Showing posts with label محمد وارث. Show all posts
Showing posts with label محمد وارث. Show all posts

Apr 23, 2009

محشرِ خیال

پہلا۔ "یار اُس خاتوں کو دیکھا تھا آج۔"
دوسرا۔ "کون، وہ جو اپنا بچہ اسکول میں داخل کروانے آئی تھی۔"
پہلا۔ "ہاں ہاں، وہی، یار کیا خوبصورت خاتون تھی، کیا حسن و جمال تھا۔"
دوسرا۔ "شرم کر شرم اگر کچھ ہے تو، تمھارا منہ سوکھ رہا تھا اس کو میڈم میڈم کہتے ہوئے اور اب کیسا کمینہ بنا ہوا ہے۔"
پہلا۔ "ارے جا، تُو تو ہے ہی بد ذوق، اس شاعر کے بچے کو دیکھ، جب سے اس کو دیکھا ہے اس پر نظم لکھنے کے خیال میں ہے۔"
دوسرا۔ "اور وہ بھی میری حق حلال کی کمائی کو اسطرح دھوئیں میں اڑاتے ہوئے، یہ کوئی پچاسواں سگریٹ تو ہوگا اسکا صبح سے۔"
تیسرا۔ "دیکھو، تم دونوں نے جو بکواس کرنی ہے کرتے رہو، لیکن مجھے مت تنگ کرو، میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں، شعر پھنسا ہوا ہے۔"
دوسرا۔ "ہا ہا ہا، شعر، منہ دیکھا ہے کبھی اپنا آئینے میں، تُو دو چار کتابیں پڑھ کر سمجھتا ہے کہ شاعری کرنے لگ گیا ہے، ہا ہا ہا۔"
تیسرا۔ "دیکھو میرے منہ نہ لگو، ورنہ ہجو کہہ دونگا۔"
پہلا۔ "اپنی ہجو، یہ بھی کوئی انوکھی چیز ہی ہوگی۔"
تیسرا۔ "تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔"
دوسرا۔ "بیزار تو میں ہوں تم دونوں سے، میں سارا دن مر جاتا ہوں کام کر کر کے اور تم دونوں عیش کر رہے ہو۔"
پہلا۔ "اوئے کون سی عیش۔"
دوسرا۔ "عیش ہی تو ہے، کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے، آدھی رات ہو گئی تم نہ جانے کہاں سے گھوم گھما کے آ رہے ہو۔"
پہلا۔ "تو میں اکیلا تھا کیا، تم سب بھی تو ساتھ تھے میرے۔"
دوسرا۔ "صحیح ہے، لیکن لیکر تو تم گئے تھے۔"
پہلا۔ "تو یہ شاعر خان ہمیں زبردستی لائبریری نہیں لے جاتا کیا؟ اور تم جو ہر روز صبح صبح، جب سونے کا مزہ آ رہا ہوتا ہے ہمیں اٹھا کر اسکول لے جاتے ہو۔"
دوسرا۔ "تو کیا وقت سے نوکری پر جانا کوئی بری بات ہے۔"
تیسرا۔ "ہا ہا، وقت، یوں کہو کہ اگر دیر ہو جائے تو دیدارِ جمالِ پری رُخاں نہیں ہوتا۔"
دوسرا۔ "تم اپنا منہ بند ہی رکھو، خیالوں میں نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ گھومتے پھرتے رہتے ہو، بس جو شعر گھڑ رہے ہو انہیں گھڑتے رہو۔"
تیسرا۔ "کتنے بدذوق ہو تم، فکرِ سخن کو شعر گھڑنا کہہ رہے ہو۔"
دوسرا۔" ہاں تم دن رات فکرِ سخن کرتے ہواور یہ دن رات گپیں مارتا ہے اور میں کام کر کر کے مر رہا ہوں۔"
پہلا۔ "تم تو جیسے بڑے فرشتے ہو، ہر وقت کوئی بڑا ہاتھ مارنےکے چکر میں ہو۔""
دوسرا۔ "جا جا، کون سا ہاتھ، اتنے سال ہو گئے اکاؤنٹنٹ کی نوکری کرتے ہوئے، کوئی ایک پیسے کا الزام نہیں لگا سکتا۔"
پہلا۔ "اوہ، الزام، یوں کہو نا کہ کبھی تمھارا داؤ ہی نہیں لگا، اور وہ جو تم ہر وقت یہ خواب دیکھتے ہو کہ کسی دن اسکول مالک کی بیٹی خود آ کر تم سے شادی کی خواہش ظاہر کرے گی۔"
چوتھا۔ "تم تینوں جہنمی ہو۔"
پہلا۔ "تو تُو کون سا ہم سے جدا ہے، تُو بھی جہنم میں جلے گا ہمارے ساتھ۔"
تیسرا۔ "تم لوگ کیا بک بک کر رہے ہو، میں نے کہا نا کہ میرا شعر پھنسا ہوا ہے۔"
پہلا۔ "چپ کر جاؤ یار، جب تک اس کا شعر نہیں نکلے گا یہ اسی طرح سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہے گا۔"
دوسرا۔ "اور تم اسی طرح فون کالز کرتے رہو گے، یہ اگر میری کمائی دھوئیں میں اڑا رہا ہے تو تم باتوں میں۔"
پہلا۔ "تم تو ہر وقت پیسہ پیسہ ہی کرتے رہتے ہو، نہ جانے کیوں؟"
دوسرا۔ "چونکہ میں کماتا ہوں اس لیے فکر کیوں نہ کروں، اوئے شاعر وہ کیا شعر ہے تمھارے علامہ کا، فکر شکر والا۔"
تیسرا۔ "فکرِ فردا نہ کروں محوِ غمِ دوش رہوں۔۔۔۔۔"
پہلا۔ "بس کرو، کس قسم کا شعر ہے یہ۔"
تیسرا۔ "جی جی، اگر کسی لڑکی نے کسی امام دین کا شعر بھی سنایا ہوتا تو تم واہ واہ کرتے مر جاتے۔"
پہلا۔ "ہاں اس وقت تمھاری روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے۔"
چوتھا۔ "تم سب جہنمی ہو۔"
دوسرا۔ "تُو تو چپ ہی رہا کر، جب بھی بولتے ہو کفن پھاڑ کر بولتے ہو، مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ ابھی پورا مہینہ پڑا ہے اور پیسے ختم ہو گئے ہیں، اب اس نامراد شاعر کیلیے سگریٹ بھی ادھار لینے پڑیں گے۔"
تیسرا۔ "قرض کی پیتے تھے مے۔۔۔۔"
دوسرا۔ "خبرادر، جو کسی حرام چیز کا نام لیا میرے سامنے۔"
پہلا۔ "ہاں جی، حاجی صاحب کے سامنے کسی حرام چیز کا نام نہیں لینا، یہ دوسری بات ہے کہ خود دن رات اس فکر میں مرا جاتا ہے کہ کوئی بینک اکاؤنٹ ہو اور اس پر سود ملتا رہے۔"
دوسرا۔ "مجھے تم سے سخت اختلاف ہے، بینکوں میں جو منافع ملتا ہے وہ سود ہر گز نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"
تیسرا۔ "کیا فضول بحث شروع کرنے لگے ہو تم لوگ، میرے کان پک گئے ہیں تم دونوں کی باتیں سن سن کر، میرے ساتھ تو کوئی گل و بلبل کی بات کرو، کسی غزالِ دشت کی بات کرو، کسی ماہ جبیں۔۔۔۔۔۔"
دوسرا۔ "یہ کیا اوٹ پٹانگ باتیں سوجھتی ہیں تمھیں۔"
تیسرا۔ "مجھے تو بس یہی کچھ سوجھتا ہے۔"
پہلا۔ "اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سوجھی۔"
چوتھا۔ "تم سب جہنمی ہو۔"
تیسرا۔ "لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے۔"
دوسرا۔ "یار اب تو کچھ دیر بعد اذان ہونے والی ہے، میں سونے لگا ہوں۔"
پہلا۔ "اچھا، کیسے سونے لگا ہوں، ابھی تو اس کی 'مس کال' آنی ہے جس نے کل ہی اپنا نمبر دیا ہے۔"
دوسرا۔ "ہاں اس نے تمھاری باری شاید سب سے آخر پر رکھی ہے۔"
تیسرا۔ "اور ابھی میں نے اپنی نظم مکمل کرنی ہے، مکمل ہوگی تو صبح اسکول میں کسی کو سنا سکوں گا۔"
دوسرا۔ "تم سب جہنم میں جاؤ۔"
چوتھا۔ "آمین۔"

پس نوشت۔اگر کسی کو اس مکالمے میں راقم کا چہرہ نظر آئے تو اسے سوئے ظن پر محمول کیا جائے، ہاں اگر اپنا چہرہ نظر آ جائے تو یہ عین حسنِ ظن ہوگا، اور جن کو اس میں 'حسنِ زن' نظر آیا ہے ان کیلیے کچھ کہنا عبث ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 17, 2009

فیضان

لاہور میں، میں قریب قریب اڑھائی سال رہا لیکن بالکل اسی طرح جسطرح گوہر صدف میں رہتا ہے، میری دوڑ اپنے ہاسٹل سے کالج تک اور زیادہ سے زیادہ پرانی انارکلی تک ہی ہوتی تھی، جہاں میں مہینے میں دو تین بار لازمی طور پر کتابیں خریدنے جایا کرتا تھا۔ میرے کالج اور ہوسٹل کے ساتھی باقاعدہ پروگرام بنا کر لاہور کے تاریخی مقامات بھی دیکھنے جایا کرتے تھے اور فلمیں بھی لیکن مجھ پر ہمیشہ سنگ و خشت میں مقید رہنا ہی شاید نازل ہوا ہے اور اس پر دوستوں کے طنز کا بھی بارہا نشانہ بنا۔ لیکن ایک موقع ایسا آیا کہ میں بھی کشاں کشاں چلنے کو تیار ہو گیا، ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ انکے کالج میں ایک مشاعرہ ہو رہا ہے سو چلو اور میں تیار ہو گیا، میرے اسطرح فوری تیار ہونے پر سبھی دوست حیران بھی ہوئے کہ میں حجام کے پاس جانے سے پہلے بھی کئی کئی دن 'تیاری' کرتا اور سوچتا رہتا ہوں۔

وہ مشاعرہ واقعی یادگار تھا اور میرے لیے تو خاص طور پر یادگار کہ میری زندگی کا یہ پہلا اور آخری مشاعرہ ہے جس میں میں نے شرکت کی اور سنا۔ اس مشاعرے میں کئی نامور، سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر موجود تھے جن میں منیر نیازی، امجد اسلام امجد، ضیاءالحق قاسمی، پروفیسر عنایت علی خان، خالد مسعود خان وغیرہ شامل تھے۔ پنڈال میں پہنچے تو وہاں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی اور مجھے بہت پیچھے نشست ملی، اپنے پسندیدہ شاعروں کے اتنے قریب آ کر اتنا دُور رہنا میرے لیے ناممکن تھا سو کرسی سے اٹھا اور اسٹیج کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور تین چار گھنٹے تک سارا مشاعرہ کھڑے ہو کر سنا۔ داد تو میں بڑھ چڑھ کر دے ہی رہا تھا اسکے بعد فرمائشیں بھی شروع کر دیں، منیر نیازی مرحوم ان دنوں کافی ضعیف ہو چکے تھے لیکن ہم کافی دیر تک ان سے ان کا کلام سنتے رہے، اور میں نے ان سے انکی مشہور پنجابی نظم 'کج شہر دے لوگ وی ظالم سن' بھی سننے کا شرف حاصل کیا۔ میری فرمائشیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو خالد مسعود بول ہی اٹھے کہ 'بندہ تو ایک ہے اور فرمائشیں پورے پنڈال کی طرف سے کر رہا ہے۔"۔

مشاعرہ ختم ہوا تو شعراء کرام سے ہاتھ ملانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی، منیر نیازی سے کجھ باتیں بھی ہوئیں، ان کے ارد گرد کافی طالب علم کھڑے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے" ذرا بچوں کو تنقید پڑا رہا ہوں"، دراصل وہ گلہ کر رہے تھے کہ ان کو اردو شاعری میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے اور ان سے کمتر شعراء اپنی "پی آر" اور تعلقات کی وجہ سے زیادہ شہرت حاصل کر گئے۔ پروفیسر عنایت علی خان سے ملا تو کہنے لگے، 'یار آپ تو بہت اچھے سامع ہیں، سارا مشاعرہ کھڑے ہو کر سنا۔"
اس وقت میرے پاس آٹو گراف لینے کیلیے کوئی چیز موجود نہ تھی، ایک دوست کے ہاتھ میں ڈائری دیکھی تو اسی پر شعرائے کرام سے آٹو گراف حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، لیکن افسوس وہ سنگ دل دوست اپنی ڈائری کسی طور مجھے دینے پر رضامند نہ ہوا اور یوں وہ متاع چھن گئی، لیکن ایک یادگار اور لازوال خزانہ اس مشاعرے کے حوالے سے جو میرے پاس ہے وہ کوئی نہیں چھین سکتا، امجد اسلام امجد اسٹیج سے نیچے اترے تو ان کے جوتے اسٹیج کے نیچے کہیں دُور پہنچ چکے تھے، اس خاکسار نے نہ صرف انکے جوتے نکالے بلکہ ان کو 'سیدھا بھی کیا' بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس مشاعرے کو سننے کیلیے میرا غیر ارادی طور پر تیار ہو جانا صرف اور صرف اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے کیلیے ہی تھا۔ بقولِ شاعر
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشَد خدائے بخشندہ

(یہ سعادت اپنے زورِ بازو سے حاصل نہیں ہوتی، تا وقتیکہ بخشنے والا خدا نہ بخشے)۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 31, 2009

اللہ کی مار

"یہ سب شاعروں پر اللہ کی مار کیوں پڑی ہوتی ہے؟ میری بیوی نے ایک دن کسی کتاب پر کسی شاعر کی تصویر دیکھتے ہوئے کہا۔"
میں نے بے چین ہوتے ہوئے کہا۔ "کیا مطلب"۔
"کچھ نہیں، بس ایسے ہی پوچھ رہی ہوں، جس شاعر کو دیکھو، عجیب حلیہ ہوتا ہے اور عجیب و غریب شکل، ایسے لگتا ہے ان پر اللہ کی مار پڑی ہوئی ہے۔"
خیر میں جواب تو کیا دیتا بس سگریٹ سلگا کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ ایسا ہی کچھ مکالمہ ایک دن میرے اور میرے بڑے بیٹے، سات سالہ حسن، کے درمیان ہوا۔ میں اسے غالب کے متعلق بتا رہا تھا اور سبق دینے کے بعد اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔
"ہاں اب بتاؤ، غالب کون تھے۔"
"غالب شاعر تھا۔"
"الو، شاعروں کی عزت کرتے ہیں، کہتے ہیں غالب شاعر تھے۔"
"جی اچھا"
"تو کون تھے غالب۔"
"وہ شاعر تھے"
"کس زبان کے شاعر تھے"
"اردو کے"
"اور"
"اور، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فارسی کے"
"شاباش، بہت اچھے"
اس مکالمے کے دوران وہ آہستہ آہستہ مجھ سے دور بھی ہو رہا تھا، کہ اچانک بولا۔
"غالب کے ہاتھ تھے۔"

میں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا تو اسکے لبوں پر شرارتی مسکراہٹ کھیل رہی تھی، دراصل اس نے اپنی طرف سے غالب کی توہین کرنے کی کوشش کی تھی کہ میں اسے کہہ رہا تھا شاعروں کی عزت کرنی چاہیئے۔ جب سے ہماری بیوی نے ہمارے بلاگ پر "اُوئے غالب" والی تحریر دیکھی ہے، مسلسل اس کوشش میں ہے کہ بچوں سے شعر و شاعری کو دُور رکھا جائے اور ہر وقت شاعروں کی برائیاں کر کے بچوں کے ذہن میں جو پودا میں لگا رہا ہوں اس کو پنپنے سے پہلے ہی تلف کر دیا جائے۔

اس تحریر سے یہ دکھانا مقصود نہیں ہے کہ ہم "شاعر" ہیں اور ہمارے گھر میں ہماری عزت پھوٹی کوڑی کی بھی نہیں ہے بلکہ نثر کے اس ٹاٹ میں ایک اور ٹاٹ کا ہی پیوند لگانا چاہ رہا ہوں، بیوی بچے آج کل لاہور میں ہیں پورے ایک ہفتے کیلیے اور میں خالی الذہن، ظاہر ہے اس میں شاعری ہی آ سکتی ہے۔

کل رات ایک رباعی ہوئی سوچا بلاگ پر ہی لکھ دوں کہ "محفوظ" ہو جائے وگرنہ کاغذ قلم کا ہم سے کیا رشتہ، سو عرض کیا ہے۔

ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 27, 2009

سبکسارانِ ساحل

درد کا کیا ہے جی، کبھی بھی کسی کو بھی کہیں بھی اٹھ سکتا ہے اور رنگ رنگ کا اٹھ سکتا ہے، بلکہ بے رنگ اور بد رنگ بھی کہ اس کو دو چار "تڑکے" لگا کر اپنی مرضی کے رنگ بھرے جا سکتے ہیں۔

کچھ لوگوں کے دماغ میں درد اٹھتا ہے کہ وہ اپنے ازلی رقیب کا خانہ بن جاتا ہے اور کچھ کو زبان کا کہ کشتوں کو پشتے لگا دیتے ہیں لیکن سب سے خطرناک شاید وہ ہوتا ہے جو زبان کے جنوب مشرق میں اٹھتا ہے، جگہ تو ایک ہی ہوتی ہے لیکن یہ درد اپنی ذات میں مختلف رنگ لیے ہوتا ہے کبھی قوم و ملک کا، کبھی رنگ و نسل کا، کبھی ملت و امت کا، کبھی دین و مذہب کا اور کبھی شعر و ادب کا، آخر بھئی کوئی چیز کسی کی جاگیر تھوڑی ہے۔

لیکن اس آخری درد کے بارے میں غالب مرحوم نے بات یہ کہہ کر ختم کر دی تھی۔

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

اللہ جنت نصیب کرے، مرزا بوڑھے ہو کر مرے، دنیا جہان کے عوارض اپنے آپ کو لاحق کرائے بجز دردِ دل کے، اور وہی دردِ دل جب سچ مچ اٹھا تو فیض پکار اٹھے۔

درد اتنا تھا کہ اُس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بنِ مو سے ٹپکنا چاہا

یقیناً "ہارٹ اٹیک" کی کیفیات کو فیض نے اسی نام کی نظم میں بہت خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے لیکن کیا کیجے ان حضرات کا جنہیں بیدل جونپوری کے الفاظ میں اکثر کچھ ایسا درد اٹھتا ہے۔

ہیں یہاں دوشیزگانِ قوم بیدل با ادب
اس جگہ موزوں نہیں ہے فاعلاتن فاعلات
گرلز کالج میں غزل کا وزن ہونا چاہیے
طالباتن طالباتن طالباتن طالبات

لیکن دوشیزگان کے حق میں سب سے محلق وہ درد تھا جو 'مَنّے موچی' کے پیٹ میں اس وقت اٹھا جب اسکا بیٹا امریکہ سے ڈالر بھیجنے لگ گیا اور اس نے گاؤں کے چوہدری سے اسکی باکرہ بیٹی کا ہاتھ اپنے بیٹے کیلیے مانگ لیا، گویا دوشیزہ نہ ہوئی اردو شاعری ہو گئی۔

ہوتے تو جی دونوں 'کمّی' ہی ہیں، لیکن سارا فرق 'درجہ حرارت' کا ہے، کہاں وہ جو تنور کے اندر سر دیکر روٹیاں پکاتا ہے اور کہاں وہ جو کڑاھی کے اوپر کھڑا ہو کر دودھ جلیبیوں کا پیالہ ختم کرنے کے بعد ڈکار مارتا ہے۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا۔

شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنیں ہائل
کُجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا

اندھیری رات ہے، اور موج کا خوف ہے اور ایسا خوفناک بھنور ہے، ساحلوں کے بے فکرے اور انکی سیر کرنے والے، ہمارا حال کیسے جان سکتے ہیں؟
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 13, 2009

ماما (انگریزی والا)۔۔۔۔۔

پہلے واضح کر دوں کہ یہ 'ماما' پنجابی والا نہیں ہے بلکہ انگریزی والا لفظ ہے اور اس وضاحت کی یوں ضرورت محسوس ہوئی کہ پنجابی والا 'ماما' جو کہ اب ایک گالی بن چکا ہے (نہ جانے کیوں) اور چونکہ ڈر ہے کہ گالیوں کے عنوان والے بلاگز کی رسم ہی نہ چل نکلے، آغاز تو الا ماشاءاللہ ہو ہی چکا، تو واضح کر دوں، اور یہ بھی کہ میں گالی پر نہیں گل پر لکھنا چاہ رہا ہوں۔ گُل جو چمن میں کھلتا ہے تو بہار آ جاتی ہے، ہر طرف نغمۂ ہزار گونجتا ہے، اور پژمُردہ دلوں میں جان پڑ جاتی ہے۔


اور اب شاید یہ واضح کرنا بھی ضروری ہو کہ یہ وہ گُل نہیں ہیں جن کے بارے میں علامہ فرماتے ہیں کہ تصویرِ کائنات میں رنگ انہی 'گلوں' کے وجود سے ہے بلکہ یہ تو وہ گل ہیں جو ان سنگلاخ چٹانوں کے سینوں پر کھلتے ہیں جن کی آبیاری تیشۂ فرہاد سے ہوتی ہے، وہ نرم و نازک گل جو سخت بلکہ کرخت سینوں میں دھڑکتے ہیں۔ خونِ جگر سے سینچ کر غنچہ امید وا کرنا حاشا و کلا آسان کام نہیں ہے۔


نہ جانے کیوں زکریا اجمل المعروف بہ 'زیک' کی طرف میرا دھیان جب بھی جاتا ہے تو ذہن میں ایک ماں کا تصور ہی ابھرتا ہے، اس بات کی کوئی وجہ میرے ذہن میں نہیں آتی بجز اسکے کہ اردو، اردو ویب، اور اردو محفل کیلیے اللہ نے انہیں ایک ماں کا دل ہی عطا کیا ہے، اپنے بچے کی ذرا سی پریشانی پر بے اختیار ہو ہو جانا اور اس کی نگہداشت و پرداخت ہمیشہ نگاہ میں رکھنا اور اسکی ترقی و کامیابی کو ہمیشہ دل میں رکھنا اور اس کے مستقبل کی طرف سے ہمیشہ پریشان رہنا، میں نے تو زیک کو جب بھی دیکھا انہی حالتوں میں دیکھا۔ اب اگر انہیں اردو ویب کی 'ماما' نہ لکھوں تو کیا لکھوں اور کیا کہوں۔


دل اگر ماں کا ہے تو دماغ اللہ نے انہیں ایسا حکیمانہ عطا کیا ہے کہ انکی خاموشی بہت ساروں کے لیے سند ہے، مطلب ہے آپ کسی ایسے خشک موضوع پر لکھیئے جس میں حقائق ہیں یا اعداد و شمار ہیں (نہ کہ ایسے گل و بلبل کی باتوں مگر صرف باتوں والے موضوعات جن پر ہم بزعمِ خود طبع آزمائی کرتے ہیں) اور اگر کوئی غلطی ہے تو زیک ضرور اس کو درست کریں گے، گویا زیک انہی اساتذہ کی لڑی میں سے ہیں جن کی خاموشی سند سمجھی جاتی تھی۔ علامہ اقبال کسی مشاعرے کی صدارت فرما رہے تھے اور مبتدی پڑھ رہے تھے، علامہ اپنے مشہورِ زمانہ اسٹائل میں ہتھیلی پر سر ٹکائے بیزار سے بیٹھے تھے اور انکی خاموشی ہی اس بات کی سند تھی کہ اشعار ٹھیک ہی ہیں کہ دفعتہً ایک شعر پر علامہ بے اختیار 'ہُوں' پکار اٹھے، اور وہ شاعر یہ بات اپنی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ سمجھتا رہا کہ علامہ انکے اشعار پر نہ صرف خاموش رہے تھے بلکہ ایک شعر پر 'ہُوں' بھی کہا تھا، اور میں نے نہیں دیکھا زیک کو کبھی 'ہُوں' بھی کہتے ہوئے۔


زیک اور اپنے آپ میں کوئی مماثلت ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا بجز ایک دُور کی کوڑی کے، کہ بقولِ زیک انہیں اردو بلاگ لکھنے کا خیال ایک فارسی بلاگ کو دیکھ کر آیا تھا اور میں شاید اردو بلاگ لکھتا ہی اس لیے ہوں کہ اپنی پسند کے فارسی اشعار کسی طرح محفوظ کر سکوں۔ زیک کو اللہ تعالیٰ نے بہت بردبار اور ٹھنڈے دل و دماغ کا مالک بھی بنایا ہے اور فی زمانہ یہ ایک اتنی بڑی خوبی ہے کہ انسان ہونے کی نشانی ہے اور شاید یہی اوصاف رکھنے والے کسی انسان کے بارے میں مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا تھا، (دیکھیے فارسی کا ذکر زبان پر آیا نہیں اور میں ہر پھر کر فارسی اشعار پر اتر آیا)۔


دی شیخ با چراغ ھمی گشت گردِ شہر

کز دیو و دَد ملولَم و انسانَم آرزوست


کل رات ایک بزرگ ہاتھ میں چراغ لیے سارے شہر میں گھوما کیا اور کہتا رہا کہ میں شیطانوں اور درندوں سے تنگ آ گیا ہوں اور کسی انسان کو دیکھنے کا آرزومند ہوں۔


بات انسان تک پہنچی ہے تو خدا تک بھی ضرور پہنچے گی کہ زیک کی زندگی کے اس رخ کے بارے میں کوئی بات کرنا میں معیوب سمجھتا ہوں مگر یہ کہ زیک میں اگر کہیں میری رُوح ہوتی تو رات کی کیا تخصیص، وہ ہر وقت شہر کی گلیوں میں غالب کا یہ نعرۂ مستانہ لگا کر مجنونانہ گھومتے۔


ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی

جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں


اور چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ بات ایک وضاحت سے شروع ہوئی تھی اور ایک وضاحت پر ہی ختم ہو رہی ہے کہ یہ خاکہ، یا اگر بلاگ کے حوالے سے مجھے ایک بدعت کی اجازت دیں تو کہوں کہ یہ 'بلاخاکہ' میں نے زیک کی اجازت لیے بغیر لکھ مارا اور وہ یہ سوچ کر کہ اگر اجازت لیکر ہی خاکے لکھے جاتے تو "گنجے فرشتے" کبھی تخلیق نہ ہو پاتی۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 5, 2009

بے خَبری

آج دفتر کے ایک ساتھی سے کھانے کے دوران، پانچ چھ ماہ کی واقفیت کے بعد، پہلی دفعہ ایک ذاتی سا مکالمہ ہوا جو کچھ انہوں نے اسطرح سے شروع کیا۔
"آپ نے رات وہ تجزیہ سنا تھا؟"انہوں نے ایک پروگرام کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"آپ اُن صاحب کے پروگرام تو دیکھتے ہونگے" انہوں نے اس تجزیہ نگار کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"آپ خبریں تو دیکھتے ہیں ناں"
"جی نہیں"
"تو پھر ٹی وی پر کیا دیکھتے ہیں۔"
"کچھ بھی نہیں، میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔"
"واقعی!!!۔۔۔۔۔اچھا تو پھر فلمیں دیکھتے ہونگے۔"
"اب وہ بھی نہیں دیکھتا۔"
"وہ فلم دیکھی ہے آپ نے" انہوں نے کسی فلم کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"جی نہیں"
"تو پھر گھر جا کر آپ کیا کرتے ہیں"
اسکے بعد اس مکالمے کے طول و عرض میں تو ضرور وسعت پیدا ہوئی لیکن مجھے کچھ مزید "الٹے سیدھے" سوالوں کا جواب دینا پڑا، جیسے وصی شاہ یا نسیم حجازی یا عشق کے عین، شین یا الف، ب، جیم، دال وغیرہ وغیرہ کے متعلق لیکن یہ واقعہ میرے بلاگز کی فہرست میں اضافہ ضرور کر گیا۔

اسے میری بے خبری کہیئے، یا غفلت یا جہالت یا بے حسی یا کچھ اور لیکن یہ حقیقت ہے کہ حالاتِ حاضرہ نام کی چیز کی طرف سے میرے دل میں ایک بیزاری سی پیدا ہو گئی ہے، وجہ تو ماہرینِ نفسیات ہی بتا سکتے ہیں اور شکر کے میرے بلاگ کا قاری فرائڈ نہ ہوا ورنہ کچھ نادر قسم کی وجہ دریافت ہوتی لیکن میں اس بیزاری پر بہت خوش ہوں کہ زندگی میں چین اور سکون ہے، کم از کم حالاتِ حاضرہ کی طرف سے، اور فی زمانہ اس طرف سے سکون کا مطلب ہے کہ آپ کی بے شمار پریشانیاں ختم ہو گئیں جن پر بحث بحث کر کروڑوں انسان بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔

زمانے کی رفتار عجب ہے، ایک شور شرابہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا تیار، مرزا عبدالقادر بیدل نے شاید اسی لیے کہا تھا۔

بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر، در دلِ دریا کراں
ترجمہ، میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل (صدف) میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔

یہ شعر مجھے برابر دن رات یاد آتا ہے یا اگر اسے خودنمائی نہ سمجھا جائے تو عرض کروں کہ اپنی یہ رباعی بھی اکثر یاد آتی ہے جو کم و بیش ایک سال پہلے کہی تھی۔

شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 18, 2009

کرکٹ: جنون سے سکون تک

کرکٹ سے میری شناسائی پرانی ہے، اتنی ہی پرانی جتنی میری ہوش۔ بچپن ہی سے کرکٹ میرے خون میں رچی بسی تھی بلکہ خون سے باہر بھی ٹپکتی تھی، کبھی ناک پر کرکٹ بال لگنے سے نکسیر پھوٹی تو کبھی ہونٹ کٹے اور منہ خون سے بھر گیا لیکن یہ جنون ختم نہ ہوا۔ میں اپنے محلے کی دو ٹیموں میں کھیلا کرتا تھا وجہ اسکی یہ تھی کہ ہر لڑکا ہی آل راؤنڈر ہوتا تھا سو جس کو بلے بازی میں باری ملتی تھی اس کو گیند بازی نہیں ملتی تھی اور جس کو گیند بازی ملتی تھی اس کی بیٹنگ میں باری نہیں آتی تھی سو اس کا حل میں نے یہ سوچا تھا کہ دو ٹیموں میں کھیلا کرتا تھا ایک میں بحیثیت اوپننگ بلے باز کے اور دوسری میں بحیثیت اٹیک باؤلر کے، گو اس طرح مجھے دگنا چندہ دینا پڑتا تھا لیکن راہِ عشق میں دام و درم کو کون دیکھنا ہے۔ چند کاغذوں کو سی کر میں نے اپنی ایک پرائیوٹ ریکارڈ بُک بھی بنا رکھی تھی جس میں اپنے میچوں کے اعداد و شمار لکھا کرتا تھا۔

کھیلنے کا جنون تو تھا ہی دیکھنے کا بھی تھا، پانچ پانچ دن سارے ٹیسٹ میچ دیکھنا اور پھر ان پر تبصرے کرنا، اور تو اور جناح اسٹیڈیم سیالکوٹ میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان میچ دیکھنے کیلیے پولیس کے ڈنڈے بھی کھائے اور آنسو گیس بھی سہی لیکن یہ جنون کسی طور کم نہیں ہوا۔

لیکن نہ جانے کیا ہوا ہے پچھلے دو سالوں میں کہ زندگی کم از کم کرکٹ کی طرف سے پر سکون ہو گئی ہے، کھیلنا اور دیکھنا تو درکنار میں اب کسی سے اس موضوع پر بات بھی نہیں کرتا اور اگر کوئی کرنے کی کوشش بھی کرے تو اسے کوئی شعر سنا کر چپ کرا دیتا ہوں۔ میری زندگی کے چالیس سال پورے ہونے میں تو ابھی تین چار سال باقی ہیں لیکن شاید عقل آ گئی ہے اگر کرکٹ سے صریحاً قطع تعلقی کوئی عقل کا کام ہے تو، ہاں اگر کوئی اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ میں کرکٹ کے شائقین کو بیوقوف کہہ رہا ہوں تو دروغ بر گردنِ راوی!
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 23, 2009

ڈائری سے بلاگ تک

یادش بخیر، شاید میٹرک میں تھا کہ والد صاحب مرحوم نے تحفے میں‌ ملی ہوئی ایک ڈائری مجھے عنایت کردی۔ چند دن تک تو ڈائری یونہی پڑی رہی، پھر‌ سوچا کے اس میں کچھ لکھا جائے، سو سب سے پہلے 'خود ساختہ' محبت کی روداد لکھنے کی سوجھی!

لکھنے کا سوچا تو خیال آیا کہ اگر کسی نے پڑھ لی تو قیامت آ جائے گی، عمران سیریز پڑھنے کا اثر تو تھا ہی ذہن پر، سو فیصلہ کیا کہ اسے کسی کوڈ میں لکھا جائے اور وہ یہ کے ہر لفظ کو الٹا لکھ دو، ابھی شاید ایک جملہ ہی لکھا ہوگا کہ غبارے میں سے ہوا نکل گئی کہ یہ تو بہت آسان ہے، اسے مشکل بناؤ۔ جمع، نفی، ضرب اور تقسیم کو نمبر لگائے اور پھر ان کو حروفِ تہجی پر تقسیم کر کے علامتیں بنا لیں اور ان علامتوں‌ میں لکھنا شروع کیا۔ روداد اسطرح خاک لکھتا ایک ایک جملہ لکھنے کیلیے گھنٹوں‌ لگ جاتے تھے سو تائب ہو گیا۔

خیر، کالج پہنچا اور کچھ شعور آیا تو ایک دوسری ڈائری خریدی، اور اس میں اپنی بے وزن اور بے تکی شاعری لکھنی شروع کی، لیکن اس میں کافی مکالمے بھی لکھے تھے۔

یہ مکالمے چار اشخاص کے درمیان تھے، ایک وہ جو اپنا نصاب دل لگا کر پڑھتا تھا، دوسرا وہ جو اردو شعر و ادب و مطالعہ سے جنون کی حد تک محبت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ ہر وقت غیر نصابی کتب ہی پڑھی جائیں، تیسرا وہ جو یار باش تھا اور رات دیر گئے تک سیالکوٹ کینٹ کے ہوٹلوں میں دوستوں ‌کے ساتھ بیٹھ کر چائے اور سگریٹ پیتا تھا۔ تینوں کے شوق الگ تھے سو ایک دوسرے سے نالاں تھے، اور چوتھا انکا اجتماعی ضمیر تھا جو تھا تو مردہ لیکن ہمیشہ کفن پھاڑ کر بولتا تھا۔

یہ ڈائری کئی سال میرے پاس رہی لیکن لاہور میں ہاسٹل میں‌ کہیں‌ گم ہو گئی اور میرا ڈائری لکھنا بھی ہمیشہ کیلیے موقوف ہو گیا اور پھر کوئی بارہ برس کے بعد، جو کہ بہت سے بزرگوں کے نزدیک ایک منزل ہوتی ہے، میرے ہاتھ یہ بلاگ لگا اور اب مجھے ایسے ہی لگتا ہے کہ اپنی ڈائری ہی لکھ رہا ہوں اور شاید ہے بھی ایسا ہی، ہاں‌ فرق ہے تو اتنا کہ ڈائری کبھی چھپ چھپ کر تنہائیوں میں لکھا کرتا تھا اور بلاگ بقولِ شاعر:

ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 16, 2009

میری ایک نئی غزل

اس غزل کا پہلا مصرعہ کم و بیش سات آٹھ ماہ تک میرے ذہن میں اٹکا رہا، لیکن ایک ماہ پہلے، جن دنوں کہ بلاگ سے فرصت تھی ایک رات یہ غزل مکمل ہو گئی سو یہاں لکھ رہا ہوں۔

چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن

ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل کے ہی خواب بُن

لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن؟

سانس ہیں یہ چند پَل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امَر وہ ہو گیا، زہر جام لے جو چُن

قریہ قریہ شہر شہر، موج موج لہر لہر
نام تیرا لے اسد، مہرباں کبھی تو سُن
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2008

سرخ گائے، ہمنوا اور گمنام

میں کچھ زیادہ لائق طالب علم تو نہیں تھا لیکن بہرحال اتنا نالائق بھی نہیں تھا کہ بالکل بدھو ہی کہلواتا لیکن بچپن کی کچھ نالائقیاں ایسی ہیں کہ مجھے اکثر یاد آتی ہیں، کبھی ان پر غصہ آتا تھا اور اب ہنسی آتی ہے۔
میں شاید چھٹی جماعت میں تھا اور تازہ تازہ انگریزی کا منہ دیکھا تھا اور میرے والد صاحب مرحوم میری انگریزی پر بہت توجہ دیتے تھے، ان دنوں ٹی وی پر کسی دودھ کا اشتہار چلتا تھا جس میں وہ کہتے تھے “ریڈ کاؤ مِلک”۔ ایک دن ٹی وی پر وہ اشتہار چلا تو والد صاحب نے پوچھا۔
“وارث، ریڈ کاؤ مِلک کا کیا مطلب ہے۔”
“جی”
“ہاں کیا مطلب ہے۔”
“وہ، جی، وہ گائے، گائے۔۔۔۔۔۔۔۔”
“کیا گائے گائے، بھئی مطلب بتاؤ، اچھا چلو ایک ایک لفظ کا مطلب بتاؤ، ریڈ کا کیا مطلب ہے”
“سرخ”
“اور کاؤ کا”
“گائے”
“اور ملک کا”
“دودھ”
“تو ریڈ کاؤ ملک کا کیا مطلب ہوا؟”
“جی، وہ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“ہاں ہاں”
“جی، گائے کا سرخ دودھ”
والد صاحب نے یہ سنا تو بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا اور کہا بیوقوف کبھی دودھ بھی سرخ ہوتا ہے، اسکا مطلب ہے سرخ گائے کا دودھ۔
ٹی وی کے حوالے سے ہی ایک دوسرا واقعہ جس پر میں گھر میں سب لوگوں کی بے رحمانہ ہنسی کا نشانہ بنا تھا، وہ بھی کم و بیش اسی زمانے کا ہے۔ اردو پڑھنے کا شوق مجھے بہت تھا اور اپنی جماعت سے بڑی جماعتوں کی اردو کی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور گھر میں اپنی اردو دانی کی دھاک بٹھا رکھی تھی۔
ان دنوں قوالی میں صابری برادران کا طوطی بولتا تھا لیکن نصرت فتح علی خان نے بھی اپنی لا جواب قوالیوں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ ہمارا سارا گھر بشمول والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے قوالیاں بڑے شوق سے سنا کرتا تھا۔ پی ٹی وی پر شاید ہر جمعرات کی رات کو ایک محفل سماع دکھائی جاتی تھی اور اسکے اشتہار وہ کافی دن پہلے ہی چلانے شروع کر دیتے تھے۔ ایک دن جب ہم سب گھر والے بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے تو نصرت فتح علی خان کی قوالی کا ایک اشتہار چلا، نصرت فتح علی خان قوال اور ہمنوا۔
والدہ بولیں، اب یہ لوگ نصرت کی قوالیاں زیادہ لگاتے ہیں۔ والد صاحب نے تائید کی اور کہا، ہاں پہلے تو صرف صابری برادران یا عزیز میاں قوال کی قوالیاں ہوتی تھیں لیکن اب اسکی بھی کافی قوالیاں ہوتی ہیں۔ میں جو پاس بیٹھا سن رہا تھا، شو مئی قسمت سے بولا، لیکن ابو یہ جو ہر قوالی میں ہمنوا ہوتا ہے سب سے زیادہ قوالیاں تو اسی کی ہوتی ہیں۔
میری بات سننی تھی کہ سب بے اختیار قہقہے مار کر ہنسنے لگے اور لگے میری اردو دانی کا مذاق اڑانے، والد صاحب نے کہا، الو ہمنوا کوئی قوال نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ جو قوالی کرنے والے ہوتے ہیں ان کو ہمنوا کہتے ہیں۔
مجھے “اقوالِ زریں” پڑھنے کا بھی بہت شوق رہا ہے اور لطف اس وقت آتا تھا جب صاحبِ قول کا نام بھی ساتھ لکھا ہوتا تھا لیکن اکثر اقوال ایسے ہوتے تھے جن کے نیچے گمنام لکھا ہوتا تھا، خیر اردو کے گمنام کا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا لیکن مصیبت اس وقت پڑی جب انگریزی اقوال کے ساتھ “اینانیمس” لکھا ہوتا تھا۔ میری عادت یہ بھی ہوتی تھی کہ جب کسی مشاہیر کا قول پسند آتا تھا تو پھر اس کے متعلق معلومات بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑتا تھا، اب جب کافی جگہ اقوال کے نیچے مجھے “اینانیمس” لکھا نظر آیا تو میں نے سوچا یہ کوئی بہت بڑا بندہ ہوگا تبھی تو اتنے پتے کی باتیں کرتا ہے اور جب کالج کی لائبریری اور ادھر ادھر کافی جگہ ڈھونڈ کر تھک گیا تو بلآخر ایک لغت نے میری مدد کی اور علم ہوا کہ یہ کوئی حضرت نہیں بلکہ “گمنام” کی انگلش ہے۔ اس دفعہ کسی نے ہنسی تو نہیں اڑائی لیکن اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوا کہ اتنا بڑا ہو کر بھی ایک لفظ کا مطلب نہ جان سکا۔
خیر اپنی جہالت کا ماتم میں کر چکا لیکن “گمنام” میرے ذہن سے نہیں نکلتا اور اب جب کبھی کوئی شعر بغیر شاعر کے نام کے لکھا دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے بلکہ شعر پڑھنے کو ہی دل نہیں کرتا، شاید کوئی خفت کہیں چُھپی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 28, 2008

اُو اے غالب

پچھلے کچھ دنوں سے میرے گھر کا ماحول کافی خراب ہے کہ ہماری بیگم صاحبہ ہم سے بہت نالاں ہیں، وجہ اسکی کوئی خاص تو نہیں لیکن اگر کسی کو شعر و ادب سے للہی بغض ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ جی ہاں ہماری بیگم صاحبہ کو نفرت ہے شعر و ادب و کتب سے۔
اس سے یہی برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ میں گھر میں اپنا زیادہ تر وقت کتابوں میں یا کمپیوٹر کے سامنے گزارتا ہوں تو یہ کیسے ہضم ہو کہ میں بچوں کو بھی شعر یاد کروانے شروع کر دوں۔
کچھ دن پہلے میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ غالب کا شعر یاد آ گیا۔
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
نہ جانے جی میں کیا آیا کہ میں نے اپنے دونوں بیٹوں، سات سالہ حسن اور پانچ سالہ احسن سے کہا کہ جو کوئی بھی یہ شعر یاد کرے گا اسے انعام ملے گا۔ اب انعام کے لالچ میں دونوں نے شعر یاد کرنا شروع کر دیا بلکہ کر بھی لیا گو کچھ گڑ بڑ ضرور کر جاتے ہیں، حسن ‘ناداں’ کو مسلسل ‘نادان’ پڑھ رہا ہے اور احسن ‘آخر’ کو پہلے مصرعے میں ادا کرتا ہے۔ لیکن میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کہ میں نے غالب کے بیج اپنے گھر میں بونے شروع کر دیے ہیں، اور بیگم صاحبہ کا جل جل کے برا حال ہو رہا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ میری دو سالہ بیٹی فاطمہ کو غالب کی تصویر کی پہچان ہو گئی ہے، وہ جب بھی دیوانِ غالب پر غالب کی تصویر یا کمپیوٹر پر میرے بلاگ پر لگی ہوئی تصویر دیکھتی ہے تو زور زور سے چلانا شروع کر دیتی ہے “اُو اے غالب، اُو اے غالب۔” میں بتا نہیں سکتا کہ اس وقت مجھے کتنی خوشی ہوتی ہے۔ مرزا غالبیاد تو میں نے اسے ‘اقبال’ کا نام بھی کروا دیا ہے لیکن ابھی تک اقبال کی اسے پہچان نہیں ہو سکی اور ہار بار بتانا پڑتا ہے کہ یہ اقبال ہے۔
اور فاطمہ کیلیئے غالب کی یہ تصویر اس پوسٹ میں لگا رہا ہوں کہ ‘اُو اے غالب، اُو اے
غالب” کی صدائیں میرے کانوں مین رس گھولتی رہیں اور بیگم صاحبہ کے سینے پر مونگ دلتی رہیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 20, 2008

فیض مرحوم کی برسی اور انکی خوبصورت فارسی نعت مع ترجمہ

آج فیض احمد فیض مرحوم کی چوبیسویں برسی ہے، آج کے دن اقلیمِ سخن کا ایک اور فرمانروا ہم سے بچھڑ گیا۔
ع - خاک میں، کیا صُورتیں ہوںگی کہ پنہاں ہو گئیں
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
Faiz Ahmed Faiz, فیض احمد فیض
ہمارا شہر سیالکوٹ اگر شہرِ اقبال کہلاتا ہے تو یہ شہر فیض کے فیض سے بھی فیضیاب ہے کہ شہرِ فیض بھی ہے گویا کہ ایک اور “سودائی” کا شہر۔ اقبال اور فیض میں سیالکوٹ کے علاوہ شمس العلماء مولوی سید میر حسن کا ذکر بھی قدرِ مشترک کے طور پر کیا جاتا ہے کہ آپ دونوں کے استاد تھے لیکن ایک اور بہت اہم قدرِ مشترک جس کا ذکر عموماً نہیں کیا جاتا وہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی ہیں۔ پروفیسر صاحب اقبال کے سب سے بڑے شارح و مفسر اور ایک طرح سے دوست شاگرد تھے کہ اقبال کے کلام کے مطالب خود اقبال سے مدتوں تک سمجھے اور فیض کے وہ استاد تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پروفیسر چشتی نے اردو دنیا کو فیض کا فیض عطا کیا تو غلط نہ ہوگا۔ فیض احمد فیض خود فرماتے ہیں۔
“جب دسویں جماعت میں پہنچے تو ہم نے بھی تک بندی شروع کر دی اور ایک دو مشاعروں میں شعر پڑھ دیے۔ منشی سراج دین نے ہم سے کہا میاں ٹھیک ہے تم بہت تلاش سے شعر کہتے ہو مگر یہ کام چھوڑ دو، ابھی تو تم پڑھو لکھو اور جب تمھارے دل و دماغ میں پختگی آ جائے تب یہ کام کرنا۔ اس وقت یہ تضیعِ اوقات ہے۔ ہم نے شعر کہنا ترک کر دیا۔ جب ہم مَرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور وہاں پروفیسر یوسف سلیم چشتی اردو پڑھانے آئے جو اقبال کے مفسر بھی ہیں، تو انہوں نے مشاعرے کی طرح ڈالی اور کہا طرح پر شعر کہو۔ ہم نے کچھ شعر کہے اور ہمیں داد ملی۔ چشتی صاحب نے منشی سراج الدین کے بالکل خلاف مشورہ دیا اور کہا فوراً اس طرف توجہ کرو، شاید تم کسی دن شاعر ہو جاؤ۔”
فیض کے کلیات “نسخہ ھائے وفا” میں شامل آخری کتاب “غبار ایام ” کا اختتام فیض کی ایک خوبصورت فارسی نعت پر ہوتا ہے اور شاید کلیات میں یہ واحد نعت ہے۔ بہت دنوں سے ذہن میں تھا کہ اس نعت کو لکھوں اور آج فیض کی برسی کے موقعے پر اس خوبصورت نعت کر مع ترجمہ پوسٹ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
اے تو کہ ہست ہر دلِ محزوں سرائے تو
آوردہ ام سرائے دِگر از برائے تو
اے کہ آپ (ص) کا ہر دکھی دل میں ٹھکانہ ہے، میں نے بھی آپ کے لیے ایک اور سرائے بنائی ہے یعنی کہ میرے دکھی دل میں بھی آپ کا گھر ہو جائے۔
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویشِ مُلک و مال
بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تو
تخت پر بیٹھا ہوا شاہ ملک و مال کی تشویش میں مبتلا ہے، جبکہ خاک پر بیٹھا ہوا آپ کا گدا وقت کے شاہنشاہ کے لیے بھی باعثِ رشک ہوتا ہے۔
آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر
اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لِقائے تو
وہاں (دنیا داروں کے ہاں) سونے اور چاندی کی لذات کے قصیدے ہیں جب کہ یہاں (ہم خاکساروں کے ہاں) فقط آپ کے دیدار کے نشاط کی باتیں ہیں۔
آتش فشاں ز قہر و ملامت زبانِ شیخ
از اشک تر ز دردِ غریباں ردائے تو
شیخ ( اور واعظ) کی زبان قہر اور ملامت سے آتش فشاں بنی ہوئی ہے جبکہ غریبوں کے درد کی وجہ سے آپ کی چادر مبارک آپ کے آنسو سے تر ہے۔
باید کہ ظالمانِ جہاں را صدا کُنَد
روزے بسُوئے عدل و عنایت صدائے تو
ضروری ہے کہ دنیا کے ظالم (جوابی) صدا کریں، ایک (کسی) دن عدل و عنایت کی طرف (لے جانے والی) آپ کی آواز پر یعنی آپ کی عدل و عنایت کی طرف بلانے والی آواز پر ظالموں کو لبیک کہنا ہی پڑے گا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 9, 2008

مردِ قلندر

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے قبیلے، اپنی قوم، اپنی ملت، اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی علامت بن جاتا ہے، انکی پہچان اور تشخص بن جاتا ہے۔ یہ بلند رتبہ خدا جسے دے دے۔
حافظ شیرازی نے کہا تھا۔
ہزار نُکتۂ باریک تر ز مُو اینجاست
نہ ہر کہ سر بَتَراشَد قلندری دانَد
یہ وہ مقام ہے کہ یہاں ہزار ہا نازک اور لطیف اور بال سے باریک نکات ہیں، ہر کوئی سر ترشوانے سے قلندر تھوڑی بن جاتا ہے۔
اقبالِ کے قلندر ہونے سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ اپنی اردو و فارسی شاعری میں ان لطیف و عظیم اسرار و رموز کو فاش کیا ہے کہ کوئی سر ترشوانے والا قلندر بھی کیا بیان کرے گا۔
علامہ کے پیشِ نظر یقیناً حافظ کا شعر تھا جب علامہ نے اپنے متعلق کہا تھا، اور کیا خوب کہا ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
 Allama Iqbal, علامہ اقبال
بیا بہ مجلَسِ اقبال و یک دو ساغر کَش
اگرچہ سَر نَتَراشَد قلندری دانَد
اقبال کی مجلس کی طرف آ اور ایک دو ساغر کھینچ، اگرچہ اس کا سر مُنڈھا ہوا نہیں ہے (لیکن پھر بھی) وہ قلندری رکھتا (قلندری کے اسرار و رموز جانتا) ہے۔
اے کاش کہ ہمیں بھی ایک آدھ جرعہ نصیب ہو جائے!
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 2, 2008

آٹھ سال بعد

“سَر، وہ دراصل میری فیملی میں ایک شادی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں وہ مَنڈے کو چُھٹی پر ہوں۔۔۔۔۔۔”
“ہیں، اوہ ٹھیک ہے۔”
“تھینک یو، سر”
“ہاں وہ اپنے کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“جی سر، ضرور”
اسطرح اور اس سے ملتے جلتے نہ جانے کتنے مکالمے ہونگے جو میرے اور میرے باس یا میرے اور میرے کسی ماتحت کے درمیان پچھلے بارہ سالوں میں ہوئے ہیں۔
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ کامل آٹھ سال بعد، پچھلے اتوار کو میں نے کسی شادی کی تقریب میں شرکت کی ہے اور وہ بھی باامر مجبوری، کیا کرتا کہ گھر میں شادی تھی۔ مجھ سے چھوٹے بھائی کی شادی نومبر 2000 میں ہوئی تھی اور اب اس سے چھوٹے کی۔
تقریبات میں شرکت کرنے سے اور گھر سے باہر نکلنے میں میری جان جاتی ہے، جنازے وغیرہ تو پھر چند ایک پڑھ لیے ہیں لیکن شادی کی تقریبات کے بارے میں میں یہی سوچتا ہوں کہ وہاں میرے نہ ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ میرے والد صاحب مرحوم میری اس عادت سے بہت نالاں تھے اور اب زوجہ محترمہ لیکن کچھ عادات بڑی مشکل سے تبدیل ہوتی ہیں سو آپ کے ارد گرد رہنے والوں کو ان سے سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
خیر، بات چھٹی سے ذہن میں آئی تھی کہ اس دفع جب حقیقتاً دفتر سے چھٹی لینی پڑی تو عجیب سا احساس ہوا۔ سرکاری دفاتر کے متعلق تو میرا علم بس شنیدہ ہے لیکن پرائیوٹ نوکری میں “چھٹی مافیا” کے متعلق میرا علم حق الیقین کے درجے پر ہے۔ زندگی کے اس رخ میں مشقت زیادہ ہے اور چھٹی کرنا ایک نازیبا اور غیر پیشہ وارانہ حرکت تصور ہوتی ہے اور اسی وجہ سے پرائیوٹ نوکری میں آرام سے چھٹی حاصل کر لینا ایک “آرٹ” تصور ہوتا ہے اور ہزاروں لطائف بھی لوگوں کو یاد ہونگے۔
بڑی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چھوڑیئے، چھوٹی اور درمیانی درجے کی پاکستانی اور پھر ہمارے شہر سیالکوٹ کی تمام کمپنیوں میں اپنے ملازمین کو انکی سالانہ چھٹیاں دینا یا چھٹی نہ کرنے پر ان کو ان چھٹیوں کے پیسے دینا خال خال نظر آتا ہے جسکا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ بہانے بازی سے چھٹیاں حاصل کی جاتی ہیں۔
بہرحال، شادی کی گہما گہمی نے چند دن تک کافی تنگ کیے رکھا، نہ وہ تنہائی میسر تھی اور نہ وہ کنارِ کتب، دعا تو یہی کر رہا ہوں کہ مزید آٹھ سال بغیر کسی تقریب کے گزر جائیں لیکن پھر اس بیچارے غریب چوتھے بھائی کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے جسکی شادی شاید چند ماہ کے دوران متوقع ہے۔
ع - مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 17, 2008

میری ایک پرانی غزل

یہ غزل کوئی دو سال پرانی ہے اور اس زمانے کی ہے جب نیا نیا علم عروض سمجھ میں آیا تھا۔ آج کچھ پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے سامنے آ گئی تو اسے بغیر نظرِ ثانی کے لکھ رہا ہوں۔

یہ چلَن دنیا میں کتنا عام ہے
ظلم کا تقدیر رکھّا نام ہے

پھول بکھرے ہوئے تُربت پر نئی
اِس کہانی کا یہی انجام ہے

میرے آبا نے کیا تھا جرم جو
اس کا بھی میرے ہی سر الزام ہے

دشت میں اک گھر بنا رہنے کی چاہ
گھر میں بیٹھے ہیں تبھی تو خام ہے

مسکراتے آ رہے ہیں آج وہ
کیا بھلا ہم مفلسوں سے کام ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 26, 2008

جنگل اداس ہے - آہ احمد فراز

احمد فراز بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، اناللہ و انا الیہ راجعون۔ اقلیم سخن کا نامور شاعر جس نے ایک عرصے تک اردو شاعری کے چاہنے والوں کے دلوں پر راج کیا، بالآخر سمندر میں مل گئے، بقول احمد ندیم قاسمی مرحوم

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا

احمد فراز سے میرا تعارف کہیں بچپن میں ہی ہو گیا تھا جب مجھے علم ہوا کہ میرا پسندیدہ “گیت” رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلیئے آ، جو میں پہروں مہدی حسن کی آواز میں سنا کرتا تھا، دراصل احمد فراز کی غزل ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اچھا غزلیں بھی اسطرح فلموں میں گائی جاتی ہیں اور یہ حیرت بڑھتی چلی گئی جب یہ بھی علم ہوا کہ ایک اور گانا “اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں” بھی انہی کی غزل ہے۔ یہ وہ دور تھا جب موسیقی میں ہر طرف مہدی حسن کا طوطی بول رہا تھا اور مہدی حسن میرے پسندیدہ گلوکار تھے۔ پھر میں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر انکی ایک اور مشہور غزل “اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں” جو مہناز نے انتہائی دلکش انداز میں گائی ہے، سنی تو فراز کیلیئے دل میں محبت اور بھی بڑھ گئی۔

اس وقت تک میں نے فراز کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی لیکن پھر مجھے ‘کلیاتِ فراز’ کا علم ہوا جو ماورا نے شائع کیے تھے، یہ پچھلی صدی کی آخری دہائی کے اوائل کا زمانہ تھا اور میں کالج میں پڑھتا تھا، میں نے لاہور منی آڈر بھیج کر فراز کے کلیات منگوائے اور پھر پہروں ان میں غرق رہتا اور آج بھی یہ کلیات میرے آس پاس کہیں دھرے رہتے ہیں۔
ایک شاعر جب اپنی وارداتِ قلبی بیان کرتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ اسکا ایک ایک لفظ سچ ہے، آفاقی حقیقت ہے اور اٹل اور آخری سچائی ہے اور ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ کسی انسان کے اوپر جو گزرتی ہے وہی اس کیلیئے حقیقت ہے، فراز کی اپنی زندگی اپنے اس شعر کے مصداق ہی گزری اور کیا آفاقی اور اٹل سچائی ہے اس شعر میں:

میں زندگی سے نبرد آزما رہا ہوں فراز
میں جانتا تھا یہی راہ اک بچاؤ کی تھی

فراز کی شاعری انسانی جذبوں کی شاعری ہے وہ انسانی جذبے جو سچے بھی ہیں اور آفاقی بھی ہیں، فراز بلاشبہ اس عہد کے انتہائی قد آور شاعر تھے۔ فراز کی زندگی کا ایک پہلو انکی پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد ہے، اس جدوجہد میں انہوں نے کئی مشکلات بھی اٹھائیں لیکن اصول کی بات کرتے ہی رہے۔ شروع شروع میں انکی شاعری کی نوجوان نسل میں مقبولیت دیکھ کر ان کی شاعری پر بے شمار اعتراضات بھی ہوئے، انہیں ‘اسکول کالج کا شاعر’ اور ‘نابالغ’ شاعر بھی کہا گیا۔ مرحوم جوش ملیح آبادی نے بھی انکی شاعری پر اعتراضات کیئے اور اب بھی انگلینڈ میں مقیم ‘دریدہ دہن’ شاعر اور نقاد ساقی فاروقی انکی شاعری پر بہت اعتراضات کرتے ہیں لیکن کلام کی مقبولیت ایک خدا داد چیز ہے اور فراز کے کلام کو اللہ تعالٰی نے بہت مقبولیت دی۔ انکی شاعری کا مقام تو آنے والا زمانے کا نقاد ہی طے کرے گا لیکن انکی آخری کتاب “اے عشق جنوں پیشہ” جو پچھلے سال چھپی تھی، اس میں سے ایک غزل لکھ رہا ہوں جو انہوں نے اپنے کلام اور زندگی کے متعلق کہی ہے اور کیا خوب کہی ہے۔
Ahmed Faraz, احمد فراز، urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
Ahmed Faraz, احمد فراز
کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں‌ کہا

ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں‌ کہا

آشوبِ‌ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں‌ کہا

ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی یہی گُماں‌ ہے کہ کافی نہیں کہا

بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا

پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا

اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا

ہر ذی روح کو اس دارِ فانی سے کوچ کرنا ہے، یہ ایک اٹل حقیقت ہے لیکن کچھ انسان ہوتے ہیں جن کے جانے سے چار سُو اداسی پھیل جاتی ہے اور یہی کیفیت کل سے کچھ میری ہے۔ غالب کے شعر پر بات ختم کرتا ہوں

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 1, 2008

میری ایک تازہ غزل

ایک تازہ غزل جو پچھلے دنوں کہی گئی

عجب کرشمہ بہار کا ہے
نظر نظر جلوہ یار کا ہے

ہم آئے ہیں کشتیاں جلا کر
ڈر اب کسے نین کٹار کا ہے

شجر کٹا تو جلا وہیں پر
یہ قصّہ اس خاکسار کا ہے

رہے گی نم آنکھ عمر بھر اب
معاملہ دل کی ہار کا ہے

تپش میں اپنی ہی جل رہا ہوں
عذاب دنیا میں نار کا ہے

اسد جو ایسے غزل سرا ہے
کرم فقط کردگار کا ہے
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 16, 2008

اردو محفل کو سلام

اردو محفل نہ صرف ایک خوبصورت فورم ہے بلکہ اردو کی ترقی و ترویج کیلیئے کوشاں اور مجھے فخر ہے کہ میں اردو محفل کا حصہ ہوں۔ انہی احساسات میں محو تھا کہ کل کچھ اشعار قلم بند ہو گئے جو کہ یہاں لکھتا ہوں

قطعہ
محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام

قطعہ
زینتِ اردو ہے تُو اور شان بھی
رونقِ اردو ہے تُو اور جان بھی
فرض کیجے نیٹ کو گر دنیا تو پھر
کعبۂ اردو ہے تُو، ایمان بھی

رباعی
کیا محفلِ اردو کی کروں میں توصیف
ثانی ہے کوئی جس کا نہ کوئی ہے حریف
دیکھے ہیں کثافت سے بھرے فورم، پر
اک نور کی محفل ہے، ہے اتنی یہ لطیف
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 12, 2008

میری ایک تازہ غزل

غم نہیں، دُکھ نہیں، ملال نہیں
لب پہ جو ایک بھی سوال نہیں

کیوں ملے مُجھ کو تیسرا درجہ
کیا مرے خوں کا رنگ لال نہیں؟

فکرِ سُود و زیاں سے ہے آزاد
کار و بارِ جنوں وبال نہیں

نظر آتا ہے ہر جمال میں وُہ
اس میں میرا تو کچھ کمال نہیں

مستِ جامِ نگاہِ یار ہوں میں
ہوش جانے کا احتمال نہیں

موت، ڈر، ہار، سب روا لیکن
عشق میں بھاگنا حلال نہیں

خونِ دل بھی جلے گا اس میں اسد
شاعری صرف قیل و قال نہیں
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 2, 2008

میں نے اپنی پہلی کتاب خریدی

وہ بھی ایک عجیب دن تھا۔ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے گھر واپس آتے ہوئے نہ جانے جی میں کیا آئی کہ میں نے اپنی سائیکل کا رُخ اردو بازار کی طرف موڑ لیا۔
ان دنوں میں گیارھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اپنے کالج کی لائبریری جب پہلی بار دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا کہ دنیا میں ایک ہی جگہ اتنی کتابیں بھی ہوتی ہیں، ناول اور کہانیاں تو خیر میں بچپن سے ہی پڑھا کرتا تھا لیکن اردو ادب سے صحیح شناسائی کالج میں پہنچ کر ہوئی اور وہ بھی اتفاقاً۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک اسکول کے دوست، جو کالج میں بھی ساتھ ہی تھا، کی بڑی بہن کو کرنل محمد خان کی کتاب “بجنگ آمد” درکار تھی جو کہ انکے کالج کی لائبریری میں نہیں تھی، انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے کالج میں پتا کرو، اور بھائی صاحب نے مجھے پکڑا کہ چلو لائبریری، خیر وہ کتاب مل گئی لیکن واپس کرنے سے پہلے میں نے بھی پڑھ ڈالی۔
اس کتاب کا پڑھنا تھا کہ بس گویا دبستان کھل گیا، اسکے بعد میں نے پہلے کرنل محمد خان کی اور بعد میں شفیق الرحمن کی تمام کتب لائبریری سے نکلوا کر پڑھ ڈالیں۔
خیر اردو بازار میں داخل ہوا تو ایک بُک اسٹور پر رک گیا اور کتابیں دیکھنے لگا، ایک کتاب نظر آئی “شناخت پریڈ”، یہ ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ہے اور شاید ان کی پہلی کتاب ہے، اسکی ورق گردانی کی تو اچھی لگی۔ میرے دل میں آیا کہ کتاب خریدنی چاہیئے لیکن ایک بڑا مسئلہ اسی وقت کھڑا ہو گیا، کتاب کی قیمت پچاس روپے تھی، سوچا پچاس لکھی ہوئی ہے شاید کم کر دیں، مالک سے بات کی، اس نے ایک دفع میرے چہرے کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی لمحے کہا کہ اسکی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ مالک کی اس بے رحمانہ بات پر کیا کہہ سکتا تھا سوائے چپ رہنے کے۔ (خیر اب وہ مالک صاحب میرے اچھے خاصے شناسا ہیں اور تقریباً پچیس سے پنتیس فیصد رعایت بھی کر دیتے ہیں)۔
وہاں سے میں چلا تو آیا لیکن دل کتاب میں ہی اٹکا ہوا تھا، کافی دن اسی سوچ بچار میں گزارے کہ پچاس روپے کہاں سے لاؤں۔ ان دنوں میرا جیب خرچ پانچ روپے روزانہ تھا اور اگر دس دن پیسے جمع کرتا تو پچاس روپے جمع ہو جاتے اور کوشش بھی کی لیکن پیسے تھے کہ جمع ہو کر نہیں دیتے تھے (ویسے وہ اب بھی نہیں ہوتے)۔ بہت تیر مارا تو کچھ دنوں کے بعد میرے پاس پچیس روپے جمع ہو گئے لیکن اب بھی آدھی رقم کم تھی اور تمنا بیتاب۔
سوچ سوچ کر پاگل ہوتا رہا لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کتاب کیسے خریدوں کہ اللہ کی غیبی مدد پہنچ ہی گئی۔ ایک دن والد صاحب کی میز پر بیٹھا ہوا تھا کسی کام کیلیئے دراز کھولا تو اس میں ڈاک کے ٹکٹ نظر آئے اور ساتھ ہی ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ، میں نے سوچا اگر میں کچھ ڈاک ٹکٹ چرا لوں اور انہیں بیچ ڈالوں تو رقم مل جائے گی۔
پہلے تو ضمیر نے ملامت کیا کہ چوری بری چیز ہے لیکن پھر حضرتِ شیطان فوراً مدد کو آئے کہ کونسے برے کام کیلیئے چوری کرنی ہے، آخر کتاب ہی تو خریدنی ہے۔ میں نے پچیس روپے کے ڈاک ٹکٹ نکال لیے لیکن پھر خیال آیا کہ اپنے جمع کیئے ہوئے پیسے ضرور خرچ کرنے ہیں، اگر چوری کرنی ہی ہے تو پورے پیسوں کی کروں۔
سو نہایت ایمانداری سے گن کر پورے پچاس روپوں کے ڈاک ٹکٹ اٹھا لیئے، اب انہیں بیچنے کا مسئلہ درپیش تھا، اس وقت تو درکنار مجھے ابھی تک بھی کسی بھی چیز کو بیچنے کا تجربہ نہیں ہے لیکن شوق کے ہاتھوں مجبور تھا سو اسی وقت تیز تیز سائیکل چلاتا ہوا ڈاکخانے پہنچا، مجھے امید تھی کہ مجھے فوراً ہی رقم مل جائے گی لیکن ڈاکخانے میں بیٹھے کلرک نے مجھے سختی سے ڈانٹ دیا کہ یہاں یہ کام نہیں ہوتا۔ وہاں سے نامراد لوٹا تو اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اب کہاں جاؤں، کیا کروں۔
اسی سوچ بچار میں سائیکل چلا رہا تھا اور سڑک کے دونوں طرف دیکھتا بھی جا رہا تھا کہ کوئی ڈاکخانہ نظر آئے، بالآخر کچہری روڈ پر ایک چھوٹا سے ڈاکخانہ نظر آیا، وہاں گیا تو ایک جہاں دیدہ بلکہ گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے بزرگ وہاں بیٹھے تھے، مدعا بیان کیا تو اپنی موٹے موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے سے مجھے گھورا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے لے لوں گا لیکن بیس روپے دونگا، میں نے التجا کی کہ جناب پچاس روپے کے ٹکٹ ہیں کچھ تو زیادہ عنایت فرمائیں، خیر وہ انکے پچیس روپے دینے پر راضی ہو گئے۔
ٹکٹیں چوری کرتے وقت میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ پچاس روپے پورے مل جائیں گے لیکن اس دن صحیح اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں مجبوریاں کیسے خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اب کل ملا کر میرے پاس پچاس روپے پورے تھے سو فوراً اردو بازار گیا اور چین اس وقت ملا جب “شناخت پریڈ” پڑھ ڈالی۔
یہ ایک معمولی واقعہ ہی سہی، لیکن آج بیس برس بعد بھی جب اس واقعے کے متعلق سوچتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی، افسوس تو ظاہر ہے کہ چوری کا ہوتا ہے اور خوشی اس بات کی اس دن جب سائیکل کا رخ اردو بازار کی طرف موڑا تھا تو بس میری زندگی کا اپنا رخ بھی ایک ایسی جانب مڑ گیا کہ اس کے آگے ایک بحرِ بیکراں تھا، اسکے بعد کتابیں خریدنے اور پڑھنے کی ایسی عادت پڑی کہ یہ مشغلہ شاید اب موت ہی مجھ سے چھڑا سکے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔