Jun 11, 2012

یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی - سیّد سبطِ علی صبا

یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی
کلوں کے شہر میں بھی نوکری نہیں ملتی

جو سوت کاتنے میں رات بھر رہی مصروف
اسی کو سر کے لئے اوڑھنی نہیں ملتی

رہِ حیات میں کیا ہو گیا درختوں کو
شجر شجر کوئی ٹہنی ہری نہیں ملتی

غنودگی کا کچھ ایسا طلسم طاری ہے
کوئی بھی آنکھ یہاں جاگتی نہیں ملتی
Syed Sibte Ali Saba, سید سبط علی صبا, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, ااردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، taqtee
Syed Sibte Ali Saba, سید سبط علی صبا
یہ راز کیا ہے کہ دنیا کو چھوڑ دینے سے
خدا تو ملتا ہے پیغمبری نہیں ملتی

گزر رہی ہے حسیں وادیوں سے ریل صبا
ستم ہے یہ کوئی کھڑکی کھلی نہیں ملتی

سبطِ علی صبا
---


بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی
کلوں کے شہر میں بھی نوکری نہیں ملتی


یہا وہا - مفاعلن - 2121
کَ ہِ آسو - فعلاتن - 2211
دگی نہی - مفاعلن - 2121
ملتی - فعلن - 22

کلو کِ شہ - مفاعلن - 2121
ر مِ بی نو - فعلاتن - 2211
کری نہی - مفاعلن - 2121
ملتی - فعلن - 22
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 6, 2012

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے - غزل عبدالحمید عدم

عبدالحمید عدم کی ایک انتہائی معروف اور مشہور غزل

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے

بس اک زخمِ نظّارہ، حصّہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری، بادہ خانے ترے

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
Abdul Hameed Adam, عبدالحمید عدم, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع
Abdul Hameed Adam, عبدالحمید عدم
بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

-------

بحر - بحر متقارب مثمن محذوف

افاعیل - فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعِل
آخری رکن میں فَعِل کی جگہ فعول بھی آ سکتا ہے۔

اشاری نظام - 221 221 221 21
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 221 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 21 کی جگہ 121 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

وُ باتے - فعولن - 221
تری وہ - فعولن - 221
فسانے - فعولن - 221
ترے - فَعِل - 21

شگفتہ - فعولن - 221
شگفتہ - فعولن - 221
بہانے - فعولن - 221
ترے - فَعِل - 21
---------

اور یہ غزل طاہرہ سیّد کی آواز میں





مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 29, 2012

نظم - توسیعِ شہر از مجید امجد

مجید امجد کی ایک انتہائی خوبصورت نظم

توسیع ِ شہر

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار

جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم
Majeed Amjad, مجید امجد, Urdu Poetry, Urdu Sahiary, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Nazm, Urdu Nazm, اردو شاعری، اردو نظم، علم عروض، تقطیع
Majeed Amjad, مجید امجد
گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار

آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل

مجید امجد


مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 26, 2012

غزل - زندگی سے نظر ملاؤ کبھی - پروین شاکر

پروین شاکر کی ایک خوبصورت غزل

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی

اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
 ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
Parveen Shakir, پروین شاکر. Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع
Parveen Shakir, پروین شاکر
اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
 حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی

(پروین شاکر)

-------


بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

زندگی سے - فاعلاتن - 2212
نظر ملا - مفاعلن - 2121
ؤ کبی - فَعِلن - 211

ہار کے بع - فاعلاتن - 2212
د مسکرا - مفاعلن - 2121
ؤ کبی - فَعِلن - 211
---------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 21, 2012

متفرق فارسی اشعار - 6

حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

(مولانا عبدالرحمن جامی)

آپ (ص) رکھتے ہیں یوسف (ع) کا حسن، عیسٰی (ع) کا دم (وہ الفاظ جس سے وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے) اور موسٰی (ع) کا سفید ہاتھ والا معجزہ یعنی کہ وہ تمام کمالات جو باقی سب حسینوں (نبیوں) کے پاس تھے وہ تنہا آپ (ص) کی ذات میں اللہ نے جمع کر دیئے۔
--------

با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش

(عبدالقادر بیدل)

ہر کمال کے ساتھ ساتھ تھوڑی آشفتگی (عشق، دیوانگی) بھی اچھی (ضروری) ہے، ہر چند کہ تُو عقلِ کُل ہی ہو جائے، جنون کے بغیر مت رہ۔
--------

از من بگیر عبرت و کسبِ ہنر مکن
با بختِ خود عداوتِ ہفت آسماں مخواہ

(عرفی شیرازی)

مجھ سے عبرت حاصل کر اور ہنر پیدا کرنے کا خیال چھوڑ دے، تو کیوں چاہتا ہے کہ سات آسمانوں کی دشمنی خواہ مخواہ مول لے لے۔
--------

ز خود آنرا کہ پادشاہی نیست
بر گیاہیش پادشاہ شمار

(حکیم سنائی)

جس شخص کو اپنی ذات پر حکمرانی نہیں تو اسے صرف گھاس پر بادشاہ شمار کرو (وہ ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے پاس کچھ  اختیار نہیں۔)
--------

گر دلے داری بہ دلبندی بدہ
ضایع آں کشور کہ سلطانیش نیست

(سعدی شیرازی)

اگر دل رکھتا ہے تو اسے کسی دلدار کو دے دے، ضایع ہو جاتی ہے وہ سلطنت کہ جسکا کوئی سلطان نہ ہو۔
--------

حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا

(امیر خسرو)

تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔
--------

تُو و طوبٰی و ما و قامتِ یار
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست

تو اور طوبیٰ (کا خیال) ہے میں (ہوں) اور دوست کا قد و قامت، ہر کسی کی فکر اسکی ہمت کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔
--------

سرکشی با ہر کہ کردی رام او باید شدن
شعلہ ساں از ہر کجا برخاستی آنجانشیں

(ابو طالب کلیم کاشانی)

تُو نے جس کے ساتھ سرکشی کی ہے پھر اس کی اطاعت کر لے، شعلے کی طرح جس جگہ سے اٹھا تھا اُسی جگہ پر بیٹھ جا۔
--------


Persian poetry with Urdu Translation, Farsi Poetry with Urdu Translation, Allama Iqbal Persian poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، اقبال کی فارسی شاعری مع اردو ترجمہ
رباعی

احوالِ جہاں بر دلم آساں می کُن
و افعالِ بدم ز خلق پنہاں می کن
امروز خوشم بدارد، فردا با من
آنچہ ز کرمِ توی سزد آں می کن

(عمر خیام)

(اے خدا)، زمانے کے حالات میرے دل کیلیئے آسان کر دے، اور میرے بُرے اعمال لوگوں (کی نظروں) سے پنہاں کر دے، میرا آج (حال) میرے لیئے بہت خوش کن ہے اور کل (مستقبل) میرے حق میں، جیسا تیرا (لطف و رحم و) کرم چاہے ویسا ہی کر دے۔
--------

اوّل‌ آں‌ کس‌ کہ‌ خریدار شدش‌ مَن‌ بُودم‌
باعثِ‌ گرمیِ بازار شدش‌ من بودم‌

(وحشی بافقی)

سب سے پہلا وہ کون تھا جو اسکا خریدار بنا، میں (آدم، آدمی) تھا۔ اسکے بازار کی گرمی کا باعث میں بنا تھا۔
--------

بیا بہ مجلسِ اقبال و یک دو ساغر کش
اگرچہ سر نتراشد قلندری داند

(اقبال لاہوری)

اقبال کی مجلس (محفل) کی طرف آؤ اور ایک دو ساغر کھینچو، اگرچہ اس کا سر مُنڈھا ہوا نہیں ہے (لیکن پھر بھی) وہ قلندری رکھتا (قلندری کے اسرار و رموز جانتا) ہے۔
--------

درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش

(شاعر۔ نا معلوم)

دریا کی منجدھار میں مجھے تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار ہشیار رہنا تمھارا دامن تر نہ ہونے پائے۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 19, 2012

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے - داغ دہلوی

فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی کی ایک انتہائی مشہور اور معروف غزل

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغ دہلوی, Daagh Dehlvi, Urdu Poetry, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, علم عروض، تقطیع
داغ دہلوی, Daagh Dehlvi
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

(داغ دہلوی)

------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

لطف وہ عش - فاعلاتن - 2212
ق مِ پائے - فعلاتن - 2211
ہِ کِ جی جا - فعلاتن - 2211
ن تَ ہے - فَعِلن - 211

رنج بی اے - فاعلاتن - 2212
سِ اٹائے - فعلاتن - 2211
ہِ کِ جی جا - فعلاتن - 2211
ن تَ ہے - فَعِلن - 211
-----------

اور یہ غزل ملکہٴ ترنم میڈم نورجہاں کی خوبصورت آواز میں







مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 17, 2012

کرد تاراج دِلَم، فتنہ نگاہے عَجَبے - فارسی غزل سید نصیر الدین نصیر مع اردو ترجمہ

سید نصیر الدین نصیر شاہ مرحوم کی یہ غزل، امیر خسرو علیہ الرحمہ کی خوبصورت غزل "چشمِ مستے عجَبے، زلف درازے عجَبے" کی زمین میں ہے، ترجمے کے ساتھ لکھ رہا ہوں

کرد تاراج دِلَم، فتنہ نگاہے عَجَبے
شعلہ روئے عجَبے، غیرتِ ماہے عَجَبے

میرا دل (دل کی دنیا) تاراج کر دیا، اُس کی نگاہ میں عجب فتنہ ہے، اس کے چہرے کا شعلہ عجب ہے، اس ماہ کی غیرت عجب ہے۔
Persian poetry with Urdu Translation, Farsi poetry with Urdu Translation, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Pir Syyed Naseer-ud-Din Naseer, علم عروض، تقطیع، پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ
Naseer-Ud-Din Naseer
 سید نصیر الدین نصیرشاہ
با ہمہ نامہ سیاہی نہ ہراسَم از حشر
رحمتِ شافعِ حشر است، پناہے عجبے

میں اپنے اعمال نامے کی اس تمام تر سیاہی کے باوجود حشر سے نہیں ڈرتا کہ حشر کے دن کے شافع (ص) کی رحمت کی پناہ بھی عجب ہے۔

رُوئے تابانِ تو در پردۂ گیسوئے سیاہ
بہ شبِ تار درخشانیِ ماہے عجبے

تیرا تاباں چہرہ تیرے سیاہ گیسوؤں کے پردے میں ایسے ہی ہے جیسے تاریک شب میں چاند کی درخشانی،  اور یہ عجب ہی سماں ہے۔

رہزنِ حُسن ربایَد دل و دیں، ہوش و خرَد
گاہ گاہے سرِ راہے بہ نگاہے عجبے

راہزنِ حسن دل و وین اور ہوش و خرد کو لوٹ کر لے جاتا ہے، کبھی کبھی سرِ راہے اپنی عجب نگاہ سے۔

نقدِ جاں باختہ و راہِ بَلا می گیرَند
ہست عشاقِ ترا رسمے و راہے عَجَبے

نقدِ جان فروخت کر دیتے ہیں اور راستے کی بلاؤں کو لے لیتے ہیں، تیرے عاشقوں کی راہ و رسم بھی عجب ہے۔

خواستَم رازِ دِلَم فاش نہ گردَد، لیکن
اشک بر عاشقیم گشت گواہے عجَبے

میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کا راز فاش نہ ہو، لیکن ہم عاشقوں پر (ہمارے) آنسو عجب گواہ بن جاتے ہیں۔

ذرّۂ کوچۂ آں شاہِ مدینہ بُودَن
اے نصیر از پئے ما شوکت و جاہے عَجَبے

اُس شاہِ مدینہ (ص) کے کوچے کا ذرہ بننا، اے نصیر میرے لیے ایک عجب ہی شان و شوکت ہے۔

پیر سیّد نصیر الدین نصیر شاہ مرحوم
--------


بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

کرد تاراج دِلَم، فتنہ نگاہے عَجَبے
شعلہ روئے عجَبے، غیرتِ ماہے عَجَبے

کرد تارا - فاعلاتن - 2212
ج دلم فت - فعلاتن - 2211
نَ نگاہے - فعلاتن - 2211
عَجَبے - فَعِلن - 211

شعلَ روئے - فاعلاتن - 2212
عَجَبے غے - فعلاتن - 2211
رَتِ ماہے - فعلاتن - 2211
عَجَبے - فَعِلن - 211
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 15, 2012

عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے - احمد مشتاق

احمد مشتاق عصرِ حاضر کے ایک انتہائی اہم شاعر ہیں، کم کم شاعری کرتے ہیں لیکن انکی جتنی بھی شاعری ہے لاجواب ہے۔ انکی غزلوں میں سے ایک انتہائی خوبصورت غزل  جس کا ہر شعر ہی لاجواب ہے، ملاحظہ کیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔

مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
Ahmed Mushtaq, احمد مشتاق, Urdu Poetry, Ilm-e-Urooz, Ilm-e-Arooz, Taqtee,
Ahmed Mushtaq, احمد مشتاق
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جُگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے

دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے

احمد مشتاق
-----


بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

مل ہِ جائے - فاعلاتن - 2212
گَ کبی دل - فعلاتن - 2211
کُ یقی رہ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22

وہ اسی شہ - فاعلاتن - 2212
ر کِ گلیو - فعلاتن - 2211
مِ کہی رہ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 5, 2012

کلاسیکی موسیقی - ترانہ

ترانہ، برصغیر پاک و ہند کی کلاسیکی موسیقی میں گانے کا ایک خاص اور دلفریب انداز جس میں فارسی، عربی اور ہندی کے کچھ بے معنی الفاظ کی درمیانی (مدھ) اور تیز (دُرت)لے میں اس خوبصورتی کے ساتھ تکرار کی جاتی ہے کہ سماں بندھ جاتا ہے اور سننے والے مسحور ہو جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ترانہ، گانے کا طریقہ اور اسکے بول دونوں، خاص امیر خسرو کی اختراع  ہے، کچھ محقیقین کو اس میں اعتراض بھی ہے۔ لیکن شاید حقیقت یہی  ہے کہ ترانہ امیر خسرو ہی کی ایجاد ہے اور اس صنف کو مقبول بھی امیر خسرو نے کیا ہے، اور پچھے سات سو سال سے برصغیر میں ترانہ گایا اور سنا جا رہا ہے، واضح رہے کہ ترانہ فارسی شاعری کی ایک صنف کا بھی نام ہے۔

ترانہ کی اختراع کے بارے میں ایک دلچسپ حکایت بھی چلی آ رہی ہے، جو موضوع ہی سہی لیکن دلچسپی سے خالی نہیں، کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ علاءالدین خلجی کے دربار میں موسقی کا ایک مقابلہ ہوا جس کے آخر میں صرف دو گائیک رہ گئے، ایک ہندو پنڈت اور دوسرے امیر خسرو۔ ہندو پنڈت نے جب دیکھا کہ حریف بہت سخت ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ سنسکرت نہیں جانتا، سنسکرت کے کچھ بھاری بھر کم الفاظ انتہائی تیز لے میں گائے، جواب میں امیر خسرو نے انہی سروں میں اور اسی لے کے ساتھ فارسی کے کچھ بے معنی الفاظ گائے اور درباریوں کا دل جیتتے ہوئے  مقابلہ بھی جیت لیا اور یوں ترانہ ایجاد ہوا۔
amir, khusro, amir khusro, امیر خسرو، امیر، خسرو، کلاسیکی موسیقی، موسیقی، ترانہ، classical music, tarana
امیر خسرو علیہ الرحمة، ایک خاکہ
یہ کہانی گھڑی ہوئی اور موضوع ہی سہی لیکن صنف ترانہ پر بہت خوبصورتی سے روشنی ڈالتی ہے۔ ترانہ نام ہی خالص تجریدی موسیقی کے تجربے کا ہے۔ ترانہ کے مقابلے میں دیگر کلاسیکی گائیکی کے جتنے بھی اوضاع ہیں جیسے خیال، دھرپد اور ٹپہ جو کہ دونوں اب بہت حد تک متروک ہو چکے ہیں، ٹھمری یا  دادرا وغیرہ، ان سب میں با معنی الفاظ یا شاعری کو گایا جاتا ہے لیکن ترانہ میں شاعری کا عنصر سرے سے نکال ہی دیا گیا ہے اور خالص تجریدی موسیقی پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے تا کہ سننے والوں کا ذہن شاعری میں نہ بھٹکے اور ان کا دھیان صرف موسیقی میں رہے اور خالص موسیقی اور سروں سے لطف اندوز ہوں جب کہ بعض دفعہ تجرے کے طور پر ترانہ میں کچھ اشعار بھی گائے جاتے ہیں، جیسا کہ امیر خسرو ہی کا ایک ترانہ "یارِ من بیا بیا" ہے جس میں امیر خسرو کا ایک شعر بھی گایا جاتا ہے لیکن ایسی مثالیں چند ایک ہی ہیں اور زیادہ ترانے فقط بے معنی الفاظ پر مشتمل ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر آیا ترانہ عموماً مدھ اور درت لے میں گایا جاتا ہے لیکن بلمپت یا دھیمی لے میں بھی ترانہ گایا جاتا ہے گو اسکی مثالیں خال خال ہی ہیں۔ ترانہ کو کسی بھی راگ میں علیحدہ بھی گایا جا سکتا ہے اور کسی خیال کے آخر میں بھی، ہر دوصورت میں یہ لطف سے خالی نہیں، لیکن چونکہ خیال اور اس میں بھی بڑا خیال کافی طویل ہوتا ہے لہذا علیحدہ سے گائے ہوئے ترانے آج کل زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔

ترانہ میں جن بے معنی الفاظ کی بار بار تکرار ہوتی ہے ان میں سے کچھ نیچے درج کر رہا ہوں، یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے عام طور پر یہ سارے الفاظ انہتائی سہل اور ادا کرنے میں ثقیل نہیں ہیں، جیسے

او دانی
تو دانی
نادر دانی
تنن
درآ
تا نا
تا نی
تا نوم
توم
دھیم
ری
یعلا
یعلی
وغیرہ وغیرہ

کچھ موسیقاروں نے اوپر مندرج فارسی الفاظ کو معنی پہنانے کی بھی کوشش کی ہے جیسا کہ ان کا کچھ نہ کچھ مطلب نکالا بھی جا سکتا ہے لیکن یہ کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی اور اس کا حسن انہی بے معنی الفاظ کی تکرار ہی میں ہے وگرنہ جتنی دیر میں کوئی سننے والا کسی جملے کے معنی ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا اتنی دیر میں گائیک کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہوگا۔

ان بے معنی الفاظ کے ساتھ ساتھ ترانہ میں سرگم کے سروں کی خوبصورت تکرار اور کچھ سازوں مثلاً طبلہ، پکھاوج، ستار وغیرہ کے بول جیسے دھا، ترکٹ، تک، دِر دِر وغیرہ کی بھی تکرار کی جاتی ہے۔ گائیک کے منہ سے ساز کے بول اور ساز کی انہی بولوں کی آواز، ایک سماں باندھتے ہیں جسے ہوا میں گرہ باندھنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

برصغیر میں تقریباً ہر کلاسیکی گائیک نے ترانہ بھی ضرور گایا ہے، انہی میں سے کچھ اپنی پسند کے اور جو یوٹیوب پر مل سکے ہیں یہاں شامل کر رہا ہوں۔

سب سے پہلے میرے پسندیدہ گائیک استاد بڑے غلام علی خان صاحب مرحوم قصور گھرانہ کا ایک ترانہ۔







استاد فتح علی خان پٹیالہ گھرانہ کا ایک ترانہ، جو انہوں نے راگ درباری خیال گاتے ہوئے گایا ہے۔


ایک اور عظیم فنکار، استاد سلامت علی خان مرحوم، شام چوراسی گھرانہ، راگ سرسوتی میں ترانہ


اگر آپ میری پسند کچھ اور ترانے سننا چاہتے ہیں تو یہ ربط دیکھیے یا یو ٹیوب پر اپنی پسند کے ترانوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
---------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 2, 2012

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا - غزلِ سودا

مرزا محمد رفیع سودا کی ایک خوبصورت غزل

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مِل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دِل بنا

سرگرمِ نالہ ان دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متّصِل بنا

جب تیشہ کوہ کن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سِل بنا
مرزا، رفیع، سودا، مرزا رفیع سودا، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، mirza, rafi, sauda, mirza rafi sauda, classical urdy poetry, urdu poetry
 مرزا محمد رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda
جس تیرگی سے روز ہے عشّاق کا سیاہ
شاید اسی سے چہرہٴ خوباں پہ تِل بنا

لب زندگی میں کب ملے اُس لب سے اے کلال
ساغر ہماری خاک کو مت کرکے گِل بنا

اپنا ہنر دکھاویں گے ہم تجھ کو شیشہ گر
 ٹوٹا ہوا کسی کا اگر ہم سے دِل بنا

سُن سُن کے عرضِ حال مرا یار نے کہا
سودا نہ باتیں بیٹھ کے یاں متّصِل بنا

مرزا محمد رفیع سودا

------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--


آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا


آدم کَ - مفعول - 122
جسم جب کِ -فاعلات - 1212
عناصر سِ - مفاعیل - 1221
مل بنا - فاعلن - 212

کچ آگ - مفعول - 122
بچ رہی تِ - فاعلات - 1212
سُ عاشق کَ - مفاعیل - 1221
دل بنا - فاعلن - 212
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔