گر ایں کمال نَداری، کمال نقصان است
آدمی کا وجود عشق سے ہی کمال تک پہنچتا ہے، اور اگر تو یہ کمال نہیں رکھتا تو کمال (حد سے زیادہ) نقصان ہے۔
--------
مردہ بُدم زندہ شُدم، گریہ بدم خندہ شدم
دولتِ عشق آمد و من دولتِ پایندہ شدم
میں مُردہ تھا زندہ ہو گیا، گریہ کناں تھا مسکرا اٹھا، دولتِ عشق کیا ملی کہ میں خود ایک لازوال دولت ہو گیا۔
--------
مزار مولانا جلال الدین رُومی علیہ الرحمہ، قونیہ تُرکی Mazar Maulana Rumi |
خام بُدَم، پختہ شُدَم، سوختَم
میری عمر کا حاصل ان تین باتوں سے زائد کچھ بھی نہیں ہے، خام تھا، پختہ ہوا اور جل گیا۔
--------
ہر کہ اُو بیدار تر، پُر درد تر
ہر کہ اُو آگاہ تر، رُخ زرد تر
ہر وہ کہ جو زیادہ بیدار ہے اسکا درد زیادہ ہے، ہر وہ کہ جو زیادہ آگاہ ہے اسکا چہرہ زیادہ زرد ہے۔
--------
خرد نداند و حیراں شَوَد ز مذہبِ عشق
اگرچہ واقفِ باشد ز جملہ مذہب ھا
خرد، مذہبِ عشق کے بارے میں کچھ نہیں جانتی سو (مذہب عشق کے معاملات سے) حیران ہو جاتی ہے۔ اگرچہ خرد اور تو سب مذاہب کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے۔
--------
خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم
اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔
گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔
بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم
اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔
--------
یک دست جامِ بادہ و یک دست زلفِ یار
رقصے چنیں میانۂ میدانم آرزوست
ایک ہاتھ میں شراب کا جام ہو اور دوسرے ہاتھ میں یار کی زلف، اور اسطرح بیچ میدان کے رقص کرنے کی آرزو ہے۔
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست
کل (ایک) شیخ چراغ لیئے سارے شہر کے گرد گھوما کیا (اور کہتا رہا) کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کا آزرو مند ہوں۔
واللہ کہ شہر بے تو مرا حبس می شوَد
آوارگی و کوہ و بیابانم آرزوست
واللہ کہ تیرے بغیر شہر میرے لئے حبس (زنداں) بن گیا ہے، (اب) مجھے آوارگی اور دشت و بیابانوں کی آرزو ہے۔
--------
شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علّت ہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموسِ ما
اے تو افلاطون و جالینوسِ ما
(مثنوی)
خوش رہ اے ہمارے اچھے جنون والے عشق، (تُو جو کہ) ہماری تمام علّتوں کا طبیب ہے۔
(تو جو کہ) ہماری نفرت اور ناموس (حاصل کرنے کی ہوس) کی دوا ہے، تو جو ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے۔
--------
-انتہا-
مزید پڑھیے۔۔۔۔