل کر رہ گیا میں نے اسے بحرِ بیکراں کا نام دیا۔
--------

من نگویم کہ مرا از قفَس آزاد کُنید
قفسم بردہ بہ باغی و دلم شاد کنید

(ملک الشعراء بہار)

میں نہیں کہتا کہ مجھے قفس سے آزاد کر دو، (بلکہ) میرا پنجرہ کسی باغ میں لے جاؤ اور میرا دل شاد کر دو۔
--------

قبولِ خاطرِ معشوق شرطِ دیدار است
بحکمِ شوق تماشا مکن کہ بے ادبی است

(عرفی شیرازی)

دوست جس حد تک پسند کرے اسی حد تک نظارہ کرنا چاہیئے، اپنے شوق کے موافق نہ دیکھ کہ یہ بے ادبی ہے۔
--------

گر از بسیطِ زمیں عقل منعدم گردد
بخود گماں نبرد ہیچ کس کہ نادانم

(سعدی شیرازی)

اگر روئے زمین سے عقل معدوم بھی ہو جائے تو پھر بھی کوئی شخص اپنے بارے میں یہ خیال نہیں کرے گا کہ میں نادان ہوں۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 21, 2011

متفرق فارسی اشعار - ۲

دل اسبابِ طرَب گم کردہ، در بندِ غمِ ناں شُد
زراعت گاہِ دہقاں می شَوَد چوں باغ ویراں شُد
(غالب دہلوی)

(میرے) دل نے خوشی و مسرت کے سامان گم کر دیئے (کھو دیئے) اور روٹی کے غم میں مبتلا ہو گیا، (جسطرح کہ) جب کوئی باغ ویران ہو جاتا ہے تو وہ کسان کی زراعت گاہ (کھیت) بن جاتا ہے۔
--------

در کوئے نیک نامی ما را گذر ندادَند
گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را
(حافظ شیرازی)
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
نیک نامی کے کوچے سے ہمیں گزرنے نہ دیا گیا، اگر تمھیں یہ بات پسند نہیں ہے، یعنی ہمارا نیک نام نہ ہونا تو پھر تقدیر کو تبدیل کر دو۔ یہ شعر کچھ تغیر کے ساتھ بھی ملتا ہے جیسا کہ منسلک تصویر میں ہے۔
--------

بحرفِ ناملائم زحمتِ دل ہا مشو بیدل
کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا
(عبدالقادر بیدل)

بیدل، تلخ الفاظ (ناروا گفتگو) سے دلوں کو تکلیف مت دے، کہ جہاں کہیں بھی کوئی پتھر ہوتا ہے وہ شیشے کا دشمن ہی ہوتا ہے۔
--------

ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
(امیر خسرو)

تُو نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے، نرخ زیادہ کرو کہ ابھی بھی یہ کم ہے۔
--------

غلامی
آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد
گوہرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد

یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من ندیدم کہ سگے پیشِ سگے سر خم کرد
(اقبال، پیامِ مشرق)

آدمی اپنی بے بصری (اپنی حقیقت سے بے خبری) کی بنا پر آدمی کی غلامی کرتا ہے، وہ (آزادی و حریت) کا گوہر تو رکھتا ہے لیکن اسے قباد و جمشید (بادشاہوں) کی نذر کر دیتا ہے۔

یعنی اس غلامی کی عادت میں وہ کتوں سے بھی زیادہ خوار ہو جاتا ہے، (کیونکہ) میں نے نہیں دیکھا کہ (کبھی) کسی کتے نے دوسرے کتے کے سامنے سر خم کیا ہو۔
--------

غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کُنَد چشمِ زلیخا را
(غنی کاشمیری)

غنی، پیرِ کنعاں ( یعقوب ع) کے نصیبوں کی سیاہی تو ذرا دیکھ کہ انکی آنکھوں کے نور (یوسف ع) نے روشن کیا تو زلیخا کی آنکھوں کو۔
--------

مرا دو چشمِ تو انداخت در بلائے سیاه
وگرنہ من کہ و مستی و عاشقی ز کجا
(عبید زاکانی)

مجھے تو تیری دو آنکھوں نے سیاہ بلا میں مبتلا کر دیا ہے، وگرنہ میں کیا (کہاں) اور مستی اور عاشقی کہاں۔
--------

من عاشقم، گواہِ من ایں قلبِ چاک چاک
در دستِ من جز ایں سندِ پارہ پارہ نیست
(محمد رضا عشقی)

میں عاشق ہوں اور میرا گواہ یہ دلِ چاک چاک ہے، میرے ہاتھ میں (میرے پاس) اس پارہ پارہ سند کے سوا اور کچھ نہیں۔
--------

گرفتم آں کہ بہشتم دہند بے طاعت
قبول کردن و رفتن نہ شرط انصاف است
(عرفی شیرازی)

میں نے مان لیا کہ مجھے بہشت بغیر عمل کے ہی مل جائے گی لیکن اسے قبول کرنا اور اس میں داخل ہونا انصاف کے خلاف ہے۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 12, 2011

متفرق فارسی اشعار - ١

رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد

(ملک قمی)

میں نے پاؤں سے کانٹا نکالنا چاہا (اور اتنے میں) محمل نظر سے پوشیدہ ہو گیا، میں ایک لمحہ غافل ہوا اور راہ سے سو سال دور ہو گیا۔
--------

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر

(اقبال)
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
اے میرے خدا، تُو دونوں جہانوں کو دینے والا اور بخشنے والا ہے جب کہ میں تیرا ایک فقیر ہوں لہذا روزِ محشر میرے عذر قبول فرما اور مجھے اپنی رحمت سے بخش دے، لیکن اس کے باوجود اگر تو سمجھے کہ میرے اعمال کا حساب کرنا ناگزیر ہے تو پھر مصطفیٰ (ص) کی نگاہ سے مجھے پوشیدہ رکھنا اور میرا حساب انکے سامنے نہ کرنا۔
--------

امیر خسرو کا ایک شعر، جسکا مصرعِ اولٰی انتہائی مشہور ہے

زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من

میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا، کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے منہ میں ہو۔
--------

شورے شُد و از خوابِ عدم چشم کشودیم
دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ، غنودیم

(غزالی مشہدی)

ایک شور بپا ہوا اور ہم نے خوابِ عدم سے آنکھ کھولی، دیکھا کہ شبِ فتنہ ابھی باقی ہے تو ہم پھر سو گئے۔
--------

خلل پزیر بَوَد ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبّت کہ خالی از خلل است

(حافظ شیرازی)

خلل پزیر (بگاڑ والی) ہے ہر وہ بنیاد جو کہ تُو دیکھتا ہے، ما سوائے مَحبّت کی بنیاد کہ وہ (ہر قسم کے) خلل سے خالی ہے۔
--------

خوش بَوَد فارغ ز بندِ کفر و ایماں زیستن
حیف کافر مُردن و آوخ مسلماں زیستن

(غالب دہلوی)

کفر اور ایمان کی الجھنوں سے آزاد زندگی بہت خوش گزرتی ہے، افسوس کفر کی موت پر اور وائے مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے پر۔
--------

رباعی
ہر چند کہ رنگ و روئے زیباست مرا
چوں لالہ رخ و چو سرو بالاست مرا
معلوم نہ شد کہ در طرب خانۂ خاک
نقّاشِ ازل بہر چہ آراست مرا

(عمر خیام نیشاپوری)

ہر چند کہ میرا رنگ اور روپ بہت خوبصورت ہے، میں لالہ کے پھول کی طرح ہوں اور سرو کی طرح بلند قامت ہوں۔ لیکن معلوم نہیں کہ اس مٹی کے گھر میں جس میں نوحے بپا ہیں، قدرت نے مجھے اس قدر کیوں سجایا ہے۔

(پہلے مصرعے میں لفظ 'روئے' کی جگہ 'بُوئے' بھی ملتا ہے)
--------

مَحبّت در دلِ غم دیدہ الفت بیشتر گیرَد
چراغے را کہ دودے ہست در سر زود در گیرَد

(نظیری نیشاپوری)

غم دیدہ دل میں محبت بہت اثر کرتی ہے، (جیسا کہ) جس چراغ میں دھواں ہو (یعنی وہ ابھی ابھی بجھا ہو) وہ بہت جلد آگ پکڑ لیتا ہے۔
--------

اگر عشقِ بُتاں کفر است بیدل
کسے جز کافر ایمانی ندارد

(عبدالقادر بیدل)

بیدل اگر عشقِ بتاں کفر ہے تو کافر کے سوا کوئی ایمان نہیں رکھتا۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 24, 2011

صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار -۲

مشہور فارسی شاعر مرزا محمد علی صائب تبریزی کے کچھ مزید متفرق اشعار

یادِ رخسارِ ترا در دل نہاں داریم ما
در دلِ دوزخ، بہشتِ جاوداں داریم ما

تیرے رخسار کی یاد دل میں چھپائے ہوئے ہیں یعنی دوزخ جیسے دل میں ایک دائمی بہشت بسائے ہوئے ہیں۔
-----

روزگارِ زندگانی را بہ غفلت مگزراں
در بہاراں مست و در فصلِ خزاں دیوانہ شو

زندگی کے دن غفلت میں مت گزار، موسمِ بہار میں مست ہو جا اور خزاں میں دیوانہ۔
-----
Saib Tabrizi, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
یادگار صائب تبریزی، ایران
مشکل است از کوئے اُو قطعِ نظر کردَن مرا
ورنہ آسان است از دنیا گزر کردن مرا

اُس کے کُوچے کی طرف سے میرا قطعِ نظر کرنا مشکل (نا ممکن) ہے، ورنہ دنیا سے گزر جانا تو میرے لیے بہت آسان ہے۔
-----

در چشمِ پاک بیں نبوَد رسمِ امتیاز
در آفتاب، سایۂ شاہ و گدا یکے است

نیک (منصف؟) نگاہیں ایک کو دوسرے سے فرق نہیں کرتیں (کہ) دھوپ میں بادشاہ اور فقیر کا سایہ ایک (جیسا ہی) ہوتا ہے۔

بے ساقی و شراب، غم از دل نمی روَد
ایں درد را طبیب یکے و دوا یکے است

ساقی اور شراب کے بغیر غم دل سے نہیں جاتا کہ اس درد (دردِ دل) کا طبیب بھی ایک ہی ہے اور دوا بھی ایک۔

صائب شکایت از ستمِ یار چوں کند؟
ھر جا کہ عشق ھست، جفا و وفا یکے است

صائب یار کے ستم کی شکایت کیوں کریں کہ جہاں جہاں بھی عشق ہوتا ہے وہاں جفا اور وفا ایک ہی (چیز) ہوتے ہیں۔
-----

ما را دماغِ جنگ و سرِ کارزار نیست
ورنہ دلِ دو نیم کم از ذوالفقار نیست

ہمیں جنگ کا دماغ نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے سر میں لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کا سودا سمایا ہے وگرنہ ہمارا دو ٹکڑے (ٹکڑے ٹکڑے) دل (اللہ کی مہربانی سے) ذوالفقار سے کم نہیں ہے (ذوالفقار: مہروں والی تلور، حضرت علی (ع) کی تلوار کا نام)۔
--------

ز ہر کلام، کلامِ عرب فصیح تر است
بجز کلامِ خموشی کہ افصح از عرب است

عرب کا کلام، ہر کلام سے فصیح تر (خوش بیاں، شیریں) ہے ماسوائے کلامِ خموشی (خاموشی) کے کہ وہ عرب کے کلام سے بھی فصیح ہے (خاموشی کی فضیلت بیان فرمائی ہے)۔
--------

انتظارِ قتل، نامردی است در آئینِ عشق
خونِ خود چوں کوهکن مردانہ می ‌ریزیم ما

عشق کے آئین میں قتل ہونے (موت) کا انتظار نامردی ہے، ہم اپنا خون فرہاد کی طرح خود ہی مردانہ وار بہا رہے ہیں۔
-----

دنیا بہ اہلِ خویش تَرحّم نَمِی کُنَد
آتش اماں نمی دہد، آتش پرست را

یہ دنیا اپنے (دنیا میں) رہنے والوں پر رحم نہیں کھاتی، (جیسے کہ) آگ، آتش پرستوں کو بھی امان نہیں دیتی (انہیں بھی جلا دیتی ہے)۔
-----

سیہ مستِ جنونم، وادی و منزِل نمی دانم
کنارِ دشت را، از دامنِ محمِل نمی دانم

میرا جنون ایسا سیہ مست ہے (اس نے مجھے وہ مدہوش کر رکھا ہے) کہ میں وادی اور منزل کچھ نہیں جانتا، میں دشت کے کنارے اور (محبوب کے) محمل کے دامن میں بھی کوئی فرق نہیں رکھتا، یعنی ان تمام منزلوں سے گذر چکا ہوں۔

من آں سیلِ سبک سیرَم کہ از ہر جا کہ برخیزم
بغیر از بحرِ بے پایاں دگر منزِل نمی دانم

میں ایسا بلاخیز طوفان ہوں کہ جہاں کہیں سے بھی اُٹھوں، بحرِ بے کنار کے علاوہ میری کوئی منزل نہیں ہوتی۔

اگر سحر ایں بُوَد صائب کہ از کلکِ تو می ریزد
تکلف بر طرف، من سحر را باطِل نمی دانم

صائب، اگر جادو یہ ہے جو تیرے قلم کی آواز (شاعری) میں ہے تو تکلف برطرف میں اس سحر کو باطل (کفر) نہیں سمجھتا۔
-----

نہ من از خود، نے کسے از حالِ من دارد خبر
دل مرا و من دلِ دیوانہ را گم کردہ ام

نہ مجھے اپنی اور نہ کسی کو میرے حال کی خبر ہے کہ میرے دل نے مجھے اور میں نے اپنے دیوانے دل کو گم کر دیا ہے۔
---------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 19, 2011

سر سید احمد خان کی ایک فارسی غزل مع ترجمہ

مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے اپنی شاہکار “کوثر سیریز” کی آخری کتاب “موجِ کوثر” میں سر سید احمد خان کی ایک فارسی غزل کے پانچ اشعار دیے ہیں سو وہ ترجمے کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
شیخ صاحب نے یہ اشعار سر سید کا مذہبی جوش و ولولہ دکھانے کیلیئے دیئے ہیں اور کیا سچ بات کہی ہے شیخ صاحب نے لیکن شاعرانہ نکتہ نظر سے بھی ان اشعار میں سر سید کا زورِ بیان اور صنعتوں کا کمال دیکھیئے، زور بیانِ میں تو یہ اشعار بڑے بڑے کلاسیکی فارسی اساتذہ کے کلام سے لگّا کھاتے ہیں۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Sir Syyed Ahmed Khan, سر سید احمد خان
Sir Syyed Ahmed Khan, سر سید احمد خان
فلاطوں طِفلَکے باشَد بہ یُونانے کہ مَن دارَم
مَسیحا رشک می آرَد ز دَرمانے کہ مَن دارَم


(افلاطون تو ایک بچہ ہے اس یونان کا جو میرا ہے، مسیحا خود رشک کرتا ہے اس درمان پر کہ جو میں رکھتا ہوں)
خُدا دارَم دِلے بِریاں ز عشقِ مُصطفٰی دارَم
نَدارَد ھیچ کافر ساز و سامانے کہ مَن دارَم


(میں خدا رکھتا ہوں کہ جلے ہوے دل میں عشقِ مصطفٰی (ص) رکھتا ہوں، کوئی کافر بھی ایسا کچھ ساز و سامان نہیں رکھتا جو کہ میرے پاس ہے)

ز جبریلِ امیں قُرآں بہ پیغامے نمی خواھَم
ہمہ گفتارِ معشوق است قرآنے کہ مَن دارَم

(جبریلِ امین سے پیغام کے ذریعے قرآن کی خواہش نہیں ہے، وہ تو سراسر محبوب (ص) کی گفتار ہے جو قرآن کہ میں رکھتا ہوں)۔

فلَک یک مطلعِ خورشید دارَد با ہمہ شوکت
ہزاراں ایں چُنیں دارَد گریبانے کہ مَن دَارم

آسمان اس تمام شان و شوکت کے ساتھ فقط سورج کا ایک مطلع رکھتا ہے جب کہ اس (مطلع خورشید) جیسے ہزاروں میرے گریبان میں ہیں۔

ز بُرہاں تا بہ ایماں سنگ ھا دارَد رہِ واعظ
نَدارَد ھیچ واعظ ہمچو بُرہانے کہ مَن دارَم

واعظ کی دلیل و عقل سے ایمان تک کی راہ پتھروں سے بھری پڑی ہے لیکن کوئی واعظ اس جیسی برہان نہیں رکھتا جو کہ میرے پاس ہے۔

(سر سید احمد خان)
——–
بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221

تقطیع -
فلاطوں طفلکے باشد بہ یُونانے کہ من دارَم
مسیحا رشک می آرد ز درمانے کہ من دارم
فلاطو طف - مفاعیلن - 2221
لَکے باشد - مفاعیلن - 2221
بَ یونانے - مفاعیلن - 2221
کِ من دارم - مفاعیلن - 2221
مسیحا رش - مفاعیلن - 2221
ک می آرد - مفاعیلن - 2221
ز درمانے - مفاعیلن - 2221
کِ من دارم - مفاعیلن - 2221

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 14, 2011

مولانا رُومی کے کچھ متفرق اشعار

وجودِ آدمی از عشق می رَسَد بہ کمال
گر ایں کمال نَداری، کمال نقصان است


آدمی کا وجود عشق سے ہی کمال تک پہنچتا ہے، اور اگر تو یہ کمال نہیں رکھتا تو کمال (حد سے زیادہ) نقصان ہے۔
--------

مردہ بُدم زندہ شُدم، گریہ بدم خندہ شدم
دولتِ عشق آمد و من دولتِ پایندہ شدم


میں مُردہ تھا زندہ ہو گیا، گریہ کناں تھا مسکرا اٹھا، دولتِ عشق کیا ملی کہ میں خود ایک لازوال دولت ہو گیا۔
--------
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Maulana Rumi,  مولانا جلال الدین رومی، قونیہ، ترکی
مزار مولانا جلال الدین رُومی علیہ الرحمہ، قونیہ تُرکی
Mazar Maulana Rumi
حاصلِ عُمرَم سہ سُخَن بیش نیست
خام بُدَم، پختہ شُدَم، سوختَم

میری عمر کا حاصل ان تین باتوں سے زائد کچھ بھی نہیں ہے، خام تھا، پختہ ہوا اور جل گیا۔
--------

ہر کہ اُو بیدار تر، پُر درد تر
ہر کہ اُو آگاہ تر، رُخ زرد تر


ہر وہ کہ جو زیادہ بیدار ہے اسکا درد زیادہ ہے، ہر وہ کہ جو زیادہ آگاہ ہے اسکا چہرہ زیادہ زرد ہے۔

--------

خرد نداند و حیراں شَوَد ز مذہبِ عشق
اگرچہ واقفِ باشد ز جملہ مذہب ھا


خرد، مذہبِ عشق کے بارے میں کچھ نہیں جانتی سو (مذہب عشق کے معاملات سے) حیران ہو جاتی ہے۔ اگرچہ خرد اور تو سب مذاہب کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے۔
--------

خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم


اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔

گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم


اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔

بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم


اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔
--------

یک دست جامِ بادہ و یک دست زلفِ یار
رقصے چنیں میانۂ میدانم آرزوست


ایک ہاتھ میں شراب کا جام ہو اور دوسرے ہاتھ میں یار کی زلف، اور اسطرح بیچ میدان کے رقص کرنے کی آرزو ہے۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست


کل (ایک) شیخ چراغ لیئے سارے شہر کے گرد گھوما کیا (اور کہتا رہا) کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کا آزرو مند ہوں۔

واللہ کہ شہر بے تو مرا حبس می شوَد
آوارگی و کوہ و بیابانم آرزوست


واللہ کہ تیرے بغیر شہر میرے لئے حبس (زنداں) بن گیا ہے، (اب) مجھے آوارگی اور دشت و بیابانوں کی آرزو ہے۔
--------

شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علّت ہائے ما

اے دوائے نخوت و ناموسِ ما
اے تو افلاطون و جالینوسِ ما


(مثنوی)

خوش رہ اے ہمارے اچھے جنون والے عشق، (تُو جو کہ) ہماری تمام علّتوں کا طبیب ہے۔

(تو جو کہ) ہماری نفرت اور ناموس (حاصل کرنے کی ہوس) کی دوا ہے، تو جو ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے۔
--------

-انتہا-
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 6, 2011

علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل - ز سلطاں کُنَم آرزوے نگاہے

زبورِ عجم میں سے علامہ اقبال کی درج ذیل غزل ایک خوبصورت غزل ہے۔ اس غزل میں ترنم ہے، شعریت ہے، اوجِ خیال ہے اور علامہ کا وہ روایتی اسلوب ہے جو اول و آخر صرف انہی سے منسوب ہے۔ اسی اسلوب کی وجہ سے ایران میں علامہ ہندوستان کے سب سے اہم فارسی شاعر سمجھے جاتے ہیں۔

ز سلطاں کُنَم آرزوے نگاہے
مسَلمانم از گِل نہ سازَم الٰہے


میں تو (حقیقی) سلطان ہی سے نگاہ کی آرزو رکھتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں مٹی سے معبود نہیں بناتا۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
دلِ بے نیازے کہ در سینہ دارَم
گدا را دھَد شیوۂ پادشاہے


وہ بے نیاز دل جو میں اپنے سینے میں رکھتا ہوں، گدا کو بھی بادشاہ کا انداز عطا کر دیتا ہے۔

ز گردوں فتَد آنچہ بر لالۂ من
فرَوریزَم او را بہ برگِ گیاہے


آسمان سے جو کچھ بھی میرے پھول (دل) پر نازل ہوتا ہے میں اسے گھاس کے پتوں پر گرا دیتا ہوں (عام کر دیتا ہوں)۔

چو پرویں فرَو ناید اندیشۂ من
بَدریوزۂ پر توِ مہر و ماہے


میرا فکر ستاروں کی طرح نیچے نہیں آتا کہ چاند اور سورج سے روشنی کی بھیک مانگے۔

اگر آفتابے سُوئے من خرَامَد
بشوخی بگردانَم او را ز راہے


اگر سورج میری طرف آتا ہے (مجھے روشنی کی بھیک دینے) تو میں شوخی سے اسے راستہ میں ہی سے واپس کر دیتا ہوں۔

بہ آں آب و تابے کہ فطرت بہ بَخشَد
درَخشَم چو برقے بہ ابرِ سیاہے


اس آب و تاب سے جو مجھے فطرت نے بخشی ہے، میں سیاہ بادلوں پر بجلی کی طرح چمکتا ہوں۔

رہ و رسمِ فرمانروایاں شَناسَم
خراں بر سرِ بام و یوسف بچاہے


میں حکمرانوں (صاحبِ اختیار) کے راہ و رسم کو پہچانتا ہوں کہ (ان کی کج فہمی سے) گدھے چھت (سر) پر ہیں اور یوسف کنویں میں۔
--------

بحر - بحر متقارب مثمن سالم
افاعیل - فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن

اشاری نظام - 221 221 221 221

تقطیع -

ز سلطاں کُنَم آرزوے نگاہے
مسَلمانم از گِل نہ سازَم الٰہے

ز سُل طا - فعولن - 221
کُ نَم آ - فعولن - 221
ر زو اے - فعولن - 221
نِ گا ہے - فعولن - 221

مُ سل ما - فعولن - 221
نَ مز گِل - فعولن - 221 (الفِ وصل استعمال ہوا ہے)
نَ سا زم - فعولن - 221
اِ لا ہے - فعولن - 221

-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 26, 2011

نظیری نیشاپوری کے کچھ متفرق اشعار

مشہور فارسی شاعر محمد حُسین نظیری نیشاپوری کے کچھ خوبصورت اشعار۔

دل کہ جمع است، غم از بے سر و سامانی نیست
فکرِ جمعیّت اگر نیست، پریشانی نیست

دل (خاطر) جمع ہے، سو بے سر و سامانی کا کوئی غم نہیں ہے، اگر جمع کرنے کی فکر نہ ہو تو (دنیا میں) کوئی پریشانی نہیں ہے۔
---------

نیست در خشک و ترِ بیشۂ من کوتاہی
چوبِ ہر نخل کہ منبر نشَوَد دار کنم

نہیں ہے میرے جنگل ( خدا کی دنیا) میں کوئی بھی خشک و تر چیز بیکار، جس درخت کی لکڑی سے منبر نہیں بن سکتا میں اس سے سولی بنا لیتا ہوں۔
---------

رُوئے نِکو معالجۂ عمرِ کوتہ ست
ایں نسخہ از علاجِ مسیحا نوشتہ ایم

کسی نیک آدمی کا چہرہ (دیدار) عمرِ کوتاہ کا علاج ہے، یہ نسخہ میں نے مسیحا کے علاج (نسخوں) میں سے لکھا ہے۔
---------

بزیرِ خرقہ نہاں بادہ می خورد صوفی
حکیم و عارف و زاہد ازیں مستند

(ریا کار) صُوفی شراب اپنی گدڑی کے نیچے چھپا کر پیتا ہے (اور اس کے بھائی بند) حکیم، عارف، زاہد سبھی اسی (طرح پینے) سے مست ہیں۔
---------

ایں رسمہائے تازہ ز حرمانِ عہدِ ماست
عنقا بروزگار کسے نامہ بَر نہ شُد

یہ نئی رسمیں ہمارے عہد (وعدہ) کی نا امیدی و حسرت و بد نصیبی کی وجہ سے ہیں، دنیا میں عنقا تو کسی کا نامہ بر نہ ہوا تھا۔
---------

مَحبّت در دلِ غم دیدہ الفت بیشتر گیرَد
چراغے را کہ دودے ہست در سر زود در گیرَد

غم دیدہ دل میں محبت بہت اثر کرتی ہے، (جیسا کہ) جس چراغ میں دھواں ہو (یعنی وہ ابھی ابھی بجھا ہو) وہ بہت جلد آگ پکڑ لیتا ہے۔
---------

چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردن
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن

کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا آغاز کرنا، بیتی باتیں کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
---------

بغیرِ دل ھمہ نقش و نگار بے معنیست
ھمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدّعا اینجاست

دل کے بغیر تمام نقش و نگار بے معنی ہیں، یہی ورق (یعنی دل) جو سیاہ ہو گیا ساری بات اور سارا مدعا تو یہیں ہے یعنی ظاہری نقش و نگار چاہے جتنے بھی خوب ہوں سیاہ دل کے ساتھ بے معنی ہیں۔

ز فرق تا قَدَمَش ہر کجا کہ می نگرَم
کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

اسکے سر سے لیکر اسکے قدموں تک میں جہاں بھی (جس حصے کو بھی) دیکھتا ہوں انکی رعنائی میرے دامنِ دل کو کھینچتی ہے کہ دیکھنے کی جگہ یہیں ہے، محبوب کی تعریف سر سے پاؤں تک کر دی ہے۔

ز کوئے عجز نظیری سرِ نیاز مکش
ز ہر رہے کہ درآیند انتہا اینجاست

نظیری، عجز کے کوچے سے اپنا سرِ نیاز مت اٹھا کہ جس راہ سے بھی آئیں انتہا تو یہیں ہے۔
---------

مجلس چو بر شکست تماشا بما رسید
در بزم چوں نماند کسے، جا بما رسید

مجلس جب اختتام کو پہنچی تو ہماری دیکھنے کی باری آئی، جب بزم میں کوئی نہ رہا ہمیں جگہ ملی۔
---------

منظورِ یار گشت نظیری کلامِ ما
بیہودہ صرفِ حرف نکردیم دودہ را

نظیری ہمارا کلام یار کو پسند آ گیا، (تو گویا) ہم نے حرفوں پر فضول سیاہی خرچ نہیں کی۔
---------

سماعِ دُرد کشاں، صُوفیاں چہ می دانند
ز شیوہ ہائے سَمندر، سپند را چہ خبر

تلچھٹ (دُرد) پینے والوں کے سماع کو صُوفی کیا جانیں، آگ میں جل کر زندہ رہنے والے (سمندر) کے طریق کا آگ میں جل کر ختم ہو جانے والی حرمل کو کیا خبر۔

--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 23, 2011

صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار - 1

مشہور فارسی شاعر مرزا محمد علی صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار

گرفتم سہل سوزِ عشق را اوّل، ندانستم
کہ صد دریائے آتش از شرارے می شود پیدا

اول اول میں نے سوزِ عشق کو آسان سمجھا اور یہ نہ جانا کہ اسی ایک چنگاری سے آگ کے سو سو دریا جنم لیتے ہیں۔
---------

مرا ز روزِ قیامت غمے کہ ھست، اینست
کہ روئے مردُمِ عالم دوبارہ باید دید

(روزِ قیامت کا مجھے جو غم ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کے لوگوں کا چہرہ دوبارہ دیکھنا پڑے گا)
---------
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, saib tabrizi, صائب تبریزی
مجسمہ صائب تبریزی
ہَماں بہتر کہ لیلٰی در بیاباں جلوہ گر باشَد
ندارَد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی

یہی بہتر ہے کہ لیلٰی کسی بیاباں میں جلوہ گر ہو، کہ تنگنائے شہر (شہر کے تنگ کوچے / تنگ دل لوگ) حسنِ صحرائی کی تاب (قدر) نہیں رکھتے۔
---------

صائب دوچیز می شکند قدرِ شعر را
تحسینِ ناشناس و سکوتِ سخن شناس

اے صائب، دو چیزیں (کسی) شعر کی قدر و قیمت ختم کر دیتی ہیں، ایک (سخن) ناشناس کی پسندیدگی (شعر کی داد دینا) اور دوسری سخن شناس کا خاموش رہنا (شعر کی داد نہ دینا)۔
---------

خواھی بہ کعبہ رو کن و خواھی بہ سومنات
از اختلافِ راہ چہ غم، رھنما یکے است

چاہے کعبہ کی طرف جائیں یا سومنات کی طرف، اختلافِ راہ کا غم (نفرت؟) کیوں ہو کہ راہنما تو ایک ہی ہے۔

ایں ما و من نتیجۂ بیگانگی بود
صد دل بہ یکدگر چو شود آشنا، یکے است

یہ میرا و تیرا (من و تُو کا فرق) بیگانگی کا نتیجہ ہے۔ سو دل بھی جب ایک دوسرے کے آشنا ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ہی ہوتے ہیں (ایک ہی بن جاتے ہیں)۔
---------

من آں وحشی غزَالَم دامنِ صحراے امکاں را
کہ می‌ لرزَم ز ہر جانب غبارے می ‌شوَد پیدا

میں وہ وحشی (رم خوردہ) ہرن ہوں کہ صحرائے امکان میں کسی بھی جانب غبار پیدا ہو (نظر آئے) تو لرز لرز جاتا ہوں۔
---------

خار در پیراهنِ فرزانہ می ‌ریزیم ما
گل بہ دامن بر سرِ دیوانہ می‌ ریزیم ما

ہم فرزانوں کے پیراہن پر کانٹے (اور خاک) ڈالتے ہیں، اور دامن میں جو گل ہیں وہ دیوانوں کے سر پر ڈالتے ہیں۔

در دلِ ما شکوه‌ٔ خونیں نمی ‌گردد گره
هر چہ در شیشہ است، در پیمانہ می‌ ریزیم ما

ہمارے دل میں کوئی خونی شکوہ گرہ نہیں ڈالتا (دل میں کینہ نہیں رکھتے) جو کچھ بھی ہمارے شیشے میں ہے وہ ہم پیمانے میں ڈال دیتے ہیں۔
---------

اگرچہ وعدۂ خوباں وفا نمی دانَد
خوش آں حیات کہ در انتظار می گذرَد

اگرچہ خوباں کا وعدہ، وفا ہونا نہیں جانتا (وفا نہیں ہوتا، لیکن) میں اس زندگی سے خوش ہوں کہ جو (تیرے) انتظار میں گزر رہی ہے۔
---------

ز چرخ شیشہ و از آفتاب ساغر کُن
بطاقِ نسیاں بگزار جام و مینا را

آسمان کو شیشہ (بوتل) اور سورج کو پیمانہ بنا، اور جام و مینا کو طاقِ نسیاں پر رکھ دے۔
---------

دوست دشمن می شود صائب بوقتِ بے کسی
خونِ زخمِ آہواں رہبر شود صیاد را

مشکل وقت میں دوست بھی دشمن ہو جاتے ہیں جیسے ہرن کے زخموں سے بہنے والا خون شکاری کی رہنمائی کرتا ہے
---------

گر چہ صائب دستِ ما خالیست از نقدِ جہاں
چو جرَس آوازۂ در کارواں داریم ما

صائب اگرچہ ہمارے ہاتھ دنیا کے مال و دولت سے خالی ہیں لیکن ہم کارواں میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو جرس کی آواز کی ہوتی ہے (کہ اسی آواز پر کارواں چلتے ہیں)۔
---------

مولانا شبلی نعمانی، 'شعر العجم' میں میرزا صائب تبریزی کے احوال میں، سرخوش کے تذکرہ 'کلمات الشعراء' کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"ایک دفعہ [صائب تبریزی] راہ میں چلا جا رہا تھا، ایک کتے کو بیٹھا ہوا دیکھا، چونکہ کتا جب بیٹھتا ہے تو گردن اونچی کر کے بیٹھتا ہے، فوراً یہ مضمون خیال میں آیا

شوَد ز گوشہ نشینی فزوں رعونتِ نفس
سگِ نشستہ ز استادہ، سرفراز ترست"

گوشہ نشینی سے رعونتِ نفس اور بھی بڑھ گئی کہ بیٹھے ہوئے کتے کا سر کھڑے ہوئے کتے سے بھی بلند ہوتا ہے۔ 'سرفراز' کا لفظ عجب لطف دے رہا ہے شعر میں۔

---------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 28, 2011

غزلِ خسرو - عاشق شدم و محرمِ ایں کار ندارم

شعرِ خسرو
عاشق شدم و محرمِ ایں کار ندارم
فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم


ترجمہ
میں عاشق تو ہو گیا ہوں مگر اس کام کا میرے پاس کوئی محرم راز نہیں ہے، فریاد ہے کہ مجھے غم تو ہے لیکن کوئی غم خوار نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
عاشق ہوں، کوئی محرمِ اسرار نہیں ہے
فریاد کہ غم ہے، کوئی غم خوار نہیں ہے


شعرِ خسرو
آں عیش، کہ یاری دہدم صبر، ندیدم
واں بخت، کہ پرسش کندم یار ندارم


ترجمہ
میں پاس نہیں ہے وہ عیش کہ یار مجھے صبر دے، میرے پاس نہیں ہے وہ قسمت کہ یار خود میرا حال پوچھے۔

قریشی
وہ عیش کے دے صبر مجھے یار، نہ پایا
وہ بخت کہ پوچھے مجھے خود یار، نہیں ہے
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Amir Khusro, امیر خسرو
امیر خسرو - ایک خاکہ
Amir Khusro
شعرِ خسرو
بسیار شدم عاشقِ دیوانہ ازیں پیش
آں صبر کہ ہر بار بُد ایں بار ندارم


ترجمہ
اس سے پہلے بھی میں بہت دفعہ عاشق و دیوانہ ہوا، لیکن وہ صبر جو ہر بار حاصل تھا، اب کے نہیں ہے۔

قریشی
سو بار ہوا عاشق و دیوانہ، پہ اب کے
وہ صبر جو حاصل تھا ہر اک بار، نہیں ہے


شعرِ خسرو
دل پُر ز غم و غصۂ ہجرست ولیکن
از تنگ دلی طاقتِ گفتار ندارم


ترجمہ
دل ہجر کے غم و غصے سے پر تو ہے لیکن تنگدلی کی وجہ سے مجھے طاقتِ گفتار نہیں ہے۔

قریشی
دل، ہجر پہ معمور تو ہے غصہ و غم سے
دل تنگ ہوں، اب طاقتِ گفتار نہیں ہے


شعرِ خسرو
خوں شد دلِ خسرو ز نگہداشتنِ راز
چوں ہیچ کسے محرمِ اسرار ندارم


ترجمہ
راز کی حفاظت کر کر کے خسرو کا دل خون ہوگیا ہے لیکن افسوس کہ کوئی بھی محرمِ اسرار نہیں ہے۔

قریشی
یہ راز چھپانے میں ہوا خوں دلِ خسرو
افسوس کوئی محرمِ اسرار نہیں ہے

---
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 11, 2011

صائب تبریزی کی ایک غزل کے کچھ خوبصورت اشعار

موجِ شراب و موجۂ آبِ بقا یکیست
ھر چند پردہ ھاست مُخالف، نوا یکیست

موجِ شراب اور موجِ آب حیات اصل میں ایک ہی ہیں۔ ہر چند کہ (ساز کے) پردے مخلتف ہو سکتے ہیں لیکن (ان سے نکلنے والی) نوا ایک ہی ہے۔

خواھی بہ کعبہ رو کن و خواھی بہ سومنات
از اختلافِ راہ چہ غم، رھنما یکیست

چاہے کعبہ کی طرف جائیں یا سومنات کی طرف، اختلافِ راہ کا غم (نفرت؟) کیوں ہو کہ راہنما تو ایک ہی ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, saib tabrizi, صائب تبریزی
یادگار صائب تبریزی
ایں ما و من نتیجۂ بیگانگی بُوَد
صد دِل بہ یکدگر چو شَوَد آشنا، یکیست

یہ میرا و تیرا (من و تُو کا فرق) بیگانگی کا نتیجہ ہے۔ سو دل بھی جب ایک دوسرے کے آشنا ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ہی ہوتے ہیں (ایک ہی بن جاتے ہیں)۔

در چشمِ پاک بیں نَبُوَد رسمِ امتیاز
در آفتاب، سایۂ شاہ و گدا یکیست

نیک بیں (منصف؟) نگاہوں میں کوئی رسمِ امتیاز نہیں ہوتی (ایک کو دوسرے سے فرق نہیں کرتیں) کہ دھوپ میں بادشاہ اور فقیر کا سایہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

بے ساقی و شراب، غم از دل نمی رَوَد
ایں درد را طبیب یکے و دوا یکیست

ساقی اور شراب کے بغیر غم دل سے نہیں جاتا کہ اس درد (دردِ دل) کا طبیب بھی ایک ہی ہے اور دوا بھی ایک۔

صائب شکایت از سِتَمِ یار چوں کُنَد؟
ھر جا کہ عشق ھست، جفا و وفا یکیست

صائب یار کے ستم کی شکایت کیوں کریں کہ جہاں جہاں بھی عشق ہوتا ہے وہاں جفا اور وفا ایک ہی (چیز) ہوتے ہیں۔

——–
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن

(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212

(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -
موجِ شراب و موجۂ آبِ بقا یکیست
ھر چند پردہ ھاست مخالف، نوا یکیست

موجے شَ - مفعول - 122
راب موجَ - فاعلات - 1212
ء آبے بَ - مفاعیل - 1221
قا یکیس - فاعلان - 1212
ہر چند - مفعول - 122
پردَ ھاس - فاعلات - 1212
مخالف نَ - مفاعیل - 1221
وا یکیس - فاعلان - 1212

----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 28, 2010

اقبال - از دیرِ مغاں آیم بے گردشِ صہبا مست

علامہ اقبال، سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی نے 1933ء میں اس وقت کے افغان بادشاہ، نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان کا سفر کیا، جس کا بنیادی مقصد افغانستان کے نظامِ تعلیم کا مطالعہ اور اسکے متعلق سفارشات مرتب کرنا تھیں۔ علامہ نے اس سفر کی رُوداد ایک فارسی مثنوی "مسافر" کی صورت میں لکھی جو 1934ء میں پہلی بار الگ حیثیت سے شائع ہوئی اور پھر 1936ء میں انکی ایک اور مثنوی "پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق" کے ساتھ شائع ہوئی اور تب سے ایسے ہی چھپ رہی ہے۔

اس مثنوی "مسافر" میں زیادہ تر زیارات کا احوال قلمبند ہے، مثلاً کابل میں شہنشاہ بابر کے مزار پر حاضری، غزنی میں مشہور فارسی شاعر حکیم سنائی اور سلطان محمود غزنوی کے مزارات پر حاضری اور قندھار میں احمد شاہ ابدالی کے مزار پر علامہ کی حاضری۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Music
حکیم الامت علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal

قندھار میں ایک خانقاہ میں رسولِ پاک (ص) کا ایک خرقۂ مبارک محفوظ ہے، علامہ نے اس خانقاہ پر بھی حاضری دی اور خرقۂ مبارک کی زیارت کی اور اپنے تاثرات کو قلمبند کیا اور اس کیلیے انہوں نے مثنوی کی بجائے غزل کا سہارا لیا کہ اس طرح کے تاثرات و کیفیات و احساسات غزل میں ہی صحیح طور پر قلمبند ہو سکتے تھے۔

اور یہی غزل درج کر رہا ہوں۔

از دیرِ مغاں آیم بے گردشِ صہبا مست
در منزلِ لا بودم از بادۂ الّا مست


میں دیرِ مغاں (لفظی معنی شراب کشید کرنے والے کے مندر، مجازی معنی مرشد کی خانقاہ) سے شراب کو گردش میں لائے بغیر یعنی شراب پیے بغیر ہی مست ہو کر آیا ہوں۔ میں ابھی لا (نفی) کی ہی منزل میں تھا لیکن الّا (اثبات) کی شراب سے مست تھا۔ نفی اور اثبات صوفیا کا خاص شغل ہے اور علامہ نے اسی رنگ میں یہ شعر کہا ہے۔


دانم کہ نگاہِ اُو ظرفِ ھمہ کس بیند
کرد است مرا ساقی از عشوہ و ایما مست


میں جانتا ہوں کہ اُس (ساقی) کی نگاہ ہر بادہ خور کا ظرف پہچانتی ہے (اور اسکے ظرف کے مطابق ہی ساقی اسے شراب دیتا ہے) لیکن میرے ساقی نے مجھے صرف اپنے ناز و انداز سے ہی (بغیر شراب پلائے) ہی مست کر دیا ہے یعنی ہمیں ہمارے محبوب کی نگاہ ہی نے مست کر دیا ہے اور کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور یہ بات ہماری اعلیٰ ظرفی پر دلیل ہے۔


وقت است کہ بکشائم میخانۂ رُومی باز
پیرانِ حرم دیدم در صحنِ کلیسا مست


یہ وقت ہے کہ مرشدِ رومی کا میخانہ دوبارہ کھولوں کیونکہ میں نے حرم کے پیروں کو کلیسا کے صحن میں مست دیکھا ہے۔ یعنی متاثرینِ فرنگ کا علاج رومی کی شراب میں ہے۔


ایں کارِ حکیمے نیست، دامانِ کلیمے گیر
صد بندۂ ساحل مست، یک بندۂ دریا مست


یہ کام(یعنی مسلمانوں میں دینِ اسلام کا صحیح فہم پیدا کرنا) عقل و دانش و حکمت کا کام نہیں ہے بلکہ اس کیلیے کسی کلیم اللہ (موسیٰ) کا دامن تھامنا چاہیے کیونکہ ساحل پر سرمستی اور باتیں کرنے والے سو آدمی بھی اس ایک کے برابر نہیں ہو سکتے جو سمندر کے اندر اتر کر مست ہے۔ حکیموں (فلسفیوں) کو "سبکسارانِ ساحل" سے تشبیہ دی ہے کہ فقط ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کی باتیں کرتے ہیں جب کہ موسیٰ سمندر کے اندر اتر کر اس کو پار کر جاتے ہیں سو ایسے ہی کسی "ایک" آدمی ضرورت ہے نہ کہ سو سو آدمیوں کی جو سو سو باتیں کرتے ہیں۔


دل را بہ چمن بردم از بادِ چمن افسرد
میرد بہ خیاباں ہا ایں لالۂ صحرا مست


میں اپنے دل کو چمن یعنی محفلوں میں لے گیا لیکن وہ بادِ چمن (محفل کی رونقوں) سے اور افسردہ ہو گیا، (اور ایسا ہی ہونا تھا کیونکہ) صحرا میں مست رہنے والا لالہ جب شہر کے چمن کی کیاریوں میں جاتا ہے تو مرجھا جاتا ہے۔


از حرفِ دل آویزش اسرارِ حرم پیدا
دی کافرَکے دیدم در وادیٔ بطحا مست


اسکی دل آویز باتوں سے حرم کے اسرار پیدا ہو رہے تھے، وہ چھوٹا سا (عشق کا) کافر جسے کل میں نے وادیٔ بطحا میں مست دیکھا۔


سینا است کہ فاران است؟ یا رب چہ مقام است ایں؟
ہر ذرّۂ خاکِ من، چشمے است تماشا مست


یا رب یہ مقام (جہاں خرقۂ مبارک رکھا ہے) سینا ہے یا فاران ہے کیا مقام ہے کیونکہ میرے جسم کا ذرّہ ذرّہ اور بال بال نظارے میں مست رہنے والی آنکھ بن گئی ہے، یعنی سینا میں موسیٰ پر تجلیات وارد ہوئیں اور فاران سے حضور پاک (ص) کا نورِ نبوت چمکا سو علامہ یہ فرما رہے ہیں کہ یا رب یہاں اس مقام پر بھی تیری تجلیات نازل ہو رہی ہیں۔


اس غزل کو منشی رضی الدین قوّال نے گایا بھی ہے (سوائے پانچویں شعر کے) اور کیا خوبصورت گایا ہے، ملاحظہ فرمائیے۔



مزید پڑھیے۔۔۔۔

Oct 4, 2010

در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟ - شیخ فخرالدین عراقی کی ایک غزل

در حلقۂ فقیراں، قیصر چہ کار دارد؟
در دستِ بحر نوشاں، ساغر چہ کار دارد؟

فقیروں کی مجلس میں قیصر (و کسریٰ، بادشاہوں) کا کیا کام، دریا نوشوں کے ہاتھ میں ساغر کا کیا کام۔

در راہِ عشق بازاں، زیں حرف ہا چہ خیزد؟
در مجلسِ خموشاں، منبر چہ کار دارد؟

عشاق کی راہ میں، یہ الفاظ سے کیا اٹھتے ہیں ( ان کو عقل و دانش و وعظ و پند سے کیا واسطہ) کہ خاموشوں کی مجلس میں منبر کا کیا کام۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Fakhruddin Iraqi, شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqi
جائے کہ عاشقاں را درسِ حیات باشد
ایبک چہ وزن آرد؟ سنجر چہ کار دارد؟

اس جگہ جہاں عاشقوں کو درس حیات ملتا ہے، ایبک کا کیا وزن اور سنجر (یعنی بادشاہوں) کا کیا کام۔

جائے کہ ایں عزیزاں جامِ شراب نوشند
آبِ زلال چبود؟ کوثر چہ کار دارد؟

اور یہ عزیز (عشاق) جہاں جامِ شراب پیتے ہیں وہاں آب حیات کیا اور (آبِ) کوثر کیا۔

در راہِ پاکپازاں، ایں حرف ہا چہ خیزد؟
بر فرقِ سرفرازاں، افسر چہ کار دارد؟

پاکبازوں کی راہ میں یہ الفاظ سے کیا اٹھتے ہیں (انکی بے سر و سامانی پر) کہ کامیاب لوگوں کے سر پر تاج کا کیا کام ہے۔

دائم تو اے عراقی، می گوئی ایں حکایت
با بوئے مشکِ معنی، عنبر چہ کار دارد؟

اے عراقی تو ہمیشہ ہی ایسی حکایتیں کہتا رہ، کہ تیرے کلام کے معنی میں جو خوشبو ہے اسکے آگے عنبر کی خوشبو کیا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 12, 2010

امیر خسرو کی ایک غزل - از من آں کامیاب را چہ غمست - مع تراجم

امیر خسرو کی اس غزل کا شمار غزلِ مسلسل میں ہوتا ہے، اور ایک ہی خیال کو مختلف حقیقتوں سے واضح کیا ہے اور کیا خوب تشبیہات و استعارات اس غزل میں بیان کئے ہیں۔

شعرِ خسرو
از من آں کامیاب را چہ غمست
زیں شبِ ماہتاب را چہ غمست


ترجمہ
اس کامیاب (محبوب) کو مجھ سے کیا غم ہے، ماہتاب کو رات کا غم کب ہوتا ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
میرا اس کامیاب کو غم کیا
رات کا ماہتاب کو غم کیا
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
شعرِ خسرو
ذرّہ ہا گر شوند زیر و زبر
چشمۂ آفتاب را چہ غمست


ترجمہ
اگر تمام ذرے زیر و زبر بھی ہو جائیں تو سورج کے چشمے کو انکے زیر و زبر ہونے کا کیا غم ہے۔

قریشی
ذرّے زیر و زبر جو ہوں تو ہوں
چشمۂ آفتاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
گر بسوزد ہزار پروانہ
مشعلِ خانہ تاب را چہ غمست


ترجمہ
اگر ہزار پروانے بھی جل مریں تو گھر کو روشن کرنے والی مشعل کو اسکا کیا غم ہے۔

قریشی
جل مریں گو ہزار پروانے
مشعلِ خانہ تاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
خرمنِ من کہ گشت خاکستر
آتشِ پُر عذاب را چہ غمست


ترجمہ
میری جان کی کھیتی جل کر راکھ ہوگئی مگر عذاب سے پُر آگ کو اس کا کیا غم ہے۔

قریشی
خرمنِ جاں جو جل کے راکھ ہوا
آتشِ پر عذاب کو غم کیا

شعرِ خسرو
گر مرا نیست خوابے اندر چشم
چشمِ آں نیم خواب را چہ غمست


ترجمہ
اگر میری آنکھوں میں نیند نہیں رہی تو اسکا اس نیم خواب آنکھوں (والے) کو کیا غم ہے۔

قریشی
رتجگے ہیں اگر نصیب مرا
دیدۂ نیم خواب کو غم کیا

شعرِ خسرو
خسرو ار جاں دہد تو دیر بہ ذی
ماہی ار میرد آب را چہ غمست


ترجمہ
خسرو تو جان دیتا ہے لیکن تو دیر تک زندہ رہ کہ مچھلی کے مرنے کا پانی کو کیا غم۔

قریشی
جان خسرو نے دی، تُو جُگ جُگ جی
مرگِ ماہی پہ آب کو غم کیا

----------
بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
(مسعود قریشی کا منظوم ترجمہ بھی اسی بحر میں ہے)

افاعیل - فاعِلاتُن مفاعِلُن فعلُن
(اس بحر میں آٹھ وزن جمع ہو سکتے ہیں، تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
(ہندسوں کا اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی پہلے 2 پھر 1 پھر 2)

تقطیع

از من آں کامیاب را چہ غمست
زیں شبِ ماہتاب را چہ غمست

از مَ نا کا - 2212- فاعلاتن (من اور آں میں الف کا وصال ہوا)۔
م یا ب را - 2121 - مفاعلن
چ غَ مست - 1211 - فَعِلان (فعلن کی جگہ فَعِلان اس بحر میں جائز ہے)۔

زی شَ بے ما - 2212 - فاعلاتن
ہ تا ب را - 2121 - مفاعلن
چ غَ مست - 1211 - فعلان
مزید پڑھیے۔۔۔۔