اردو محفل فورم پر ایک سلسلے میں پاکستان کے بین الاقوامی شہرت کے حامل خطاط شفیق الزماں کے متعلق ایک مضمون اور انکی خطاطی کے چند خوبصورت نمونے پیش کیے تھے۔ مضمون تو کافی طویل ہے اور ڈر ہے کہ یہاں لکھ دیا تو پڑھنے والوں کیلیے 'مشکل' ہو جائے گی سو شائقین مضمون تو اس ربط پر پڑھ سکتے ہیں، خطاطی کے نمونے میں یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ مضمون اور خطاطی دونوں، اکادمی ادبیات پاکستان کے سہ ماہی مجلے 'ادبیات' کے شمارہ نمبر 35، 36، 1996ء سے لیے ہیں۔ بڑی تصویر دیکھنے کیلیے تصویر پر 'کلک' کیجیئے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Jul 25, 2009
Jul 13, 2009
نکمّے
"کون؟ مسلمان؟"
"نہیں۔"
"ہمارے حکمران؟"
"نہیں۔"
"سیاستدان؟"
"نہیں۔"
"مذہب کے ٹھیکیدار؟"
"نہیں۔"
"سرکاری افسران؟"
"نہیں۔"
"پُلسیے؟"
"نہیں۔"
"سرکاری اسکولوں کے ماسٹر؟"
"نہیں۔"
"کاروباری لوگ؟ دکاندار؟"
"نہیں۔"
"کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی؟"
"نہیں۔"
"ہا ہا ہا، شاعر؟"
"نہیں۔"
"تو پھر آخر کون؟"
"پاکستانی فوج کے جرنیل!"
"جرنیل؟، جنہوں نے باسٹھ سالوں میں سے آدھے سال اس ملک پر حکمرانی کی، وہ اور نکمّے؟"
"ہاں، وہی نکمّے، انہوں نے باقی کے آدھے سال اس نکمّوں کے مُلک پر حکمرانی کرنے کے موقعے ضائع کر دیئے۔"
مزید پڑھیے۔۔۔۔
"نہیں۔"
"ہمارے حکمران؟"
"نہیں۔"
"سیاستدان؟"
"نہیں۔"
"مذہب کے ٹھیکیدار؟"
"نہیں۔"
"سرکاری افسران؟"
"نہیں۔"
"پُلسیے؟"
"نہیں۔"
"سرکاری اسکولوں کے ماسٹر؟"
"نہیں۔"
"کاروباری لوگ؟ دکاندار؟"
"نہیں۔"
"کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی؟"
"نہیں۔"
"ہا ہا ہا، شاعر؟"
"نہیں۔"
"تو پھر آخر کون؟"
"پاکستانی فوج کے جرنیل!"
"جرنیل؟، جنہوں نے باسٹھ سالوں میں سے آدھے سال اس ملک پر حکمرانی کی، وہ اور نکمّے؟"
"ہاں، وہی نکمّے، انہوں نے باقی کے آدھے سال اس نکمّوں کے مُلک پر حکمرانی کرنے کے موقعے ضائع کر دیئے۔"
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Jul 6, 2009
رعنائیِ خیال - ایک اور خوبصورت ادبی بلاگ
مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے ایک اور خوبصورت ادبی بلاگ کا تعارف لکھتے ہوئے، ایک اور اچھے شاعر نے اپنا بلاگ شروع کیا ہے اس سے زیادہ خوشی کی بات میرے لیے کیا ہوگی بھلا۔ یہ بلاگ 'رعنائیِ خیال' خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر جناب محمد احمد صاحب کا ہے۔
احمد صاحب کا تعلق کراچی سے ہے، اور انٹرنیٹ کی دنیا کے علاوہ کراچی کے ادبی حلقوں میں بھی فعال ہیں، ہماری ان سے شناسائی 'اردو محفل' پر ہوئی تھی جہاں انہوں نے اپنی خوبصورت شاعری سے اس خاکسار کا دل موہ لیا۔ احمد صاحب کی شاعری کی سب سے اہم بات جو مجھے نظر آئی کہ بھیڑ چال سے الگ ہو کر، انہوں نے اپنی شاعری میں خیال آفرینی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہی بات ان کو دیگر نوجوان شعراء سے ممتاز کرتی ہے، ان کے کچھ اشعار دیکھیئے۔
سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے
نظارہ منظروں کی کتنی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدۂ بینا، نظارے سوچتے ہوں گے
----
حسین شعر کہنے کا عمل بذاتِ خود ایک حسین عمل ہے، احمد صاحب کے اشعار دیکھیئے، مجھے پورا یقین ہے کہ ایسے اشعار تخلیق کرتے ہوئے وہ خود بھی بہت محظوظ ہوئے ہونگے۔
رات کی رانی، اوس کا پانی، جگنو، سرد ہوا
مُسکاتی، خوشبو مہکاتی، جنگل جنگل شام
رنگ سُنہرا دھوپ سا اُس کا، گیسو جیسے رات
چاند سا اُجلا اُجلا چہرہ، اُس کا آنچل شام
-----
چھوٹی بحر اس خاکسار کو انتہائی پسند ہے، اور چھوٹی بحر میں شعر کہنا ایک مشکل ترین امر ہے کہ اس میں بھرتی کے الفاظ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی، احمد صاحب کے شعر دیکھیئے
کچھ کسی کو نظر نہیں آتا
روشنی بے حساب ہے شاید
کیا محبت اُسے بھی ہے مجھ سے
مختصر سا جواب ہے 'شاید'
----
امید کرتا ہوں کہ احمد صاحب اسی طرح کی خوبصورت شاعری تخلیق کرتے رہیں گے اور اپنے بلاگ پر پیش کرتے رہیں گے اور اس بات کا بھی یقین ہے کہ انہوں نے اردو سیارہ پر اپنے بلاگ کی شمولیت کی درخواست ضرور دے دی ہوگی تا کہ جیسے ہی انکے بلاگ کی عمر 'دو ماہ' ہو وہ اردو سیارہ پر ظاہر ہونا شروع ہو جائے اور احمد صاحب کی تخلیقات قارئین تک اور قارئین ان تک پہنچ سکیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
احمد صاحب کا تعلق کراچی سے ہے، اور انٹرنیٹ کی دنیا کے علاوہ کراچی کے ادبی حلقوں میں بھی فعال ہیں، ہماری ان سے شناسائی 'اردو محفل' پر ہوئی تھی جہاں انہوں نے اپنی خوبصورت شاعری سے اس خاکسار کا دل موہ لیا۔ احمد صاحب کی شاعری کی سب سے اہم بات جو مجھے نظر آئی کہ بھیڑ چال سے الگ ہو کر، انہوں نے اپنی شاعری میں خیال آفرینی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہی بات ان کو دیگر نوجوان شعراء سے ممتاز کرتی ہے، ان کے کچھ اشعار دیکھیئے۔
سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے
نظارہ منظروں کی کتنی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدۂ بینا، نظارے سوچتے ہوں گے
----
حسین شعر کہنے کا عمل بذاتِ خود ایک حسین عمل ہے، احمد صاحب کے اشعار دیکھیئے، مجھے پورا یقین ہے کہ ایسے اشعار تخلیق کرتے ہوئے وہ خود بھی بہت محظوظ ہوئے ہونگے۔
رات کی رانی، اوس کا پانی، جگنو، سرد ہوا
مُسکاتی، خوشبو مہکاتی، جنگل جنگل شام
رنگ سُنہرا دھوپ سا اُس کا، گیسو جیسے رات
چاند سا اُجلا اُجلا چہرہ، اُس کا آنچل شام
-----
چھوٹی بحر اس خاکسار کو انتہائی پسند ہے، اور چھوٹی بحر میں شعر کہنا ایک مشکل ترین امر ہے کہ اس میں بھرتی کے الفاظ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی، احمد صاحب کے شعر دیکھیئے
کچھ کسی کو نظر نہیں آتا
روشنی بے حساب ہے شاید
کیا محبت اُسے بھی ہے مجھ سے
مختصر سا جواب ہے 'شاید'
----
امید کرتا ہوں کہ احمد صاحب اسی طرح کی خوبصورت شاعری تخلیق کرتے رہیں گے اور اپنے بلاگ پر پیش کرتے رہیں گے اور اس بات کا بھی یقین ہے کہ انہوں نے اردو سیارہ پر اپنے بلاگ کی شمولیت کی درخواست ضرور دے دی ہوگی تا کہ جیسے ہی انکے بلاگ کی عمر 'دو ماہ' ہو وہ اردو سیارہ پر ظاہر ہونا شروع ہو جائے اور احمد صاحب کی تخلیقات قارئین تک اور قارئین ان تک پہنچ سکیں۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Jun 25, 2009
ایک نئی غزل
ایک تازہ غزل جس کا 'نزول' پرسوں ہوا سو لکھ رہا ہوں۔ عرض کیا ہے۔
نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا
یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا
یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا
اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا
مزید پڑھیے۔۔۔۔
نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا
یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا
یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا
اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Jun 21, 2009
علامہ اقبال کی ایک خواہش - ایک خوبصورت فارسی نظم
'زبورِ عجم' علامہ اقبال کا وہ شاہکار ہے جسکی 'انقلابی' نظمیں علامہ کی شدید ترین خواہش کا اظہار واشگاف الفاظ میں کرتی ہیں، 'زبورِ عجم' سے انقلاب کے موضوع پر دو نظمیں پہلے اس بلاگ پر لکھ چکا ہوں، ایک 'از خوابِ گراں خیز' اور دوسری وہ جس کا ٹیپ کا مصرع ہی 'انقلاب، اے انقلاب' ہے۔ اسی کتاب میں سے ایک اور نظم لکھ رہا ہوں، دیکھیئے علامہ کیا 'خواہش' کر رہے ہیں۔
یا مُسلماں را مَدہ فرماں کہ جاں بر کف بنہ
یا دریں فرسودہ پیکر تازہ جانے آفریں
یا چُناں کُن یا چُنیں
(اے خدا) یا تو مسلمانوں کو یہ فرمان مت دے کہ وہ اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ لیں یا پھر ان کے کمزور اور فرسودہ جسموں میں نئی جان ڈال دلے (کہ موجودہ حالت میں تو وہ تیرا فرمان بجا لانے سے رہے)۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
یا بَرَہمن را بَفَرما، نو خداوندے تراش
یا خود اندر سینۂ زنّاریاں خَلوت گزیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا برہمن کو یہ حکم دے کہ وہ اپنے لیے نئے خدا تراش لیں (کہ پرانے خداؤں کی محبت انکے دل سے بھی اٹھ چکی اور خلوص باقی نہیں ہے) یا خود ان زنار باندھنے والوں برہمنوں کے سینوں میں خلوت اختیار کر (کہ یا ان کو بت پرستی میں راسخ کر یا مسلماں کر دے)۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
یا، دگر آدم کہ از ابلیس باشد کمتَرک
یا، دگر ابلیس بہرِ امتحانِ عقل و دیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا کوئی اور آدم بنا جو ابلیس سے کم ہو (کہ موجودہ آدم ابلیس سے بھی بڑھ چکا ہے) یا عقل اور دین کے امتحان کے لیے کوئی اور ابلیس بنا (کہ تیرا یہ ابلیس تو انسان کی شیطنت کے آگے ہیچ ہو گیا) ۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
یا جہانے تازۂ یا امتحانے تازۂ
می کنی تا چند با ما آنچہ کردی پیش ازیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا کوئی نیا جہان بنا یا کوئی نیا امتحان بنا، تو ہمارے ساتھ کب تک وہی کچھ کرے گا جو اس سے پہلے بھی کر چکا ہے یعنی ازلوں سے ایک ہی کشمکش ہے، لہذا یا کوئی نیا جہان بنا یا اس آزمائش اور کشمکش کو ہی بدل دے۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
فقر بخشی؟ با شَکوہِ خسروِ پرویز بخش
یا عطا فرما خرَد با فطرتِ روح الامیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
تُو نے (مسلمانوں کو) فقر بخشا ہے، لیکن انہیں خسرو پرویز جیسی شان و شوکت بھی بخش یعنی طاقت بھی دے، یا انہیں ایسی عقل فرما جسکی فطرت روح الامین (جبریل) جیسی ہو یعنی وہ قرآن سے راہنمائی حاصل کرے۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
یا بکُش در سینۂ ما آرزوئے انقلاب
یا دگرگوں کُن نہادِ ایں زمان و ایں زمیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا تو میرے سینے میں انقلاب کی آرزو ہی (ہمیشہ کیلیے) ختم کر دے یا اس زمان و مکان (زمانے) کی بنیاد ہی دگرگوں کر دے، الٹ پلٹ دے، تہ و بالا کر دے، یعنی اس میں انقلاب برپا کر دے۔ ویسا کر یا ایسا کر۔
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔
یا مُسلماں را مَدہ فرماں کہ جاں بر کف بنہ
یا دریں فرسودہ پیکر تازہ جانے آفریں
یا چُناں کُن یا چُنیں
(اے خدا) یا تو مسلمانوں کو یہ فرمان مت دے کہ وہ اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ لیں یا پھر ان کے کمزور اور فرسودہ جسموں میں نئی جان ڈال دلے (کہ موجودہ حالت میں تو وہ تیرا فرمان بجا لانے سے رہے)۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
یا بَرَہمن را بَفَرما، نو خداوندے تراش
یا خود اندر سینۂ زنّاریاں خَلوت گزیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا برہمن کو یہ حکم دے کہ وہ اپنے لیے نئے خدا تراش لیں (کہ پرانے خداؤں کی محبت انکے دل سے بھی اٹھ چکی اور خلوص باقی نہیں ہے) یا خود ان زنار باندھنے والوں برہمنوں کے سینوں میں خلوت اختیار کر (کہ یا ان کو بت پرستی میں راسخ کر یا مسلماں کر دے)۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
یا، دگر آدم کہ از ابلیس باشد کمتَرک
یا، دگر ابلیس بہرِ امتحانِ عقل و دیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا کوئی اور آدم بنا جو ابلیس سے کم ہو (کہ موجودہ آدم ابلیس سے بھی بڑھ چکا ہے) یا عقل اور دین کے امتحان کے لیے کوئی اور ابلیس بنا (کہ تیرا یہ ابلیس تو انسان کی شیطنت کے آگے ہیچ ہو گیا) ۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال |
می کنی تا چند با ما آنچہ کردی پیش ازیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا کوئی نیا جہان بنا یا کوئی نیا امتحان بنا، تو ہمارے ساتھ کب تک وہی کچھ کرے گا جو اس سے پہلے بھی کر چکا ہے یعنی ازلوں سے ایک ہی کشمکش ہے، لہذا یا کوئی نیا جہان بنا یا اس آزمائش اور کشمکش کو ہی بدل دے۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
فقر بخشی؟ با شَکوہِ خسروِ پرویز بخش
یا عطا فرما خرَد با فطرتِ روح الامیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
تُو نے (مسلمانوں کو) فقر بخشا ہے، لیکن انہیں خسرو پرویز جیسی شان و شوکت بھی بخش یعنی طاقت بھی دے، یا انہیں ایسی عقل فرما جسکی فطرت روح الامین (جبریل) جیسی ہو یعنی وہ قرآن سے راہنمائی حاصل کرے۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
یا بکُش در سینۂ ما آرزوئے انقلاب
یا دگرگوں کُن نہادِ ایں زمان و ایں زمیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا تو میرے سینے میں انقلاب کی آرزو ہی (ہمیشہ کیلیے) ختم کر دے یا اس زمان و مکان (زمانے) کی بنیاد ہی دگرگوں کر دے، الٹ پلٹ دے، تہ و بالا کر دے، یعنی اس میں انقلاب برپا کر دے۔ ویسا کر یا ایسا کر۔
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Labels:
اقبالیات,
زبور عجم,
علامہ اقبال,
فارسی شاعری
Jun 17, 2009
حافظ شیرازی کی ایک شاہکار غزل - در خراباتِ مُغاں نورِ خدا می بینَم
در خراباتِ مُغاں نورِ خدا می بینَم
ویں عجب بیں کہ چہ نُورے ز کجا می بینَم
مغاں کہ میکدے میں نورِ خدا دیکھتا ہوں، اس تعجب انگیز بات کو دیکھو (غور کرو) کہ کیا نور ہے اور میں کہاں دیکھتا ہوں۔
کیست دُردی کشِ ایں میکدہ یا رب، کہ دَرَش
قبلۂ حاجت و محرابِ دعا می بینَم
یا رب، اس میکدے کی تلچھٹ پینے والا یہ کون ہے کہ اس کا در مجھے قبلۂ حاجات اور دعا کی محراب نظر آتا ہے۔
جلوہ بر من مَفَروش اے مَلِکُ الحاج کہ تو
خانہ می بینی و من خانہ خدا می بینَم
اے حاجیوں کے سردار میرے سامنے خود نمائی نہ کر کہ تُو گھر کو دیکھتا ہے اور میں گھر کے مالک خدا کو دیکھتا ہوں۔
سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر، نالۂ شب
ایں ہمہ از اثَرِ لطفِ شُما می بینَم
سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر اور نالۂ شب، یہ سب آپ کی مہربانی کا اثر ہے۔
خواہم از زلفِ بتاں نافہ کشائی کردَن
فکرِ دُورست، ہمانا کہ خطا می بینَم
چاہتا ہوں کہ زلفِ بتاں سے نافہ کشائی (خوشبو حاصل) کروں مگر یہ ایک دُور کی سوچ ہے، بیشک میں غلط ہی خیال کر رہا ہوں۔
ہر دم از روئے تو نقشے زَنَدَم راہِ خیال
با کہ گویم کہ دریں پردہ چہا می بینَم
ہر دم تیرے چہرے کا اک نیا نقشہ میرے خیال پر ڈاکہ ڈالتا ہے، میں کس سے کہوں کہ اس پردے میں کیا کیا دیکھتا ہوں۔
کس ندیدست ز مشکِ خُتَن و نافۂ چیں
آنچہ من ہر سحر از بادِ صبا می بینَم
کسی نے حاصل نہیں کیا مشکِ ختن اور نافۂ چین سے وہ کچھ (ایسی خوشبو) جو میں ہر صبح بادِ صبا سے حاصل کرتا ہوں۔
نیست در دائرہ یک نقطہ خلاف از کم و بیش
کہ من ایں مسئلہ بے چون و چرا می بینَم
اس دائرے (آسمان کی گردش) میں ایک نقطہ کی بھی کمی بیشی کا اختلاف نہیں ہے، اور میں اس مسئلے کو بے چون و چرا جانتا ہوں۔
منصبِ عاشقی و رندی و شاہد بازی
ہمہ از تربیتِ لطفِ شُما می بینَم
منصبِ عاشقی، رندی اور شاہدی بازی، یہ سب کچھ آپ کی تربیت کی مہربانی سے مجھے حاصل ہوا ہے۔
دوستاں، عیبِ نظر بازیِ حافظ مَکُنید
کہ من او را، ز مُحبّانِ خدا می بینَم
اے دوستو، حافظ کی نظر بازی پر عیب مت لگاؤ، کہ میں اُس کو (حافظ کو) خدا کے دوستوں میں سے دیکھتا ہوں۔
----------
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع -
در خراباتِ مغاں نورِ خدا می بینم
ویں عجب بیں کہ چہ نُورے ز کجا می بینم
در خَ را با - 2212 - فاعلاتن
تِ مُ غا نُو - 2211 - فعلاتن
رِ خُ دا می - 2211 - فعلاتن
بی نَم - 22 - فعلن
وی عَ جَب بی - 2212 - فاعلاتن
کہ چہ نورے - 2211 - فعلاتن
ز کُ جا می - 2211 - فعلاتن
بی نم - 22 - فعلن
مزید پڑھیے۔۔۔۔
ویں عجب بیں کہ چہ نُورے ز کجا می بینَم
مغاں کہ میکدے میں نورِ خدا دیکھتا ہوں، اس تعجب انگیز بات کو دیکھو (غور کرو) کہ کیا نور ہے اور میں کہاں دیکھتا ہوں۔
کیست دُردی کشِ ایں میکدہ یا رب، کہ دَرَش
قبلۂ حاجت و محرابِ دعا می بینَم
یا رب، اس میکدے کی تلچھٹ پینے والا یہ کون ہے کہ اس کا در مجھے قبلۂ حاجات اور دعا کی محراب نظر آتا ہے۔
جلوہ بر من مَفَروش اے مَلِکُ الحاج کہ تو
خانہ می بینی و من خانہ خدا می بینَم
اے حاجیوں کے سردار میرے سامنے خود نمائی نہ کر کہ تُو گھر کو دیکھتا ہے اور میں گھر کے مالک خدا کو دیکھتا ہوں۔
سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر، نالۂ شب
ایں ہمہ از اثَرِ لطفِ شُما می بینَم
سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر اور نالۂ شب، یہ سب آپ کی مہربانی کا اثر ہے۔
مزار خواجہ حافظ شیرازی Mazar Hafiz Sheerazi |
فکرِ دُورست، ہمانا کہ خطا می بینَم
چاہتا ہوں کہ زلفِ بتاں سے نافہ کشائی (خوشبو حاصل) کروں مگر یہ ایک دُور کی سوچ ہے، بیشک میں غلط ہی خیال کر رہا ہوں۔
ہر دم از روئے تو نقشے زَنَدَم راہِ خیال
با کہ گویم کہ دریں پردہ چہا می بینَم
ہر دم تیرے چہرے کا اک نیا نقشہ میرے خیال پر ڈاکہ ڈالتا ہے، میں کس سے کہوں کہ اس پردے میں کیا کیا دیکھتا ہوں۔
کس ندیدست ز مشکِ خُتَن و نافۂ چیں
آنچہ من ہر سحر از بادِ صبا می بینَم
کسی نے حاصل نہیں کیا مشکِ ختن اور نافۂ چین سے وہ کچھ (ایسی خوشبو) جو میں ہر صبح بادِ صبا سے حاصل کرتا ہوں۔
نیست در دائرہ یک نقطہ خلاف از کم و بیش
کہ من ایں مسئلہ بے چون و چرا می بینَم
اس دائرے (آسمان کی گردش) میں ایک نقطہ کی بھی کمی بیشی کا اختلاف نہیں ہے، اور میں اس مسئلے کو بے چون و چرا جانتا ہوں۔
منصبِ عاشقی و رندی و شاہد بازی
ہمہ از تربیتِ لطفِ شُما می بینَم
منصبِ عاشقی، رندی اور شاہدی بازی، یہ سب کچھ آپ کی تربیت کی مہربانی سے مجھے حاصل ہوا ہے۔
دوستاں، عیبِ نظر بازیِ حافظ مَکُنید
کہ من او را، ز مُحبّانِ خدا می بینَم
اے دوستو، حافظ کی نظر بازی پر عیب مت لگاؤ، کہ میں اُس کو (حافظ کو) خدا کے دوستوں میں سے دیکھتا ہوں۔
----------
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
تقطیع -
در خراباتِ مغاں نورِ خدا می بینم
ویں عجب بیں کہ چہ نُورے ز کجا می بینم
در خَ را با - 2212 - فاعلاتن
تِ مُ غا نُو - 2211 - فعلاتن
رِ خُ دا می - 2211 - فعلاتن
بی نَم - 22 - فعلن
وی عَ جَب بی - 2212 - فاعلاتن
کہ چہ نورے - 2211 - فعلاتن
ز کُ جا می - 2211 - فعلاتن
بی نم - 22 - فعلن
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Labels:
بحر رمل,
بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع,
تقطیع,
حافظ شیرازی,
فارسی شاعری
Jun 12, 2009
بحرِ مُتَقارِب - ایک تعارف
اردو محفل پر ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ علامہ اقبال کے درج ذیل خوبصورت شعر کی بحر کیا ہے اور اسکی تقطیع کیسے ہوگی، اسکے جواب میں خاکسار نے بحرِ مُتقَارِب کا مختصر تعارف لکھا تھا، اس کو قطع و برید اور ترمیم کے ساتھ یہاں لکھ رہا ہوں۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
یہ شعر بحر مُتَقارِب مثمن سالم میں ہے۔ مثمن کا مطلب آٹھ یعنی اس بحر کے ایک شعر میں آٹھ رکن اور ایک مصرعے میں چار۔ سالم کا مطلب ہے کہ اس بحر میں جو رکن ہے وہ مکمل ہے اور کہیں بھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ اسے متقارب کیوں کہتے ہیں اسکی تفصیل چھوڑتا ہوں۔
یہ بحر ایک مفرد بحر ہے، مفرد کا مطلب ہے کہ اس بحر میں اصل میں ایک ہی رکن ہے اور اسکی بار بار تکرار ہے، یہ مثمن ہے تو مطلب ہوا کہ اس بحر کے ایک شعر میں ایک ہی رکن کی آٹھ بار تکرار ہے۔ مفرد کے مقابلے میں مرکب بحریں ہوتی ہیں جن میں ایک سے زائد ارکان ہوتے ہیں۔
اس بحر کا رکن ہے 'فَعُولُن' یعنی فَ عُو لُن یعنی 1 2 2 ہے اور اس بحر میں اسی ایک رکن کی بار بار تکرار ہونی ہے۔ اسکے مقابلے میں آپ بحرِ متدارک دیکھ چکے ہیں کہ اسکا رکن 'فاعلن' ہے، کیا آپ فعولن اور فاعلن میں کوئی مماثلت دیکھ سکتے ہیں۔
فعولن یا 1 2 2
اب اگر پہلے ہجائے کوتاہ کو اٹھا کر پہلے ہجائے بلند کے بعد رکھ دیں یعنی 2 1 2 تو یہ وزن فاعلن ہے، متقارب اور متدارک میں بس اتنا ہی فرق ہے، ان دونوں میں یہ مماثلت اس وجہ سے ہے کہ دونوں بحریں ایک ہی دائرے سے نکلی ہیں، تفصیل کسی اچھے وقت کیلیے اٹھا رکھتا ہوں۔
بحرِ متقارب کا وزن ہے
فعولن فعولن فعولن فعولن
(یہ بات نوٹ کریں کہ جب بحر کا نام لکھتے ہیں تو ایک مکمل شعر میں جتنے رکن ہوتے ہیں انکی تعداد بتائی جاتی ہے لیکن جب وزن لکھتے ہیں تو صرف ایک مصرعے کا لکھتے ہیں، یہ مثمن بحر ہے یعنی آٹھ رکن ایک شعر میں ہیں لیکن جب وزن لکھا تو صرف ایک مصرعے کا کیونکہ دوسرا مصرع ہو بہو پہلے کا عکس ہوتا ہے۔)
اب اس شعر کی تقطیع دیکھتے ہیں
سِ تا رو - 1 2 2 - فعولن (یاد رکھنے کی ایک بات کہ نون غنہ کا وزن نہیں ہوتا سو اسے تقطیع میں بھی شمار نہیں کرتے، اس لیئے ستاروں کا نون غنہ تقطیع میں نہیں آرہا اور نہ ہی اسکا کوئی وزن ہے)
سِ آ گے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی دوسری بات، حرف علت الف، واؤ یا یے کو ضرورت شعری کے وقت وزن پورا کرنے کیلیئے لفظ سے گرا کر اور اسے اضافت یعنی زیر، زبر، پیش سے بدل کر اسکا وزن ختم کر سکتے ہیں کیونکہ اضافتوں کا بھی کوئی وزن نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ کہ وزن پورا ہو جاتا ہے، یہاں 'سے' کو 'سِ' یعنی س کے نیچے زیر لگا کر سمجھا جائے گا تا کہ وزن پورا ہو اور اسی کو اخفا کہتے ہیں جسے اس بلاگ کے قاری بخوبی جانتے ہیں۔
جَ ہا او - فعولن 1 2 2 (جہاں کا نون غنہ پھر محسوب نہیں ہو رہا کہ اس کا کوئی وزن نہیں)۔)
ر بی ہے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی اگلی بات کہ دو چشمی ھ کا بھی شعر میں کوئی وزن نہیں ہوتا اس لیئے بھی کو بی سمجھتے ہیں)
اَ بی عش - 1 2 2 - فعولن
ق کے ام - 1 2 2 - فعولن
ت حا او - 1 2 2 - فعولن
ر بی ہے - 1 2 2 - فعولن
بلاگ کے قارئین کیلیے ایک اور شعر کی تقطیع
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
ت ہی زن - 1 2 2 - فعولن
د گی سے - 1 2 2 - فعولن
ن ہی یہ - 1 2 2 - فعولن
ف ضا ئے - 1 2 2 - فعولن
ی ہا سے - 1 2 2 - فعولن
ک ڑو کا - 1 2 2 - فعولن (سینکڑوں میں جو نون ہے اس کو مخلوط نون کہا جاتا ہے یعنی وہ نون جو ہندی الفاظ میں آتا ہے اور اسکا وزن نہیں ہوتا)۔
ر وا او - 1 2 2 - فعولن
ر بی ہے - 1 2 2 - فعولن
متقارب بہت خوبصورت بحر ہے اور اردو شاعری میں کافی استعمال ہوتی ہے، اسی بحر میں علامہ کی ایک اور خوبصورت غزل ہے۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
اور ایک اور خوبصورت غزل
نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
اور غالب کی انتہائی خوبصورت غزل
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارَم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشۂ اہلِ کرم دیکھتے ہیں
اور مرزا رفیع سودا کی یہ خوبصورت غزل دراصل سودا کی اسی زمین میں غالب نے اوپر والی غزل کہی ہے۔
غرَض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرَم دیکھتے ہیں
اور خواجہ حیدر علی آتش کی یہ خوبصورت غزل
زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اور اب اگر اس بحر میں کہے ہوئے مزید کلام کی تلاش ہے تو خواجہ الطاف حسین حالی کی 'مدّ و جزرِ اسلام' المعروف بہ 'مسدسِ حالی' کے سینکڑوں اشعار دیکھ لیں۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتمیوں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
یہ شعر بحر مُتَقارِب مثمن سالم میں ہے۔ مثمن کا مطلب آٹھ یعنی اس بحر کے ایک شعر میں آٹھ رکن اور ایک مصرعے میں چار۔ سالم کا مطلب ہے کہ اس بحر میں جو رکن ہے وہ مکمل ہے اور کہیں بھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ اسے متقارب کیوں کہتے ہیں اسکی تفصیل چھوڑتا ہوں۔
یہ بحر ایک مفرد بحر ہے، مفرد کا مطلب ہے کہ اس بحر میں اصل میں ایک ہی رکن ہے اور اسکی بار بار تکرار ہے، یہ مثمن ہے تو مطلب ہوا کہ اس بحر کے ایک شعر میں ایک ہی رکن کی آٹھ بار تکرار ہے۔ مفرد کے مقابلے میں مرکب بحریں ہوتی ہیں جن میں ایک سے زائد ارکان ہوتے ہیں۔
اس بحر کا رکن ہے 'فَعُولُن' یعنی فَ عُو لُن یعنی 1 2 2 ہے اور اس بحر میں اسی ایک رکن کی بار بار تکرار ہونی ہے۔ اسکے مقابلے میں آپ بحرِ متدارک دیکھ چکے ہیں کہ اسکا رکن 'فاعلن' ہے، کیا آپ فعولن اور فاعلن میں کوئی مماثلت دیکھ سکتے ہیں۔
فعولن یا 1 2 2
اب اگر پہلے ہجائے کوتاہ کو اٹھا کر پہلے ہجائے بلند کے بعد رکھ دیں یعنی 2 1 2 تو یہ وزن فاعلن ہے، متقارب اور متدارک میں بس اتنا ہی فرق ہے، ان دونوں میں یہ مماثلت اس وجہ سے ہے کہ دونوں بحریں ایک ہی دائرے سے نکلی ہیں، تفصیل کسی اچھے وقت کیلیے اٹھا رکھتا ہوں۔
بحرِ متقارب کا وزن ہے
فعولن فعولن فعولن فعولن
(یہ بات نوٹ کریں کہ جب بحر کا نام لکھتے ہیں تو ایک مکمل شعر میں جتنے رکن ہوتے ہیں انکی تعداد بتائی جاتی ہے لیکن جب وزن لکھتے ہیں تو صرف ایک مصرعے کا لکھتے ہیں، یہ مثمن بحر ہے یعنی آٹھ رکن ایک شعر میں ہیں لیکن جب وزن لکھا تو صرف ایک مصرعے کا کیونکہ دوسرا مصرع ہو بہو پہلے کا عکس ہوتا ہے۔)
اب اس شعر کی تقطیع دیکھتے ہیں
سِ تا رو - 1 2 2 - فعولن (یاد رکھنے کی ایک بات کہ نون غنہ کا وزن نہیں ہوتا سو اسے تقطیع میں بھی شمار نہیں کرتے، اس لیئے ستاروں کا نون غنہ تقطیع میں نہیں آرہا اور نہ ہی اسکا کوئی وزن ہے)
سِ آ گے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی دوسری بات، حرف علت الف، واؤ یا یے کو ضرورت شعری کے وقت وزن پورا کرنے کیلیئے لفظ سے گرا کر اور اسے اضافت یعنی زیر، زبر، پیش سے بدل کر اسکا وزن ختم کر سکتے ہیں کیونکہ اضافتوں کا بھی کوئی وزن نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ کہ وزن پورا ہو جاتا ہے، یہاں 'سے' کو 'سِ' یعنی س کے نیچے زیر لگا کر سمجھا جائے گا تا کہ وزن پورا ہو اور اسی کو اخفا کہتے ہیں جسے اس بلاگ کے قاری بخوبی جانتے ہیں۔
جَ ہا او - فعولن 1 2 2 (جہاں کا نون غنہ پھر محسوب نہیں ہو رہا کہ اس کا کوئی وزن نہیں)۔)
ر بی ہے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی اگلی بات کہ دو چشمی ھ کا بھی شعر میں کوئی وزن نہیں ہوتا اس لیئے بھی کو بی سمجھتے ہیں)
اَ بی عش - 1 2 2 - فعولن
ق کے ام - 1 2 2 - فعولن
ت حا او - 1 2 2 - فعولن
ر بی ہے - 1 2 2 - فعولن
بلاگ کے قارئین کیلیے ایک اور شعر کی تقطیع
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
ت ہی زن - 1 2 2 - فعولن
د گی سے - 1 2 2 - فعولن
ن ہی یہ - 1 2 2 - فعولن
ف ضا ئے - 1 2 2 - فعولن
ی ہا سے - 1 2 2 - فعولن
ک ڑو کا - 1 2 2 - فعولن (سینکڑوں میں جو نون ہے اس کو مخلوط نون کہا جاتا ہے یعنی وہ نون جو ہندی الفاظ میں آتا ہے اور اسکا وزن نہیں ہوتا)۔
ر وا او - 1 2 2 - فعولن
ر بی ہے - 1 2 2 - فعولن
متقارب بہت خوبصورت بحر ہے اور اردو شاعری میں کافی استعمال ہوتی ہے، اسی بحر میں علامہ کی ایک اور خوبصورت غزل ہے۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
اور ایک اور خوبصورت غزل
نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
اور غالب کی انتہائی خوبصورت غزل
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارَم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشۂ اہلِ کرم دیکھتے ہیں
اور مرزا رفیع سودا کی یہ خوبصورت غزل دراصل سودا کی اسی زمین میں غالب نے اوپر والی غزل کہی ہے۔
غرَض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرَم دیکھتے ہیں
اور خواجہ حیدر علی آتش کی یہ خوبصورت غزل
زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اور اب اگر اس بحر میں کہے ہوئے مزید کلام کی تلاش ہے تو خواجہ الطاف حسین حالی کی 'مدّ و جزرِ اسلام' المعروف بہ 'مسدسِ حالی' کے سینکڑوں اشعار دیکھ لیں۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتمیوں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Labels:
بحر متقارب,
بحر متقارب مثمن سالم,
تقطیع,
علم عروض
Jun 4, 2009
مہربان
اس 'دشتِ بلاگران' میں ہمیں بھی ایک سال ہو گیا ہے، مئی 2008ء میں یہ بلاگ بنایا تھا اور اب الحمدللہ ایک سال مکمل ہوا۔ کیا کھویا کیا پایا کا سوال میرے لیے اہم نہیں ہوتا کہ سفر کرنا ہی اصل شرط ہے لیکن نشیب و فراز تو انسانی زندگی کا حصہ ہیں سو اس بلاگ کے ساتھ بھی شامل رہے۔ بلاگ کی دنیا میں وارد ہونے سے پہلے تقریباً ایک سال میں 'اردو محفل' پر گزار چکا تھا یعنی اردو محفل کا رکن بنے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں کہ وہاں مئی 2007ء میں شمولیت حاصل کی تھی اور یوں وہاں دو سال مکمل ہوئے، الحمدللہ۔
اوّل اوّل تو بلاگ کی مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ یہ کیا 'بلا' ہوتے ہیں، جب سمجھ آ گئی تو کچھ عرصہ خاموش قاری بنا رہا اور پھر حق الیقین کا علم حاصل کرنے کیلیے 'راوی' میں کود پڑا اور اس میں سب سے مشکل مرحلہ پچھلے سال دسمبر میں آیا جب اردو ٹیک پر ہمارا بلاگ ڈبکیاں لگانے لگا اور میں نے 'تیراکی' سے توبہ کر لی لیکن بہت شکریہ برادرم نبیل حسن نقوی کا جنہوں نے میری ہمت بندھائی اور بار بار اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیا اور بہت شکریہ زیک کا کہ انکی محنت کی وجہ سے مجھے اور اردو ٹیک پر موجود تقریباً تمام بلاگرز کو 'ڈیٹا' واپس مل گیا۔ پھر برادرم نبیل نے بلاگ سپاٹ کیلیے سانچوں یا تھیمز کا اردو ترجمہ کیا اور آج آپ بلاگ سپاٹ پر دیکھ سکتے ہیں کہ کافی اردو بلاگرز انہوں سانچوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور یوں اس سال فروری میں اس بلاگ کی ہجرت اردو ٹیک سے بلاگ سپاٹ پر ہو گئی۔ برادرم نبیل نے بلاگ سپاٹ پر ایک اور بہت بڑے مسئلے کو حل کر دیا، بلاگ سپاٹ پر اردو ایڈیٹر نہیں تھا اس لیے ان قارئین کو جو تبصرہ کرنا چاہتے تھے کسی نہ کسی اردو 'کی بورڈ' کی ضرورت پڑتی تھی لیکن آج آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ بلاگ سپاٹ پر ہمارے بلاگ سمیت دیگر کئی اردو بلاگز پر اردو ایڈیٹر موجود ہے اور قارئین بغیر کسی دشواری کے اردو میں تبصرہ لکھ سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، یہاں پر یہ بھی 'اعتراف' کرنا چاہوں گا کہ بلاگ کی دنیا میں وارد ہونے کے بعد بہت اچھے احباب اور دوستوں سے واسطہ پڑا۔ گو ہمارے بلاگ پر تشریف لانے والے زائرین کی تعداد اس ایک سال میں 10 فی یومیہ کے حساب سے تقریباً چار ہزار ہے اور ظاہر ہے اس میں بھی بہت سے اتفاقیہ یا بھولے بھٹکے تشریف لانے والے ہیں اور مستقل قارئین کی تعداد دونوں ہاتھوں کی پوروں پر بآسانی گنی جا سکتی ہے لیکن پھر بھی میرے لیے مسرت کی بات ہے کہ کم از کم کوئی تو ہے جو جنگل میں اس مور کے ناچ کو دیکھ رہا ہے اور میں اس موقعہ پر ان سب دوستوں اور قارئین کا شکریہ ادا کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ انکی اس بلاگ پر آمد اور مفید تبصروں سے مجھے بہت کچھ سیکھنے اور اس بلاگ کو بہتر بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔
اپنے بلاگ کے متعلق زائرین اور قارئین کے رائے جاننا بھی ہر بلاگر کی ایک خواہش ہوتی ہے سو اس کو جاننے کیلیے اپنے بلاگ پر ایک رائے شماری لگا رکھی ہے کہ "آپ کو میرا بلاگ کیسا لگا؟"۔ اب تک اس میں 54 ووٹ ڈالے گئے جن میں تین تو میرے اپنے تھے، دو اس وقت ڈالے جب اس رائے شماری کو اردو ٹیک والے بلاگ پر لگایا تھا اور ایک اس وقت جب بلاگ کو یہاں پر منتقل کیا یہ دیکھنے کیلیے کہ یہ پول صحیح کام کر رہا ہے یا نہیں، اپنے ووٹس اگر نکال دوں تو نتیجہ کچھ یوں ہے۔
لاجواب - 35
اچھا - 14
بس ٹھیک ہے - 1
بُرا - 0
انتہائی بُرا - 1
کل ووٹس - 51
گویا تقریباً 97 فیصد رائے دینے والوں نے اس بلاگ کو پسند کیا جس کیلیے میں ان کا شکر گزار ہوں، یہ احباب کون تھے مجھے کچھ علم نہیں کیونکہ پول فری سروس کا ہے اور اس میں آئی پی ایڈریس وغیرہ جاننے کی سہولت نہیں ہے لیکن بہرحال سب کی نوزاش ہے۔لیکن مجھے تلاش اس 'مہربان' کی ہے جسں نے اپنا ووٹ "انتہائی بُرا" کو دیا، کاش وہ کچھ بتا جاتے لیکن خیر وہ خوش رہیں، انکا اسی بات کیلیے شکریہ کہ وہ "دانا دشمن" والی بات کر گئے اور اس بلاگ کو مزید بہتر بنانے کی ہماری خواہش کو شدید تر کر گئے اور خواجہ حیدر علی آتش کا یہ شعر انہی مہربان کے نام
غم و غصّہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
مزید پڑھیے۔۔۔۔
اوّل اوّل تو بلاگ کی مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ یہ کیا 'بلا' ہوتے ہیں، جب سمجھ آ گئی تو کچھ عرصہ خاموش قاری بنا رہا اور پھر حق الیقین کا علم حاصل کرنے کیلیے 'راوی' میں کود پڑا اور اس میں سب سے مشکل مرحلہ پچھلے سال دسمبر میں آیا جب اردو ٹیک پر ہمارا بلاگ ڈبکیاں لگانے لگا اور میں نے 'تیراکی' سے توبہ کر لی لیکن بہت شکریہ برادرم نبیل حسن نقوی کا جنہوں نے میری ہمت بندھائی اور بار بار اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیا اور بہت شکریہ زیک کا کہ انکی محنت کی وجہ سے مجھے اور اردو ٹیک پر موجود تقریباً تمام بلاگرز کو 'ڈیٹا' واپس مل گیا۔ پھر برادرم نبیل نے بلاگ سپاٹ کیلیے سانچوں یا تھیمز کا اردو ترجمہ کیا اور آج آپ بلاگ سپاٹ پر دیکھ سکتے ہیں کہ کافی اردو بلاگرز انہوں سانچوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور یوں اس سال فروری میں اس بلاگ کی ہجرت اردو ٹیک سے بلاگ سپاٹ پر ہو گئی۔ برادرم نبیل نے بلاگ سپاٹ پر ایک اور بہت بڑے مسئلے کو حل کر دیا، بلاگ سپاٹ پر اردو ایڈیٹر نہیں تھا اس لیے ان قارئین کو جو تبصرہ کرنا چاہتے تھے کسی نہ کسی اردو 'کی بورڈ' کی ضرورت پڑتی تھی لیکن آج آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ بلاگ سپاٹ پر ہمارے بلاگ سمیت دیگر کئی اردو بلاگز پر اردو ایڈیٹر موجود ہے اور قارئین بغیر کسی دشواری کے اردو میں تبصرہ لکھ سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، یہاں پر یہ بھی 'اعتراف' کرنا چاہوں گا کہ بلاگ کی دنیا میں وارد ہونے کے بعد بہت اچھے احباب اور دوستوں سے واسطہ پڑا۔ گو ہمارے بلاگ پر تشریف لانے والے زائرین کی تعداد اس ایک سال میں 10 فی یومیہ کے حساب سے تقریباً چار ہزار ہے اور ظاہر ہے اس میں بھی بہت سے اتفاقیہ یا بھولے بھٹکے تشریف لانے والے ہیں اور مستقل قارئین کی تعداد دونوں ہاتھوں کی پوروں پر بآسانی گنی جا سکتی ہے لیکن پھر بھی میرے لیے مسرت کی بات ہے کہ کم از کم کوئی تو ہے جو جنگل میں اس مور کے ناچ کو دیکھ رہا ہے اور میں اس موقعہ پر ان سب دوستوں اور قارئین کا شکریہ ادا کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ انکی اس بلاگ پر آمد اور مفید تبصروں سے مجھے بہت کچھ سیکھنے اور اس بلاگ کو بہتر بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔
اپنے بلاگ کے متعلق زائرین اور قارئین کے رائے جاننا بھی ہر بلاگر کی ایک خواہش ہوتی ہے سو اس کو جاننے کیلیے اپنے بلاگ پر ایک رائے شماری لگا رکھی ہے کہ "آپ کو میرا بلاگ کیسا لگا؟"۔ اب تک اس میں 54 ووٹ ڈالے گئے جن میں تین تو میرے اپنے تھے، دو اس وقت ڈالے جب اس رائے شماری کو اردو ٹیک والے بلاگ پر لگایا تھا اور ایک اس وقت جب بلاگ کو یہاں پر منتقل کیا یہ دیکھنے کیلیے کہ یہ پول صحیح کام کر رہا ہے یا نہیں، اپنے ووٹس اگر نکال دوں تو نتیجہ کچھ یوں ہے۔
لاجواب - 35
اچھا - 14
بس ٹھیک ہے - 1
بُرا - 0
انتہائی بُرا - 1
کل ووٹس - 51
گویا تقریباً 97 فیصد رائے دینے والوں نے اس بلاگ کو پسند کیا جس کیلیے میں ان کا شکر گزار ہوں، یہ احباب کون تھے مجھے کچھ علم نہیں کیونکہ پول فری سروس کا ہے اور اس میں آئی پی ایڈریس وغیرہ جاننے کی سہولت نہیں ہے لیکن بہرحال سب کی نوزاش ہے۔لیکن مجھے تلاش اس 'مہربان' کی ہے جسں نے اپنا ووٹ "انتہائی بُرا" کو دیا، کاش وہ کچھ بتا جاتے لیکن خیر وہ خوش رہیں، انکا اسی بات کیلیے شکریہ کہ وہ "دانا دشمن" والی بات کر گئے اور اس بلاگ کو مزید بہتر بنانے کی ہماری خواہش کو شدید تر کر گئے اور خواجہ حیدر علی آتش کا یہ شعر انہی مہربان کے نام
غم و غصّہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
مزید پڑھیے۔۔۔۔
May 31, 2009
ایک نعت کے کچھ اشعار اور انکی تقطیع
محمد افضل صاحب (میرا پاکستان) نے خاکسار کی ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع لکھوں، سو لکھ رہا ہوں۔ پہلے اس وجہ سے نہیں لکھی تھی کہ اس وقت میں چاہ رہا تھا کہ پہلے علمِ عروض پر کچھ ضروری باتیں لکھ دوں تا کہ تقطیع کو پڑھتے ہوئے اس بلاگ کے قارئین اسے سمجھ بھی سکیں۔ اور اب جب کہ علمِ عروض اور تقطیع پر کچھ بنیادی باتیں لکھ چکا ہوں سو امید کرتا ہوں کہ وہ قارئین جو ان تحاریر کو 'فالو' کر رہے ہیں ان کو اس تقطیع کے سمجھنے میں کچھ آسانی ضرور ہوگی۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام 'بحرِ مُتَدارِک' ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں 'مفاعیلن' چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن 'فاعِلُن' ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو 'تسبیغ' کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ 'مقطع' بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
اب ہم تقطیع دیکھتے ہیں۔
مُصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُص طَ فا - 212 - فاعلن
جا نِ رح - 212- فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (عملِ تسبیغ نوٹ کریں، اور یہ بھی کہ لاکھوں کے کھوں کو عروضی متن میں صرف 'کو' لکھا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ اور دو چشمی ھ، دونوں کا عروض میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور یہ ایک اصول ہے۔)
شَم عِ بز - 212 - فاعلن
مے ہِ دا - 212 - فاعلن (اشباع کا عمل نوٹ کریں یعنی شاعر نے بزمِ کی میم کے نیچے جو اضافت زیر ہے اس کو کھینچ کر 'مے' یعنی ہجائے بلند بنایا ہے کیونکہ بحر کے مطابق یہاں ہجائے بلند یا 2 کی ضرورت تھی)۔
یَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
شہر یارِ ارَم، تاجدارِ حرَم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شہ ر یا - 212 - فاعلن (شہر کا صحیح تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، اکثر لوگ اس کا غلط تلفظ شہَر کرتے ہیں)۔
رے اِ رَم - 212 - فاعلن (اشباع نوٹ کریں)۔
تا ج دا - 212 - فاعلن
رے حَ رَم - 212 - فاعلن (رے میں پھر اشباع نوٹ کریں)۔
نو بَ ہا - 212 - فاعلن
رے شِ فا - 212 - فاعلن (رے میں عملِ اشباع)۔
عت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس کِ سج - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں یعنی کے کی ی شاعر نے گرا دی ہے کہ یہاں پر بحر کے مطابق اسے ہجائے کوتاہ کی ضرورت تھی)۔
دے کُ مح - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں)۔
را بِ کع - 212 - فاعلن
بہ جُ کی - 212 - فاعلن
ان بَ ؤ - 212 - فاعلن (دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں اور ؤ کو ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ سمجھنا شاعر کی صوابدید ہے یہاں شاعر نے اسے ہجائے بلند باندھا ہے کہ بحر کا یہی تقاضہ تھا)۔
کی لِ طا - 212 - فاعلن
فَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
وہ دَ ہن - 212 - فاعلن
جس کِ ہر - 212 - فاعلن (کی میں اخفا کا عمل)۔
با ت وح - 212 - فاعلن
یے خُ دا - 212 - فاعلن (عمل اشباع)۔
چش مَ اے - 212 - فاعلن (ہمزۂ اضافت کو اے تلفظ کر کے ایک ہجائے بلند بنایا ہے کہ بحر میں اسی کی ضرورت تھی)۔
عل م حک - 212 - فاعلن (علم و حکمت کی جو اضافت واؤ ہے شاعر نے اسکا کوئی وزن نہیں لیا اور یہ شاعر کی صوابدید ہے)۔
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وہ ز با - 212 - فاعلن (نوٹ کریں کہ زبان کی جگہ شاعر نے زباں یعنی نون غنہ استعمال کیا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اگر یہاں زبان نون معلنہ کے ساتھ ہوتا تو وزن بگڑ جاتا)۔
جس کُ سب - 212 - فاعلن (کو میں عملِ اخفا)۔
کُن کِ کُن - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
جی کَ ہے - 212 - فاعلن
اُس کِ نا - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
فذ حَ کو - 212 - فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
کُل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
کُل جَ ہا - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
مل ک ار - 212 - فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
ٹی غَ ذا - 212 - فاعلن
اس شِ کم - 212 - فاعلن
کی قَ نا - 212 - فاعلن
عَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
سیّدہ ، زاہرہ ، طیّبہ ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سی یَ دہ - 212 - فاعلن (تشدید والا حرف دو بار بولا جاتا ہے سو تقطیع میں جس حرف پر تشدید ہوتی ہے اس کو دو بار لکھا جاتا ہے یعنی اسکا وزن ہوتا ہے جیسے یہاں ی پر تشدید ہے اور اسی سے وزن پورا ہوا ہے)۔
زا ہ را - 212 - فاعلن
طی یَ بہ - 212 - فاعلن (تشدید پھر نوٹ کریں)۔
طا ہ رہ - 212 - فاعلن
جا نِ اح - 212 - فاعلن
مد کِ را - 212 - فاعلن (اخفا)۔
حَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔
تقطیع لکھنے سے پہلے کچھ بات اس بحر کی جس میں یہ خوبصورت سلام ہے۔ اس بحر کا نام 'بحرِ مُتَدارِک' ہے اور یہ ایک مفرد بحر ہے۔ مفرد بحریں وہ ہوتی ہیں جن کے وزن میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ہیں جب کہ مرکب بحروں کے وزن میں مختلف ارکان ہوتے ہیں۔ بحروں کے ارکان پر تفصیلی بحث ایک علیحدہ پوسٹ کی مقتضی ہے سو بعد میں، فی الحال اتنا کہ جیسے اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ بحرِ ہزج میں 'مفاعیلن' چار بار آتا ہے یعنی مفاعیلن رکن ہے بحرِ ہزج کا اور بحرِ ہزج بھی ایک مفرد بحر ہے۔
اسی طرح ہماری آج کی مذکورہ بحر، بحرِ متدارک کا رکن 'فاعِلُن' ہے اور ایک مصرعے میں چار بار آتا ہے۔ فاعلن کو ذرا غور سے دیکھتے ہیں یعنی فا عِ لُن یعنی ایک ہجائے بلند، ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی 2 1 2 فاعلن کی علامتیں ہیں اور اس بحر کے ایک مصرعے کا وزن ہوگا۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اس بحر بلکہ عموماً ہر بحر کے آخری رکن میں تھوڑی سی تبدیلی کی اجازت ماہرین نے دے رکھی ہے اور وہ یہ کہ بحر کے آخری رکن یعنی یہاں پر آخری فاعلن یا آخری 212 کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی اضافے کی اجازت ہے یعنی آخری رکن 212 ہے تو اس پر ایک ہجائے کوتاہ بڑھایا تو یہ 1212 ہو گیا اور رکن فاعِلان ہو گیا یعنی فا2، ع1، لا2، ن1 یوں ایک شعر کے دونوں مصرعوں میں یہ وزن اگر اکھٹے جمع کر دیئے جائیں تو جائز ہے۔
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن
212 212 212 212
اور
فاعِلُن فاعِلُن فاعِلُن فاعِلان
212 212 212 1212
اس عمل یعنی آخری رکن پر ایک ہجائے کوتاہ کے بڑھانے کے عمل کو 'تسبیغ' کہا جاتا ہے اور ابھی اس نعت بلکہ عربی، فارسی، اردو شاعری میں ہر جگہ آپ دیکھیں گے کہ عملِ تسبیغ ایک ایسا عمل یا رعایت ہے جس کے بغیر کسی شاعر کی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔ منطق اس رعایت کی یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اس عمل سے وزن پر کوئی فرق نہیں پڑھتا لیکن شاعروں کو بہت فائدہ ہو جاتا ہے کہ اپنی مرضی کا لفظ آسانی سے لا سکتے ہیں، پھر واضح کر دوں کہ تسبیغ کا عمل کسی بھی بحر کے صرف اور صرف آخری رکن میں جائز ہے اور شروع یا درمیانی اراکین پر یہ جائز نہیں ہے فقط ایک استثنا کے ساتھ کہ 'مقطع' بحروں کے درمیان بھی اسکی اجازت ہوتی ہے لیکن ان بحروں پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت انشاءاللہ۔
اب ہم تقطیع دیکھتے ہیں۔
مُصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
مُص طَ فا - 212 - فاعلن
جا نِ رح - 212- فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (عملِ تسبیغ نوٹ کریں، اور یہ بھی کہ لاکھوں کے کھوں کو عروضی متن میں صرف 'کو' لکھا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ اور دو چشمی ھ، دونوں کا عروض میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور یہ ایک اصول ہے۔)
شَم عِ بز - 212 - فاعلن
مے ہِ دا - 212 - فاعلن (اشباع کا عمل نوٹ کریں یعنی شاعر نے بزمِ کی میم کے نیچے جو اضافت زیر ہے اس کو کھینچ کر 'مے' یعنی ہجائے بلند بنایا ہے کیونکہ بحر کے مطابق یہاں ہجائے بلند یا 2 کی ضرورت تھی)۔
یَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
شہر یارِ ارَم، تاجدارِ حرَم
نو بہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام
شہ ر یا - 212 - فاعلن (شہر کا صحیح تلفظ ہ ساکن کے ساتھ ہے، اکثر لوگ اس کا غلط تلفظ شہَر کرتے ہیں)۔
رے اِ رَم - 212 - فاعلن (اشباع نوٹ کریں)۔
تا ج دا - 212 - فاعلن
رے حَ رَم - 212 - فاعلن (رے میں پھر اشباع نوٹ کریں)۔
نو بَ ہا - 212 - فاعلن
رے شِ فا - 212 - فاعلن (رے میں عملِ اشباع)۔
عت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان (وہی وضاحت ہے جو اوپر گزری)۔
جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
جس کِ سج - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں یعنی کے کی ی شاعر نے گرا دی ہے کہ یہاں پر بحر کے مطابق اسے ہجائے کوتاہ کی ضرورت تھی)۔
دے کُ مح - 212 - فاعلن (اخفا کا عمل نوٹ کریں)۔
را بِ کع - 212 - فاعلن
بہ جُ کی - 212 - فاعلن
ان بَ ؤ - 212 - فاعلن (دو چشمی ھ کا کوئی وزن نہیں اور ؤ کو ہجائے بلند یا ہجائے کوتاہ سمجھنا شاعر کی صوابدید ہے یہاں شاعر نے اسے ہجائے بلند باندھا ہے کہ بحر کا یہی تقاضہ تھا)۔
کی لِ طا - 212 - فاعلن
فَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا
چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
وہ دَ ہن - 212 - فاعلن
جس کِ ہر - 212 - فاعلن (کی میں اخفا کا عمل)۔
با ت وح - 212 - فاعلن
یے خُ دا - 212 - فاعلن (عمل اشباع)۔
چش مَ اے - 212 - فاعلن (ہمزۂ اضافت کو اے تلفظ کر کے ایک ہجائے بلند بنایا ہے کہ بحر میں اسی کی ضرورت تھی)۔
عل م حک - 212 - فاعلن (علم و حکمت کی جو اضافت واؤ ہے شاعر نے اسکا کوئی وزن نہیں لیا اور یہ شاعر کی صوابدید ہے)۔
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
وہ ز با - 212 - فاعلن (نوٹ کریں کہ زبان کی جگہ شاعر نے زباں یعنی نون غنہ استعمال کیا ہے وجہ یہ کہ نون غنہ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اگر یہاں زبان نون معلنہ کے ساتھ ہوتا تو وزن بگڑ جاتا)۔
جس کُ سب - 212 - فاعلن (کو میں عملِ اخفا)۔
کُن کِ کُن - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
جی کَ ہے - 212 - فاعلن
اُس کِ نا - 212 - فاعلن (کی میں عملِ اخفا)۔
فذ حَ کو - 212 - فاعلن
مَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
کُل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
کُل جَ ہا - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاعر نے جہان کی جگہ جہاں کیوں استعمال کیا ہے)۔
مل ک ار - 212 - فاعلن (اور کو ایک ہجائے بلند کے برابر یعنی ار یا 2 بنا لینا شاعر کی صوابدید ہے)۔
جو کِ رو - 212 - فاعلن (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کس لفظ پر اخفا استعمال ہوا ہے اور کیوں)۔
ٹی غَ ذا - 212 - فاعلن
اس شِ کم - 212 - فاعلن
کی قَ نا - 212 - فاعلن
عَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
سیّدہ ، زاہرہ ، طیّبہ ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
سی یَ دہ - 212 - فاعلن (تشدید والا حرف دو بار بولا جاتا ہے سو تقطیع میں جس حرف پر تشدید ہوتی ہے اس کو دو بار لکھا جاتا ہے یعنی اسکا وزن ہوتا ہے جیسے یہاں ی پر تشدید ہے اور اسی سے وزن پورا ہوا ہے)۔
زا ہ را - 212 - فاعلن
طی یَ بہ - 212 - فاعلن (تشدید پھر نوٹ کریں)۔
طا ہ رہ - 212 - فاعلن
جا نِ اح - 212 - فاعلن
مد کِ را - 212 - فاعلن (اخفا)۔
حَت پہ لا - 212 - فاعلن
کو سَ لا م - 1212 - فاعلان
اس خوبصورت نعت کے کچھ اشعار کی تقطیع کے دوران ہم نے کئی چیزیں دیکھیں، سب سے پہلے تو یہی کہ بحر مُتَدارِک ایک مفرد بحر ہے جس میں رکن فاعِلُن کی تکرار ہے، پھر یہ کہ عملِ تسبیغ شاعری کا ایک لازمی جز ہے اور اخفا اور اشباع کا بھی اعادہ ہوا کہ ان کے بغیر بھی شاعری مکمل نہیں ہوتی۔
کسی وضاحت کی صورت میں ضرور لکھیئے گا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
May 26, 2009
علم عروض اور تلفُّظ
تلفظ کی غلطی کوئی بھی کرے، اچھی نہیں لگتی لیکن عموماً اُدَبا و شعراء سے لوگ توقع رکھتے ہیں کہ یہ غلطیاں نہیں کریں گے اور کسی حد تک یہ بات ٹھیک ہے، کیونکہ کوئی بھی زبان ادیبوں اور شاعروں کے ہاتھوں ہی پروان چڑھتی ہے اور وہ ہی اسکے نگبہان بھی ہوتے ہیں۔ ادیبوں یا نثر نگاروں کو شاعروں کے مقابلے میں ایک چھُوٹ یہ ہوتی ہے کہ انکی تحریر کی جانچ ہمیشہ موضوعی یعنی subjective ہوتی ہے لیکن شعراء کے کلام یا منظومے کی ایک جانچ معروضی objective طور پر یعنی دو جمع دو چار کے کُلیے پر ہوتی ہے جسے تقطیع کہا جاتا ہے اور عام ماہرینِ فن کو فوری علم ہوجاتا ہے کہ شاعر نے کسی لفظ کو ادا کرنے میں کہاں غلطی کی ہے جب کہ دوسری طرف کوئی نثر نگار صرف اسی وقت پکڑا جا تا ہے جب وہ اپنی زبان کھولتا ہے۔
تَلَفُّظ کی غلطیاں عموماً دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن میں کسی حرکت کو غلط ادا کیا جائے جیسے بادَل کہ دال پر زبر ہے، اس کو بادِل دال کی زیر کے ساتھ بول دیا جائے اور دوسری وہ جن میں کسی ساکن حرف کی جگہ متحرک حرف بولا جائے جیسے صبر کہ اس میں بے ساکن ہے کو صبَر بولا جائے یا متحرک کی جگہ ساکن حرف ادا کیا جائے، جیسے غلَط کہ اس میں لام پر زبر ہے کو غلط لام ساکن کے ساتھ بولا جائے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں طرح کی غلطیوں سے کسی منظومے یا شاعر کے کلام پر کیا فرق پڑ سکتا ہے۔
اول حرکت کا بدل دینا، شاعر کو کسی لفظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو یا نہ، یہ غلطی اس وقت تک اسکے سر نہیں جاتی جب تک وہ خود کسی مشاعرے یا ویسے پڑھنے میں غلط تلفظ نہ ادا کرے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وزن دراصل ہجوں کی ترتیب کا نام ہے یعنی ہجائے بلند کی جگہ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ، یعنی کسی لفظ کی غلط حرکت ادا کرنے سے اسکے وزن پر فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر لفظ بادل کو ہی دیکھتے ہیں، اسکا صحیح تلفظ بادَل اور وزن 2 2 ہے لیکن اگر کسی شاعر کو اسکے صحیح تلفظ کا علم نہیں ہے اور اس نے اپنی طرف سے اسے 'بادِل' باندھ دیا ہے تو وزن پر پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑا کہ یہ بھی 22 ہے۔
لیکن فرض کریں کہ ایک شاعر ایک غزل کہتا ہے جسکے قوافی، محفِل، قاتِل، دِل وغیرہ ہیں، اس میں اگر وہ 'بادِل' غلط تلفظ کے ساتھ قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر اس کیلیے کوئی رعایت نہیں ہے یا بادل، آنچل، جنگل کے ساتھ محفِل کو محفَل سمجھ کر قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر یہ بھی ایک فاش غلطی ہے اور کوئی بھی قاری کسی شاعر سے اس چیز کی توقع نہیں رکھتا۔
دوسری طرف اگر ساکن اور متحرک کی جگہ بدل دی جائے تو زمین و آسمان زیر و زبر ہو جاتے ہیں، مثلاً صبر، ب ساکن کے ساتھ کا وزن صب،ر یعنی 2 1 ہے لیکن اسے صَ بَر باندھنے سے اسکا وزن 1 2 ہو جائے گا یعنی ہجوں کی ترتیب بدل جائے گی سو وزن نہیں رہے گا اور شاعر چاہے زبان کھولے یا نہ کھولے بہرطور 'پکڑا' جائے گا۔ اسی طرح اگر 'غَلَط' یعنی غَ لَط کو غل،ط باندھا جائے گا تو وزن پھر بدل جائے گا اور شعر پھر بے وزن ہو جائے گا۔
ان غلطیوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے، بہت آسان ہے، اوّل تو آپ کے پاس ایک اچھی اردو لغت ہونی چاہیئے جس میں تلفظ واضح کیا گیا ہو، دوسرا یہ کہ جس لفظ کے تلفظ کے بارے میں ذرا بھی شک ہو اس کو اس وقت تک شاعری میں استعمال نہ کریں جب تک اس کی کوئی سند نہ حاصل کر لیں یعنی جب تک اسے معیاری لغت میں نہ دیکھ لیں یا کسی استاد شاعر کے کلام میں تقطیع کر کے اس کا صحیح وزن نہ معلوم ہو جائے۔ ویسے عرض کرتا چلوں کہ تقطیع کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے الفاظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو جاتا ہے کم از کم ساکن اور متحرک حروف کی حد تک۔ رومن حروف میں اردو لکھنے سے مجھے چڑ ہے بلکہ نفرت ہے لیکن اسکا ایک فائدہ ایسا ہے کہ عرصے سے میں اسکا قتیل ہوں اور مستند رومن اردو لکھی ہوئی اگر کہیں مل جائے تو کوشش ضرور کرتا ہوں پڑھنے کی کہ اس سے تلفظ بالکل واضح اور صاف ہو جاتا ہے اس پر طرہ یہ ہے کہ اگر کسی کو دو چار پیرے اگر رومن اردو میں لکھنے پڑ جائیں تو 'لگ پتا جاتا ہے' کیونکہ اس میں غلطی فوری پکڑی جاتی ہے، مثلا ایک فورم کی ڈومین میں نے alqalm لکھی دیکھی ہے جو کہ سراسر غلط ہے یہ ان کی کوئی 'مجبوری' بھی ہو سکتی ہے لیکن بہرحال اس پائے کے فورم پر ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیئے۔
ایک عام بات جو میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ پاکستانی احباب بالعموم اور پنجابی احباب بالخصوص ان مختصر الفاظ کے تلفظ میں غلطی کرتے ہیں جن میں دوسرا حرف ساکن ہے۔
جیسے یہ الفاظ، برف، گرم، نرم، شرم، جُرم، سرد، فرد، مرد، صبر، قبر، جبر، حشر، لطف، حمل، وزن، علم (جاننا)، عقل، عرش، فرش، سبز، سرخ، زرد وغیرہ وغیرہ
کہ ان سب میں دوسرا حرف ساکن ہے لیکن عموماً ہمیں اپنے ارد گرد (اور میڈیا پر بھی) انکا غلط تلفظ دوسرے حرف پر زبر کے ساتھ سننے کو ملتا ہے جو کہ طبعِ لطیف پر بہت گراں گزرتا ہے اور شعر میں اس قسم کی غلطی ہونا تو ناقابلِ معافی ہے، اساتذہ ایسے موقعے اصلاح دیتے ہیں کہ برخوردار پہلے کچھ اور مطالعہ کر لو اور بزرگوں کی صحبتوں سے فیضیاب ہو لو تو پھر شاعری کرنا، لیکن یہ بات فقط کہنے کی حد تک ہے، تھوڑے سے تردد اور تھوڑی سی 'کامن سینس' سے ہر مشکل کا حل مل جاتا ہے۔
----تَلَفُّظ کی غلطیاں عموماً دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن میں کسی حرکت کو غلط ادا کیا جائے جیسے بادَل کہ دال پر زبر ہے، اس کو بادِل دال کی زیر کے ساتھ بول دیا جائے اور دوسری وہ جن میں کسی ساکن حرف کی جگہ متحرک حرف بولا جائے جیسے صبر کہ اس میں بے ساکن ہے کو صبَر بولا جائے یا متحرک کی جگہ ساکن حرف ادا کیا جائے، جیسے غلَط کہ اس میں لام پر زبر ہے کو غلط لام ساکن کے ساتھ بولا جائے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں طرح کی غلطیوں سے کسی منظومے یا شاعر کے کلام پر کیا فرق پڑ سکتا ہے۔
اول حرکت کا بدل دینا، شاعر کو کسی لفظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو یا نہ، یہ غلطی اس وقت تک اسکے سر نہیں جاتی جب تک وہ خود کسی مشاعرے یا ویسے پڑھنے میں غلط تلفظ نہ ادا کرے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وزن دراصل ہجوں کی ترتیب کا نام ہے یعنی ہجائے بلند کی جگہ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ، یعنی کسی لفظ کی غلط حرکت ادا کرنے سے اسکے وزن پر فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر لفظ بادل کو ہی دیکھتے ہیں، اسکا صحیح تلفظ بادَل اور وزن 2 2 ہے لیکن اگر کسی شاعر کو اسکے صحیح تلفظ کا علم نہیں ہے اور اس نے اپنی طرف سے اسے 'بادِل' باندھ دیا ہے تو وزن پر پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑا کہ یہ بھی 22 ہے۔
لیکن فرض کریں کہ ایک شاعر ایک غزل کہتا ہے جسکے قوافی، محفِل، قاتِل، دِل وغیرہ ہیں، اس میں اگر وہ 'بادِل' غلط تلفظ کے ساتھ قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر اس کیلیے کوئی رعایت نہیں ہے یا بادل، آنچل، جنگل کے ساتھ محفِل کو محفَل سمجھ کر قافیہ باندھ دیتا ہے تو پھر یہ بھی ایک فاش غلطی ہے اور کوئی بھی قاری کسی شاعر سے اس چیز کی توقع نہیں رکھتا۔
دوسری طرف اگر ساکن اور متحرک کی جگہ بدل دی جائے تو زمین و آسمان زیر و زبر ہو جاتے ہیں، مثلاً صبر، ب ساکن کے ساتھ کا وزن صب،ر یعنی 2 1 ہے لیکن اسے صَ بَر باندھنے سے اسکا وزن 1 2 ہو جائے گا یعنی ہجوں کی ترتیب بدل جائے گی سو وزن نہیں رہے گا اور شاعر چاہے زبان کھولے یا نہ کھولے بہرطور 'پکڑا' جائے گا۔ اسی طرح اگر 'غَلَط' یعنی غَ لَط کو غل،ط باندھا جائے گا تو وزن پھر بدل جائے گا اور شعر پھر بے وزن ہو جائے گا۔
ان غلطیوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے، بہت آسان ہے، اوّل تو آپ کے پاس ایک اچھی اردو لغت ہونی چاہیئے جس میں تلفظ واضح کیا گیا ہو، دوسرا یہ کہ جس لفظ کے تلفظ کے بارے میں ذرا بھی شک ہو اس کو اس وقت تک شاعری میں استعمال نہ کریں جب تک اس کی کوئی سند نہ حاصل کر لیں یعنی جب تک اسے معیاری لغت میں نہ دیکھ لیں یا کسی استاد شاعر کے کلام میں تقطیع کر کے اس کا صحیح وزن نہ معلوم ہو جائے۔ ویسے عرض کرتا چلوں کہ تقطیع کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے الفاظ کے صحیح تلفظ کا علم ہو جاتا ہے کم از کم ساکن اور متحرک حروف کی حد تک۔ رومن حروف میں اردو لکھنے سے مجھے چڑ ہے بلکہ نفرت ہے لیکن اسکا ایک فائدہ ایسا ہے کہ عرصے سے میں اسکا قتیل ہوں اور مستند رومن اردو لکھی ہوئی اگر کہیں مل جائے تو کوشش ضرور کرتا ہوں پڑھنے کی کہ اس سے تلفظ بالکل واضح اور صاف ہو جاتا ہے اس پر طرہ یہ ہے کہ اگر کسی کو دو چار پیرے اگر رومن اردو میں لکھنے پڑ جائیں تو 'لگ پتا جاتا ہے' کیونکہ اس میں غلطی فوری پکڑی جاتی ہے، مثلا ایک فورم کی ڈومین میں نے alqalm لکھی دیکھی ہے جو کہ سراسر غلط ہے یہ ان کی کوئی 'مجبوری' بھی ہو سکتی ہے لیکن بہرحال اس پائے کے فورم پر ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیئے۔
ایک عام بات جو میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ پاکستانی احباب بالعموم اور پنجابی احباب بالخصوص ان مختصر الفاظ کے تلفظ میں غلطی کرتے ہیں جن میں دوسرا حرف ساکن ہے۔
جیسے یہ الفاظ، برف، گرم، نرم، شرم، جُرم، سرد، فرد، مرد، صبر، قبر، جبر، حشر، لطف، حمل، وزن، علم (جاننا)، عقل، عرش، فرش، سبز، سرخ، زرد وغیرہ وغیرہ
کہ ان سب میں دوسرا حرف ساکن ہے لیکن عموماً ہمیں اپنے ارد گرد (اور میڈیا پر بھی) انکا غلط تلفظ دوسرے حرف پر زبر کے ساتھ سننے کو ملتا ہے جو کہ طبعِ لطیف پر بہت گراں گزرتا ہے اور شعر میں اس قسم کی غلطی ہونا تو ناقابلِ معافی ہے، اساتذہ ایسے موقعے اصلاح دیتے ہیں کہ برخوردار پہلے کچھ اور مطالعہ کر لو اور بزرگوں کی صحبتوں سے فیضیاب ہو لو تو پھر شاعری کرنا، لیکن یہ بات فقط کہنے کی حد تک ہے، تھوڑے سے تردد اور تھوڑی سی 'کامن سینس' سے ہر مشکل کا حل مل جاتا ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)