پہلا۔ "یار اُس خاتوں کو دیکھا تھا آج۔"
دوسرا۔ "کون، وہ جو اپنا بچہ اسکول میں داخل کروانے آئی تھی۔"
پہلا۔ "ہاں ہاں، وہی، یار کیا خوبصورت خاتون تھی، کیا حسن و جمال تھا۔"
دوسرا۔ "شرم کر شرم اگر کچھ ہے تو، تمھارا منہ سوکھ رہا تھا اس کو میڈم میڈم کہتے ہوئے اور اب کیسا کمینہ بنا ہوا ہے۔"
پہلا۔ "ارے جا، تُو تو ہے ہی بد ذوق، اس شاعر کے بچے کو دیکھ، جب سے اس کو دیکھا ہے اس پر نظم لکھنے کے خیال میں ہے۔"
دوسرا۔ "اور وہ بھی میری حق حلال کی کمائی کو اسطرح دھوئیں میں اڑاتے ہوئے، یہ کوئی پچاسواں سگریٹ تو ہوگا اسکا صبح سے۔"
تیسرا۔ "دیکھو، تم دونوں نے جو بکواس کرنی ہے کرتے رہو، لیکن مجھے مت تنگ کرو، میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں، شعر پھنسا ہوا ہے۔"
دوسرا۔ "ہا ہا ہا، شعر، منہ دیکھا ہے کبھی اپنا آئینے میں، تُو دو چار کتابیں پڑھ کر سمجھتا ہے کہ شاعری کرنے لگ گیا ہے، ہا ہا ہا۔"
تیسرا۔ "دیکھو میرے منہ نہ لگو، ورنہ ہجو کہہ دونگا۔"
پہلا۔ "اپنی ہجو، یہ بھی کوئی انوکھی چیز ہی ہوگی۔"
تیسرا۔ "تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔"
دوسرا۔ "بیزار تو میں ہوں تم دونوں سے، میں سارا دن مر جاتا ہوں کام کر کر کے اور تم دونوں عیش کر رہے ہو۔"
پہلا۔ "اوئے کون سی عیش۔"
دوسرا۔ "عیش ہی تو ہے، کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے، آدھی رات ہو گئی تم نہ جانے کہاں سے گھوم گھما کے آ رہے ہو۔"
پہلا۔ "تو میں اکیلا تھا کیا، تم سب بھی تو ساتھ تھے میرے۔"
دوسرا۔ "صحیح ہے، لیکن لیکر تو تم گئے تھے۔"
پہلا۔ "تو یہ شاعر خان ہمیں زبردستی لائبریری نہیں لے جاتا کیا؟ اور تم جو ہر روز صبح صبح، جب سونے کا مزہ آ رہا ہوتا ہے ہمیں اٹھا کر اسکول لے جاتے ہو۔"
دوسرا۔ "تو کیا وقت سے نوکری پر جانا کوئی بری بات ہے۔"
تیسرا۔ "ہا ہا، وقت، یوں کہو کہ اگر دیر ہو جائے تو دیدارِ جمالِ پری رُخاں نہیں ہوتا۔"
دوسرا۔ "تم اپنا منہ بند ہی رکھو، خیالوں میں نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ گھومتے پھرتے رہتے ہو، بس جو شعر گھڑ رہے ہو انہیں گھڑتے رہو۔"
تیسرا۔ "کتنے بدذوق ہو تم، فکرِ سخن کو شعر گھڑنا کہہ رہے ہو۔"
دوسرا۔" ہاں تم دن رات فکرِ سخن کرتے ہواور یہ دن رات گپیں مارتا ہے اور میں کام کر کر کے مر رہا ہوں۔"
پہلا۔ "تم تو جیسے بڑے فرشتے ہو، ہر وقت کوئی بڑا ہاتھ مارنےکے چکر میں ہو۔""
دوسرا۔ "جا جا، کون سا ہاتھ، اتنے سال ہو گئے اکاؤنٹنٹ کی نوکری کرتے ہوئے، کوئی ایک پیسے کا الزام نہیں لگا سکتا۔"
پہلا۔ "اوہ، الزام، یوں کہو نا کہ کبھی تمھارا داؤ ہی نہیں لگا، اور وہ جو تم ہر وقت یہ خواب دیکھتے ہو کہ کسی دن اسکول مالک کی بیٹی خود آ کر تم سے شادی کی خواہش ظاہر کرے گی۔"
چوتھا۔ "تم تینوں جہنمی ہو۔"
پہلا۔ "تو تُو کون سا ہم سے جدا ہے، تُو بھی جہنم میں جلے گا ہمارے ساتھ۔"
تیسرا۔ "تم لوگ کیا بک بک کر رہے ہو، میں نے کہا نا کہ میرا شعر پھنسا ہوا ہے۔"
پہلا۔ "چپ کر جاؤ یار، جب تک اس کا شعر نہیں نکلے گا یہ اسی طرح سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہے گا۔"
دوسرا۔ "اور تم اسی طرح فون کالز کرتے رہو گے، یہ اگر میری کمائی دھوئیں میں اڑا رہا ہے تو تم باتوں میں۔"
پہلا۔ "تم تو ہر وقت پیسہ پیسہ ہی کرتے رہتے ہو، نہ جانے کیوں؟"
دوسرا۔ "چونکہ میں کماتا ہوں اس لیے فکر کیوں نہ کروں، اوئے شاعر وہ کیا شعر ہے تمھارے علامہ کا، فکر شکر والا۔"
تیسرا۔ "فکرِ فردا نہ کروں محوِ غمِ دوش رہوں۔۔۔۔۔"
پہلا۔ "بس کرو، کس قسم کا شعر ہے یہ۔"
تیسرا۔ "جی جی، اگر کسی لڑکی نے کسی امام دین کا شعر بھی سنایا ہوتا تو تم واہ واہ کرتے مر جاتے۔"
پہلا۔ "ہاں اس وقت تمھاری روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے۔"
چوتھا۔ "تم سب جہنمی ہو۔"
دوسرا۔ "تُو تو چپ ہی رہا کر، جب بھی بولتے ہو کفن پھاڑ کر بولتے ہو، مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ ابھی پورا مہینہ پڑا ہے اور پیسے ختم ہو گئے ہیں، اب اس نامراد شاعر کیلیے سگریٹ بھی ادھار لینے پڑیں گے۔"
تیسرا۔ "قرض کی پیتے تھے مے۔۔۔۔"
دوسرا۔ "خبرادر، جو کسی حرام چیز کا نام لیا میرے سامنے۔"
پہلا۔ "ہاں جی، حاجی صاحب کے سامنے کسی حرام چیز کا نام نہیں لینا، یہ دوسری بات ہے کہ خود دن رات اس فکر میں مرا جاتا ہے کہ کوئی بینک اکاؤنٹ ہو اور اس پر سود ملتا رہے۔"
دوسرا۔ "مجھے تم سے سخت اختلاف ہے، بینکوں میں جو منافع ملتا ہے وہ سود ہر گز نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"
تیسرا۔ "کیا فضول بحث شروع کرنے لگے ہو تم لوگ، میرے کان پک گئے ہیں تم دونوں کی باتیں سن سن کر، میرے ساتھ تو کوئی گل و بلبل کی بات کرو، کسی غزالِ دشت کی بات کرو، کسی ماہ جبیں۔۔۔۔۔۔"
دوسرا۔ "یہ کیا اوٹ پٹانگ باتیں سوجھتی ہیں تمھیں۔"
تیسرا۔ "مجھے تو بس یہی کچھ سوجھتا ہے۔"
پہلا۔ "اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سوجھی۔"
چوتھا۔ "تم سب جہنمی ہو۔"
تیسرا۔ "لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے۔"
دوسرا۔ "یار اب تو کچھ دیر بعد اذان ہونے والی ہے، میں سونے لگا ہوں۔"
پہلا۔ "اچھا، کیسے سونے لگا ہوں، ابھی تو اس کی 'مس کال' آنی ہے جس نے کل ہی اپنا نمبر دیا ہے۔"
دوسرا۔ "ہاں اس نے تمھاری باری شاید سب سے آخر پر رکھی ہے۔"
تیسرا۔ "اور ابھی میں نے اپنی نظم مکمل کرنی ہے، مکمل ہوگی تو صبح اسکول میں کسی کو سنا سکوں گا۔"
دوسرا۔ "تم سب جہنم میں جاؤ۔"
چوتھا۔ "آمین۔"
پس نوشت۔اگر کسی کو اس مکالمے میں راقم کا چہرہ نظر آئے تو اسے سوئے ظن پر محمول کیا جائے، ہاں اگر اپنا چہرہ نظر آ جائے تو یہ عین حسنِ ظن ہوگا، اور جن کو اس میں 'حسنِ زن' نظر آیا ہے ان کیلیے کچھ کہنا عبث ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Apr 23, 2009
Apr 21, 2009
فقیرِ راہ نشیں علامہ اقبال کی برسی
وہ فقیرِ راہ نشیں، جسے فیض نے شاہِ گدا نما کہا تھا، 21 اپریل 1938ء کو اقلیم سخن کو یتیم کر گیا۔ وہ اقلیمِ سخن کہ جس نے، نہ اُس سے پہلے اور نہ اُس سے بعد، ایسا صاحبِ دل اور دلربا شہر یار دیکھا۔ شعراء آئے اور چلے گئے، کچھ حیاتِ جاوید کی آرزو میں مر گئے، کچھ حیاتِ جاوید پا گئے اور کچھ حیاتِ جاوید دے گئے، علامہ حیاتِ جاوید دینے والوں میں سے ہیں۔ اگر وہ کچھ اور تخلیق نہ کرتے اور دنیا کو فقط 'جاوید نامہ' ہی دیا ہوتا تو پھر بھی خاکسار کا یہ دعویٰ بے دلیل کے نہ ہوتا کہ علامہ خود فرما گئے جاوید نامہ کے بارے میں۔
آنچہ گفتم از جہانے دیگر است
ایں کتابِ از آسمانے دیگر است
میں نے یہ جو کچھ کہا ہے (جاوید نامہ میں) وہ کسی اور جہان سے ہے، یہ کتاب کسی اور آسمان سے ہے۔
علامہ، تا حال، اس عظیم الشان اور پر شکوہ اور سحر انگیز لڑی کی آخری کڑی ثابت ہوئے ہیں جسکی ابتدا رودکی سے ہوئی اور وہ رومی و سعدی و حافظ و بیدل و غالب سی منفرد لڑیوں کے ساتھ ساتھ رنگ رنگ کی بے شمار لڑیوں کو جکڑے ہوئے ہے۔ علامہ کی صدا سب نے سنی، اقبال کی نوا ہر کسی کے دل میں گھر کر گئی لیکن اِس امیرِ کارواں کی بانگِ درا پر کوئی اٹھا اور کوئی نہ اٹھا، فیض نے بہت خوبصورت الفاظ میں علامہ کے بارے میں کہا تھا۔
تھیں چند ہی نگاہیں جو اُس تک پہنچ سکیں
پر اُس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
کسی نے کہا تھا۔
گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتَن گر داغ ہائے سینہ ہا
(اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں تو کبھی کبھی یہ پرانے قصے بھی پڑھ لیا کر)
اسی شعر کے مصداق علامہ کی برسی کے حوالے سے کچھ پڑھنے اور لکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ علامہ کی بیماری اور انکے آخری دنوں کی روداد انکے مخلتف نیاز مندوں اور انکی صحبت سے فیضیاب ہونے والے خوش قسمت ہم نشینوں کی یادوں میں پڑھنے کو ملی۔ ان میں مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، سیّد نذیر نیازی وغیرہم اور پھر انکے فرزندِ دلبند جاوید اقبال بھی شامل ہیں۔
سید نذیر نیازی کو علامہ کی خدمت کرنے کا کئی سال تک شرف حاصل رہا، اور علامہ کی چار سالہ طویل بیماری کو کاٹنے میں آپ نے علامہ کا ساتھ دیا۔ آپ کے ذمے علامہ کے کلام کی 'دیکھ بھال' اور اشعار کی ترتیب و تسوید کے ساتھ ساتھ علامہ کیلیے ادویات مہیا کرنا بھی تھا اور 1936ء میں علامہ کے ایماء سے آپ مستقل لاہور ہی منتقل ہو گئے۔ علامہ اقبال نے اپنے شہرہ آفاق انگریزی خطبات کے ترجمے کا کام بھی سید نذیر نیازی کو تفویض کیا تھا اور ترجمہ اپنی نگرانی میں کرواتے تھے بلکہ ترجمے کا نام 'تشکیلِ جدید الٰہیّاتِ اسلامیہ' بھی اقبال نے خود دیا تھا لیکن افسوس کہ علامہ کی علالت کے سبب وہ ترجمہ انکی زندگی میں شائع نہ ہو سکا اور پھر بوجوہ ایک لمبے عرصے تک شائع نہ ہوا، بلآخر 1957ء میں 'بزمِ اقبال' کے اہتمام سے سید نذیر نیازی نے ہی یہ ترجمہ شائع کیا۔
سیّد نذیر نیازی نے علامہ کی علالت اور آخری دنوں کے حالات اپنے ایک طویل مضمون "اقبال کی آخری علالت" میں قلم بند کیے ہیں، اس مضمون کا آخری حصہ، جو 20 اور 21ء اپریل کے دنوں کے واقعات پر مشتمل ہے، اپنے بلاگ کے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ یہ مضمون اقبالیات پر منتخب اور خوبصورت مضامین کی کتاب "اقبالیات کے سو سال" میں سے لیا ہے۔ اس کتاب کا مختصر تعارف یوں ہے کہ 2002ء، پاکستان میں 'سالِ اقبال' کے طور پر منایا گیا تھا اور اقبالیات کے سو سال پورے ہونے کی نسبت سے (کہ اقبال اور ان کے کلام پر سب سے پہلا مضمون 1902ء میں شیخ عبدالقادر نے لکھا تھا) اقبال اکادمی پاکستان نے مذکورہ کتاب شائع کی تھی، اور اسکا دوسرا ایڈیشن طبع 2007ء خاکسار کے زیرِ مطالعہ ہے۔ ایک وضاحت یہ کہ مضمون میں دیئے گئے فارسی اشعار کا ترجمہ اصل مضمون میں نہیں ہے لیکن انکی افادیت کے زیرِ نظر میں نے اشعار کا ترجمہ بھی لکھ دیا ہے۔
"اقبال کی آخری علالت" از سیّد نذیر نیازی سے ایک اقتباس
بلآخر وہ وقت آ پہنچا جس کا کھٹکا مدت سے لگا ہوا تھا۔ 20 اپریل کی سہ پہر کو جب میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ بیرن فلٹ ہائم اور انکے ایک پارسی دوست سے گفتگو کر رہے تھے اور گوئٹے اور شلر اور معلوم نہیں کس کس کا ذکر تھا، فلٹ ہائم گئے تو چند اور احباب آ گئے جن سے دیر تک لیگ، کانگرس اور بیرونی سیاسیات پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ شام کے قریب جب انکے معالجین ایک ایک کر کے جمع ہوئے تو انہیں بتلایا گیا کہ حضرت علامہ کو بلغم میں کل شام سے خون آ رہا ہے۔ یہ علامت نہایت یاس انگیز تھی، اس لیے کہ خون دل سے آیا تھا۔ اس حالت میں کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ شاید وہ آج کی رات جان بر نہ ہو سکیں مگر انسان اپنی عادت سے مجبور ہے، تدبیر کا دامن آخر وقت تک نہیں چھوڑتا۔ قرشی صاحب (حکیم محمد حسن قرشی) نے بعض دوائیں تلاش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو موٹر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتفاق سے اسی وقت راجا صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے پوچھا گاڑی ہے؟ کہنے لگے، "نہیں مگر کیا مضائقہ ہے ابھی لیے آتا ہوں۔" چونکہ انکی اپنی گاڑی خراب تھی لہذا اتنا کہہ کر راجا صاحب موٹر کی تلاش میں نکل گئے۔ ادھر ڈاکٹر صاحبان کی رائے ہوئی کہ کرنل امیر چند صاحب کو بھی مشورے میں شامل کر لیا جائے۔ اس اثنا میں ہم لوگ حضرت علامہ کا پلنگ صحن میں لے آئے تھے، کرنل صاحب تشریف لائے تو انکی حالت کسی قدر سنبھل چکی تھی، مطلب یہ کہ ان کے حواس ظاہری کی کیفیت یہ تھی کہ ایک دفعہ پھر امید بندھ گئی لہذا طے ہوا کہ کچھ تدابیر اس وقت اختیار کی جائیں اور کچھ صبح۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحبان چلے گئے اور ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب کو رات کے لیے ضروری ہدایات دیتے گئے۔ اب ہوا میں ذرا سی خنکی آ چکی تھی اس لیے حضرت علامہ بڑے کمرے میں اٹھ آئے اور حسبِ معمول باتیں کرنے لگے۔ دفعتاً انہیں خیال آیا کہ قرشی صاحب غالباً شام سے بھوکے ہیں اور ہر چند کہ انہوں نے انکار کیا لیکن حضرت علامہ، علی بخش سے کہنے لگے کہ ان کے لیے چائے تیار کرے اور نئے بسکٹ جو میم صاحبہ نے بنائے ہیں، کھلائے۔ اس وقت صرف ہم لوگ یعنی قرشی صاحب، چودھری صاحب (چودھری محمد حسین)، سید سلامت اللہ اور راقم الحروف انکی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو یاد فرمایا تو ان سے عرض کیا گیا کہ وہ کام سے گئے ہیں۔ 11 بجے تو اس خیال سے کہ ہم لوگ شاید انکی نیند میں حارج ہو رہے ہیں، چودھری صاحب نے اجازت طلب کی لیکن حضرت علامہ نے فرمایا، "میں دوا پی لوں پھر چلے جائیے گا۔" اسطرح بیس پچیس منٹ اور گزر گئے حتیٰ کہ شفیع صاحب کیمسٹ کے ہاں سے دوا لیکر آ گئے۔ حضرت علامہ کو ایک خوراک پلائی گئی مگر اسکے پیتے ہی انکا جی متلانے لگا اور انہوں نے خفا ہو کر کہا، "یہ دوائیں غیر انسانی ہیں۔" انکی گھبراہٹ کو دیکھ کر قرشی صاحب نے خمیرہ گاؤ زبان عنبری کی ایک خوراک کھلائی جس سے فوراً سکون ہو گیا۔ اسکے بعد حضرت علامہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ایلوپیتھک دوا استعمال نہیں کریں گے اور جب شفیع صاحب نے یہ کہا کہ انہیں اوروں کے لیے زندہ رہنا چاہیئے تو فرمایا، "ان دواؤں کے سہارے نہیں۔" اسطرح گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ بلآخر یہ دیکھ کر کہ حضرت علامہ نیند کی طرف مائل ہیں، ہم نے اجازت طلب کی، انہون نے فرمایا، "بہت اچھا" لیکن معلوم ہوتا ہے انکی خواہش تھی کہ ہو سکے تو قرشی صاحب ٹھہرے رہیں۔ بایں ہمہ انہوں نے اس امر پر اصرار نہیں کیا، اس وقت بارہ بج کر تیس منٹ ہوئے تھے اور کسی کو یہ وہم بھی نہ تھا کہ یہ آخری صحبت ہوگی جاوید منزل کی۔
ہم لوگ حضرت علامہ کی خدمت سے اٹھ کر آئے ہی تھے کہ راجا صاحب تشریف لے آئے اور آخر شب تک وہیں حاضر رہے۔ شروع شروع میں تو حضرت علامہ کو سکون رہا اور وہ کچھ سو بھی گئے لیکن پچھلے پہر کے قریب بے چینی شروع ہو گئی۔ اس پر انہوں نے شفیع صاحب سے کہا، "قرشی صاحب کو لے آؤ۔" وہ انکے ہاں آئے تو سہی لیکن غلطی سے اطلاع نہ کر سکے۔ شاید 3 بجے کا وقت ہوگا کہ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو طلب فرمایا۔ انکا (راجا صاحب) کا اپنا بیان ہے کہ جب میں حاضر ہوا تو حضرت علامہ نے دیوان علی سے کہا، "تم سو جاؤ البتہ علی بخش جاگتا رہے، اب اسکے سونے کا وقت نہیں۔" اسکے بعد مجھ سے فرمایا، "پیٹھ کی طرف کیوں بیٹھے ہو سامنے آ جاؤ۔" میں انکے متصل ہو بیٹھا، کہنے لگے، "قرآن مجید کا کوئی حصہ پڑھ کر سناؤ، کوئی حدیث یاد ہے؟" اسکے بعد ان پر غنودگی سی طاری ہو گئی، میں نے دیا گل کر دیا اور باہر تخت پر آ بیٹھا۔ راجا صاحب چلے آئے تو ایک دفعہ پھر کوشش کی گئی کہ حضرت علامہ رات کو دوا استعمال کریں مگر انہوں نے سختی سے انکار کر دیا، ایک مرتبہ فرمایا، "جب ہم حیات کی ماہیت ہی سے بے خبر ہیں تو اسکا علم کیونکر ممکن ہے؟" تھوڑی دیر کے بعد راجا صاحب کو پھر ان سے قرشی صاحب کے لانے کے لیے کہا۔ راجا صاحب کہتے ہیں، "میں اس وقت کی حالت کا مطلق اندازہ نہ کرنے پایا تھا، میں نے عرض کیا حکیم صاحب رات دیر سے گئے ہیں شاید ان کو بیدار کرنا مناسب نہ ہو۔" پھر اپنی یہ رباعی پڑھی جو گذشتہ دسمبر میں انہوں نے کہی تھی۔
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟
سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید؟
گذرا ہوا سرود دوبارہ آتا ہے یا نہیں، حجاز سے نسیم دوبارہ آتی ہے یا نہیں، اس فقیر کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا، کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے یا نہیں۔
راجا صاحب کہتے ہیں میں نے ان اشعار کو سنتے ہی عرض کیا کہ ابھی حکیم صاحب کو لے آتا ہوں، یہ واقعہ 5 بج کر 5 منٹ کا ہے، راجا صاحب گئے تو حضرت علامہ خواب گاہ میں تشریف لے آئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم نے حسبِ ہدایات فروٹ سالٹ تیار کیا۔ حضرت علامہ بھرے ہوئے گلاس کو دیکھ کر کہنے لگے، "اتنا بڑا گلاس کسطرح پیوں گا؟" اور پھر چپ چاپ سارا گلاس پی گئے۔ علی بخش نے چوکی پلنگ کے ساتھ لگا دی۔ اب اُس کے سوا کمرے میں اور کوئی نہیں تھا۔ حضرت علامہ نے اول اسے شانوں کو دبانے کے لیے کہا پھر دفعتاً لیٹے لیٹے اپنے پاؤں پھیلا لیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا، "یا اللہ میرے یہاں درد ہے۔" اسکے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف گرنے لگا۔ علی بخش نے آگے بڑھ کر سہارا دیا تو انہوں نے قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ اسطرح وہ آواز جس نے گذشتہ ربع صدی سے ملتِ اسلامیہ کے سینے کو سوزِ آرزو سے گرمایا تھا، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ علامہ مرحوم نے خود اپنے ارشادات کو کاروانِ اسلام کے لیے بانگِ درا سے تعبیر کیا تھا اور آج جب ہماری سوگوار محفل انکے وجود سے خالی ہے تو انہیں کا یہ شعر بار بار زبان پر آتا ہے۔
جس کے آوازے سے لذّت گیر اب تک گوش ہے
وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
21 اپریل کی صبح کو میں سویرے ہی اٹھا اور حسبِ عادت جاوید منزل پہنچ گیا لیکن ابھی پھاٹک میں قدم رکھا تھا کہ راجا صاحب نظر آئے، انکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، میں سمجھا رات کی بے خوابی کا اثر ہے۔ میں انکی طرف بڑھا اور کہنے لگا، رات آپ کہاں تھے؟ آپ کا دیر تک انتظار رہا۔ وہ معلوم نہیں ہاتھ سے کیا اشارہ کرتے ہوئے ایک طرف چلے گئے، پیچھے مڑ کر دیکھا تو قرشی صاحب سر جھکائے ایک روش پر ٹہل رہے تھے۔ میں نے حضرت علامہ کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے کچھ تامل کیا، پھر ایک دھیمی اور بھرائی ہوئی آواز میں انکے منہ سے صرف اتنا نکلا، "فوت ہو گئے"۔
میں ایک لحظے کے لیے سناٹے میں تھا پھر دفعتاً حضرت علامہ کی خواب گاہ کی طرف بڑھا، پردہ ہٹا کر دیکھا تو انکے فکر آلود چہرے پر ایک ہلکا سا تبسم اور سکون و متانت کے آثار نمایاں تھے۔ معلوم ہوتا تھا وہ بہت گہری نیند سو رہے ہیں۔ پلنگ سے ہٹ کر فرش پر بیٹھ گیا، شاید وہاں کچھ اور حضرات بھی بیٹھے تھے لیکن میں نے نہیں دیکھا۔ ہاں راجا صاحب کو دیکھا وہ انکی پائنتی کا سہارا لیے زار زار رو رہے تھے، ان کو دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں کو ضبط نہ کر سکا اور بے قرار ہو کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
اس اثنا میں حضرت علامہ کے انتقال کی خبر بجلی کی طرح شہر میں پھیل چکی تھی، اب جاوید منزل میں انکے عقیدت مندوں کا ہجوم تھا۔ یہ سانحہ کچھ اس قدر عجلت اور بے خبری میں پیش آیا تھا کہ جو شخص آتا معجب ہو کر کہتا، "کیا ڈاکٹر صاحب، کیا علامہ اقبال فوت ہو گئے؟"۔ گویا انکے نزدیک یہ خبر ابھی غلط تھی حالانکہ وہ گھڑی جو برحق ہے اور جسکا ایک دن ہر کسی کو سامنا کرنا ہے، آ پہنچی تھی۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۔ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ۔
جنازہ سہ پہر میں 5 بجے کے قریب اٹھا۔ جاوید منزل کے صحن اور کمروں میں خلقت کا اژدہام تھا، معلوم نہیں انکے غم میں کس کس کی آنکھیں اشک بار ہوئیں اور میو روڈ سے شاہی مسجد تک کتنے انسان جنازے میں شریک تھے۔ ہم لوگ لاہور کی مختلف سڑکوں سے گزر رہے تھے، شہر میں ایک کہرام سا مچا ہوا تھا۔ جدھر دیکھیئے حضرت علامہ کا ہی ذکر تھا۔ جنازہ ابھی راستے میں تھا کہ اخباروں کے ضمیمے، قطعات اور مرثیے تقسیم ہونے لگے۔ دفعتاً خیال آیا کہ یہ اس شخص کی میت ہے جسکا دل و دماغ رفتہ رفتہ اسلام میں اسطرح کھویا گیا کہ اسکی نگاہوں میں اور کوئی چیز جچتی ہی نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی بے حسی اور اغیار کی چیرہ دستی کے باوجود یہ کہنے سے باز نہ رہ سکا۔
گرچہ رفت از دستِ ما تاج و نگیں
ما گدایاں را بہ چشمِ کم مَبیں
اگرچہ ہمارے ہاتھ سے تاج و نگیں چلا گیا ہے لیکن ہم گداؤں کو کم (حقیر) نظروں سے مت دیکھو۔
معلوم نہیں ساحر افرنگ کی فریب کاریوں نے اسے کس کس راہ سے سمجھایا کہ ملت اسلامیہ کی نجات تہذیب نو کی پرستش میں ہے مگر اسکے ایمان سے لبریز دل میں نبی امّی صلعم کی محبت بے اختیار کہہ اٹھی۔
در دلِ مُسلم، مقامِ مصطفیٰ است
آبروئے ما ز نامِ مصطفیٰ است
دلِ مسلم میں مصطفیٰ (ص) کا مقام ہے، ہماری آبرو مصطفیٰ (ص) کے نام سے ہے۔
اس خیال کے آتے ہی میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ تو بے شک اقبال ہی کا ہے لیکن کیا اقبال کی موت ایک لحاظ سے ہندوستان کے آخری مسلمان کی موت نہیں؟ اس لیے کہ وہ اسلام کا نقیب تھا، رازدار تھا اور اب کون ہے جو علامہ مرحوم کی مخصوص حیثیت میں انکی جگہ لے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مقاماتِ عالیہ سے سرفراز فرمائے اور ان کو اپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں پناہ دے، آمین، ثم آمین۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
آنچہ گفتم از جہانے دیگر است
ایں کتابِ از آسمانے دیگر است
میں نے یہ جو کچھ کہا ہے (جاوید نامہ میں) وہ کسی اور جہان سے ہے، یہ کتاب کسی اور آسمان سے ہے۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال |
تھیں چند ہی نگاہیں جو اُس تک پہنچ سکیں
پر اُس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
کسی نے کہا تھا۔
گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتَن گر داغ ہائے سینہ ہا
(اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں تو کبھی کبھی یہ پرانے قصے بھی پڑھ لیا کر)
اسی شعر کے مصداق علامہ کی برسی کے حوالے سے کچھ پڑھنے اور لکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ علامہ کی بیماری اور انکے آخری دنوں کی روداد انکے مخلتف نیاز مندوں اور انکی صحبت سے فیضیاب ہونے والے خوش قسمت ہم نشینوں کی یادوں میں پڑھنے کو ملی۔ ان میں مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، سیّد نذیر نیازی وغیرہم اور پھر انکے فرزندِ دلبند جاوید اقبال بھی شامل ہیں۔
سید نذیر نیازی کو علامہ کی خدمت کرنے کا کئی سال تک شرف حاصل رہا، اور علامہ کی چار سالہ طویل بیماری کو کاٹنے میں آپ نے علامہ کا ساتھ دیا۔ آپ کے ذمے علامہ کے کلام کی 'دیکھ بھال' اور اشعار کی ترتیب و تسوید کے ساتھ ساتھ علامہ کیلیے ادویات مہیا کرنا بھی تھا اور 1936ء میں علامہ کے ایماء سے آپ مستقل لاہور ہی منتقل ہو گئے۔ علامہ اقبال نے اپنے شہرہ آفاق انگریزی خطبات کے ترجمے کا کام بھی سید نذیر نیازی کو تفویض کیا تھا اور ترجمہ اپنی نگرانی میں کرواتے تھے بلکہ ترجمے کا نام 'تشکیلِ جدید الٰہیّاتِ اسلامیہ' بھی اقبال نے خود دیا تھا لیکن افسوس کہ علامہ کی علالت کے سبب وہ ترجمہ انکی زندگی میں شائع نہ ہو سکا اور پھر بوجوہ ایک لمبے عرصے تک شائع نہ ہوا، بلآخر 1957ء میں 'بزمِ اقبال' کے اہتمام سے سید نذیر نیازی نے ہی یہ ترجمہ شائع کیا۔
سیّد نذیر نیازی نے علامہ کی علالت اور آخری دنوں کے حالات اپنے ایک طویل مضمون "اقبال کی آخری علالت" میں قلم بند کیے ہیں، اس مضمون کا آخری حصہ، جو 20 اور 21ء اپریل کے دنوں کے واقعات پر مشتمل ہے، اپنے بلاگ کے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ یہ مضمون اقبالیات پر منتخب اور خوبصورت مضامین کی کتاب "اقبالیات کے سو سال" میں سے لیا ہے۔ اس کتاب کا مختصر تعارف یوں ہے کہ 2002ء، پاکستان میں 'سالِ اقبال' کے طور پر منایا گیا تھا اور اقبالیات کے سو سال پورے ہونے کی نسبت سے (کہ اقبال اور ان کے کلام پر سب سے پہلا مضمون 1902ء میں شیخ عبدالقادر نے لکھا تھا) اقبال اکادمی پاکستان نے مذکورہ کتاب شائع کی تھی، اور اسکا دوسرا ایڈیشن طبع 2007ء خاکسار کے زیرِ مطالعہ ہے۔ ایک وضاحت یہ کہ مضمون میں دیئے گئے فارسی اشعار کا ترجمہ اصل مضمون میں نہیں ہے لیکن انکی افادیت کے زیرِ نظر میں نے اشعار کا ترجمہ بھی لکھ دیا ہے۔
"اقبال کی آخری علالت" از سیّد نذیر نیازی سے ایک اقتباس
بلآخر وہ وقت آ پہنچا جس کا کھٹکا مدت سے لگا ہوا تھا۔ 20 اپریل کی سہ پہر کو جب میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ بیرن فلٹ ہائم اور انکے ایک پارسی دوست سے گفتگو کر رہے تھے اور گوئٹے اور شلر اور معلوم نہیں کس کس کا ذکر تھا، فلٹ ہائم گئے تو چند اور احباب آ گئے جن سے دیر تک لیگ، کانگرس اور بیرونی سیاسیات پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ شام کے قریب جب انکے معالجین ایک ایک کر کے جمع ہوئے تو انہیں بتلایا گیا کہ حضرت علامہ کو بلغم میں کل شام سے خون آ رہا ہے۔ یہ علامت نہایت یاس انگیز تھی، اس لیے کہ خون دل سے آیا تھا۔ اس حالت میں کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ شاید وہ آج کی رات جان بر نہ ہو سکیں مگر انسان اپنی عادت سے مجبور ہے، تدبیر کا دامن آخر وقت تک نہیں چھوڑتا۔ قرشی صاحب (حکیم محمد حسن قرشی) نے بعض دوائیں تلاش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو موٹر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتفاق سے اسی وقت راجا صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے پوچھا گاڑی ہے؟ کہنے لگے، "نہیں مگر کیا مضائقہ ہے ابھی لیے آتا ہوں۔" چونکہ انکی اپنی گاڑی خراب تھی لہذا اتنا کہہ کر راجا صاحب موٹر کی تلاش میں نکل گئے۔ ادھر ڈاکٹر صاحبان کی رائے ہوئی کہ کرنل امیر چند صاحب کو بھی مشورے میں شامل کر لیا جائے۔ اس اثنا میں ہم لوگ حضرت علامہ کا پلنگ صحن میں لے آئے تھے، کرنل صاحب تشریف لائے تو انکی حالت کسی قدر سنبھل چکی تھی، مطلب یہ کہ ان کے حواس ظاہری کی کیفیت یہ تھی کہ ایک دفعہ پھر امید بندھ گئی لہذا طے ہوا کہ کچھ تدابیر اس وقت اختیار کی جائیں اور کچھ صبح۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحبان چلے گئے اور ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب کو رات کے لیے ضروری ہدایات دیتے گئے۔ اب ہوا میں ذرا سی خنکی آ چکی تھی اس لیے حضرت علامہ بڑے کمرے میں اٹھ آئے اور حسبِ معمول باتیں کرنے لگے۔ دفعتاً انہیں خیال آیا کہ قرشی صاحب غالباً شام سے بھوکے ہیں اور ہر چند کہ انہوں نے انکار کیا لیکن حضرت علامہ، علی بخش سے کہنے لگے کہ ان کے لیے چائے تیار کرے اور نئے بسکٹ جو میم صاحبہ نے بنائے ہیں، کھلائے۔ اس وقت صرف ہم لوگ یعنی قرشی صاحب، چودھری صاحب (چودھری محمد حسین)، سید سلامت اللہ اور راقم الحروف انکی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو یاد فرمایا تو ان سے عرض کیا گیا کہ وہ کام سے گئے ہیں۔ 11 بجے تو اس خیال سے کہ ہم لوگ شاید انکی نیند میں حارج ہو رہے ہیں، چودھری صاحب نے اجازت طلب کی لیکن حضرت علامہ نے فرمایا، "میں دوا پی لوں پھر چلے جائیے گا۔" اسطرح بیس پچیس منٹ اور گزر گئے حتیٰ کہ شفیع صاحب کیمسٹ کے ہاں سے دوا لیکر آ گئے۔ حضرت علامہ کو ایک خوراک پلائی گئی مگر اسکے پیتے ہی انکا جی متلانے لگا اور انہوں نے خفا ہو کر کہا، "یہ دوائیں غیر انسانی ہیں۔" انکی گھبراہٹ کو دیکھ کر قرشی صاحب نے خمیرہ گاؤ زبان عنبری کی ایک خوراک کھلائی جس سے فوراً سکون ہو گیا۔ اسکے بعد حضرت علامہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ایلوپیتھک دوا استعمال نہیں کریں گے اور جب شفیع صاحب نے یہ کہا کہ انہیں اوروں کے لیے زندہ رہنا چاہیئے تو فرمایا، "ان دواؤں کے سہارے نہیں۔" اسطرح گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ بلآخر یہ دیکھ کر کہ حضرت علامہ نیند کی طرف مائل ہیں، ہم نے اجازت طلب کی، انہون نے فرمایا، "بہت اچھا" لیکن معلوم ہوتا ہے انکی خواہش تھی کہ ہو سکے تو قرشی صاحب ٹھہرے رہیں۔ بایں ہمہ انہوں نے اس امر پر اصرار نہیں کیا، اس وقت بارہ بج کر تیس منٹ ہوئے تھے اور کسی کو یہ وہم بھی نہ تھا کہ یہ آخری صحبت ہوگی جاوید منزل کی۔
ہم لوگ حضرت علامہ کی خدمت سے اٹھ کر آئے ہی تھے کہ راجا صاحب تشریف لے آئے اور آخر شب تک وہیں حاضر رہے۔ شروع شروع میں تو حضرت علامہ کو سکون رہا اور وہ کچھ سو بھی گئے لیکن پچھلے پہر کے قریب بے چینی شروع ہو گئی۔ اس پر انہوں نے شفیع صاحب سے کہا، "قرشی صاحب کو لے آؤ۔" وہ انکے ہاں آئے تو سہی لیکن غلطی سے اطلاع نہ کر سکے۔ شاید 3 بجے کا وقت ہوگا کہ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو طلب فرمایا۔ انکا (راجا صاحب) کا اپنا بیان ہے کہ جب میں حاضر ہوا تو حضرت علامہ نے دیوان علی سے کہا، "تم سو جاؤ البتہ علی بخش جاگتا رہے، اب اسکے سونے کا وقت نہیں۔" اسکے بعد مجھ سے فرمایا، "پیٹھ کی طرف کیوں بیٹھے ہو سامنے آ جاؤ۔" میں انکے متصل ہو بیٹھا، کہنے لگے، "قرآن مجید کا کوئی حصہ پڑھ کر سناؤ، کوئی حدیث یاد ہے؟" اسکے بعد ان پر غنودگی سی طاری ہو گئی، میں نے دیا گل کر دیا اور باہر تخت پر آ بیٹھا۔ راجا صاحب چلے آئے تو ایک دفعہ پھر کوشش کی گئی کہ حضرت علامہ رات کو دوا استعمال کریں مگر انہوں نے سختی سے انکار کر دیا، ایک مرتبہ فرمایا، "جب ہم حیات کی ماہیت ہی سے بے خبر ہیں تو اسکا علم کیونکر ممکن ہے؟" تھوڑی دیر کے بعد راجا صاحب کو پھر ان سے قرشی صاحب کے لانے کے لیے کہا۔ راجا صاحب کہتے ہیں، "میں اس وقت کی حالت کا مطلق اندازہ نہ کرنے پایا تھا، میں نے عرض کیا حکیم صاحب رات دیر سے گئے ہیں شاید ان کو بیدار کرنا مناسب نہ ہو۔" پھر اپنی یہ رباعی پڑھی جو گذشتہ دسمبر میں انہوں نے کہی تھی۔
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟
سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید؟
گذرا ہوا سرود دوبارہ آتا ہے یا نہیں، حجاز سے نسیم دوبارہ آتی ہے یا نہیں، اس فقیر کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا، کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے یا نہیں۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال |
جس کے آوازے سے لذّت گیر اب تک گوش ہے
وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
21 اپریل کی صبح کو میں سویرے ہی اٹھا اور حسبِ عادت جاوید منزل پہنچ گیا لیکن ابھی پھاٹک میں قدم رکھا تھا کہ راجا صاحب نظر آئے، انکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، میں سمجھا رات کی بے خوابی کا اثر ہے۔ میں انکی طرف بڑھا اور کہنے لگا، رات آپ کہاں تھے؟ آپ کا دیر تک انتظار رہا۔ وہ معلوم نہیں ہاتھ سے کیا اشارہ کرتے ہوئے ایک طرف چلے گئے، پیچھے مڑ کر دیکھا تو قرشی صاحب سر جھکائے ایک روش پر ٹہل رہے تھے۔ میں نے حضرت علامہ کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے کچھ تامل کیا، پھر ایک دھیمی اور بھرائی ہوئی آواز میں انکے منہ سے صرف اتنا نکلا، "فوت ہو گئے"۔
میں ایک لحظے کے لیے سناٹے میں تھا پھر دفعتاً حضرت علامہ کی خواب گاہ کی طرف بڑھا، پردہ ہٹا کر دیکھا تو انکے فکر آلود چہرے پر ایک ہلکا سا تبسم اور سکون و متانت کے آثار نمایاں تھے۔ معلوم ہوتا تھا وہ بہت گہری نیند سو رہے ہیں۔ پلنگ سے ہٹ کر فرش پر بیٹھ گیا، شاید وہاں کچھ اور حضرات بھی بیٹھے تھے لیکن میں نے نہیں دیکھا۔ ہاں راجا صاحب کو دیکھا وہ انکی پائنتی کا سہارا لیے زار زار رو رہے تھے، ان کو دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں کو ضبط نہ کر سکا اور بے قرار ہو کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
اس اثنا میں حضرت علامہ کے انتقال کی خبر بجلی کی طرح شہر میں پھیل چکی تھی، اب جاوید منزل میں انکے عقیدت مندوں کا ہجوم تھا۔ یہ سانحہ کچھ اس قدر عجلت اور بے خبری میں پیش آیا تھا کہ جو شخص آتا معجب ہو کر کہتا، "کیا ڈاکٹر صاحب، کیا علامہ اقبال فوت ہو گئے؟"۔ گویا انکے نزدیک یہ خبر ابھی غلط تھی حالانکہ وہ گھڑی جو برحق ہے اور جسکا ایک دن ہر کسی کو سامنا کرنا ہے، آ پہنچی تھی۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۔ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ۔
جنازہ سہ پہر میں 5 بجے کے قریب اٹھا۔ جاوید منزل کے صحن اور کمروں میں خلقت کا اژدہام تھا، معلوم نہیں انکے غم میں کس کس کی آنکھیں اشک بار ہوئیں اور میو روڈ سے شاہی مسجد تک کتنے انسان جنازے میں شریک تھے۔ ہم لوگ لاہور کی مختلف سڑکوں سے گزر رہے تھے، شہر میں ایک کہرام سا مچا ہوا تھا۔ جدھر دیکھیئے حضرت علامہ کا ہی ذکر تھا۔ جنازہ ابھی راستے میں تھا کہ اخباروں کے ضمیمے، قطعات اور مرثیے تقسیم ہونے لگے۔ دفعتاً خیال آیا کہ یہ اس شخص کی میت ہے جسکا دل و دماغ رفتہ رفتہ اسلام میں اسطرح کھویا گیا کہ اسکی نگاہوں میں اور کوئی چیز جچتی ہی نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی بے حسی اور اغیار کی چیرہ دستی کے باوجود یہ کہنے سے باز نہ رہ سکا۔
گرچہ رفت از دستِ ما تاج و نگیں
ما گدایاں را بہ چشمِ کم مَبیں
اگرچہ ہمارے ہاتھ سے تاج و نگیں چلا گیا ہے لیکن ہم گداؤں کو کم (حقیر) نظروں سے مت دیکھو۔
معلوم نہیں ساحر افرنگ کی فریب کاریوں نے اسے کس کس راہ سے سمجھایا کہ ملت اسلامیہ کی نجات تہذیب نو کی پرستش میں ہے مگر اسکے ایمان سے لبریز دل میں نبی امّی صلعم کی محبت بے اختیار کہہ اٹھی۔
در دلِ مُسلم، مقامِ مصطفیٰ است
آبروئے ما ز نامِ مصطفیٰ است
دلِ مسلم میں مصطفیٰ (ص) کا مقام ہے، ہماری آبرو مصطفیٰ (ص) کے نام سے ہے۔
اس خیال کے آتے ہی میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ تو بے شک اقبال ہی کا ہے لیکن کیا اقبال کی موت ایک لحاظ سے ہندوستان کے آخری مسلمان کی موت نہیں؟ اس لیے کہ وہ اسلام کا نقیب تھا، رازدار تھا اور اب کون ہے جو علامہ مرحوم کی مخصوص حیثیت میں انکی جگہ لے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مقاماتِ عالیہ سے سرفراز فرمائے اور ان کو اپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں پناہ دے، آمین، ثم آمین۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Labels:
اقبالیات,
سید نذیر نیازی,
علامہ اقبال,
یاد رفتگاں
Apr 17, 2009
فیضان
لاہور میں، میں قریب قریب اڑھائی سال رہا لیکن بالکل اسی طرح جسطرح گوہر صدف میں رہتا ہے، میری دوڑ اپنے ہاسٹل سے کالج تک اور زیادہ سے زیادہ پرانی انارکلی تک ہی ہوتی تھی، جہاں میں مہینے میں دو تین بار لازمی طور پر کتابیں خریدنے جایا کرتا تھا۔ میرے کالج اور ہوسٹل کے ساتھی باقاعدہ پروگرام بنا کر لاہور کے تاریخی مقامات بھی دیکھنے جایا کرتے تھے اور فلمیں بھی لیکن مجھ پر ہمیشہ سنگ و خشت میں مقید رہنا ہی شاید نازل ہوا ہے اور اس پر دوستوں کے طنز کا بھی بارہا نشانہ بنا۔ لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ میں بھی کشاں کشاں چلنے کو تیار ہو گیا، ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ انکے کالج میں ایک مشاعرہ ہو رہا ہے سو چلو اور میں تیار ہو گیا، میرے اسطرح فوری تیار ہونے پر سبھی دوست حیران بھی ہوئے کہ میں حجام کے پاس جانے سے پہلے بھی کئی کئی دن 'تیاری' کرتا اور سوچتا رہتا ہوں۔
وہ مشاعرہ واقعی یادگار تھا اور میرے لیے تو خاص طور پر یادگار کہ میری زندگی کا یہ پہلا اور آخری مشاعرہ ہے جس میں میں نے شرکت کی اور سنا۔ اس مشاعرے میں کئی نامور، سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر موجود تھے جن میں منیر نیازی، امجد اسلام امجد، ضیاءالحق قاسمی، پروفیسر عنایت علی خان، خالد مسعود خان وغیرہ شامل تھے۔ پنڈال میں پہنچے تو وہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی اور مجھے بہت پیچھے نشست ملی، اپنے پسندیدہ شاعروں کے اتنے قریب آ کر اتنا دُور رہنا میرے لیے ناممکن تھا سو کرسی سے اٹھا اور اسٹیج کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور تین چار گھنٹے تک سارا مشاعرہ کھڑے ہو کر سنا۔ داد تو میں بڑھ چڑھ کر دے ہی رہا تھا اسکے بعد فرمائشیں بھی شروع کر دیں، منیر نیازی مرحوم ان دنوں کافی ضعیف ہو چکے تھے لیکن ہم کافی دیر تک ان سے ان کا کلام سنتے رہے، اور میں نے ان سے انکی مشہور پنجابی نظم 'کج شہر دے لوگ وی ظالم سن' بھی سننے کا شرف حاصل کیا۔ میری فرمائشیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو خالد مسعود بول ہی اٹھے کہ 'بندہ تو ایک ہے اور فرمائشیں پورے پنڈال کی طرف سے کر رہا ہے۔"۔
مشاعرہ ختم ہوا تو شعراء کرام سے ہاتھ ملانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی، منیر نیازی سے کجھ باتیں بھی ہوئیں، ان کے ارد گرد کافی طالب علم کھڑے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے" ذرا بچوں کو تنقید پڑا رہا ہوں"، دراصل وہ گلہ کر رہے تھے کہ ان کو اردو شاعری میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے اور ان سے کمتر شعراء اپنی "پی آر" اور تعلقات کی وجہ سے زیادہ شہرت حاصل کر گئے۔ پروفیسر عنایت علی خان سے ملا تو کہنے لگے، 'یار آپ تو بہت اچھے سامع ہیں، سارا مشاعرہ کھڑے ہو کر سنا۔"
اس وقت میرے پاس آٹو گراف لینے کیلیے کوئی چیز موجود نہ تھی، ایک دوست کے ہاتھ میں ڈائری دیکھی تو اسی پر شعرائے کرام سے آٹو گراف حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، لیکن افسوس وہ سنگ دل دوست اپنی ڈائری کسی طور مجھے دینے پر رضامند نہ ہوا اور یوں وہ متاع چھن گئی، لیکن ایک یادگار اور لازوال خزانہ اس مشاعرے کے حوالے سے جو میرے پاس ہے وہ کوئی نہیں چھین سکتا، امجد اسلام امجد اسٹیج سے نیچے اترے تو ان کے جوتے اسٹیج کے نیچے کہیں دُور پہنچ چکے تھے، اس خاکسار نے نہ صرف انکے جوتے نکالے بلکہ ان کو 'سیدھا بھی کیا' بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس مشاعرے کو سننے کیلیے میرا غیر ارادی طور پر تیار ہو جانا صرف اور صرف اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے کیلیے ہی تھا۔ بقولِ شاعر
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشَد خدائے بخشندہ
(یہ سعادت اپنے زورِ بازو سے حاصل نہیں ہوتی، تا وقتیکہ بخشنے والا خدا نہ بخشے)۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
وہ مشاعرہ واقعی یادگار تھا اور میرے لیے تو خاص طور پر یادگار کہ میری زندگی کا یہ پہلا اور آخری مشاعرہ ہے جس میں میں نے شرکت کی اور سنا۔ اس مشاعرے میں کئی نامور، سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر موجود تھے جن میں منیر نیازی، امجد اسلام امجد، ضیاءالحق قاسمی، پروفیسر عنایت علی خان، خالد مسعود خان وغیرہ شامل تھے۔ پنڈال میں پہنچے تو وہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی اور مجھے بہت پیچھے نشست ملی، اپنے پسندیدہ شاعروں کے اتنے قریب آ کر اتنا دُور رہنا میرے لیے ناممکن تھا سو کرسی سے اٹھا اور اسٹیج کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور تین چار گھنٹے تک سارا مشاعرہ کھڑے ہو کر سنا۔ داد تو میں بڑھ چڑھ کر دے ہی رہا تھا اسکے بعد فرمائشیں بھی شروع کر دیں، منیر نیازی مرحوم ان دنوں کافی ضعیف ہو چکے تھے لیکن ہم کافی دیر تک ان سے ان کا کلام سنتے رہے، اور میں نے ان سے انکی مشہور پنجابی نظم 'کج شہر دے لوگ وی ظالم سن' بھی سننے کا شرف حاصل کیا۔ میری فرمائشیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو خالد مسعود بول ہی اٹھے کہ 'بندہ تو ایک ہے اور فرمائشیں پورے پنڈال کی طرف سے کر رہا ہے۔"۔
مشاعرہ ختم ہوا تو شعراء کرام سے ہاتھ ملانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی، منیر نیازی سے کجھ باتیں بھی ہوئیں، ان کے ارد گرد کافی طالب علم کھڑے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے" ذرا بچوں کو تنقید پڑا رہا ہوں"، دراصل وہ گلہ کر رہے تھے کہ ان کو اردو شاعری میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے اور ان سے کمتر شعراء اپنی "پی آر" اور تعلقات کی وجہ سے زیادہ شہرت حاصل کر گئے۔ پروفیسر عنایت علی خان سے ملا تو کہنے لگے، 'یار آپ تو بہت اچھے سامع ہیں، سارا مشاعرہ کھڑے ہو کر سنا۔"
اس وقت میرے پاس آٹو گراف لینے کیلیے کوئی چیز موجود نہ تھی، ایک دوست کے ہاتھ میں ڈائری دیکھی تو اسی پر شعرائے کرام سے آٹو گراف حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، لیکن افسوس وہ سنگ دل دوست اپنی ڈائری کسی طور مجھے دینے پر رضامند نہ ہوا اور یوں وہ متاع چھن گئی، لیکن ایک یادگار اور لازوال خزانہ اس مشاعرے کے حوالے سے جو میرے پاس ہے وہ کوئی نہیں چھین سکتا، امجد اسلام امجد اسٹیج سے نیچے اترے تو ان کے جوتے اسٹیج کے نیچے کہیں دُور پہنچ چکے تھے، اس خاکسار نے نہ صرف انکے جوتے نکالے بلکہ ان کو 'سیدھا بھی کیا' بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس مشاعرے کو سننے کیلیے میرا غیر ارادی طور پر تیار ہو جانا صرف اور صرف اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے کیلیے ہی تھا۔ بقولِ شاعر
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشَد خدائے بخشندہ
(یہ سعادت اپنے زورِ بازو سے حاصل نہیں ہوتی، تا وقتیکہ بخشنے والا خدا نہ بخشے)۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Apr 13, 2009
رالف رسل از محمود ہاشمی
بابائے اردو برطانیہ، پروفیسر رالف رسل مرحوم کے بارے میں یہ خاکہ 'نقوش' کے سالنامہ جون 1985ء میں چھپا تھا، اسے اپنے بلاگ کے قارئین کیلیے پیش کر رہا ہوں۔ انکی ایک یادگار تصویر انکی، غالب کی فارسی غزلیات کے انگریزی ترجمے کی کتاب سے لی ہے، 'غالب کی فارسی غزلوں سے انتخاب' نامی اس کتاب میں رالف رسل کے انگریزی ترجمے کے ساتھ ساتھ افتخار احمد عدنی کے منظوم تراجم ہیں اور یوں یہ کام ایک شاہکار بن گیا ہے۔ خاکسار کا مرتب کردہ، اس کتاب میں سے کچھ غزلیات کا انتخاب مع دیگر تراجم، اردو لائبریری کے اس ربط پر دیکھا جا سکتا ہے
رالف رسل از محمود ہاشمی
رالف رسل کا نام میں نے آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے سنا تھا، ایک محفل میں ایک صاحب نے باتوں باتوں میں کہا۔
"یار، ایک انگریز ہے لیکن اردو بولتا ہے تو معلوم ہوتا ہے ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آیا ہے۔"
محفل میں ایک کشمیری صاحب بیٹھے تھے، انہوں نے کہا۔
"یار، کوئی کشمیری پنڈت ہوگا، گورا رنگ دیکھ کر تم نے اسے انگریز سمجھ لیا۔"
وہ صاحب بولے۔
Ralph Russel, رالف رسل |
لیکن ہمارے کشمیری دوست ہر بات جھٹلانے اور کسی کی ہرگز ہرگز نہ ماننے کے موڈ میں تھے، فوراً بولے۔
"اچھا تو تم رحمت رسول کی بات کر رہے ہو، بھئی وہ واقعی کشمیری پنڈت نہیں، سوری، آئی ایم ویری ویری سوری۔ اصل میں اسکا خاندان اور ڈاکٹر اقبال کا خاندان کشمیر کی وادی سے ایک ساتھ نکلے تھے۔ ڈاکٹر اقبال کے بڑے بزرگ نے جونہی سرحد پار کی اور پنجاب کے شہر سیالکوٹ پہنچے تو وہیں ٹِک گئے لیکن رحمت رسول کے باوا نے دلی جا کر دم لیا۔ یہ رحمت رسول خالص دلی کی پیداوار ہے، پر ہے بڑا مسخرہ، بالکل انگریز لگتا ہے اور یار لوگ دوسروں کو بیوقوف بنانے کیلیے اسے لیے پھرتے ہیں، انگریز کہہ کر تعارف کراتے ہیں اور اسکا رالف رسل نام بتاتے ہیں۔"
اُن صاحب نے جنہوں نے یہ ذکر شروع کیا تھا، کچھ کہنے کیلیے اپنا منہ کھولا، لیکن محفل پر ہنسی کا ایک ایسا دورہ پڑ چکا تھا کہ اس نقار خانے میں انکی آواز طُوطی کی آواز بن کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بات آئی گئی ہو گئی۔
کچھ دن بعد پھر اُسی محفل میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہ صاحب جنہوں نے رالف رسل کو رحمت رسول بنا کر اور اس کا شجرۂ نسب کشمیر کی وادی سے دریافت کر کے دلی سے جوڑا تھا، ذرا سنجیدگی کے مُوڈ میں تھے اور باتیں رالف رسل ہی کی ہو رہی تھیں، وہ کہہ رہے تھے۔
"یار جب میں یہ سنتا ہوں کہ ایک انگریز رالف رسل اردو بولتا ہے اور صحیح بولتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے لیکن جب لوگ اُس کی اِس خوبی کا ذکر اسطرح کرتے ہیں جیسے کوئی معجزہ ظہور میں آ گیا ہو، تو جی چاہتا ہے اپنا سر پیٹ لوں یا کہنے والے کا سر پھوڑ دوں۔ میں بھی رالف رسل کی عظمت کا معترف ہوں لیکن میں اُس سے محض اس لیے متاثر نہیں ہوتا کہ وہ اردو صحیح بولتا ہے، آخر ہم میں سے بھی بہت سے اسکی مادری زبان انگریزی بولتے ہیں اور اکثر صحیح بولتے ہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں اِس انگریز کا معترف ہوں تو اس لیے کہ اس نے اس اردو کو اپنایا ہے جسے اپنے گھر میں بھی وہ عزت اور احترام نہیں ملتا جو اسکا حق ہے۔ ہمارے لیے اردو سے زیادہ انگریزی "محترم" ہے۔ ہم انگریزی زبان میں قابلیت بڑھانے کو ترقی کی معراج سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو جو اردو کے متوالے ہیں، کمتر قسم کی مخلوق سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ اردو کروڑوں عوام کی زبان ضرور ہے لیکن ہمارے خواص اس سے بدکتے ہیں۔ وہ لوگ جو اردو میں ادب تخلیق کرتے ہیں اور شعر و شاعری کو اپنا شعار بناتے ہیں انہیں بھی ہمارے خواص ہی برداشت کرتے ہیں، کچھ اپنی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنے کیلیے اور بعض اوقات محض تفریحِ طبع اور دل بہلاوے کی خاطر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
میرا دوست بہت سنجیدہ ہو رہا تھا، اس نے کہا۔ "رالف رسل ہمارے لیے اہم ہے، بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنی زبان کو اپنے ہاں کے خواص میں قابلِ قبول بنانے کیلیے اس جیسے خاص الخاص انگریز کی بڑی ضرورت ہے، اسکا وجود ہمیں احساس دلاتا ہے کہ دیکھو تم خواہ مخواہ احساسِ کمتری میں مارے جا رہے ہو، مجھے دیکھو، اگر تمھاری یہ اردو اتنی ہی گئی گزری ہوتی تو مجھے کیا پڑی تھی کہ اپنے منہ کا ذائقہ خراب کرتا اور اس سے محبت کی جوت جگاتا۔"
میں سمجھتا ہوں میرے اس کشمیری دوست نے غلط نہیں کہا تھا۔
یہ درست ہے کہ رالف رسل کے علاوہ اور بھی بہت سے انگریزوں نے اردو کو قابلِ توجہ سمجھا بلکہ بعض نے تو اردو میں شاعری تک کی اور حقہ پی پی کر شعر کہے، لیکن یہ عام طور پر اس زمانے کی باتیں ہیں جب انگریز اور اسکی انگریزی نے ابھی ہمیں اپنے دام میں گرفتار نہیں کیا تھا۔ ہمارا اپنا تشخص برقرار تھا اور ہمیں اس پر ناز بھی تھا۔ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں تازہ وارد تھی اور ایک نئے ملک کے لوگوں کو سمجھنے اور ان میں مقبول ہونے کے لیے انگریز اس طرح کا ہر اقدام کر رہا تھا جو اس کو مفیدِ طلب معلوم ہوتا تھا۔ ملک کا مکمل طور پر حاکم بن جانے کے بعد محبتوں کا یہ زمانہ بہت حد تک ختم ہو گیا۔ اب ہماری باری تھی اور ہم پر لازم ہونے لگا تھا کہ انگریزی کو اپنائیں، تاہم اب بھی حکمران طبقے کے کچھ لوگ اردو میں دلچسپی لینے پر مجبور تھے۔ اِن میں عام طور پر وہ پادری تھے جو "نیٹوز" میں مذہب کا پرچار کرنے کیلیے اردو سیکھتے تھے۔ انہیں زبان کے لطیف پہلوؤں سے کوئی غرض نہ تھی اور وہ ایک "کام چلاؤ" قسم کی اردو سے مطمئن تھے۔ پادریوں کے علاوہ ایک اور قابلِ ذکر طبقہ جو اردو سیکھتا تھا اور اسے "ہندوستانی" کہتا تھا، برطانوی افسران اور انکی میم صاحبائیں تھیں جو اپنے نوکروں، خانساموں اور مالیوں وغیرہ پر حکم چلانے کے لیے یہ "دردِ سر" مول لیتی تھیں۔ انکا مبلغِ علم عام طور پر اسطرح کے چند جملوں تک محدود ہوتا تھا کہ "کٹنا بجا ہے" اور "آل دی سب چیز ٹیک ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زبان کے صحیح تلفظ، لب و لہجہ اور اسکے دوسرے لوازمات کی طرف توجہ دینے کی نہ ان میں سے کسی کو ضرورت تھی اور نہ وہ اس کیلیے محنت کرنے کیلیے تیار تھے۔ بہرحال کچھ انگریز ایسے بھی تھے اور اب بھی ہیں جنہوں نے اردو کے ساتھ اگر اپنا تعلق قایم کیا تو اسے ایک اہم زبان سمجھ کر اور نہایت خلوص کے ساتھ۔ انہوں نے رالف رسل کی طرح اردو کے قواعد و ضوابط بھی سیکھے، اسکا مزاج بھی اپنایا اور اس سے تہذیبی رشتے بھی جوڑے۔ لیکن ان کی تعداد کم۔۔۔۔۔۔۔بہت کم تھی، اور انہیں ہاتھ۔۔۔۔۔صرف ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ اب البتہ انکی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اسکی ایک وجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خاصی بڑی وجہ رالف رسل ہیں۔ انگریزوں کی اردو دان برادری جو رالف رسل کے بعد پیدا ہوئی ہے اور ہو رہی ہے وہ کسی نہ کسی طرح رالف رسل ہی کا پر تو ہے۔ اس ایک چراغ سے کئی نئے چراغ جلے ہیں اور اس سلسلہ میں زندہ و تابندہ رالف رسل اور اسکی "گل افشانیِ گفتار" کا بہت بڑا دخل ہے۔
رالف رسل صاحب سے میری پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب میں برطانیہ میں نووارد تھا اور یہاں کی دوسری "قابلِ دید" چیزوں کے ساتھ ساتھ ان سے ملنا اور انہیں دیکھنا ضروری کاموں میں سے ایک تھا۔ چنانچہ میں نے یہ ضروری کام کیا اور اس رالف رسل کو دیکھا جو برطانیہ کی اس انگریز دنیا میں اردو کا چراغ جلائے بیٹھا ہے۔ اسکے بعد چلتے چلاتے کی دو چار اور ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں سے ایک مجھے خاص طور پر یاد ہے۔
ہم دونوں کو اوپر کی ایک منزل سے نیچے اترنا تھا اور ہم جلدی میں تھے، کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بٹن دبانے کے بعد کچھ دیر 'لفٹ' کا انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ جونہی ہم نے بٹن دبایا لفٹ سامنے آ کھڑی ہوئی، اس پر رالف رسل صاحب نے ایک نعرہ لگایا۔
"زندہ باد!"
میں نے چونک کر انہیں دیکھا اور دل میں سوچا "یہ شخص صرف اردو بولتا ہی نہیں، اردو کے ساتھ رہنا بھی جانتا ہے۔"
لیکن انکے اصل جوہر مجھ پر پچھلے چار پانچ سال میں کھلے، جب مجھے انہیں ذرا زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور مجھے معلوم ہوا کہ یہ صرف اردو بولتے ہی نہیں اور خود اردو پڑھ کر لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز میں صرف اردو پڑھانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ انہوں نے یہ بیڑا بھی اٹھا رکھا ہے کہ سارے برطانیہ کو اردو دان بنا کر دم لیں گے۔ اس سلسلہ میں لندن سے گلاسگو تک کا قریب قریب ہر شہر انکی زد میں ہے۔ اِس شہر میں ایشیائی بچوں کو اردو پڑھانے جا رہے ہیں تو اُس شہر میں انگریز بالغوں کیلیے اردو پڑھانے کا کورس جاری کر رکھا ہے۔ آج ایک شہر میں وہاں کے کسی سکول کے ہیڈ ٹیچر کو اس بات پر آمادہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے سکول میں اردو کو باقاعدہ نصاب میں شامل کر لے تو کل کسی اور شہر میں وہاں کے ایجوکیشن آفیسر، انسپکٹر یا ایڈوایئزر کو برطانوی سکولوں میں اردو پڑھانے کی اہمیت کا قائل کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ رالف رسل صاحب کی بھاگ دوڑ ہی کا نتیجہ ہے کہ لندن میں ایک اردو کانفرنس ہوئی اور پھر دوسرے سال بڑے دھڑلے سے ایک اور ہوئی۔ دونوں کانفرنسوں میں ملک کے اربابِ اقتدار اور محکمۂ تعلیم کے با اثر نمائندوں کو خاص طور پر شریک کیا گیا تا کہ برطانوی ذہنوں پر اردو کے بارے میں کم علمی کے جو غلاف چڑھے ہیں وہ اتر جائیں، اور وہ بھی اپنے ہاں کے سکولوں میں اردو کو ایک باقاعدہ مضمون کی حیثیت دینے کے بارے میں سوچیں اور عملی قدم اٹھائیں۔
ایک صاحب سے جو یہاں کے سکولوں میں پنجابی زبان کو نصاب میں شامل کرنے کے بارے میں بڑے مستعد ہیں، ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی تو کہنے لگے۔
"برطانیہ کے ایشیائیوں میں سب سے زیادہ پنجابی بولنے والے ہیں اس لحاظ سے یہاں کے سکولوں میں پنجابی کو اردو سے پہلے اسکا جائز مقام ملنا چاہیئے لیکن معاملہ اسکے برعکس ہے۔ تم لوگ بڑے خوش قسمت ہو کہ تمہیں ایک رالف رسل مل گیا ہے ورنہ تم اردو والے تو انشاءاللہ، ماشاءاللہ والے ہو، ہر کام اللہ کے سپرد کر کے خود کچھ نہیں کرتے، اگر یہ رالف رسل نہ ہوتا تو تم بس مشاعرے ہی کرتے رہتے اور ہم تمھارے بچوں کو بھی گورمکھی رسم الخط میں پنجابی پڑھا دیتے۔"
مانچسٹر میں ایک انجمن ہے جسکا نام ہے "نیشنل ورکنگ پارٹی اون سٹیریلز فار اردو ٹیچنگ"، اسکے معتمد وہاں کے کرس لیوکی صاحب ہیں لیکن روحِ رواں ہمارے رالف رسل ہی ہیں۔ یہ انجمن اس لیے قایم کی گئی ہے کہ برطانوی سکولوں میں اردو پڑھنے والے طلباء کے لیے مناسب اور موزوں کتب کی جو کمی محسوس ہوتی ہے اس پر سوچ و بچار کرے اور اس کمی کو دور کرنے کیلیے عملی اقدامات کرے۔ مانچسٹر میں اردو کے استادوں کے گروپ نے اپنے ہاں کے سکولوں کیلیے کچھ ابتدائی کتابیں تیار کی ہیں اور اس سلسلہ میں خاصا مفید کام ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا، انجمن کی ایک میٹنگ میں طے پایا کہ ایک "اردو نیوز لیٹر" چھپنا چاہیئے تا کہ اردو پڑھنے پڑھانے کے سلسلہ میں جو کام ہو رہا ہے اسکا دوسروں کو بھی پتا چلتا رہے۔ اب مسئلہ درمیان میں یہ آن پڑا کہ یہ "نیوز لیٹر" کون تیار کرے اور اسے متعلقہ افراد اور انجمنوں تک پہنچانے کی ذمہ داری کس کی ہو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم میں سے جو سگریٹ پیتے تھے انہوں نے سگریٹ اور پائپ والوں نے اپنے پائپ سلگا لیے اور ہر شخص ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ آخر کار وہ شخص جو سگریٹ پیتا ہے نہ پائپ، اور جو اسطرح کے کاموں کیلیے کسی گہری سوچ اور "اندیشہ ہائے دور و دراز" کا قائل نہیں اور جسکا نام رالف رسل ہے، آڑے آیا اور بولا۔
"یہ کام میں کر دیا کروں گا۔"
ہم سب نے عافیت کی سانس لی۔
اس انجمن کو بھی (جس کی افادیت اسکے نام ہی سے ظاہر ہے) متحرک رکھنے میں رالف رسل کا بڑا حصہ ہے ورنہ مجھ ایسے شاید محض "نشستند و گفتند و برخاستند" پر ہی مطمئن رہتے۔ رالف رسل جو خود "جاوداں، پیہم دواں اور ہر دم جواں" رہتے ہیں دوسروں کو محض "تصورِ جاناں کئے ہوئے" بیٹھے نہیں دیکھ سکتے۔ ایک مرتبہ میری جو شامت آئی تو میں نے ان سے کہہ دیا کہ "میں اردو کا ایک قاعدہ لکھ رہا ہوں۔"
جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قاعدہ واقعی لکھا گیا۔ رالف رسل نے اس میں کچھ اسطرح دلچسپی لی کہ مجھے خیریت اسی میں نظر آئی کہ قاعدہ مکمل ہو ہی جائے تو اچھا ہے ورنہ رالف رسل صاحب سے جو تھوڑی بہت صاحب سلامت ہے وہ جاتی رہے گی۔
شروع شروع میں تو میں ان سے کہتا رہا کہ لکھ رہا ہوں، اب یہ کر رہا ہوں، اب وہ کر رہا ہوں، پھر ایک دن کہنے کو کچھ اور نہ سوجھا تو کہا۔
"بس اب مکمل ہی سمجھئے، کسی دن آپ کو فرصت ہو تو دکھاؤں گا تا کہ آپ کی رائے معلوم ہو سکے۔"
چند دن بعد ہی انکا ٹیلی فون آیا کہ۔
"میرے پاس فلاں دن خالی ہے، آپ اپنا قاعدہ لیکر یہاں آ جائیے یا میں آپ کے ہاں آتا ہوں۔"
اور پھر مقررہ دن، مقررہ وقت پر رالف رسل صاحب کاغذ، پنسل اور کاربن پیپر سے لیس لندن سے ستر میل کا سفر کر کے غریب خانہ پر پہنچ گئے، میں نے پوچھا۔
"کاغذ اور پنسل کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ کاربن پیپر کس لیے؟"
بولے۔ "یہ اس لیے ہے کہ اگر کسی بات پر ہم میں اختلافِ رائے ہو تو بحث و تمحیص کے بعد ہم جس نتیجہ پر پہنچیں اسے لکھ لیں اور اسکی ایک کاربن کاپی بنا لیں تا کہ ہم دونوں کے پاس تحریر کی نقل رہے، اسطرح بعد میں چیک کرنے میں آسانی ہوگی۔"
پھر انہوں نے میرے لکھنے کی میز کا جائزہ لیا جس کے ساتھ ایک کرسی تھی، کہنے لگے، "اس کے ساتھ ایک اور کرسی لگا لیجیئے۔"
میں نے کہا۔ "یہ کس لیے؟"
"یہ اس لیے کہ ہم دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر مسودہ پڑھیں گے، میز پر یہ کام بہتر ہوگا۔"
چنانچہ یہ کام ہوا اور بہتر ہوا اور بخیر و خوبی تمام ہوا، جس جذبہ اور لگن سے انہوں نے کام کیا اور ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ کی جس طرح چھان پھٹک کی، وہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ اس دوران ایک مرتبہ انہوں نے حروفِ تہجی کی بناوٹ اور لفظوں میں انکی بدلی ہوئی صورتوں پر کچھ اسطرح باتیں کیں کہ میں نے دفعتاً سوچا "اس شخص کی زبان کے بنیادی قواعد اور ان کی باریکیوں پر کتنی گہری نظر ہے، نہ جانے اپنی اردو پڑھائی کا آغاز اس نے کس قاعدے سے کیا ہوگا (ظاہر ہے وہ میرا قاعدہ تو ہو نہیں سکتا!)"۔
میں نے رالف رسل سے پوچھا۔ "آپ نے اردو کا کون سے قاعدہ پڑھا تھا؟"۔
وہ مسکرائے اور بولے، "میں نے کوئی قاعدہ واعدہ نہیں پڑھا لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کا یہ قاعدہ بے حد ضروری ہے۔"
"یہ قاعدہ بیحد ضروری ہے اور اردو نصاب کے لیے وہ کتاب لکھنا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔"
چنانچہ رالف رسل اس مقصد کیلیے کاغذ، پنسل اور کاربن پیپر سنبھالے ستر میل سے بھی زیادہ لمبے لمبے سفر کرتے ہیں، خود لکھتے ہیں، دوسروں سے لکھواتے ہیں اور مجھے یقین ہے برطانیہ میں اردو کا یہ "گنجِ گراں مایہ"، یونیورسٹی میں اپنے تدریسی فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے لیے کہیں زیادہ مصروفیت پیدا کر لے گا اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک برطانیہ میں بسنے والے تمام مرد، عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے لگیں گے۔
میری دعا ہے خدا انہیں کم از کم اتنی عمر ضرور دے کہ وہ یہ کام اپنی زندگی میں مکمل کر سکیں۔
(نقوش، سالنامہ جون 1985ء)
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Labels:
اردو نثر,
خاکہ,
رالف رسل,
محمود ہاشمی,
مضامین
Apr 12, 2009
حافظ شیرازی کی ایک غزل مع اردو ترجمہ - فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست
حافظ شیرازی کی درج ذیل غزل انتہائی مشہور ہے اور اسکے کچھ اشعار فارسی تو کیا اردو میں بھی ضرب المثل کا مقام حاصل کر چکے ہیں۔ ساری غزل عشقِ حقیقی کی چاشنی سے لبریز ہے اور حافظ کے جداگانہ اسلوب کی آئینہ دار ہے۔
دل سرا پردۂ محبّتِ اُوست
دیدہ آئینہ دارِ طلعتِ اوست
ہمارا دل اسکی محبت کا خیمہ ہے اور آنکھ اسکے چہرے کی آئینہ دار یعنی اسی کو دیکھنے والی ہے۔
من کہ سر در نَیاورَم بہ دو کون
گردنَم زیرِ بارِ منّتِ اوست
میں جو کہ (اپنی بے نیازی کی وجہ سے) دونوں جہانوں کے سامنے سر نہیں جھکاتا لیکن میری گردن اس (حقیقی دوست) کے احسانوں کی زیرِ بار ہے۔
تو و طُوبیٰ و ما و قامتِ یار
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست
تُو ہے اور طُوبیٰ ہے (تجھے جنت کا خیال ہے)، میں ہوں اور دوست کا قد (مجھے اسکے دیدار کا خیال ہے)، ہر کسی کی فکر اسکی ہمت کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔
دورِ مجنوں گذشت و نوبتِ ماست
ہر کسے پنج روزہ نوبتِ اوست
مجنوں کا دور گذر گیا اور اب ہمارا وقت ہے، ہر کسی کا پانچ (کچھ) دنوں کیلیے دور ہے۔
من کہ باشَم در آں حرَم کہ صبا
پردہ دارِ حریمِ حرمتِ اوست
میں کون ہوتا ہوں اس حرم میں جانے والا کہ صبا اسکی حرمت کے حریم کی پردہ دار ہے۔
مُلکتِ عاشقی و گنجِ طرب
ہر چہ دارَم یُمنِ ہمّتِ اوست
عاشقی کا ملک اور مستی کا خزانہ، جو کچھ بھی میرے پاس ہے اسکی توجہ کی برکت کی وجہ سے ہے۔
من و دل گر فنا شویم چہ باک
غرَض اندر میاں سلامتِ اوست
میں اور میرا دل اگرچہ فنا بھی ہو جائیں تو کیا پروا کہ درمیان میں مقصد تو اسکی سلامتی ہے (نہ کہ ہماری)۔
بے خیالَش مباد منظرِ چشم
زاں کہ ایں گوشہ خاص دولتِ اوست
اسکے خیال کے بغیر نگاہ کا منظر نہ ہو (نگاہ کچھ نہ دیکھے) کہ یہ گوشۂ خاص (بینائی) اسکی دولت ہے۔
گر من آلودہ دامنَم چہ عجب
ہمہ عالم گواہِ عصمتِ اوست
اگر میں آلودہ دامن ہوں تو کیا ہوا، کہ اسکی عصمت کا گواہ تو سارا عالم ہے۔
ہر گُلِ نو کہ شُد چمن آرائے
اثرِ رنگ و بُوئے صحبتِ اوست
ہر نیا پھول جو بھی چمن میں کھلتا ہے، اسکی صحبت کے رنگ و بُو کا اثر ہے۔
فقرِ ظاہر مَبیں کہ حافظ را
سینہ گنجینۂ محبّتِ اوست
حافظ کا ظاہری فقر (غربت) نہ دیکھ کہ اسکا سینہ اسکی (دوست کی) محبت کا خزانہ ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
دل سرا پردۂ محبّتِ اُوست
دیدہ آئینہ دارِ طلعتِ اوست
ہمارا دل اسکی محبت کا خیمہ ہے اور آنکھ اسکے چہرے کی آئینہ دار یعنی اسی کو دیکھنے والی ہے۔
من کہ سر در نَیاورَم بہ دو کون
گردنَم زیرِ بارِ منّتِ اوست
میں جو کہ (اپنی بے نیازی کی وجہ سے) دونوں جہانوں کے سامنے سر نہیں جھکاتا لیکن میری گردن اس (حقیقی دوست) کے احسانوں کی زیرِ بار ہے۔
تو و طُوبیٰ و ما و قامتِ یار
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست
تُو ہے اور طُوبیٰ ہے (تجھے جنت کا خیال ہے)، میں ہوں اور دوست کا قد (مجھے اسکے دیدار کا خیال ہے)، ہر کسی کی فکر اسکی ہمت کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔
دورِ مجنوں گذشت و نوبتِ ماست
ہر کسے پنج روزہ نوبتِ اوست
مجنوں کا دور گذر گیا اور اب ہمارا وقت ہے، ہر کسی کا پانچ (کچھ) دنوں کیلیے دور ہے۔
Mazar Hafiz Sheerazi, مزار حافظ شیرازی |
پردہ دارِ حریمِ حرمتِ اوست
میں کون ہوتا ہوں اس حرم میں جانے والا کہ صبا اسکی حرمت کے حریم کی پردہ دار ہے۔
مُلکتِ عاشقی و گنجِ طرب
ہر چہ دارَم یُمنِ ہمّتِ اوست
عاشقی کا ملک اور مستی کا خزانہ، جو کچھ بھی میرے پاس ہے اسکی توجہ کی برکت کی وجہ سے ہے۔
من و دل گر فنا شویم چہ باک
غرَض اندر میاں سلامتِ اوست
میں اور میرا دل اگرچہ فنا بھی ہو جائیں تو کیا پروا کہ درمیان میں مقصد تو اسکی سلامتی ہے (نہ کہ ہماری)۔
بے خیالَش مباد منظرِ چشم
زاں کہ ایں گوشہ خاص دولتِ اوست
اسکے خیال کے بغیر نگاہ کا منظر نہ ہو (نگاہ کچھ نہ دیکھے) کہ یہ گوشۂ خاص (بینائی) اسکی دولت ہے۔
گر من آلودہ دامنَم چہ عجب
ہمہ عالم گواہِ عصمتِ اوست
اگر میں آلودہ دامن ہوں تو کیا ہوا، کہ اسکی عصمت کا گواہ تو سارا عالم ہے۔
ہر گُلِ نو کہ شُد چمن آرائے
اثرِ رنگ و بُوئے صحبتِ اوست
ہر نیا پھول جو بھی چمن میں کھلتا ہے، اسکی صحبت کے رنگ و بُو کا اثر ہے۔
فقرِ ظاہر مَبیں کہ حافظ را
سینہ گنجینۂ محبّتِ اوست
حافظ کا ظاہری فقر (غربت) نہ دیکھ کہ اسکا سینہ اسکی (دوست کی) محبت کا خزانہ ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Apr 7, 2009
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب - صُوفی تبسّم
صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم سی نابغہ روزگار شخصیت بھی چشمِ فلک کم کم ہی دیکھتی ہے اور ان کیلیے علامہ کا وہ مشہور و معروف شعر ہزار جان سے صادق آتا ہے جس میں ہزاروں سال رونے اور ایک دیدہ ور کے عالمِ ظہور میں آنے کا ذکر ہے۔ صوفی تبسم ایک ہمہ جہتی شخصیت تھے، استاد الاساتذہ کہ ساری زندگی گورنمنٹ کالج لاہور میں علم و ادب کی آبیاری کرتے رہے اور لاتعداد طالب علم انکے چشمۂ فیض سے سیراب ہوئے۔
اردو، فارسی اور پنجابی کے قادر الکلام شاعر، شاعری کے مترجم، فارسی غزلوں کے ایسے خوبصورت ترجمے کیے کہ اصل فارسی غزلیں شاید ہی کسی کو یاد ہوں لیکن انکے تراجم زبان زد عام ہیں جیسے غالب کی فارسی غزل کا ترجمہ "میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں۔" اسکے علاوہ انکا ایک شاہکار ہم جیسے قتیلانِ غالب کیلیے غالب کی فارسی غزلیات کا اردو ترجمہ ہے وگرنہ کون آج کل فارسی پڑھتا ہے۔ انکی شخصیت کا ایک خوبصورت پہلو ان کا بچوں کے ادب کیلیے کام ہے، یہ ایک ایسا فراموش گوشہ ہے کہ چمنستانِ شاعری میں ہمہ باغ و بہار ہونے کے باوجود اس گوشے میں دائمی خزاں کا ڈیرا تھا لیکن صوفی تبسم نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور "ٹوٹ بٹوٹ" جیسے لازوال کردار تخلیق کیئے۔
صوفی غلام مصطفی تبسم کی اردو شاعری میں ایک خاص چاشنی ہے، انکی غزلیات میں ترنم ہے، تغزل ہے، روانی ہے، کیف اور مستی ہے اور وہ اردو فارسی کی سینکڑوں سالہ شعری روایات کی امین ہیں۔ انکی غزل 'سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی" مجھے بہت پسند ہے۔ اسکے علاوہ اپنی پسند کی ایک اور خوبصورت غزل درج کرتا ہوں۔
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
کیا جانے پھر ستم بھی میسّر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو
اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنّا نہ کر سکو
--------
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
(آخری رکن میں 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
یہ کا کِ - مفعول - 122
اک جہا کُ - فاعلات - 1212
کرو وقف - مفاعیل - 1221
اضطراب - فاعلان - 1212
یہ کیا کِ - مفعول - 122
ایک دل کُ - فاعلات - 1212
شکیبا نَ - مفاعیل - 1221
کر سکو - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔
صوفی غلام مصطفی تبسم کی اردو شاعری میں ایک خاص چاشنی ہے، انکی غزلیات میں ترنم ہے، تغزل ہے، روانی ہے، کیف اور مستی ہے اور وہ اردو فارسی کی سینکڑوں سالہ شعری روایات کی امین ہیں۔ انکی غزل 'سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی" مجھے بہت پسند ہے۔ اسکے علاوہ اپنی پسند کی ایک اور خوبصورت غزل درج کرتا ہوں۔
Sufi Ghulam Mustafa Tabassum, صوفی غلام مصطفیٰ تبسم |
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
کیا جانے پھر ستم بھی میسّر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو
اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنّا نہ کر سکو
--------
بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)
اشاری نظام - 122 1212 1221 212
(آخری رکن میں 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)
تقطیع -
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
یہ کا کِ - مفعول - 122
اک جہا کُ - فاعلات - 1212
کرو وقف - مفاعیل - 1221
اضطراب - فاعلان - 1212
یہ کیا کِ - مفعول - 122
ایک دل کُ - فاعلات - 1212
شکیبا نَ - مفاعیل - 1221
کر سکو - فاعلن - 212
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Labels:
اردو شاعری,
اردو غزل,
بحر مضارع,
تقطیع,
صوفی تبسم
Apr 6, 2009
کرو جو بات کرنی ہے - امجد اسلام امجد کے ایک انٹرویو سے اقتباسات
امجد اسلام امجد کا ایک انٹرویو، انگریزی روزنامہ "دی نیشن" لاہور کے 29 مارچ کے سنڈے میگزین میں پڑھنے کو ملا، اس کو ڈرتے ڈرتے ہی پڑھا۔ ڈرنے کی کئی ایک وجوہات تھیں، مثلاً امجد اسلام امجد آزاد نظم کے شاعر ہیں، جیسا کہ خود انہوں نے اس انٹرویو میں کہا، اور یہ کہ ان کی نظمیں زیادہ تر "رومانوی" ہیں اور یہ کہ وہ نوجوان نسل میں انتہائی مقبول ہیں، سو میں ڈر رہا تھا کہ کہیں اس انٹرویو میں کوئی "ایسی ویسی" بات ہوئی تو خواہ مخواہ میرا خون کھولتا رہے گا، لیکن ہمت کر کے اسے پڑھنا شروع کر دیا اور جوں جوں پڑھتا گیا، امجد اسلام امجد کے خیالات میرے دل میں گھر کرتے گئے۔
امجد اسلام امجد کا کوئی انٹرویو میں نے پہلی بار پڑھا، بلکہ میں نے تو ان کی شاعری بھی زیادہ نہیں پڑھی، وجوہات اوپر لکھ آہا ہوں کہ کیوں، اور میری اور انکی شناسائی پاکستان ٹیلی ویژن کے "سپر ہٹ" ڈراموں کے حوالے سے ہوئی تھی۔ میں ان دنوں بہت چھوٹا تھا جب انکا مشہورِ زمانہ سیریل "وارث" ٹیلی کاسٹ ہوتا تھا، اور اپنے نام کو ٹی وی پر لکھا ہوا دیکھ کر خوشی سی ہوتی تھی، خیر 'وارث' کے بعد بھی کئی اچھے ڈرامے امجد اسلام امجد نے تخلیق کیے۔
انٹرویو کے جو حصے مجھے بہت اچھے لگے، ان کو لکھتا ہوں، چونکہ ان کو انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر رہا ہوں، اور یہ بھی یقین ہے کہ انٹرویو کرنے والے واجد چودھری صاحب نے اس کا اردو سے انگریزی ترجمہ کیا ہوگا اور میں اس ترجمے کا ترجمہ کر رہا ہوں سو ہو سکتا ہے کہیں کسی بات میں کوئی فرق رہ جائے۔
ایک سوال یہ تھا "اکثر کہا جاتا ہے کہ محبت کا جذبہ اور جوش و ولولہ کسی کو اپنے خیالات کا اظہار شاعری میں کرنے پر مجبور کرتا ہے، کیا آپ کے ساتھ بھی یہی واقع ہے۔" اسکے جواب میں امجد اسلام امجد نے بہت خوبصورت بات کہی کہ "اس معاملے میں ایک سراب ہے، مسئلہ یہ ہے کہ کچھ شاعر فقط جنسِ مخالف کیلیے شاعری کرتے ہیں اور اسطرح اپنے آپ کو محدود کر لیتے ہیں، یہ تصویر کا ایک رخ ہے یعنی یہ صرف ایک رخ ہے، تصویر کی مکمل عکاسی نہیں ہے۔ محبت کا جذبہ کسی بھی انسان کو بلند کر سکتا ہے اور یہ جذبہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی محبت (یا رومان) شاعری کا ایک حصہ ہے، شاعری کی وجہ یا اصل نہیں ہے۔ رومانی شاعری مقبول ہے اور وہ اس وجہ سے کہ یہ آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اوائلِ عمر میں شاعر کا زندگی کا تجربہ (اور مشاہدہ) بہت زیادہ وسیع نہیں ہوتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔"
ایک انتہائی اہم اور بنیادی سوال شاعری میں وزن اور اسکی مبادیات کے متعلق تھا، نہایت خوشی ہوئی مجھے امجد اسلام امجد کا نقطۂ نظر پڑھ کر کہ انہوں نے وہی بات کی جو مسلمہ ہے۔ سوال کچھ یوں تھا کہ "آج کل کے شعراء، شاعری میں توازن اور وزن کا خیال نہیں رکھتے، اور آزادنہ شاعری کرتے ہیں، کیا یہ شعری روایات کے خلاف بغاوت نہیں ہے؟ اور شاعری کی بنیادی باتوں اور وزن کا خیال رکھے بغیر جو شاعری کی جائے گی کیا اسے شاعری کہا جائے گا؟"
جیسا کہ اوپر لکھا کہ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے، لیکن امجد اسلام امجد کے جواب لکھنے سے پہلے میں ایک وضاحت یہ کرنا چاہتا ہوں کہ عموماً "آزاد نظم" کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ شاعری کی ہر پابندی سے آزاد ہوتی ہے حالانکہ ایسا معاملہ نہیں ہے، آزاد نظم، صرف اور صرف قافیے اور ردیف سے آزاد ہوتی ہے اور اس میں بحر کے اراکین کو توڑنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن وہ کسی نہ کسی وزن کی ضرور پابند ہوتی ہے، اور جو نظم بالکل ہی مادر پدر آزاد ہوتی ہے اس کی مثال نثری نظم ہے اور کوئی بھی شاعر اور نقاد نثری نظم کو شاعری نہیں مانتا، امجد اسلام امجد کا جواب اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ آپ بذاتِ خود آزاد نظم کے شاعر ہیں۔ امجد اسلام امجد نے جواب دیا۔
"نظم، توازن اور شاعرانہ آھنگ کے بغیر شاعری نہیں ہے، میں ایسے لوگوں کو شاعر نہیں مانتا جو شاعری کی بنیادی باتوں کو ذہن میں نہیں رکھتے۔"
بہت دو ٹوک اور سیدھا سادھا جواب ہے اور کیا خوبصورت جواب ہے۔ ایک اور انتہائی اہم سوال غزل کے مستقبل کے متعلق تھا۔ غزل جہاں اردو شاعری کی اہم ترین صنف ہے وہیں اسکے خلاف "پروپیگنڈہ" بھی بہت کیا گیا ہے۔ جدیدیت کی حمایت اور کلاسیکی شاعری کے بغض میں کچھ نقادوں نے غزل کے متعلق بہت یاوہ گوئی کی ہے، انہیں میں ایک سلیم احمد تھے جنہوں نے غزل کو "وحشی صنفِ سخن" کا خطاب دیا تھا اور ایک ڈاکٹر وزیر آغا صاحب ہیں جو غزل کا کوئی مستقبل نہیں مانتے حالانکہ غزل صدیوں سے اردو میں رائج ہے اور آج بھی اسی جوش و جذبے کے ساتھ کہی جاتی ہے جیسے میر اور غالب کے زمانے میں کہی جاتی تھی اور کہی جاتی رہے گی کہ غزل میں جو چاشنی اور حسن ہے وہ اور کسی صنفِ سخن میں نہیں ہے۔
سوال اور جواب ملاحظہ کیجیے۔ "جدید ادب میں ہم دیکتھے ہیں کہ نظم کو غزل پر برتری حاصل ہے، کیا غزل بھی مثنوی کی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائے گی۔" امجد اسلام امجد نے کہا۔ "ادب بنیادی طور پر دو بنیادی حصوں پر مشتمل ہے، نظم اور نثر، نظم کی دیگر اصناف ہیں جیسے مثنوی اور قصیدہ۔ موجودہ عصر میں مثنوی کی جگہ نظمِ مُعرّی (بلینک ورس) نے لے لی ہے یعنی ہیت اور موضوع میں ایک تبدیلی آ گئی، لیکن اگر غزل کی بات کی جائے تو ادب میں یہ ایک ایسی منفرد صنف ہے کہ دنیا کی صرف تین زبانوں میں پائی جاتی ہے یعنی اردو، فارسی اور عربی۔ اور ہماری زبان میں اسکی یہ انفرادیت ہے کہ ہر ایک شعر میں مختلف خیال (مکمل طور پر) بیان کیا جا سکتا ہے، لہذا غزل اردو ادب کا ہمیشہ رہنے والا اور سدا بہار حصہ ہے۔ ہر شاعر غزل سے ہی آغاز کرتا ہے۔ شاعری اور موسیقی میں اسکی چاشنی اور تغزل ہی اسکی روح ہے۔"
ایک سوال "کس قسم کی صنفِ ادب میں آپ زیادہ تر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں" کہ جواب میں انہوں نے کہا۔ "اللہ نے مجھے ہر طرح کی صنف سے نوازا ہے، میں نے سبھی اصنافِ ادب میں کام کیا جیسے ڈرامہ، کالم نگاری، اور شاعری کے تراجم، لیکن مجھے نظم زیادہ پسند ہے، اور اسی کی وجہ سے میری پہچان ہے۔"
ایک اور دلچسپ اور اہم سوال موجودہ شعری رجحانات کے متعلق امجد اسلام امجد کے خیالات جاننے کے بارے میں تھا جسکے جواب میں انہوں نے کہا۔
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
میرے بیٹے کا عہد اس کیلیئے حقیقت ہے لیکن میرے لئے ایک خواب، اسی طرح میرا ماضی میرے لئے 'ناسٹلجیا' ہے لیکن اس کیلیے نہیں کیونکہ اس نے وہ دور نہیں گزارا۔ جدید زمانے کیلیے ان (نوجوان نسل) کے اپنے معاملات ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ عام لوگوں کو آزادنہ طور پر چاند کا سفر کرتے دیکھیں جبکہ میرا تعلق اس عہد سے ہے جب چاند پر پہنچنا ایک خواب تھا، لہذا فرق صاف ظاہر ہے۔ آئندہ آنے والی نسلوں کیلیے انکے ہیروز بھی نئے ہونگے جو کہ ہمارے ہیروز سے مختلف ہونگے۔
آخر میں قارئین کیلیے تازہ کلام کی فرمائش پر امجد اسلام امجد نے ایک انتہائی خوبصورت نظم پڑھی جو کہ اس بلاگ کے قارئین کی بھی نذر ہے۔
کرو جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پر بیٹھے کہ
دنیا بس تمھیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ، ایک لوگوں سے بھرا فُٹ پاتھ ہے
جس پر کسی کو ایک لمحے کے لیے رکنا
نہیں ملتا
بٹھاؤ لاکھ تم پہرے
تماشا گاہِ عالم سے
گزرتی جائے گی خلقت
بنا دیکھے، بنا ٹھہرے
کرو جو بات کرنی ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔
امجد اسلام امجد کا کوئی انٹرویو میں نے پہلی بار پڑھا، بلکہ میں نے تو ان کی شاعری بھی زیادہ نہیں پڑھی، وجوہات اوپر لکھ آہا ہوں کہ کیوں، اور میری اور انکی شناسائی پاکستان ٹیلی ویژن کے "سپر ہٹ" ڈراموں کے حوالے سے ہوئی تھی۔ میں ان دنوں بہت چھوٹا تھا جب انکا مشہورِ زمانہ سیریل "وارث" ٹیلی کاسٹ ہوتا تھا، اور اپنے نام کو ٹی وی پر لکھا ہوا دیکھ کر خوشی سی ہوتی تھی، خیر 'وارث' کے بعد بھی کئی اچھے ڈرامے امجد اسلام امجد نے تخلیق کیے۔
انٹرویو کے جو حصے مجھے بہت اچھے لگے، ان کو لکھتا ہوں، چونکہ ان کو انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر رہا ہوں، اور یہ بھی یقین ہے کہ انٹرویو کرنے والے واجد چودھری صاحب نے اس کا اردو سے انگریزی ترجمہ کیا ہوگا اور میں اس ترجمے کا ترجمہ کر رہا ہوں سو ہو سکتا ہے کہیں کسی بات میں کوئی فرق رہ جائے۔
Amjad Islam Amjad, امجد اسلام امجد |
ایک انتہائی اہم اور بنیادی سوال شاعری میں وزن اور اسکی مبادیات کے متعلق تھا، نہایت خوشی ہوئی مجھے امجد اسلام امجد کا نقطۂ نظر پڑھ کر کہ انہوں نے وہی بات کی جو مسلمہ ہے۔ سوال کچھ یوں تھا کہ "آج کل کے شعراء، شاعری میں توازن اور وزن کا خیال نہیں رکھتے، اور آزادنہ شاعری کرتے ہیں، کیا یہ شعری روایات کے خلاف بغاوت نہیں ہے؟ اور شاعری کی بنیادی باتوں اور وزن کا خیال رکھے بغیر جو شاعری کی جائے گی کیا اسے شاعری کہا جائے گا؟"
جیسا کہ اوپر لکھا کہ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے، لیکن امجد اسلام امجد کے جواب لکھنے سے پہلے میں ایک وضاحت یہ کرنا چاہتا ہوں کہ عموماً "آزاد نظم" کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ شاعری کی ہر پابندی سے آزاد ہوتی ہے حالانکہ ایسا معاملہ نہیں ہے، آزاد نظم، صرف اور صرف قافیے اور ردیف سے آزاد ہوتی ہے اور اس میں بحر کے اراکین کو توڑنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن وہ کسی نہ کسی وزن کی ضرور پابند ہوتی ہے، اور جو نظم بالکل ہی مادر پدر آزاد ہوتی ہے اس کی مثال نثری نظم ہے اور کوئی بھی شاعر اور نقاد نثری نظم کو شاعری نہیں مانتا، امجد اسلام امجد کا جواب اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ آپ بذاتِ خود آزاد نظم کے شاعر ہیں۔ امجد اسلام امجد نے جواب دیا۔
"نظم، توازن اور شاعرانہ آھنگ کے بغیر شاعری نہیں ہے، میں ایسے لوگوں کو شاعر نہیں مانتا جو شاعری کی بنیادی باتوں کو ذہن میں نہیں رکھتے۔"
بہت دو ٹوک اور سیدھا سادھا جواب ہے اور کیا خوبصورت جواب ہے۔ ایک اور انتہائی اہم سوال غزل کے مستقبل کے متعلق تھا۔ غزل جہاں اردو شاعری کی اہم ترین صنف ہے وہیں اسکے خلاف "پروپیگنڈہ" بھی بہت کیا گیا ہے۔ جدیدیت کی حمایت اور کلاسیکی شاعری کے بغض میں کچھ نقادوں نے غزل کے متعلق بہت یاوہ گوئی کی ہے، انہیں میں ایک سلیم احمد تھے جنہوں نے غزل کو "وحشی صنفِ سخن" کا خطاب دیا تھا اور ایک ڈاکٹر وزیر آغا صاحب ہیں جو غزل کا کوئی مستقبل نہیں مانتے حالانکہ غزل صدیوں سے اردو میں رائج ہے اور آج بھی اسی جوش و جذبے کے ساتھ کہی جاتی ہے جیسے میر اور غالب کے زمانے میں کہی جاتی تھی اور کہی جاتی رہے گی کہ غزل میں جو چاشنی اور حسن ہے وہ اور کسی صنفِ سخن میں نہیں ہے۔
سوال اور جواب ملاحظہ کیجیے۔ "جدید ادب میں ہم دیکتھے ہیں کہ نظم کو غزل پر برتری حاصل ہے، کیا غزل بھی مثنوی کی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائے گی۔" امجد اسلام امجد نے کہا۔ "ادب بنیادی طور پر دو بنیادی حصوں پر مشتمل ہے، نظم اور نثر، نظم کی دیگر اصناف ہیں جیسے مثنوی اور قصیدہ۔ موجودہ عصر میں مثنوی کی جگہ نظمِ مُعرّی (بلینک ورس) نے لے لی ہے یعنی ہیت اور موضوع میں ایک تبدیلی آ گئی، لیکن اگر غزل کی بات کی جائے تو ادب میں یہ ایک ایسی منفرد صنف ہے کہ دنیا کی صرف تین زبانوں میں پائی جاتی ہے یعنی اردو، فارسی اور عربی۔ اور ہماری زبان میں اسکی یہ انفرادیت ہے کہ ہر ایک شعر میں مختلف خیال (مکمل طور پر) بیان کیا جا سکتا ہے، لہذا غزل اردو ادب کا ہمیشہ رہنے والا اور سدا بہار حصہ ہے۔ ہر شاعر غزل سے ہی آغاز کرتا ہے۔ شاعری اور موسیقی میں اسکی چاشنی اور تغزل ہی اسکی روح ہے۔"
ایک سوال "کس قسم کی صنفِ ادب میں آپ زیادہ تر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں" کہ جواب میں انہوں نے کہا۔ "اللہ نے مجھے ہر طرح کی صنف سے نوازا ہے، میں نے سبھی اصنافِ ادب میں کام کیا جیسے ڈرامہ، کالم نگاری، اور شاعری کے تراجم، لیکن مجھے نظم زیادہ پسند ہے، اور اسی کی وجہ سے میری پہچان ہے۔"
ایک اور دلچسپ اور اہم سوال موجودہ شعری رجحانات کے متعلق امجد اسلام امجد کے خیالات جاننے کے بارے میں تھا جسکے جواب میں انہوں نے کہا۔
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
میرے بیٹے کا عہد اس کیلیئے حقیقت ہے لیکن میرے لئے ایک خواب، اسی طرح میرا ماضی میرے لئے 'ناسٹلجیا' ہے لیکن اس کیلیے نہیں کیونکہ اس نے وہ دور نہیں گزارا۔ جدید زمانے کیلیے ان (نوجوان نسل) کے اپنے معاملات ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ عام لوگوں کو آزادنہ طور پر چاند کا سفر کرتے دیکھیں جبکہ میرا تعلق اس عہد سے ہے جب چاند پر پہنچنا ایک خواب تھا، لہذا فرق صاف ظاہر ہے۔ آئندہ آنے والی نسلوں کیلیے انکے ہیروز بھی نئے ہونگے جو کہ ہمارے ہیروز سے مختلف ہونگے۔
آخر میں قارئین کیلیے تازہ کلام کی فرمائش پر امجد اسلام امجد نے ایک انتہائی خوبصورت نظم پڑھی جو کہ اس بلاگ کے قارئین کی بھی نذر ہے۔
کرو جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پر بیٹھے کہ
دنیا بس تمھیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ، ایک لوگوں سے بھرا فُٹ پاتھ ہے
جس پر کسی کو ایک لمحے کے لیے رکنا
نہیں ملتا
بٹھاؤ لاکھ تم پہرے
تماشا گاہِ عالم سے
گزرتی جائے گی خلقت
بنا دیکھے، بنا ٹھہرے
کرو جو بات کرنی ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Mar 31, 2009
اللہ کی مار
"یہ سب شاعروں پر اللہ کی مار کیوں پڑی ہوتی ہے؟ میری بیوی نے ایک دن کسی کتاب پر کسی شاعر کی تصویر دیکھتے ہوئے کہا۔"
میں نے بے چین ہوتے ہوئے کہا۔ "کیا مطلب"۔
"کچھ نہیں، بس ایسے ہی پوچھ رہی ہوں، جس شاعر کو دیکھو، عجیب حلیہ ہوتا ہے اور عجیب و غریب شکل، ایسے لگتا ہے ان پر اللہ کی مار پڑی ہوئی ہے۔"
خیر میں جواب تو کیا دیتا بس سگریٹ سلگا کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ ایسا ہی کچھ مکالمہ ایک دن میرے اور میرے بڑے بیٹے، سات سالہ حسن، کے درمیان ہوا۔ میں اسے غالب کے متعلق بتا رہا تھا اور سبق دینے کے بعد اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔
"ہاں اب بتاؤ، غالب کون تھے۔"
"غالب شاعر تھا۔"
"الو، شاعروں کی عزت کرتے ہیں، کہتے ہیں غالب شاعر تھے۔"
"جی اچھا"
"تو کون تھے غالب۔"
"وہ شاعر تھے"
"کس زبان کے شاعر تھے"
"اردو کے"
"اور"
"اور، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فارسی کے"
"شاباش، بہت اچھے"
اس مکالمے کے دوران وہ آہستہ آہستہ مجھ سے دور بھی ہو رہا تھا، کہ اچانک بولا۔
"غالب کے ہاتھ تھے۔"
میں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا تو اسکے لبوں پر شرارتی مسکراہٹ کھیل رہی تھی، دراصل اس نے اپنی طرف سے غالب کی توہین کرنے کی کوشش کی تھی کہ میں اسے کہہ رہا تھا شاعروں کی عزت کرنی چاہیئے۔ جب سے ہماری بیوی نے ہمارے بلاگ پر "اُوئے غالب" والی تحریر دیکھی ہے، مسلسل اس کوشش میں ہے کہ بچوں سے شعر و شاعری کو دُور رکھا جائے اور ہر وقت شاعروں کی برائیاں کر کے بچوں کے ذہن میں جو پودا میں لگا رہا ہوں اس کو پنپنے سے پہلے ہی تلف کر دیا جائے۔
اس تحریر سے یہ دکھانا مقصود نہیں ہے کہ ہم "شاعر" ہیں اور ہمارے گھر میں ہماری عزت پھوٹی کوڑی کی بھی نہیں ہے بلکہ نثر کے اس ٹاٹ میں ایک اور ٹاٹ کا ہی پیوند لگانا چاہ رہا ہوں، بیوی بچے آج کل لاہور میں ہیں پورے ایک ہفتے کیلیے اور میں خالی الذہن، ظاہر ہے اس میں شاعری ہی آ سکتی ہے۔
کل رات ایک رباعی ہوئی سوچا بلاگ پر ہی لکھ دوں کہ "محفوظ" ہو جائے وگرنہ کاغذ قلم کا ہم سے کیا رشتہ، سو عرض کیا ہے۔
ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔
میں نے بے چین ہوتے ہوئے کہا۔ "کیا مطلب"۔
"کچھ نہیں، بس ایسے ہی پوچھ رہی ہوں، جس شاعر کو دیکھو، عجیب حلیہ ہوتا ہے اور عجیب و غریب شکل، ایسے لگتا ہے ان پر اللہ کی مار پڑی ہوئی ہے۔"
خیر میں جواب تو کیا دیتا بس سگریٹ سلگا کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ ایسا ہی کچھ مکالمہ ایک دن میرے اور میرے بڑے بیٹے، سات سالہ حسن، کے درمیان ہوا۔ میں اسے غالب کے متعلق بتا رہا تھا اور سبق دینے کے بعد اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔
"ہاں اب بتاؤ، غالب کون تھے۔"
"غالب شاعر تھا۔"
"الو، شاعروں کی عزت کرتے ہیں، کہتے ہیں غالب شاعر تھے۔"
"جی اچھا"
"تو کون تھے غالب۔"
"وہ شاعر تھے"
"کس زبان کے شاعر تھے"
"اردو کے"
"اور"
"اور، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فارسی کے"
"شاباش، بہت اچھے"
اس مکالمے کے دوران وہ آہستہ آہستہ مجھ سے دور بھی ہو رہا تھا، کہ اچانک بولا۔
"غالب کے ہاتھ تھے۔"
میں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا تو اسکے لبوں پر شرارتی مسکراہٹ کھیل رہی تھی، دراصل اس نے اپنی طرف سے غالب کی توہین کرنے کی کوشش کی تھی کہ میں اسے کہہ رہا تھا شاعروں کی عزت کرنی چاہیئے۔ جب سے ہماری بیوی نے ہمارے بلاگ پر "اُوئے غالب" والی تحریر دیکھی ہے، مسلسل اس کوشش میں ہے کہ بچوں سے شعر و شاعری کو دُور رکھا جائے اور ہر وقت شاعروں کی برائیاں کر کے بچوں کے ذہن میں جو پودا میں لگا رہا ہوں اس کو پنپنے سے پہلے ہی تلف کر دیا جائے۔
اس تحریر سے یہ دکھانا مقصود نہیں ہے کہ ہم "شاعر" ہیں اور ہمارے گھر میں ہماری عزت پھوٹی کوڑی کی بھی نہیں ہے بلکہ نثر کے اس ٹاٹ میں ایک اور ٹاٹ کا ہی پیوند لگانا چاہ رہا ہوں، بیوی بچے آج کل لاہور میں ہیں پورے ایک ہفتے کیلیے اور میں خالی الذہن، ظاہر ہے اس میں شاعری ہی آ سکتی ہے۔
کل رات ایک رباعی ہوئی سوچا بلاگ پر ہی لکھ دوں کہ "محفوظ" ہو جائے وگرنہ کاغذ قلم کا ہم سے کیا رشتہ، سو عرض کیا ہے۔
ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Labels:
رباعی,
محمد وارث,
میری تحریریں,
میری شاعری
Mar 28, 2009
مجھے تم سب سے نفرت ہے۔۔۔۔۔
اجی صاحب گھبرائیے مت، یہ میں اپنا حالِ دل نہیں کہہ رہا اور نہ ہی کبھی اتنے واشگاف الفاظ میں، دوسروں کو تو کیا اپنی انتہائی ذاتی بیوی کو بھی نہیں کہہ سکتا، یہ ایک نظم کا عنوان ہے۔ میں نظم کے میدان کا آدمی نہیں ہوں، بلکہ غزل و رباعی کا قتیل ہوں یا زیادہ سے زیادہ مثنویوں کا اور آزاد نظم کم کم ہی پڑھتا ہوں سوائے ن م راشد کے، کہ راشد کی نظم میں بھی چاشنی ہے۔
فاتح الدین بشیر صاحب، ہمارے دوست ہیں، ان سے تعارف کوئی دو سال پہلے 'اردو محفل' پر ہوا تھا اور یہ تعلق دوستی میں بدل گیا، انتہائی اچھے شاعر ہیں اور اتنے ہی بذلہ سنج، یہ نظم انہی کی ہے۔ آپ پچھلے سال ستمبر میں سیالکوٹ تشریف لائے تو اس خاکسار کو بھی شرفِ ملاقات بخشا، پروگرام تو ہمارا لمبا ہی تھا لیکن شومئی قسمت سے ان سے فقط ایک آدھ گھنٹے تک ہی بات چیت ہو سکی کہ ایک ناگہانی اطلاع کی بنا پر انہیں اسلام آباد واپس جانا پڑا، آج کل کراچی میں مقیم ہیں اور گاہے گاہے ان سے فون پر بات ہوتی رہتی ہے۔ اس ملاقات کا ذکر یوں آ گیا کہ انہوں نے اس نظم کے پسِ منظر پر کافی روشنی ڈالی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ کن حالات میں اور کس کی شان میں کہی گئی تھی جو افسوس کہ انکی اجازت کے بغیر میں یہاں نہیں لکھ سکتا۔
یہاں میں فلسفۂ محبت و نفرت پر بحث نہیں کرنا چاہتا کہ انسانی زندگی کے یہ دونوں رخ، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور اس لحاظ سے ایک جیسے اور ایک جتنے ہی ہیں لیکن اس نظم میں بیان کی گئی ازلی و ابدی و آفاقی سچائیوں اور گہرائیوں کے ساتھ انسانی جذبوں کا گہرا امتزاج ہے، کئی دنوں سے یہ نظم ذہن میں گونج رہی تھی سوچا اپنے قارئین کی نذر کرتا چلوں۔
مجھے تم سب سے نفرت ہے از فاتح الدین بشیر
ارے او قاتلو
تم پر خدا کا رحم
جو تم نے
جہانِ دل کے سب کوچے، محلّے
سب گلی چوبارے تک ویران کر ڈالے
گلسّتانِ تبسّم روند ڈالے
شہرِ جاں کی سب فصیلیں ڈھا کے
قبرستان کر ڈالیں
تم اپنی ذات میں خود ہی خداوندان و پیغمبر
تمہاری گفتنی و کردنی جو سب
بزعمِ خود تھی یزدانی
جنہیں میں خضر سمجھا تھا
وہی شدّاد نکلے ہیں
میں جن کی ذات کا حصّہ
وہی بد ذات نکلے ہیں
تمھاری فتح میں تسلیم کر لوں گا
اگر تم
یہ شکستِ دل، شکستِ عشق میں تبدیل کر پاؤ
مگر اب تک ضمیرِ قلب کے سینے پہ گویا ایستادہ ہے
علَم اک قرمزی جو اک علامت ہے
محبّت جاودانی کے جلال و فتحمندی کی
وہیں
اک اور بھی
اتنا ہی اونچا اور قد آور علَم بھی ایستادہ ہے
مگر اس سرخ جھنڈے سے سیہ رنگت جھلکتی ہے
مگر بس فرق اتنا ہے
کہ اس کے روئیں روئیں سے فقط نفرت چھلکتی ہے
وہی نفرت علامت ہے
مرے تم سے تعلّق کی
تمہارے میرے رشتے کی
مگر دکھ کیا؟
ابھی الفاظ باقی ہیں
قلم کا ساتھ باقی ہے
مگر جب تک مرے سینے میں اک بھی سانس باقی ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔
فاتح الدین بشیر صاحب، ہمارے دوست ہیں، ان سے تعارف کوئی دو سال پہلے 'اردو محفل' پر ہوا تھا اور یہ تعلق دوستی میں بدل گیا، انتہائی اچھے شاعر ہیں اور اتنے ہی بذلہ سنج، یہ نظم انہی کی ہے۔ آپ پچھلے سال ستمبر میں سیالکوٹ تشریف لائے تو اس خاکسار کو بھی شرفِ ملاقات بخشا، پروگرام تو ہمارا لمبا ہی تھا لیکن شومئی قسمت سے ان سے فقط ایک آدھ گھنٹے تک ہی بات چیت ہو سکی کہ ایک ناگہانی اطلاع کی بنا پر انہیں اسلام آباد واپس جانا پڑا، آج کل کراچی میں مقیم ہیں اور گاہے گاہے ان سے فون پر بات ہوتی رہتی ہے۔ اس ملاقات کا ذکر یوں آ گیا کہ انہوں نے اس نظم کے پسِ منظر پر کافی روشنی ڈالی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ کن حالات میں اور کس کی شان میں کہی گئی تھی جو افسوس کہ انکی اجازت کے بغیر میں یہاں نہیں لکھ سکتا۔
یہاں میں فلسفۂ محبت و نفرت پر بحث نہیں کرنا چاہتا کہ انسانی زندگی کے یہ دونوں رخ، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور اس لحاظ سے ایک جیسے اور ایک جتنے ہی ہیں لیکن اس نظم میں بیان کی گئی ازلی و ابدی و آفاقی سچائیوں اور گہرائیوں کے ساتھ انسانی جذبوں کا گہرا امتزاج ہے، کئی دنوں سے یہ نظم ذہن میں گونج رہی تھی سوچا اپنے قارئین کی نذر کرتا چلوں۔
مجھے تم سب سے نفرت ہے از فاتح الدین بشیر
ارے او قاتلو
تم پر خدا کا رحم
جو تم نے
جہانِ دل کے سب کوچے، محلّے
سب گلی چوبارے تک ویران کر ڈالے
گلسّتانِ تبسّم روند ڈالے
شہرِ جاں کی سب فصیلیں ڈھا کے
قبرستان کر ڈالیں
تم اپنی ذات میں خود ہی خداوندان و پیغمبر
تمہاری گفتنی و کردنی جو سب
بزعمِ خود تھی یزدانی
جنہیں میں خضر سمجھا تھا
وہی شدّاد نکلے ہیں
میں جن کی ذات کا حصّہ
وہی بد ذات نکلے ہیں
تمھاری فتح میں تسلیم کر لوں گا
اگر تم
یہ شکستِ دل، شکستِ عشق میں تبدیل کر پاؤ
مگر اب تک ضمیرِ قلب کے سینے پہ گویا ایستادہ ہے
علَم اک قرمزی جو اک علامت ہے
محبّت جاودانی کے جلال و فتحمندی کی
وہیں
اک اور بھی
اتنا ہی اونچا اور قد آور علَم بھی ایستادہ ہے
مگر اس سرخ جھنڈے سے سیہ رنگت جھلکتی ہے
مگر بس فرق اتنا ہے
کہ اس کے روئیں روئیں سے فقط نفرت چھلکتی ہے
وہی نفرت علامت ہے
مرے تم سے تعلّق کی
تمہارے میرے رشتے کی
مگر دکھ کیا؟
ابھی الفاظ باقی ہیں
قلم کا ساتھ باقی ہے
مگر جب تک مرے سینے میں اک بھی سانس باقی ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
مجھے تم سب سے نفرت ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Mar 27, 2009
سبکسارانِ ساحل
درد کا کیا ہے جی، کبھی بھی کسی کو بھی کہیں بھی اٹھ سکتا ہے اور رنگ رنگ کا اٹھ سکتا ہے، بلکہ بے رنگ اور بد رنگ بھی کہ اس کو دو چار "تڑکے" لگا کر اپنی مرضی کے رنگ بھرے جا سکتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے دماغ میں درد اٹھتا ہے کہ وہ اپنے ازلی رقیب کا خانہ بن جاتا ہے اور کچھ کو زبان کا کہ کشتوں کو پشتے لگا دیتے ہیں لیکن سب سے خطرناک شاید وہ ہوتا ہے جو زبان کے جنوب مشرق میں اٹھتا ہے، جگہ تو ایک ہی ہوتی ہے لیکن یہ درد اپنی ذات میں مختلف رنگ لیے ہوتا ہے کبھی قوم و ملک کا، کبھی رنگ و نسل کا، کبھی ملت و امت کا، کبھی دین و مذہب کا اور کبھی شعر و ادب کا، آخر بھئی کوئی چیز کسی کی جاگیر تھوڑی ہے۔
لیکن اس آخری درد کے بارے میں غالب مرحوم نے بات یہ کہہ کر ختم کر دی تھی۔
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
اللہ جنت نصیب کرے، مرزا بوڑھے ہو کر مرے، دنیا جہان کے عوارض اپنے آپ کو لاحق کرائے بجز دردِ دل کے، اور وہی دردِ دل جب سچ مچ اٹھا تو فیض پکار اٹھے۔
درد اتنا تھا کہ اُس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بنِ مو سے ٹپکنا چاہا
یقیناً "ہارٹ اٹیک" کی کیفیات کو فیض نے اسی نام کی نظم میں بہت خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے لیکن کیا کیجے ان حضرات کا جنہیں بیدل جونپوری کے الفاظ میں اکثر کچھ ایسا درد اٹھتا ہے۔
ہیں یہاں دوشیزگانِ قوم بیدل با ادب
اس جگہ موزوں نہیں ہے فاعلاتن فاعلات
گرلز کالج میں غزل کا وزن ہونا چاہیے
طالباتن طالباتن طالباتن طالبات
لیکن دوشیزگان کے حق میں سب سے محلق وہ درد تھا جو 'مَنّے موچی' کے پیٹ میں اس وقت اٹھا جب اسکا بیٹا امریکہ سے ڈالر بھیجنے لگ گیا اور اس نے گاؤں کے چوہدری سے اسکی باکرہ بیٹی کا ہاتھ اپنے بیٹے کیلیے مانگ لیا، گویا دوشیزہ نہ ہوئی اردو شاعری ہو گئی۔
ہوتے تو جی دونوں 'کمّی' ہی ہیں، لیکن سارا فرق 'درجہ حرارت' کا ہے، کہاں وہ جو تنور کے اندر سر دیکر روٹیاں پکاتا ہے اور کہاں وہ جو کڑاھی کے اوپر کھڑا ہو کر دودھ جلیبیوں کا پیالہ ختم کرنے کے بعد ڈکار مارتا ہے۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا۔
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل
کُجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا
اندھیری رات ہے، اور موج کا خوف ہے اور ایسا خوفناک بھنور ہے، ساحلوں کے بے فکرے اور انکی سیر کرنے والے، ہمارا حال کیسے جان سکتے ہیں؟
مزید پڑھیے۔۔۔۔
کچھ لوگوں کے دماغ میں درد اٹھتا ہے کہ وہ اپنے ازلی رقیب کا خانہ بن جاتا ہے اور کچھ کو زبان کا کہ کشتوں کو پشتے لگا دیتے ہیں لیکن سب سے خطرناک شاید وہ ہوتا ہے جو زبان کے جنوب مشرق میں اٹھتا ہے، جگہ تو ایک ہی ہوتی ہے لیکن یہ درد اپنی ذات میں مختلف رنگ لیے ہوتا ہے کبھی قوم و ملک کا، کبھی رنگ و نسل کا، کبھی ملت و امت کا، کبھی دین و مذہب کا اور کبھی شعر و ادب کا، آخر بھئی کوئی چیز کسی کی جاگیر تھوڑی ہے۔
لیکن اس آخری درد کے بارے میں غالب مرحوم نے بات یہ کہہ کر ختم کر دی تھی۔
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
اللہ جنت نصیب کرے، مرزا بوڑھے ہو کر مرے، دنیا جہان کے عوارض اپنے آپ کو لاحق کرائے بجز دردِ دل کے، اور وہی دردِ دل جب سچ مچ اٹھا تو فیض پکار اٹھے۔
درد اتنا تھا کہ اُس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بنِ مو سے ٹپکنا چاہا
یقیناً "ہارٹ اٹیک" کی کیفیات کو فیض نے اسی نام کی نظم میں بہت خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے لیکن کیا کیجے ان حضرات کا جنہیں بیدل جونپوری کے الفاظ میں اکثر کچھ ایسا درد اٹھتا ہے۔
ہیں یہاں دوشیزگانِ قوم بیدل با ادب
اس جگہ موزوں نہیں ہے فاعلاتن فاعلات
گرلز کالج میں غزل کا وزن ہونا چاہیے
طالباتن طالباتن طالباتن طالبات
لیکن دوشیزگان کے حق میں سب سے محلق وہ درد تھا جو 'مَنّے موچی' کے پیٹ میں اس وقت اٹھا جب اسکا بیٹا امریکہ سے ڈالر بھیجنے لگ گیا اور اس نے گاؤں کے چوہدری سے اسکی باکرہ بیٹی کا ہاتھ اپنے بیٹے کیلیے مانگ لیا، گویا دوشیزہ نہ ہوئی اردو شاعری ہو گئی۔
ہوتے تو جی دونوں 'کمّی' ہی ہیں، لیکن سارا فرق 'درجہ حرارت' کا ہے، کہاں وہ جو تنور کے اندر سر دیکر روٹیاں پکاتا ہے اور کہاں وہ جو کڑاھی کے اوپر کھڑا ہو کر دودھ جلیبیوں کا پیالہ ختم کرنے کے بعد ڈکار مارتا ہے۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا۔
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل
کُجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا
اندھیری رات ہے، اور موج کا خوف ہے اور ایسا خوفناک بھنور ہے، ساحلوں کے بے فکرے اور انکی سیر کرنے والے، ہمارا حال کیسے جان سکتے ہیں؟
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)