Showing posts with label فارسی شاعری. Show all posts
Showing posts with label فارسی شاعری. Show all posts

Jun 18, 2010

مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم - جاوید نامہ از علامہ اقبال سے ایک اقتباس

زندہ رود (علامہ اقبال) کا افلاک کا سفر پیر رومی کی معیت میں جاری ہے اور انکے ساتھ ساتھ ہمارا بھی۔ اس سے پہلے کی دو پوسٹس میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ فلکِ قمر پر علامہ نبوت کی چار تعلیمات (طواسین) دیکھتے ہیں اور وہیں علامہ نے "طاسینِ محمد (ص)" کے تحت حرمِ کعبہ میں ابوجہل کی روح کا نوحہ لکھا ہے۔

فلکِ قمر سے رومی و علامہ، فلکِ عطارد پر پہنچتے ہیں اور وہاں سید جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح کی زیارت کرتے ہیں۔ کافی دلچسپ حصہ ہے اور علامہ ان دونوں مصلحان سے اسلامی اور عالمی امور پر گفتگو کرتے ہیں جیسے اشتراکیت و ملوکیت، محکماتِ عالمِ قرآنی، خلافتِ آدم، حکومت الٰہی وغیرہ۔ اسکے علاوہ روسی قوم کے نام جمال الدین افغانی کا ایک پیغام بھی اس حصے میں شامل ہے۔

فلکِ عطارد سے علامہ اور انکے راہبر پیرِ رومی، فلکِ زہرہ کی طرف پرواز کر جاتے ہیں، اور یہی حصہ ہماری اس پوسٹ کا موضوع ہے۔ فلکِ زہرہ کا تعارف کرواتے ہوئے، رومی علامہ سے فرماتے ہیں۔

اندروں بینی خدایانِ کہن
می شناسم من ہمہ را تن بہ تن

یہاں، زہرہ کے اندر، تُو قدیم خداؤں کو دیکھے گا اور میں ان سب کو ایک ایک کر کے پہچانتا ہوں۔

اور وہ خدا کون کون سے تھے

بعل و مردوخ و یعوق و نسر و فسر
رم خن و لات و منات و عسر و غسر

یہ سب بتوں کے نام ہیں جو قدیم عرب، بابل اور مصر کے معبود و خدا تھے

رومی، علامہ کی معلومات میں مزید اضافہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ

بر قیامِ خویش می آرد دلیل
از مزاجِ ایں زمانِ بے خلیل

یہ سارے مرے اور مٹے ہوئے معبود ایک بار پھر اپنے قیام یعنی زندہ ہونے پر موجودہ زمانے کے مزاج سے جو کہ بغیر خلیل (ع) کے ہے، دلیل لاتے ہیں یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں کوئی بُت شکن نہیں ہے سو ہم پھر سے زندہ ہو گئے ہیں۔

اس تمہید کے بعد رومی علامہ کو زہرہ کے اندر لے جاتے ہیں، اس موقع پر علامہ نے زہرہ کی فضا کی نقشہ کشی دلپذیر انداز میں کی ہے، اور وہاں وہ ایک مجلس دیکھتے ہیں، "مجلسِ خدایانِ اقوامِ قدیم" یعنی قدیم اقوام کے خداؤں کے مجلس۔ علامہ مجلس کی نقشہ کشی کرنے کے بعد اس مجلس کے اراکین کا تعارف کچھ یوں کرواتے ہیں۔

اندریں وادی خدایانِ کہن
آں خدائے مصر و ایں رب الیمن

اس وادی کے اندر پرانے خدا تھے، وہ اگر مصر والوں کا خدا تھا تو یہ یمن والوں کا رب۔

آں ز اربابِ عرب ایں از عراق
ایں الہ الوصل و آں رب الفراق

کوئی عرب والوں کے خداؤں میں سے تھا تو کوئی عراق والوں کے، کوئی وصال (صلح و امن) کا الہ تھا تو کوئی فراق (جنگ و جدل) کا خدا۔

ایں ز نسلِ مہر و دامادِ قمر
آں بہ زوجِ مشتری دارد نظر

کوئی سورج کی نسل میں سے تھا (سوریہ ونشی) تو کوئی چاند کا داماد تھا اور کسی نے مشتری سے شادی کرنے پر نظر رکھی ہوئی تھی یعنی مشتری کا چاہنے والا دیوتا تھا۔

آں یکے در دستِ اُو تیغِ دو رو
واں دگر پیچیدہ مارے در گلو

ایک کے ہاتھ میں دو منہ والی تلوار تھی تو دوسرے نے سانپ اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے تھے۔

ہر یکے ترسندہ از ذکرِ جمیل
ہر یکے آزردہ از ضربِ خلیل

لیکن یہ سب کے سب ذکرِ جمیل یعنی ذکرِ حق سے ڈرے ہوئے تھے اور ضربِ خلیل (ع) ) سے آزردہ خاطر تھے کہ اس ضرب نے ان کو پاش پاش کر دیا تھا۔

اسی منظر کی نقشہ کشی جمی انجنیئر نے بھی کی ہے، جو کہ اقبال اکادمی کے شائع کردہ جاوید نامہ ڈیلکس ایڈیشن میں شامل ہے، وہ ملاحظہ کیجیئے، بڑی تصویر دیکھنے کیلیے اس پر کلک کیجیے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی

اب اس تعارف کے بعد، اس مجلس کی کچھ روداد بھی سنیے۔

گفت مردوخ، آدم از یزداں گریخت
از کلیسا و حرم نالاں گریخت

مردوخ نے کہا، (آج کا آدمی) خدا سے دُور بھاگ گیا ہے، وہ کلیسا اور حرم یعنی مذہب سے نالہ و فریاد (یعنی اسکی برائیاں) کرتا ۔ہوا نکل آیا ہے

تا بیَفزایَد بہ درّاک و نظر
سوئے عہدِ رفتہ باز آید نگر

یہ آدمی (اس امید میں کہ) اپنے ادراک و عقل و سمجھ و نطر کو فزوں کرے یعنی بڑھائے، دیکھو گزرے ہوئے یعنی ہمارے عہد کی طرف دوبارہ واپس آ رہا ہے۔

می برد لذّت ز آثارِ کہن
از تجلی ہائے ما دارد سخن

وہ پرانے آثار سے لذت حاصل کر رہا ہے، اور ہماری تجلیوں کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے۔

روزگار افسانۂ دیگر کشاد
می وزد زاں خاکداں بادِ مراد

اس زمانے نے ایک اور افسانے کا باب کھولا ہے، اور اس خاکدان سے ہمارے لیے بادِ مراد آ رہی ہے یعنی یہ زمانہ ہمارے لیے سازگار ہو رہا ہے۔

بعل از فرطِ طرب خوش می سرود
بر خدایاں راز ہائے ما کشود

بعل (مرودوخ کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور) فرطِ خوشی میں نغمہ گانے لگا اور ان خداؤں پر ہمارے یعنی موجودہ انسان کے راز کھولنے لگا۔

اب نغمۂ بعل بھی سن لیجیے

نغمۂ بعل
پہلا پند

آدم ایں نیلی تتق را بر درید
آں سوئے گردوں خدائے را ندید

انسان نے اس آسمان کو تو پھاڑ ڈالا ہے یعنی ستاروں تک پہنچ رہا ہے لیکن اُس نے آسمان کی دوسری طرف خدا کو نہیں دیکھا۔

در دلِ آدم بجز افکار چیست
ہمچو موج ایں سر کشید و آں رمید

انسان کے دل میں افکار کے سوا اور کچھ نہیں ہے، اور بھی سب عارضی کہ موج کی طرح سر اٹھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

جانش از محسوس می گیرد قرار
بو کہ عہدِ رفتہ باز آید پدید

اُس کی جان صرف محسوسات یعنی حواسِ خمسہ ہی سے چین و قرار پاتی ہے اور اس وجہ سے پوری امید ہے کہ گزرا ہوا دور یعنی ہمارا عہد واپس آ جائے گا۔

زندہ باد افرنگیِ مشرق شناس
آں کہ ما را از لحد بیروں کشید

مشرق کے مزاج کو پہچانچے والا فرنگی زندہ رہے کہ اس نے ہمیں ہماری قبروں سے باہر کھینچ لیا ہے یعنی پھر سے زندہ کر دیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

دوسرا بند

در نگر آں حلقۂ وحدت شکست
آلِ ابراہیم بے ذوقِ الست

دیکھو، وہ توحید کا حلقہ ٹوٹ گیا ہے، آلِ ابراہیم الست کے ذوق کے بغیر ہے، تلمیح ہے آیت الست بربکم (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں) کی طرف۔

صحبتش پاشیدہ، جامش ریز ریز
آن کہ بود از بادۂ جبریل مست

اُس کی محفل پراگندہ اور اسکے جام ریزہ ریزہ ہیں، وہ کہ جو کبھی بادۂ جبریل سے مست تھا۔

مردِ حر افتاد در بندِ جہات
با وطن پیوست و از یزداں گسست

آزاد مرد جہات (حواسِ خمسہ) کی قید میں جکڑا ہوا ہے، وہ وطن سے جڑ گیا ہے اور خدا سے جدا ہو گیا ہے۔

خونِ اُو سرد از شِکوہِ دیریاں
لا جرم پیرِ حرم زنار بست

اُس کا خون دیر والوں (کافروں) کی شان و شوکت سے سرد ہو چکا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ پیرِ حرم نے زنار پہن لیا ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

تیسرا بند

در جہاں باز آمد ایّامِ طرب
دیں ہزیمت خوردہ از ملک و نسب

دنیا میں ہماری خوشی کا دور پھر واپس آ گیا ہے، دین نے ملک و نسب سے شکست کھا لی ہے۔

از چراغِ مصطفیٰ اندیشہ چیست؟
زاں کہ او را پف زند صد بولہب

اب ہمیں چراغِ مصطفیٰ (یعنی اسلام سے) کیا ڈر اور خطرہ کہ اس چراغ کو بجھانے کیلیے سینکڑوں ابولہب پھونکیں مار رہے ہیں۔

گرچہ می آید صدائے لا الہٰ
آں چہ از دل رفت کے ماند بہ لب

اگرچہ ابھی تک لا الہٰ کی صدا آ رہی ہے لیکن جو دل سے چلا گیا ہے وہ لب پر بھی کب تک رہے گا۔

اہرمن را زندہ کرد افسونِ غرب
روزِ یزداں زرد رو از بیمِ شب

مغرب کے جادو نے اہرمن (شیطان) کو زندہ کر دیا ہے، اور خدا کا دن رات کے خوف سے زرد ہے۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

چوتھا بند

بندِ دیں از گردنش باید کشود
بندۂ ما بندۂ آزاد بود

اُس یعنی مسلمانوں کی گردن سے دین کا پھندا کھول دینا چاہیئے کیونکہ ہمارا بندہ تو آزاد بندہ تھا اور یہ مخلتف قیود و حدود میں جکڑے ہوئے ہیں۔

تا صلوٰۃ او را گراں آید ہمے
رکعتے خواہیم و آں ہم بے سجود

چونکہ اس کیلیے نماز ایک کارِ گراں اور بوجھ بن چکی ہے سو ہم چاہتے ہیں کہ اس کیلیے ایک ہی رکعت ہو اور وہ بھی بغیر سجدے کے۔

جذبہ ہا از نغمہ می گردد بلند
پس چہ لذت در نمازِ بے سرود

چونکہ نغمہ و موسیقی سے جذبات بلند ہوتے ہیں سو اس نماز میں کیا لذت ہوگی جس میں راگ رنگ نہ ہو (سو ہماری نماز میں راگ رنگ بھی شامل ہوگا)۔

از خداوندے کہ غیب او را سزد
خوشتر آں دیوے کہ آید در شہود

اُس خدا سے جو غیب میں رہنا پسند کرتا ہے، (انسانوں کیلیے) وہ دیوتا زیادہ بہتر ہے جو سامنے اور مشاہدے میں ہو۔

اے خدایانِ کہن وقت است وقت
سو اے پرانے خداؤ (یہی) وقت ہے وقت ہے (تمھارے عروج کا)۔

یہاں علامہ اور انکے راہبر پیر رومی اس مجلس کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں اور فلکِ زہرہ کے دریا میں اترتے ہیں اور وہاں حضرت موسیٰ والے فرعون اور فیلڈ مارشل ہربرٹ کچنر کی روحوں کو دیکھتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہین۔ لارڈ کچنر ایک مشہور اور متنازعہ انگریز جنرل تھا جس نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشہور مجاہد مہدی سوڈانی کی قبر کھود ڈالی اور لاش کو سزا دی۔

اس ملاقات میں اسی واقعے کے متعلق باتیں ہیں لیکن ہم یہاں اس خوبصورت مجلس سے جدا ہوتے ہیں اس وعدے کے ساتھ کہ اس محفل میں پھر حاضر ہونگے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 6, 2010

شیخ فخر الدین عراقی کی ایک غزل - دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم

شیخ فخر الدین عراقی نامور صوفی شاعر تھے، انکے کچھ حالات اور ایک غزل پہلے لکھ چکا ہوں، انکی ایک اور خوبصورت غزل لکھ رہا ہوں۔

دلے یا دلبرے، یا جاں و یا جاناں، نمی دانم
ہمہ ہستی تو ای فی الجملہ ایں و آں نمی دانم

تُو دل ہے یا دلبر، تُو جان ہے یا جاناں، میں نہیں جانتا۔ ہر ہستی و ہر چیز تو تُو ہی ہے، میں یہ اور وہ کچھ نہیں جانتا۔

بجز تو در ہمہ عالم دگر دلبر نمی دانم
بجز تو در ہمہ گیتی دگر جاناں نمی دانم

سارے جہان میں تیرے علاوہ میں اور کسی دلبر کو نہیں جانتا، ساری دنیا میں تیرے علاوہ میں اور کسی جاناں کو نہیں پہچانتا۔

بجز غوغائے عشقِ تو، درونِ دل نمی یابم
بجز سودائے وصلِ تو، میانِ جاں نمی دانم

تیرے عشق کے جوش و خروش کے علاوہ میں اپنے دل میں کچھ اور نہیں پاتا، تیرے وصل کے جنون کے علاوہ میں اپنی جان میں کچھ اور نہیں دیکھتا۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Fakhruddin Iraqi, شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqi
مرا با توست پیمانے، تو با من کردہ ای عہدے
شکستی عہد، یا ہستی بر آں پیماں؟ نمی دانم
میرے ساتھ تیرے پیمان ہیں اور تو نے میرے ساتھ عہد کیے، تُو نے اپنے عہد توڑ دیے یا ابھی تک انہی پر ہے، میں کچھ نہیں جانتا، یعنی مجھے اس سے غرض نہیں ہے، عشق میں عہد و پیمان کچھ معنی نہیں رکھتے۔

بہ اُمّیدِ وصالِ تو دلم را شاد می دارم
چرا دردِ دلِ خود را دگر درماں نمی دانم؟

تیرے وصال کی امید سے اپنے دل کو شاد رکھتا ہوں، میں اسی لیے اپنے دل کے درد کیلیے کوئی اور درمان نہیں ڈھونڈتا، یعنی صرف اور صرف تیرے وصل کی امید ہی دردِ دل کا پہلا اور آخری علاج ہے۔

نمی یابم تو را در دل، نہ در عالم، نہ در گیتی
کجا جویم تو را آخر منِ حیراں؟ نمی دانم

مجھ (ہجر کے مارے) کو نہ تُو دل میں ملتا ہے اور نہ جہان و کائنات میں، میں حیران (و پریشان) نہیں جانتا کہ آخر تجھ کو کہاں ڈھونڈوں؟ شاعر کا حیران ہونا ہی اس شعر کا وصف ہے کہ یہیں سے سارے راستے کھلیں گے۔

عجب تر آں کہ می بینم جمالِ تو عیاں، لیکن
نمی دانم چہ می بینم منِ ناداں؟ نمی دانم

یہ بھی عجیب ہے کہ تیرا جمال ہر سُو اور ہر طرف عیاں دیکھتا ہوں، اور میں نادان یہ بھی نہیں جانتا کہ کیا دیکھ رہا ہوں۔

ھمی دانم کہ روز و شب جہاں روشن بہ روئے توست
و لیکن آفتابے یا مہِ تاباں؟ نمی دانم

یہ جانتا ہوں کہ جہان کے روز و شب تیرے ہی جمال سے روشن ہیں لیکن یہ نہیں جانتا کہ تو سورج ہے یا تابناک چاند۔ یہ شعر اور اس سے قبل کے دو اشعار قطعہ محسوس ہوتے ہیں۔

بہ زندانِ فراقت در عراقی پائے بندم شد
رہا خواہم شدن یا نے؟ ازیں زنداں، نمی دانم

عراقی کے پاؤں ہجر کے قید خانے میں بندھے ہوئے ہیں، اور اس قید سے رہا ہونا بھی چاہتا ہوں یا نہیں، نہیں جانتا۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 27, 2010

پطرس بخاری کی ایک غزل - ہم آں داغے کہ بَر دل از تو دارَم حرزِ جانم شد

سید احمد شاہ (پطرس) بخاری یوں تو اپنے مضامین کی وجہ سے اردو ادب میں زندہ و جاوید ہو گئے ہیں لیکن مرحوم ایک نابغۂ روزگار اور ہمہ جہتی و سیمابی شخصیت کے مالک تھے۔ نچلا بیٹھنا انکی سرشت میں ہی نہیں تھا اور بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرا جانا انکی عادتِ ثانیہ تھی۔ تقسیمِ برصغیر سے پہلے"نیازمندانِ لاہور" کے نام سے ایک گروپ بنا کر اور یو پی کے قلمکاروں سے خوب خوب ٹکر لے کر، اردو کے سب سے بہترین مرکز کے طور پر لاہور کی برتری، یو پی اور حیدر آباد (دکن) پر ثابت کرتے رہے۔ "ضربِ کلیم" میں علامہ کی ایک خوبصورت نظم ہے "ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام"، اقبال کے شارحین اس نظم کے سیاق و سباق میں عموماً یہ تو لکھتے ہیں کہ یہ نظم علامہ نے ایک فلسفے کے شائق سید کے ساتھ گفتگو کے بعد لکھی تھی لیکن اس "سید زادے" کا نام نہیں لکھتے۔ اس راز سے پردہ، مرحوم محمد طفیل، مدیرِ نقوش نے اپنی کتاب "جناب" میں پطرس پر خاکہ لکھتے ہوئے ان الفاظ میں اٹھایا ہے۔

"ایک دفعہ اقبال اور پطرس کی برگساں کے فلسفے پر بات چل نکلی، باتیں ہوئیں۔ دلیلیں لیں اور دیں، کوئی بھی قائل نہ ہوا، بالآخر اقبال چپ ہو گئے، جب پطرس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم پطرس کے بارے میں کہی جسکا عنوان" ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام" تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کیجیئے اقبال پطرس کے بارے میں نظم کہتے ہیں، اقبال اس وقت اپنے عروج کی آخری بلندیوں پہ تھے اور پطرس بلندیوں کی طرف ہمک رہے تھے مگر حوصلہ دیکھیئے، پہاڑ سے ٹکر لے لی۔"

یہ تو خیر انکی "جراتِ رندانہ" کا ایک واقعہ تھا، لیکن ان کا "شوقِ فضول" انکے مضامین کی شکل میں، اس "منزلِ مُراد" پر پہنچنے کا واضح اشارہ ہے جس کا ذکر غالب نے اپنے شعر کے مصرعِ اولیٰ میں کیا ہے۔ پطرس کو سب سے خوبصورت خراجِ تحسین بھی شاید محمد طفیل ہی نے پیش کیا ہے، لکھتے ہیں "مرحوم انگریزی اتنی جانتے تھے جتنی سارے پاکستانی مل کر جانتے ہیں اور اردو جتنی جانتے تھے اتنی اردو کے سارے پروفیسر مل کر بھی نہیں جانتے، اگر کسی پروفیسر کو میرا تبصرہ برا لگے تو وہ مرحوم جیسا ایک جملہ لکھ کر تو دیکھے"۔

یادگارِ پطرس کے طور پر تبرکاً اپنے اس ہیچ مایہ بلاگ کو انکی ایک خوبصورت فارسی غزل سے سجا رہا ہوں۔

ہم آں داغے کہ بَر دل از تو دارَم حرزِ جانم شد
ہم آں چشمے کہ نامِندَش سخن گو، راز دارم شد

اُن تمام داغوں کو جو میرے دل پر تیرے عطا کردہ تھے میں نے بہت احتیاط سے (چھپا چھپا کر) رکھا، وہ آنکھ بھی جسے سخن گو (راز فاش کرنے والی) کہا جاتا ہے میری راز داں تھی (محبت کا راز فاش نہیں کرتی تھی)۔

دِلے بُود و در آغوشَم نگنجید و جہانم شد
خیالے داشتم از سرگزشت و آسمانم شد

ایک دل تھا اور جب وہ ہمارے پہلو میں نہ سمایا تو جہان بن گیا، اور اپنی (مظلوم و محروم) سرگزشت کا خیال آیا تو وہ (بے رحم) آسمان بن گیا۔

مپرس اے داورِ محشر، چہ می پرسی، چہ می پرسی
نگاہِ حسرت آلایم کہ می بینی، بیانم شد

اے داورِ محشر نہ پوچھ، تو مجھ سے کیا پوچھنا چاہتا ہے؟ (میں کیا بتاؤں) کہ میری حسرت آلایم نگاہ جو تو دیکھ رہا ہے وہی میرا بیان بن گئی ہے یعنی میری حسرت و یاس بھری آنکھوں میں دیکھ لے تجھے اپنے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Patras Bokhari, پطرس بخاری
سیّد احمد شاہ پطرس بخاری
Patras Bokhari
نگہ دزدیدہ افگندی بدِل چوں رازِ جاں دارم
نظر کردی بہ بے باکی و فصلِ داستانم شد

تیری دزدیدہ نگاہ جو دل پر پڑی تو میں نے اسے رازِ جاں بنا لیا، تو نے بیباکی سے دیکھا تو وہ ہماری داستان کا ایک باب بن گیا۔

دگر قدحِ جنوں در دہ کہ ہم در منزلِ اوّل
خیالِ وحشَتَم واماند و گردِ کاروانَم شد

اے قضا و قدر کے کارکنوں، جنون کا ایک اور جام مجھے دو کہ پہلی منزل میں ہی، میری وحشت کا خیال واماندہ (خستہ، کم) ہوا اور میں کارواں کی گرد بن گیا۔

پطرس بخاری کی تخلیقات اس ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں، اس پوسٹ میں شامل تصویر بھی اسی سائٹ سے لی ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 22, 2010

وای آں دل کہ در آں مہرِ بلوچاں نَبوَد - ضیا بلوچ صاحب کی ایک غزل

ضیا بلوچ صاحب، فیس بُک پر ہمارے دوست ہیں، انکی ایک خوبصورت فارسی غزل شیئر کر رہا ہوں۔ مطلع انہوں نے اپنے مخصوص پس منظر میں کہا ہے لیکن دیگر اشعار انتہائی خوبصورت ہیں، شعریت اور تغزل سے بھرپور۔ میں نے یہ غزل فیس بُک پر پڑھی تو بہت پسند آئی اور اس کو شیئر کرنے کی اجازت بھی ان سے حاصل کر لی۔ ترجمہ بھی انہوں نے خود ہی کیا ہوا تھا، سو میرا کام بھی آسان ہوا۔

وای آں دل کہ در آں مہرِ بلوچاں نَبوَد
مردہ آں تن کہ فدای رہِ بولاں نبود

افسوس اُس دل پر جس میں بلوچوں کیلیے مہر نہیں ہے، اُس شخص کا شمار مردوں میں ہے جو بولان کی راہ میں فدا نہ ہوا۔


کور چشمی کہ نگاہی بہ رُخِ غم نکند
تیرہ قلبی کہ در آں درد فروزاں نبود

وہ آنکھ اندھی ہے جسے غم دکھائی نہ دے، وہ دل تاریک ہے جس میں درد فروزاں نہیں ہوتا۔


دوش در میکدۂ عشق شنیدم سخنی
نیست سوزی کہ تہِ شیشۂ رنداں نبود
کل رات عشق کے میخانے میں، میں نے یہ بات سنی کہ کوئی ایسا سوز نہیں ہے جو رندوں کے شیشے (دل) میں نہیں ہے۔


ز تب و تابِ نگاہت نہ درخشد رُخِ دوست
تا دلِ تو، چو ستارہ، سرِ مژگاں نبود
تیری نگاہ کی تب و تاب سے دوست کا چہرہ نہیں دمکتا جب تک کہ تیرا دل ستارے کی مانند پلکوں پر روشن نہ ہو۔


نبود مہرِ جہاں تاب کُلاہِ مجنوں
چاکِ دامان اگر تا بہ گریباں نبود
سورج کسی دیوانے کی سر کی زینت نہیں بنتا اگر اس کے دامن کا چاک گریباں تک نہ پہنچے۔


حیف صد حیف بر آں غنچۂ لب بستہ ضیا
کز نفَسہای بہاری گُلِ خنداں نبود

صد افسوس اس لب بستہ کلی پر ضیا جو بادِ بہاری کے چلنے پر بھی نہ کِھل سکے۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 5, 2010

ایک زمین، تین شاعر - رومی، عراقی، اقبال

پیرِ رومی کی یہ غزل اتنی خوبصورت ہے کہ ان کے دو مریدوں، مریدِ عراقی اور مریدِ ہندی، نے بھی اس میں طبع آزمائی کی ہے اور کیا خوب کی ہے۔ پیرِ رومی اور مریدِ ہندی کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے کہ ہر کوئی ان دو کے متعلق جانتا ہے اور انکے "تعلق" کے متعلق بھی لیکن "مریدِ عراقی" کا تھوڑا سا تعارف ضروری ہے۔

شیخ فخرالدین ابراہیم عراقی، ساتویں صدی ہجری (تیرہویں صدی عیسوی) کے ایک نامور صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ آپ ہمَدان، ایران میں پیدا ہوئے اور اوائلِ عمر میں ہی قلندروں کی ایک ٹولی میں شامل ہو کر دنیا کی سیر و سیاحت کو نکل کھڑے ہوئے۔ شیخ محمد اکرام، "آبِ کوثر" میں شیخ بہاءالدین زکریا سہروردی (رح) کا ذکر کرتے ہوئے، ضمنی طور پر عراقی کا حال اسطرح لکھتے ہیں۔

"وہ [عراقی] شیخ شہاب الدین سہروردی کے بھانجے تھے [شیخ اکرام کی اس بات کے برعکس ایک روایت میں ہے کہ آپ ہمدان سے بغداد تشریف لے گئے تھے اور وہاں شیخ شہاب الدین سہروردی کے مرید ہوئے اور انہوں نے ہی آپ کو عراقی کا خطاب دیا] اور ان دنوں اثنائے سیر و سیاحت میں ملتان تشریف لائے تھے۔ شیخ بہاءالدین زکریا سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ وہ کہتے تھے، بر مثالِ مقناطیس کہ آہن را کشد، شیخ مرا جذب می کند و مقیّد خواہد کرد، ازیں جا زود تر باید رفت [مقناطیس کی طرح کہ جسطرح وہ لوہے کو کھینچتا ہے، شیخ نے مجھے جذب کر لیا ہے اور اپنا مقیّد بنا لیا ہے، اس جگہ سے جلد از جلد چلے جانا چاہیئے]۔ شیخ نے بھی اپنے مرشد کے خواہر زادے کی بڑی خاطر داری کی، اپنی بیٹی اس سے بیاہ دی اور عراقی ایک عرصہ ملتان میں مقیم رہے۔ وہ نہایت دل گداز شعر لکھتے تھے، چنانچہ "نفحات الانس" میں مولانا جامی لکھتے ہیں کہ شیخ بہاءالدین زکریا کی خانقاہ میں عراقی نے چلّہ کشی شروع کی تو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ان پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو گئی، انہوں نے ۔۔۔ [ایک] ۔۔۔ غزل کہی اور اسے بلند آواز سے پڑھنا شروع کیا۔ اہلِ خانقاہ نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ خانقاہ میں سوائے ذکر اور مراقبہ کے کوئی اور چیز رائج نہ تھی [سہروردیہ سلسلے میں سماع سے اجتناب کیا جاتا ہے]، انہوں نے شیخ سے بھی اس کی شکائت کی، لیکن انہوں نے فرمایا کہ یہ چیزیں تمھیں منع ہیں، اسے منع نہیں۔"

ایک روایت کے مطابق آپ پچیس سال تک شیخ بہاءالدین زکریا کی خدمت میں رہے اور انہوں نے بوقتِ وصال آپ کو ہی اپنا خلیفہ اور جانشین نامزد کیا، لیکن اس روایت کا ذکر شیخ محمد اکرام نے نہیں کیا بلکہ ان کے مطابق شیخ بہاءالدین زکریا کے جانشین انکے صاحبزادے شیخ صدرالدین تھے۔ بہرحال ملتان سے نکل کر عراقی نے حج کا قصد کیا اور مکہ و مدینہ کی زیارت کے بعد آپ قونیہ، ترکی میں مولانا رومی کی خدمت میں تشریف لے گئے اور ایک عرصہ تک انکی خدمت میں حاضر رہے اور سماع کی محفلوں میں حصہ لیتے رہے، مولانا رومی سے آپ کی ملاقات ہوئی یا ان کے صاحبزادے سے آپ ملے، اس سلسلے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ اس کے بعد (شاید مولانا کے وصال کے بعد) آپ شام چلے گئے اور وہیں وفات پائی، آپ کا مزار دمشق میں ہے۔

عراقی کے متعلق یہ کچھ تفصیلات لکھنا مجھے ضروری محسوس ہوئیں کیونکہ انکے متعلق ویب پر بہت کم معلومات ملتی ہیں لیکن خوش قسمتی سے ان کی شاعری، جو کہ تصوف کی چاشنی سے لبریز ہے، محفوظ بھی ہے اور ویب پر عام ملتی بھی ہے، ان کا دیوان اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے

اب ان تینوں بزرگوں کی غزلیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جو کہ ایک ہی زمین (یعنی مولانا رومی کی زمین) میں ہیں، فقط اس معمولی فرق کے ساتھ کہ اقبال نے اپنی غزل میں قافیہ تھوڑا سا بدل دیا ہے لیکن بہرحال زمین وہی مولانا رومی کی ہے۔ مزید برآں یہ کہ مریدِ ہندی کو، پیرِ رومی کی یہ غزل شاید زیادہ ہی پسند تھی کہ اپنی کتب میں دو بار اس غزل کے اشعار لکھے ہیں، اسرارِ خودی اور جاوید نامہ میں۔

غزلِ مولانا جلال الدین رومی

بکشائے لب کہ قندِ فراوانَم آرزوست
بنمائے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست

اپنے لب کھول یعنی باتیں کر کہ مجھے بہت زیادہ شیرینی کی آرزو ہے اور اپنا چہرہ دکھا کہ مجھے باغ اور گلستان کی آرزو ہے۔

یک دست جامِ بادہ و یک دست زلفِ یار
رقصے چنیں میانۂ میدانم آرزوست

ایک ہاتھ میں شراب کا جام ہو اور دوسرے ہاتھ میں یار کی زلف، اور اسطرح بیچ میدان کے رقص کرنے کی آرزو ہے۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

کل رات ایک بوڑھا شخص چراغ ہاتھ میں لیے شہر میں گھومتا رہا اور کہتا رہا کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کو دیکھنے کی آرزو ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Maulana Rumi, مولانا رُومی
مولانا جلال الدین رُومی - ایک خاکہ
Maulana Rumi
زیں خلقِ پرشکایتِ گریاں، شدم ملول 
آں ‌هائے هوئے و نعرهٔ مستانم آرزوست
میں اس خلق سے، جو ہر وقت گریاں( اور مصائب) کی شکایت ہی کرتی ہے، ملول ہو گیا ہوں اور ھائے ھو یعنی مستی اور نعرۂ مستانہ کی آرزو ہے۔

واللہ کہ شہر بے ‌تو، مرا حبس می ‌شود
آوارگی و کوه و بیابانم آرزوست
واللہ کہ تیرے بغیر شہر میرے لیے حبس بن گیا ہے، مجھے آوارگی اور پہاڑوں اور بیابانوں کی آرزو ہے۔

گفتی ز ناز بیش مرنجاں مرا، برو
آں گفتَنَت کہ بیش مرنجانم آرزوست
تو نے ناز سے مجھے کہا کہ 'مجھے زیادہ تنگ نہ کرو اور چلے جاؤ"، یہ جو تو نے کہا کہ مجھے زیادہ تنگ نہ کرو، مجھے تم سے یہی بات سننے کی آرزو ہے۔ (چلے جانے والی بات کوئی عاشق کیسے سن سکتا ہے)۔

اے عقل تو ز شوق پراکندہ گوئے شو
اے عشق نکتہ ہائے پریشانم آرزوست
اے عقل تو شوق (عشق) کی وجہ سے بہکی بہکی باتیں کرنے والی بن جا، اے عشق مجھے تیری پریشان کر دینے والی لطیف باتوں کی ہی آرزو ہے۔

ایں آب و نانِ چرخ چو سیل است بیوفا
من ماہیَم، نہنگم و عمّانم آرزوست
یہ آسمان کا دیا ہوا آب و دانہ، سیلاب کی طرح بیوفا ہے کہ آیا اور چلا گیا، میں تو ایک مچھلی کی طرح ہوں اور سمندر و مگر مچھوں کی آرزو رکھتا ہوں یعنی ا نکے درمیان رہ کر رزق حاصل کرنے کی آرزو رکھتا ہوں، یعنی اصل رزق تو وہ ہے جو جدوجہد سے ملے نہ کہ دوسروں کا بخشا ہوا۔

جانم ملول گشت ز فرعون و ظلمِ او
آں نورِ جیبِ موسیِٰ عمرانم آرزوست

میری جان فرعون اور اسکے مظالم کی وجہ سے ملول و دل گرفتہ ہے، مجھے عمران کے بیٹے موسیٰ کے گریبان کے نور(یدِ بیضا) کی آرزو ہے یعنی موجودہ زمانے کے فرعونوں کیلیے بھی معجزوں کے ساتھ کسی موسیٰ کی آرزو ہے۔

زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت
شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست
ان سست عناصر والے (دنیا پرست) ہمراہیوں نے مجھے دل گرفتہ کر رکھا ہے، مجھے شیرِ خدا (ع) اور دستان کے بیٹے رستم کی آرزو ہے یعنی بلند ہمت، حوصلہ مند اور بے لوث لوگوں کی سنگت چاہیئے۔

گفتم کہ یافت می نشَوَد جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
میں نے کہا، ہم جسے ڈھونڈتے ہیں وہ نہیں ملتا، اُس نے کہا کہ جو نہیں ملتا مجھے تو اسی کی آرزو ہے۔
----------

غزلِ فخر الدین عراقی

یک لحظہ دیدنِ رخِ جانانم آرزوست
یکدم وصالِ آں مہِ خوبانم آرزوست

ایک لحظہ کیلیے رُخِ جاناں دیکھنے کی آرزو ہے، ایک دم کیلیے اُس مہِ خوباں کے وصال کی آرزو ہے۔

جاناں، ز آرزوئے تو جانم بہ لب رسید
بنمائے رخ، کہ قوّتِ دل و جانم آرزوست

اے جاناں تیری آرزو میں میری جان لبوں تک آ گئی، میری طرف رُخ کر کہ میری آرزو ہے کہ میرے دل و جان کو تقویت پہنچے یعنی تیرے دیدار سے زندہ ہو جاؤں۔

ور لحظہ ‌ای بہ کوئے تو ناگاه بگذرم
عیبم مکن، کہ روضۂ رضوانم آرزوست

ایک لحظ کیلیے ناگاہ تیرے کوچے کی طرف سے گذر گیا، عیب مت کر مجھے روضۂ رضوان (جنت) کی آرزو ہے کہ تیرا کوچہ میرے لیے مانندِ جنت ہے۔

وز روئے آں کہ رونقِ خوباں ز روئے توست
دایم نظارهٔ رخِ خوبانم آرزوست

تیرا چہرہ کہ دنیا کے سب خوباں کی رونق تیرے چہرے ہی سے ہے، اور مجھے اس رخِ خوباں یعنی تیرے چہرے کے دائمی نظارے کی آرزو ہے۔

سودائے تو خوش است و وصالِ تو خوشتر است
خوشتر ازیں و آں چہ بوَد؟ آنم آرزوست

تیرا جنون (و ہجر) خوب ہے اور تیرا وصال خوب تر ہے، ان دونوں سے خوب تر اگر کوئی چیز ہے تو پھر مجھے اُسی کی آرزو ہے یعنی تیرے ہجر و وصال سے بڑھ کر کوئی چیز تو عاشق کیلیے ہو نہیں سکتی سو وہ اور کس چیز کی خواہش کرے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Fakhruddin Iraqi, شیخ فخرالدین عراقی ایک خاکہ
شیخ فخرالدین عراقی - ایک خاکہ
Fakhruddin Iraqi
ایمان و کفرِ من همہ رخسار و زلفِ توست
در بندِ کفر مانده و ایمانم آرزوست

میرا ایمان اور کفر بس تیرے رخسار اور زلفیں ہیں (تیرے چہرے کا نور میرے لیے مانندِ نورِ ایمان ہے اور تیری زلفوں کی سیاہی مانندِ تاریکیِ کفر)، مجھے کفر کی قید (تیری زلفوں کی قید) اور ایمان (تیرے چہرے) کی آرزو ہے۔

دردِ دلِ عراقی و درمانِ من تو ای
از درد بس ملولم و درمانم آرزوست

عراقی کے دل کا درد اور اسکا درمان بھی فقط تو ہی ہے، اس دردِ دل (یعنی تیرے ہجر) سے بہت ملول ہوگیا ہوں اور اب اسکے درمان (تیرے وصال و دیدار) کی آرزو ہے۔
----------

غزلِ علامہ محمد اقبال

تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست
با من میا کہ مسلکِ شبّیرم آرزوست
مجھے تیر و نیزہ و خنجر و شمشیر کی آرزو ہے، (اے دنیا پرست و آسائش پسند) میرے ساتھ مت آ کہ مجھے مسلکِ شبیر (ع) کی آرزو ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
از بہرِ آشیانہ خس اندوزیَم نگر
باز ایں نگر کہ شعلۂ در گیرم آرزوست
ایک آشیانہ بنانے کیلیے میرا تنکا تنکا جمع کرنا دیکھ، اور پھر یہ بھی دیکھ کہ مجھے اس آشیانے کو جلا ڈالنے کی آرزو ہے۔

گفتند لب ببند و ز اسرارِ ما مگو
گفتم کہ خیر، نعرۂ تکبیرم آرزوست
اُس نے کہا کہ اپنے لب بند رکھ اور ہمارے اسرار کسی سے مت کہہ، میں نے کہا کہ خیر (میں آپ کی بات مان لیتا ہوں) لیکن مجھے نعرۂ تکبیر (اللہ اکبر) بلند کرنے کی آرزو ہے یعنی اسی ایک نعرے (اللہ کی کبریائی ببان کرنے) سے سب چھوٹے بڑے راز خود بخود ہی ظاہر ہو جاتے ہیں۔

گفتند ہر چہ در دِلَت آید ز ما بخواہ
گفتم کہ بے حجابیِ تقدیرم آرزوست
اُس نے کہا کہ جو کچھ بھی تیرے دل میں ہے ہم سے مانگ، میں نے کہا کہ میری آرزو یہ ہے کہ میری تقدیر مجھ پر بے حجاب یعنی آشکار ہو جائے۔

از روزگارِ خویش ندانم جز ایں قدَر
خوابم ز یاد رفتہ و تعبیرم آرزوست
اپنی زندگی کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا لیکن صرف اتنا کہ ایک خواب تھا جو بُھول گیا اور اب اس بُھولے ہوئے خواب کی تعبیر کی آرزو ہے۔

کو آں نگاہِ ناز کہ اوّل دِلَم رَبُود
عُمرَت دراز باد، ہماں تیرم آرزوست
وہ نگاہِ ناز کدھر گئی کہ جس نے اوّل اوّل ہمارے دل کو لوٹا تھا، تیری عمر دراز ہو مجھے اُسی تیر (نگاہِ ناز) کی آرزو ہے (اسلام کے گم گشتہ عروج و قرنِ اول کی خواہش کر رہے ہیں اور بلند اقبالی کی دعا بھی دے رہے ہیں)۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 30, 2010

نمی دانم کجا رفتم - شیخ شرف الدین پانی پتی معروف بہ بوعلی شاہ قلندر کی ایک غزل

جن دوستوں نے استاد فتح علی خان قوال کی آواز میں امیر خسرو کی مشہور نعت، 'نمی دانم چہ منزل بُود' سن رکھی ہے وہ جانتے ہونگے کہ اس میں انہوں نے نمی دانم کی مناسبت سے بوعلی قلندر (شیخ شرف الدین پانی پتی) کے دو تین اور اشعار بھی گائے ہیں جن میں نمی دانم آتا ہے۔ ایک عرصے سے خواہش تھی کہ یہ اشعار علیحدہ سے گائے ہوئے بھی مل جائیں بلآخر یہ خواہش ہمارے نئے اور پیارے دوست توصیف امین نے پوری کر دی۔ نئے دوست تو میرے کئی بنتے ہیں لیکن ان میں پیارے وہی ہوتے ہیں، میرے لیے نہ کہ اللہ کو، جو صاحبِ ذوق بھی ہوں اور غالب کے طرفدار بھی یعنی سخن فہم اور ماشاءاللہ آپ میں دونوں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے جب مجھے اس قوالی کی فائل بھیجی تو انتہائی خوشی ہوئی اور اسی خوشی میں آپ دوستوں کو بھی شامل کر رہا ہوں کہ میری خوشیاں کچھ اسی قسم کی ہوتی ہیں۔

شیخ شرف الدین پانی پتی معروف بہ بوعلی قلندر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کا شمار برصغیر کے نامور اولیاء میں ہوتا ہے اور کئی کرامات آپ سے منسوب ہیں، پانی پت میں آپ کا مزار، بلا تفریقِ مذہب و ملت، مرجعِ خلائق ہے جس کی دو تصاویر نیچے عقیدت مندوں کیلیے بطور تبرک شامل کر رہا ہوں۔ آپ ایک بلند پایہ اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ انسائیکلوپیڈیا اسلامیکا (دانشنامۂ جہانِ اسلام) کا مضمون نگار آپ کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے۔ "بوعلی قلندر در نظم و نثر پارسی استاد بود۔" اسی مضمون سے علم ہوتا ہے کہ آپ کا ایک دیوان بھی شائع ہوا تھا جو آپ کی غزلیات، قصائد اور رباعیات کا مجموعہ تھا، حیدرآباد دکن سے آپ کے اشعار کا ایک مجموعہ "کلامِ قلندری" نامی بھی شائع ہوا تھا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اب یہ کتب کہیں سے ملتی ہیں یا نہیں۔ اسکے علاوہ آپ نے تین مثنویاں بھی تخلیق کی تھیں جس میں ایک کا نام "گل و بلبل" ہے۔ آپ کے کلام کے اردو اور پنجابی ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔

آپ کا ایک قطعہ تو انتہائی معروف ہے، اور کیا خوبصورت اور عقیدت سے بھرا قطعہ ہے

حیدریّم، قلندرم، مستم
بندۂ مرتضیٰ علی ہستم
پیشوائے تمام رندانم
کہ سگِ کوئے شیرِ یزدانم
میں حیدری ہوں، قلندر ہوں، مست ہوں، علی مرتضیٰ (ع) کا بندہ ہوں، میں تمام رندوں کا امام ہوں کہ شیرِ خدا (ع) کے کوچے کا کتا ہوں۔

غزل لکھنے سے پیشتر اسکی ہیت کے بارے میں ایک بات ضرور کہنا چاہونگا، مطلع سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزل کے قوافی "جمال، وصال" وغیرہ ہیں لیکن دوسرے اشعار میں ان قوافی کا تتبع نہیں کیا گیا بلکہ ہر شعر کو بظاہر چار ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ہر ٹکڑے میں قافیہ لایا گیا ہے جو کہ مطلع کے قوافی سے مختلف ہیں اور پھر ردیف وہی مطلع والی۔ غزل کی ہیت میں ایسا لکھنا میرے لیے واقعی ایک نئی بات ہے، شاید صاحبانِ علم و فضل اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔ مزید یہ کہ یقیناً یہ غزل مکمل نہیں ہے، اسلیے اگر کسی دوست کے علم میں مزید اشعار ہوں تو ضرور شیئر کریں۔

مَنَم محوِ جمالِ اُو، نمی دانم کُجا رفتم
شُدَم غرقِ وصالِ اُو، نمی دانم کجا رفتم
میں اسکے جمال میں محو ہوں اور نہیں معلوم کہاں جا رہا ہوں، بس اُسی کے وصال میں غرق ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

غلامِ روئے اُو بُودَم، اسیرِ بُوئے اُو بودم
غبارِ کوئے اُو بودم، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے چہرے کا غلام ہوں، اسکی خوشبو کا اسیر ہوں، اسکے کُوچے کا غبار ہوں، اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

بہ آں مہ آشنا گشتم، ز جان و دل فدا گشتم
فنا گشتم فنا گشتم، نمی دانم کجا رفتم
اُس ماہ رُو کا آشنا ہو کر گھومتا ہوں، جان و دل فدا کیے ہوئے گھومتا ہوں، خود کو فنا کیے ہوئے گھومتا ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

شدم چوں مبتلائے اُو، نہادم سر بہ پائے اُو
شدم محوِ لقائے او، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے عشق میں ایسے مبتلا ہوں کہ اس کے پاؤں پر سر رکھے ہوں اور ہمہ وقت اسکے دیدار میں محو اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

قلندر بُوعلی ہستم، بنامِ دوست سرمستم
دل اندر عشقِ اُو بستم، نمی دانم کجا رفتم
میں بُو علی قلندر ہوں اور دوست کے نام پر سرمست ہوں اور میرے دل میں بس اُسی کا عشق ہے، اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔


تصاویر بشکریہ وکی پیڈیا
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Bu Ali Shah Qalandar, مزار بوعلی شاہ قلندر
مزار شریف شیخ شرف الدین پانی پتی بوعلی قلندر
Mazar Bu Ali Shah Qalandar

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Bu Ali Shah Qalandar, مزار بوعلی شاہ قلندر
 مزار شریف شیخ شرف الدین پانی پتی بو علی قلندر
Mazar Bu Ali Shah Qalandar

یہ کلام بہت سے قوالوں نے گایا ہے جس میں استاد نصرت فتح علی خان مرحوم بھی شامل ہیں لیکن میں یہاں استاد بہاالدین قوال کی آواز میں شامل کر رہا ہوں۔




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 13, 2010

جگر مرادآبادی کی ایک فارسی غزل مع ترجمہ - کعبہ در پائے یار دیدم دوش

جگر مُرادآبادی کا شمار غزل کے آئمہ میں سے ہوتا ہے، فقر و فاقہ و مستی میں زندگی بسر کی اور یہی کچھ شاعری میں بھی ہے۔ کسی زمانے میں ان کا ہندوستان میں طوطی بولتا تھا اور ہر طرف جگر کی غزل کی دھوم تھی۔ انکے کلیات میں انکا کچھ فارسی کلام بھی موجود ہے۔ انکے مجموعے "شعلۂ طور" سے ایک فارسی غزل کے کچھ اشعار ترجمے کے ساتھ "تبرک" کے طور پر لکھ رہا ہوں۔

کعبہ در پائے یار دیدم دوش
ایں چہ گفتی جگر، خموش خموش
میں نے کل رات کعبہ یار کے پاؤں میں دیکھا، اے جگر یہ تو نے کیا کہہ دیا (راز کی بات برسرِ عام کہہ دی)، خاموش ہوجا، خاموش۔


حسن پنہاں و جلوہ ہاست بجوش
اصل خاموش و فرع ہا بخروش
حُسنِ ازلی تو نظر سے پنہاں ہے مگر (کائنات میں) اسکے جلوے جوش مار رہے ہیں، اصل تو خاموش ہے لیکن اسکی شاخوں (فروع) نے شور مچایا ہوا ہے۔

اے اسیرِ تعیّناتِ جہاں
تو چہ دانی کہ چیست مستی و ہوش
اے کائنات کی تعیّنات (مقرر اور مسلط کی ہوئی چیزوں) کے اسیر، تُو کیا جانے کہ مستی کیا ہے اور ہوش کیا ہے۔
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Jigar Muradabadi, جگر مُرادآبادی
بادہ پیش آر تا کنم آغاز
داستاں ہائے عشقِ آفت کوش
جام سامنے لا کہ میں آغاز کروں اس عشق کی داستانوں کا جو کہ ہمیشہ آفتوں کی تلاش میں رہتا ہے۔

بے خبر رو کہ ہوش در مستیست
ہوشیار آ کہ بے خودیست بہ ہوش
بے خبر چلا چل کہ ہوش تو مستی ہی میں ہے، ہوشیار بن کر آ جا کہ ہوشیاری میں بھی بے خودی سی ہے۔
گفتہ بودم فسانہ از مستی
تو شنیدی چرا ز عالمِ ہوش
میں تو اپنا افسانۂ ذوق و شوق مستی میں کہہ رہا ہوں، تو کیوں اسے عالمِ ہوش میں سن رہا ہے، اس کو سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ سننے والا بھی عالمِ مستی میں ہو۔

قاضیا یک نظر بسوئے جگر
آں کہ یک خادم است و حلقہ بگوش
جنابِ قاضی، ایک نظر جگر کی طرف بھی کہ وہ آپ کا ایک خادم اور حلقہ بگوش ہے۔ قاضی سے مراد جگر کے مرشد  قاضی سید عبدالغنی شاہ صاحب ہیں جیسا کہ جگر نے اپنی کتاب میں خود لکھا ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 3, 2010

فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ - علامہ اقبال کی ایک خوبصورت غزل

فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
عاشق کعبہ اور بت خانہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا، اس کیلیئے یہ (بت خانہ) اگر محبوب کی جلوت ہے تو وہ (کعبہ) محبوب کی خلوت ہے۔

شادم کہ مزارِ من در کوئے حرم بستند
راہے ز مژہ کاوم از کعبہ بہ بتخانہ
میں خوش ہوں کہ میرا مزار کعبہ کے کوچے میں ہے، میں اپنی پلکوں سے کعبہ سے بت خانہ تک کا راستہ بنا رہا ہوں۔

از بزمِ جہاں خوشتر، از حور و جناں خوشتر
یک ہمدمِ فرزانہ، وزبادہ دو پیمانہ
دنیا کی محفل سے بہتر ہے، حوروں اور جنت سے بہتر ہے ایک عقل مند دوست اور دو پیمانوں میں بادہ۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
ہر کس نگہے دارَد، ہر کس سُخَنے دارَد
در بزمِ تو می خیزَد، افسانہ ز افسانہ
ہر شخص اپنی نگاہ رکھتا ہے، ہر کوئی اپنی (ہی) بات رکھتا ہے، تیری بزم میں (جب تیرا ذکر چلتا ہے) تو بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے اور ہر کسی کی پاس کہنے کیلیے اپنی ہی کہانی ہوتی ہے۔

ایں کیست کہ بر دلہا آوردہ شبیخونے؟
صد شہرِ تمنّا را یغما زدہ تُرکانہ
یہ کون ہے کہ جس نے دلوں پر شب خون مارا ہے اور تمناؤں کے سینکڑوں شہروں کو ترکوں کی طرح حملہ کر کے لوٹ لیا ہے۔

در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور اے ہمّتِ مردانہ
میرے جنون کے بیابان میں جبریل تو ایک ادنٰی شکار ہے، اے ہمتِ مردانہ خدا پر کمند ڈال۔

اقبال بہ منبر زد رازے کہ نہ باید گفت
نا پختہ بروں آمد از خلوتِ میخانہ
اقبال نے منبر پر (سرِ عام) وہ راز کہہ دیا ہے جو کہ نہیں کہنا چاہیئے تھا، وہ (شاید) میخانہ کی خلوت سے خام نکلا ہے۔

(پیامِ مشرق)

------
بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔
افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُناشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
تقطیع -
فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
فرقے نَ - مفعول - 122
نہَد عاشق - مفاعیلن - 2221
در کعبَ - مفعول - 122
و بتخانہ - مفاعیلن - 2221
ای جلوَ - مفعول - 122
تِ جانانہ - مفاعیلن - 2221
آ خلوَ - مفعول - 122
تِ جانانہ - مفاعیلن - 2221
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 11, 2010

بخوانندۂ کتابِ زبور - اقبال

بخوانندۂ کتابِ زبور
(کتاب زبورِ عجم پڑھنے والوں سے)

اسے آپ علامہ اقبال کی شہرہ آفاق کتاب 'زبورِ عجم' کا دیباچہ سمجھ لیں کہ اقبال نے زبورِ عجم کے قارئین سے خطاب کیا ہے، کُل تین شعر ہیں اور کیا لاجواب شعر ہیں۔ ایک ایک شعر اپنے اندر ایک جہان لیے ہوئے ہے۔

می شَوَد پردۂ چشمِ پرِ کاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے

کبھی تو گھاس کا ایک تنکا میری آنکھوں کا پردہ بن جاتا ہے اور کبھی میں ہر دو جہاں کو ایک نگاہ میں دیکھ لیتا ہوں۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal
وادیِ عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے

عشق کی وادی یا منزل بہت دور ہے لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ سو سال کا راستہ ایک آہ میں طے ہو جاتا ہے۔

در طلب کوش و مدہ دامنِ امید ز دست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے

طلب میں لگا رہ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ، یہ ایک ایسی دولت ہے کہ کبھی کبھی سرِ راہ بھی ہاتھ آجاتی ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 5, 2010

فارسی غزلِ غالب مع تراجم - مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند

غالب کی درج ذیل غزل کا شمار بھی غالب کی شاہکار غزلوں میں سے ہوتا ہے۔ یہ غزلِ مسلسل ہے اور اس میں غالب کی شاعرانہ تعلی عروج پر ہے۔ غالب کو اپنی شاعرانہ عظمت اور منفرد شخصیت کا بھر پور اور شدید احساس تھا اور اردو کلام میں بھی انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے لیکن اس غزل میں تو اس موضوع کو انہوں نے دوام بخش دیا ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے الفاظ میں "اس میں صرف حسنِ بیان ہی نہیں بلکہ شعر کہنے والے کے دل و دماغ اور اسکی سوچ کی گہرائی اور وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسلوبِ بیان کی فنکارانہ مہارت اور ندرت نے اشعار میں بڑا حسین لطف پیدا کیا ہے"۔

اس غزل کے اشعار 3 تا 8 خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی ان اشعار کے متعلق یادگارِ غالب میں ارشاد فرماتے ہیں۔ "قضا و قدر نے جو کچھ عرب کی فتوحات کے وقت عجم سے چھینا اسکے عوض میں مجھ کو، کہ میں بھی عجمی الاصل ہوں، کچھ نہ کچھ دیا"۔

صوفی تبسم نے مولانا حالی کی رائے سے تھوڑا اختلاف کیا ہے، فرماتے ہیں "خادم اس سلسلے میں صرف اتنا کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ مجھے مولانا کے الفاظ عرب کی فتوحات سے اختلاف ہے۔ مرزا صاحب اپنے آپ کو ایرانی اور تورانی، تہذیبی روایت کا وارث سمجھتے تھے اور اس پر نازاں تھے، اور اس بات کو قدرت کی طرف منسوب کرتے تھے۔ قدیم ایرانی شوکت و جاہ سے انھیں جو کچھ ملا، وہ تاج و گوہر کی صورت میں نہیں بلکہ ادب پاروں کی شکل میں ملا"۔

پروفیسر رالف رسل، مطلع کے بعد باقی کے اشعار کے متعلق یوں رائے زن ہیں۔

"The remaining verses lament the passing of the glory and the beauty of ancient, pre-Islamic Iran, where fire was worshiped, wine was drunk, there were idols in the temples, and the blowing of conches accompanied worship. Ghalib claims he is the heir to all this, and that his poetry has the power to re-create it............ Ghalib prided himself on this ability."


غزل پیشِ خدمت ہے۔
Mirza Ghalib, مرزا غالب, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mirza Ghalib, مرزا غالب
شعرِ غالب
مژدۂ صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند

صوفی غلام مصطفٰی تبسم
ان سیاہ راتوں میں مجھے صبح کی بشارت دی گئی۔ شمع کو بجھا دیا اور سورج کی نشان دہی کی گئی۔

افتخار احمد عدنی
شمع گل کرکے سحر نور فشاں دی مجھ کو
اور اک طلعتِ خورشید نشاں دی مجھ کو

پروفیسر رالف رسل
In my dark nights they brought me the good tidings of the morning
Put out the candles, turning me towards the rising sun


شعرِ غالب
رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند
دل ربودند و دو چشمِ نگرانم دادند

صوفی تبسم
مجھے اپنا جلوہ دکھا کر میرے بیہودہ گو لبوں کو سی دیا گیا، میرا دل چھین لیا اور اسکے عوض دیکھنے والی دو آنکھیں عطا کر دی گئیں۔

عدنی
اک جھلک ایسی دکھائی کہ کیا مہر بلب
دل مرا چھین کے چشمِ نگراں دی مجھ کو

رسل
They showed their faces, and at once my babbling tongue was silenced
They took my heart away from me, and gave me eyes to see


شعرِ غالب
سوخت آتش کدہ ز آتش نفسم بخشیدند
ریخت بتخانہ ز ناقوس فغانم دادند

صوفی تبسم
آتش کدہ جل کر راکھ ہوا تو اسکی آگ میرے سانس کو مل گئی۔ بت خانہ گرا تو اسکے ناقوس کی فریاد مجھے عطا ہوئی۔

عدنی
سرد آتشکدہ کرکے مجھے آتش بخشی
ہوا ناقوس جو خاموش، فغاں دی مجھ کو

رسل
They burnt the fire-temples, and breathed their fire into my spirit
Cast idols down, and let the conches sound in my lament


شعرِ غالب
گہر از رایتِ شاہانِ عجم برچیدند
بعوض خامۂ گنجینہ فشانم دادند

صوفی تبسم
شاہانِ عجم کے جھنڈوں کے موتی اُتار لیے گئے اور اسکے عوض وہ قلم عنایت ہوا جو خزانہ لٹانے والا ہے۔

عدنی
سب گہر رایتِ شاہانِ عجم کے چن کر
اک قلم، نادر و گنجینہ فشاں دی مجھ کو

رسل
They plucked the pearls that once had decked the banner of their kings
And gave me them to scatter from the treasury of my pen


شعرِ غالب
افسر از تارکِ ترکانِ پشنگی بردند
بسخن ناصیۂ فرکیانم دادند

صوفی تبسم
ترکوں کے سر سے تاج اتار لیا گیا اور مجھ کو شاعری میں اقبالِ کیانی مرحمت ہوا۔


شعرِ غالب
گوہر از تاج گسستند و بدانش بستند
ہر چہ بردند بہ پیدا، بہ نہانم دادند

صوفی تبسم
تاج سے موتی توڑ لیے گئے اور انھیں علم و دانش میں جڑ دیا گیا، جو کچھ علی الاعلان لوٹا تھا وہ مجھے خاموشی اور پوشیدہ طور پر دے دیا۔

عدنی
تھے جو سب تاج کے گوہر مری دانش میں جڑے
اور خاموشی سے یہ نقدِ گراں دی مجھ کو

رسل
Prised from their crown, they set the jewels in my crown of wisdom
All that men saw them take away, they secretly gave back


شعرِ غالب
ہر چہ در جزیہ ز گبراں، مئےِ ناب آوردند
بشبِ جمعۂ ماہِ رمضانم دادند

صوفی تبسم
آتش پرستوں سے جو شراب جزیے کے طور پر لی گئی، وہ ماہ رمضان کی شبِ جمعہ کو مجھے عنایت ہوئی۔

عدنی
وہ مےِ ناب جو ہاتھ آئی بطورِ جزیہ
بہ شبِ جمعۂ ماہِ رمضاں دی مجھ کو

رسل
The wine they took as tribute from the worshippers of fire
They gave to me one Friday in the month of Ramazan


شعرِ غالب
ہر چہ از دستگہِ پارس بہ یغما بردند
تا بنالم ہم ازآں جملہ زبانم دادند

صوفی تبسم
غرض کہ پارس کی جو پونجی لٹ گئی تھی، اس میں سے زبان مجھے دے دی تاکہ میں فریاد کروں۔

عدنی
فارس کی ساری متاع لوٹ کے اس کے بدلے
بہرِ فریاد فقط ایک زباں دی مجھ کو

رسل
From all they took in booty from the treasures of Iran
They gave to me a tongue in which to utter my lament


شعرِ غالب
دل ز غم مردہ و من زندہ ہمانا ایں مرگ
بود ارزندہ بماتم کہ امانم دادند

صوفی تبسم
میرا دل تو (غم) سے مر چکا ہے لیکن میں زندہ ہوں، اسکی وجہ لازماً یہی ہے کہ موت میرے ماتم کے مناسب تھی، اس سے مجھے محفوظ رکھا اور اسے سلامت رکھا تاکہ وہ میرا ماتم کرتی رہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 6, 2009

می رقصم - شیخ عثمان مروَندی معروف بہ لال شہباز قلندر کی غزل - نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم

شیخ سید عثمان شاہ مروَندی علیہ الرحمہ معروف بہ لال شہباز قلندر ایک جلیل القدر صوفی ہیں اور انکے نامِ نامی کی شہرت عالم گیر ہے۔ انکی ایک غزل بہت مشہور ہے جس کی ردیف 'می رقصم' ہے، اس غزل کا کچھ تذکرہ مولانا رومی کی ایک غزل جس کی ردیف 'می گردم' ہے لکھتے ہوئے بھی آیا تھا۔ اس وقت سے میں اس غزل کی تلاش میں تھا لیکن افسوس کہ نیٹ پر مکمل غزل کہیں نہیں ملی بلکہ اکا دکا اشعار ادھر ادھر بکھرے ہوئے ملے۔ کتب میں بھی تلاش کیا لیکن نہیں ملی۔

اس سلسلے میں ایک عرض یہ کرونگا کہ بعض مشہور و معروف غزلیات جو صدیوں سے زبان زد عام ہیں، کتب میں نہیں ملتیں، مثلاً امیر خسرو علیہ الرحمہ کی نعت، نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم، انکی غزلیات کے پانچوں دیوانوں میں نہیں ہے (بحوالہ خسرو شیریں بیاں از مسعود قریشی، لوک روثہ اشاعت گھر، اسلام آباد) اسی طرح مولانا رومی کی مذکورہ غزل، نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم، انکی غزلیات کے دیوان 'دیوانِ شمس' میں موجود نہیں ہے، مولانا کے یہ کلیات ایران میں تصحیح کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں اور اسی دیوانِ سمش کا آن لائن ورژن ویب پر بھی موجود ہے، جس میں یہ غزل موجود نہیں ہے اور اسی طرح شیخ عثمان کی مذکورہ غزل بھی کہیں نہیں ملتی لیکن عام طور سے یہی مشہور ہے کہ یہ غزل شیخ عثمان کی ہے۔ اس غزل کے چار اشعار مجھے ویب سے ملے تھے، باقی اشعار نصرت فتح علی خان قوال کی گائی ہوئی ایک قوالی (امیر خسرو کی نعت نمی دانم) سے ملے ہیں اور یوں سات اشعار کی ایک غزل بہرحال بن گئی ہے جو احباب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، مجھے پورا یقین ہے کہ اس غزل کے مزید اشعار بھی ہونگے، بہرحال تلاش جاری ہے۔

غزل پیشِ خدمت ہے۔

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم


نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔

مزار لال شہباز قلندر, Mazar Lal Shahbaz Qalandar, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
مزار لال شہباز قلندر
 Mazar Lal Shahbaz Qalandar
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔

اس شعر کیلیے ایک وضاحت یہ کہ شیخ عثمان کا نام شیخ عثمان مروَندی ہے لیکن یہ شعر نصرت فتح علیخان نے عثمان مروندی کی بجائے عثمان ہارونی کے نام کے ساتھ گایا ہے۔ میں نے اپنی سی کوشش ضرور کی کہ کہیں سے یہ علم ہو جائے کہ صحیح شعر کیا ہے اور یہ 'ہارونی' کیوں آیا ہے مصرعے میں لیکن افسوس کہ میرے پاس ذرائع محدود ہیں۔ بہرحال تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، اس شعر بلکہ اس غزل کے دیگر اشعار کیلیے میں بھی سرگرداں ہوں اور دیگر اہلِ علم و فن و ہنر کو بھی دعوتِ عام ہے۔
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2009

امیر خسرو علیہ الرحمہ کی ایک غزل مع تراجم - نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے

شعرِ خسرو
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

ترجمہ
پورے شہر میں کوئی اور شخص (تیری محبت میں) مجھ جیسا گرفتار نہیں ہے، غموں کے تیر سے کوئی اور مجھ جیسا زخمی نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
شہر میں کوئی گرفتار نہیں ہے مجھ سا
تیر سے غم کے دل افگار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
بر سرِ کُوئے تو، دانم، کہ سگاں بسیار اند
لیک بنمائی وفادار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں جانتا ہوں کہ تیرے کوچے میں بہت سے سگ ہیں لیکن ان میں کوئی بھی مجھ سا وفادار نہیں ہے۔
Amir Khusro, امیر خسرو, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Amir Khusro, امیر خسرو
قریشی
یوں تو کوچے میں ترے سگ ہیں بہت سے لیکن
ایک بھی ان میں وفادار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
کارواں رفت و مرا بارِ بلائے در دل
چوں رَوَم، نیست گرانبار تر از من دِگَرے

ترجمہ
کارواں چلا گیا اور میرے دل میں جدائی کا بوجھ ڈال گیا، کسطرح چلوں کہ کوئی اور مجھ سا گراں بار نہیں ہے۔

قریشی
سب گئے، رہ گیا میں بارِ بلا دل میں لئے
ان میں کوئی بھی گرانبار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
ساقیا بر گزر از من کہ بخوابِ اجَلَم
باز جُو اکنوں تو ہشیار تر از من دِگَرے

ترجمہ
اے ساقی تو جانتا ہے کہ میں خوابِ اجل (مرنے کے قریب) ہوں لیکن مجھ سے گزر کے اس کے باوجود میکدے میں مجھ سے ہوشیار کوئی اور نہیں ہے۔

قریشی
ساقیا خوابِ اجل میں ہوں پہ تو جانتا ہے
میکدے میں کوئی ہشیار نہیں ہے مجھ سا

شعرِ خسرو
خسروَم، بہرِ بُتاں کُوئے بکو سرگرداں
در جہاں بود نہ بیکار تر از من دِگَرے

ترجمہ
میں خسرو، کوبکو بتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوں، اس جہاں میں مجھ سا بیکار کوئی نہیں ہے۔

قریشی
کُو بہ کُو بہرِ بُتاں خسرو ہوا سرگرداں
کوئی اس دنیا میں بیکار نہیں ہے مجھ سا

----------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)
۔تقطیع -
نیست در شہر گرفتار تر از من دِگَرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دِگَرے

نیس در شہ - فاعلاتن - 2212 (نیست میں چونکہ اوپر تلے تین ساکن ہیں، ی، سین اور ت، اور تقطیع کا اصول ہے کہ جہاں اس طرح اوپر تلے تین ساکن ہوں اس میں آخری ساکن محسوب نہیں ہوتا یعنی اسکا کوئی وزن شمار نہیں کیا جاتا سو اسے چھوڑ دیتے ہیں، یعنی نیست کی ت کو چھوڑ دیا، اس طرح کے دیگر الفاظ میں دوست، گوشت، پوست، چیست، کیست وغیرہ شامل ہیں)۔
ر گرفتا - فعلاتن - 2211
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (یہاں تر اور از کے درمیان میں الفِ وصال ساقط ہوا ہے، الفِ واصل اسے کہتے ہیں کہ پچھلا حرف ساکن ہو اور حرفِ علت نہ ہو یعنی الف، واؤ یا ی نہ ہو تو اسکے فوری بعد والے الف کو ختم کر کے یعنی وصل کروا کے پچھلے حرف کو اگلے حرف کے ساتھ ملا دیتے ہیں جیسے تر اور از میں، الف کے وصال کی سبھی شرطیں پوری ہوتی ہیں سو اس کو ساقط کر کے لفظ تر از سے تَ رز بنا لیا اور یوں وزن پورا ہوا)۔
دِ گِ رے - فَعِلُن - 211 (فاعلن کی جگہ فعِلن نوٹ کریں)۔
نَ بُ دز تی - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل اور مخبون رکن دونوں نوٹ کریں)۔
رِ غَ مَفگا - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
ر تَ رز من - فعلاتن - 2211 (الفِ واصل نوٹ کریں)۔
دِ گَ رے - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 29, 2009

مولانا رومی کی ایک غزل - نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم

پچھلے دنوں یوٹیوب پر فارسی کلام ڈھونڈتے ڈھونڈتے مولانا رومی کی ایک غزل تک پہنچ گیا جو استاد نصرت فتح علی خان قوّال نے گائی ہے۔ سوچا فارسی، شاعری، رومی، موسیقی، قوّالی، نصرت یا فقط 'یو ٹیوب' کو پسند کرنے والے احباب کی خدمت میں پیش کر دوں۔

میں اس غزل کے سحر میں کئی دنوں سے گرفتار ہوں اور اس اسیری سے رہائی بھی نہیں چاہتا، فقط ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ اس غزل کے صرف وہی پانچ اشعار مل سکے جو نصرت نے گائے ہیں۔ رومی ایسے شعراء کیلیے پندرہ بیس اشعار کی غزل کہنا ایک عام بات تھی، تین تو مطلعے ہیں اس غزل کے۔

آن لائن یونی کوڈ دیوانِ شمس (مولانا رومی کا دیوان جو انہوں نے اپنے مرشد شمس تبریز کے نام کیا ہے) میں بھی یہ غزل نہیں ملی۔ کہتے ہیں کہ سلامِ دہقانی خالی از مطلب نیست سو اس غزل کو یہاں پوسٹ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر کسی دوست کو یہ غزل کہیں سے مل سکے تو ضرور شیئر کریں۔

اس غزل کی ردیف، می گردم (میں گھومتا ہوں) میں مولوی رومی یا سلسلۂ مولویہ کا فلسفہ مضمر ہے، اس سلسلے کے ترک درویش سماع کے وقت ایک مخصوص اندازمیں گھومتے ہیں۔ اسطرح کے گھومنے سے انکی مراد کائنات کی گردش کے ساتھ مطابقت یا synchronization ہے۔ ہاتھوں اور سر کا انداز بھی مخصوص ہوتا ہے، عموماً دایاں ہاتھ اوپر کی طرف اور بایاں نیچے کی طرف ہوتا کہ اوپر والے ہاتھ سے کائنات یا آسمان سے مطابقت اور نیچے والے سے زمین کے ساتھ ہو رہی ہے، سر کا جھکاؤ دائیں طرف یعنی نگاہیں دل کی طرف ہوتی ہیں۔ کمال اتا ترک کے انقلاب سے پہلے یہ مخصوص رقص ترکی میں بہت عام تھا اور ہر خانقاہ اور زاویے پر اسکی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں، اتا ترک نے اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ اس سماع اور رقص کو بھی بند کرا دیا تھا اور اسکی اجازت فقط مولانا کے عرس کے موقعے پر قونیہ میں انکے مزار پر تھی۔

تقریباً اسی زمین میں شیخ سیّد عثمان شاہ مروندی معروف بہ لال شہاز قلندر کی بھی ایک خوبصورت غزل ہے

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ آں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
(یہ غزل اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے)

تقریباً اس لیے کہا کہ کسی شاعر کی زمین میں غزل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف اسکی بحر بلکہ قافیہ اور ردیف (ردیف اگر ہے) بھی ایک جیسی ہونی چاہیے، یہ دونوں غزلیں ایک ہی بحر میں، ایک ہی قافیے کے ساتھ ہیں لیکن ردیف مختلف ہے، مولانا رومی کی ردیف اگر انکے سلسلے کے رقص و سماع کی آئینہ دار ہے تو شیخ عثمان کی ردیف، می رقصم (میں رقص کرتا ہوں) انکے سلسلے کی، قلندری دھمال کی شہرت چہار دانگ عالم ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پہلے کس نے غزل کہی اور کس نے دوسرے کی زمین استعمال کی کہ دونوں بزرگ ہمعصر تھے اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ انکے روابط بھی تھے۔

اور دھمال سے ایک واقعہ یاد آ گیا، پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کے نصف کی بات ہے، خاکسار لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور جائے رہائش گلبرگ مین مارکیٹ تھی، ایک دن وہاں شاہ جمال کے عرس کیلیے چندہ جمع کرنے کیلیے ایک 'چادر' نکلی جس میں پپو سائیں ڈھول بجا رہا تھا اور ساتھ میں دھمال پارٹی تھی۔ پپو سائیں اب تو پوری دنیا میں اپنے ڈھول بجانے کے فن کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے لیکن اس وقت اس کی مقامی شہرت کا آغاز ہو رہا تھا۔ اسی شہرت کو 'کیش' کرانے کے متعلق کچھ رازِ ہائے درونِ خانہ بھی اس خاکسار کے سینے میں ہیں کہ اسی وجہ سے اب تک ایک نوجوان کسی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ خیر ذکر دھمال کا تھا، شام کو جب سب دوست کمرے میں اکھٹے ہوئے تو اس بات کا ذکر ہوا، خوشاب کے ایک دوست نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سیالکوٹی دوست سے کہا کہ اگر آج یہ دھمال کہیں اور ہو رہی ہوتی تو اسکی دھمال بھی دیکھنے والی ہوتی مگر یہ اس وجہ سے رک گیا کہ یہاں اسکے کچھ شناسا موجود تھے۔

اور میں اس دوست کی بات سن کر حیران پریشان رہ گیا کہ اس کو میرے دل کی منافت کا کیسے علم ہو گیا گو یہ منافقت بہت سالوں بعد ختم ضرور ہوئی۔ 'می رقصم' کی تو یہ رہی، 'می گردم' نے بھی لاہور کی گلیوں اور کوچہ بازاروں کے بہت چکر لگوائے ہیں، خیر جانے دیجیئے، آپ بھی کیا کہیں گے کہ یہ غزل سے غزالاں تک جا پہنچا۔

غزل پیشِ خدمت ہے

نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردَم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردَم

میں کُوچہ بازار میں یونہی آوارہ اور بے وجہ نہیں گھومتا بلکہ میں عاشقی کا ذوق و شوق رکھتا ہوں اور یہ سب کچھ محبوب کے دیدار کے واسطے ہے۔

خدایا رحم کُن بر من، پریشاں وار می گردم
خطا کارم گنہگارم، بہ حالِ زار می گردم

اے خدا مجھ پر رحم کر کہ میں پریشان حال پھرتا ہوں، خطار کار ہوں، گنہگار ہوں اور اپنے اس حالِ زار کی وجہ سے ہی گردش میں ہوں۔

Mazar Maulana Rumi, مزار مولانا رُومی, Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,
Mazar Maulana Rumi, مزار مولانا رُومی
شرابِ شوق می نوشم، بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم، ولے ہشیار می گردم

میں شرابِ شوق پیتا ہوں اور دوست کے گرد گھومتا ہوں، میں اگرچہ شرابِ شوق کی وجہ سے مستانہ وار کلام کرتا ہوں لیکن دوست کے گرد طواف ہوشیاری سے کرتا ہوں یعنی یہ ہوش ہیں کہ کس کے گرد گھوم رہا ہوں۔

گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم

اس شعر میں ایک بیمار کی کیفیات بیان کی ہیں جو بیم و رجا میں الجھا ہوا ہوتا ہے کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور ان کیفیات کو گھومنے سے تشبیہ دی ہے کہ میرے دل میں مسیحا پیدا ہو گیا ہے اور میں بیمار اسکے گرد گھومتا ہوں۔ دل کو مرکز قرار دے کر اور اس میں ایک مسیحا بٹھا کر، بیمار اسکا طواف کرتا ہے۔

بیا جاناں عنایت کُن تو مولانائے رُومی را
غلامِ شمس تبریزم، قلندر وار می گردم

اے جاناں آ جا اور مجھ رومی پر عنایت کر، کہ میں شمس تبریز کا غلام ہوں اور دیدار کے واسطے قلندر وار گھوم رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان سب صوفیا کو قلندر کہا جاتا تھا جو ہر وقت سفر یا گردش میں رہتے تھے۔

یو ٹیوب ویڈیوز بشکریہ ثاقب طاہر۔




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 19, 2009

نظیری نیشاپوری کی ایک شاہکار غزل - کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

نظیری نیشاپوری کی ایک شاہکار غزل
محمد حسین نظیری نیشاپوری کا شمار مغلیہ دور کے عظیم ترین شعراء میں سے ہوتا ہے۔ اس دور کی روایت کے عین مطابق نظیری نے بہت قصیدے لکھے اور بہت عرصے تک خانخاناں کے دربار سے وابستہ رہے اور خوب خوب مدح سرائی کی لیکن نظیری کی اصل شہرت انکی غزلیات کی وجہ سے ہے جس میں جدت طرازی انکا طرۂ امتیاز ہے۔
مولانا شبلی نعمانی انکے متعلق 'شعر العجم' (جلد سوم) میں لکھتے ہیں۔
"ابتدائے تمدن میں میں معشوق کے صرف رنگ و روپ اور تناسبِ اعضا کا خیال آیا اور اس کیلیے حسن ایک عام لفظ ایجاد کیا گیا لیکن جب رنگینیِ طبع اور نکتہ سنجی بڑھی تو معشوق کی ایک ایک ادا الگ الگ نظر آئی اور وسعتِ زبان نے انکے مقابلہ میں نئے نئے الفاظ مثلاً کرشمہ، غمزہ، ناز، ادا وغیرہ وغیرہ تراشے۔ اس قسم کے الفاظ اور ترکیبیں جدت پسند طبیعتیں ایجاد کرتی ہیں اور یہی طبعیتیں ہیں جن کو اس شریعت کا پیغمبر کہنا چاہیے۔ ان الفاظ کی بدولت آیندہ نسلوں کو سیکڑوں، ہزاروں خیالات اور جذبات کے ادا کرنے کا سامان ہاتھ آ جاتا ہے، نظیری اس شریعت کا اولوالعزم پیغمبر ہے، اس نے سیکڑوں نئے الفاظ اور سیکڑوں نئی ترکیبیں ایجاد کیں، یہ الفاظ پہلے سے موجود تھے لیکن جس موقع پر اس نے کام لیا یا جس انداز سے ان کو برتا شاید پہلے اس طرح برتے نہیں گئے تھے۔"
نظیری کی غزل پیشِ خدمت ہے۔
حریفِ صافی و دُردی نہ ای خطا اینجاست
تمیزِ ناخوش و خوش می کُنی بلا اینجاست

تُو نہ تو صاف اور نہ ہی تلچھٹ پینے کا متحمل ہے اور یہی تیری خطا ہے، تُو ناخوش اور خوش کی تمیز کرتا ہے یہی تیری بلا ہے۔ یعنی زندگی کے صرف ایک اور اچھے رخ کی خواہش یا آرزو ہی مصیبت کی جڑ ہے۔
بغیرِ دل ھمہ نقش و نگار بے معنیست
ھمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدّعا اینجاست

دل کے بغیر تمام نقش و نگار بے معنی ہیں، یہی ورق (یعنی دل) جو سیاہ ہو گیا ساری بات اور سارا مدعا تو یہیں ہے یعنی ظاہری نقش و نگار چاہے جتنے بھی خوب ہوں سیاہ دل کے ساتھ بے معنی ہیں۔
یہ شعر سب سے پہلے میں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب 'غبارِ خاطر' میں پڑھا تھا اور بہت پسند آیا، مولانا کو بھی بہت پسند رہا ہوگا کہ یہ شعر دو مختلف جگہوں پر لکھا ہے اور میرے لیے اسی شعر نے غزل ڈھونڈنے کیلیے مہمیز کا کام کیا جو بلآخر ایک درسی کتاب میں مل ہی گئی۔
ز فرق تا قَدَمَش ہر کجا کہ می نگرَم
کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

اسکے سر سے لیکر اسکے قدموں تک میں جہاں بھی (جس حصے کو بھی) دیکھتا ہوں انکی رعنائی میرے دامنِ دل کو کھینچتی ہے کہ دیکھنے کی جگہ یہیں ہے، محبوب کی تعریف سر سے پاؤں تک کر دی ہے۔
خطا بہ مردمِ دیوانہ کس نمی گیرَد
جنوں نداری و آشفتہ ای خطا اینجاست

کسی دیوانے کو کوئی بھی خطا وار نہیں سمجھتا، (لیکن اے عاشق تجھ پر جو لوگ گرفت کر رہے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ) تو پریشان حال تو ہو گیا ہے لیکن جنون نہیں رکھتا اور یہی تیری خطا ہے جس پر پکڑ ہے، یعنی ابھی تیرا عشق خام ہے، جب اس مفلوک الحالی میں جنون بھی شامل ہو جائے گا تو پھر تُو کامل ہوگا اور دنیا کی گرفت سے آزاد۔
ز دل بہ دل گذَری ہست، تا محبت ہست
رہِ چمن نتواں بست تا صبا اینجاست

جب تک محبت ہے دل کو دل سے راہ رہے گی، جب تک بادِ صبا یہاں ہے چمن کا راستہ بند نہیں کیا جا سکتا یعنی حسن و عشق کا تعلق تب تک رہے گا جب تک چمن اور صبا کا تعلق ہے یعنی تا قیامت۔
بدی و نیکیِ ما، شکر، بر تو پنہاں نیست
ہزار دشمنِ دیرینہ، آشنا اینجاست

شکر ہے (خدا کا) کہ ہماری بدی اور نیکی تجھ (محبوب) سے پنہاں نہیں ہے کہ ہمارے ہزار پرانے آشنا دشمن یہاں موجود ہیں، مطلب یہ کہ وہ ہماری کوئی بھی برائی اگر تمھارے سامنے کریں گے تو پروا نہیں کہ تو پہلے ہی سے جانتا ہے۔
سرشکِ دیدۂ دل بستہ بے تو نکشایَد
اگرچہ یک گرہ و صد گرہ کشا اینجاست

میرے دیدۂ دل کے آنسوؤں کی جو گرہ بند گئی ہے وہ تیرے بغیر نہیں کھلنے کی، اگرچہ اس دنیا میں بہت سے گرہ کھولنے والے (مشکل کشا) موجود ہیں لیکن عاشق کا مسئلہ تو محبوب ہی حل کرے گا۔
بہ ہر کجا رَوَم اخلاص را خریداریست
متاع کاسِد و بازارِ ناروا اینجاست

میں جہاں کہیں بھی جاؤں میرے اخلاص کے خریدار موجود ہیں لیکن صرف اسی جگہ ہماری متاع (خلوص) ناقص ٹھہرا ہے اور بازار ناروا ہے۔
ز کوئے عجز نظیری سرِ نیاز مَکَش
ز ہر رہے کہ درآیند انتہا اینجاست

اے نظیری عجز و انکساری کے کوچے سے اپنا سرِ نیاز مت اٹھا، کہ جس راستے سے بھی آئیں انتہا تو یہیں (کوئے عجز) ہے۔ میری نظر میں یہ شعر بیت الغزل ہے۔
----------
بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)
اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)
پہلے شعر کی تقطیع -
حریفِ صافی و دُردی نہ ای خطا اینجاست
تمیزِ ناخوش و خوش می کُنی بلا اینجاست
حریفِ صا - 2121 - مفاعلن
فِ یُ دردی - 2211 - فعِلاتن
نہ ای خطا - 2121 - مفاعلن
ای جاس - 122 - فعلان (چونکہ جاست میں پے در پے تین ساکن آ گئے یعنی الف سین اور ت سو تیسرا ساکن 'ت' ساقط ہو گیا ہے کہ اصول کے مطابق فقط دو ساکن ہی محسوب ہوتے ہیں اور اسکے بعد والے ساقط ہو جاتے ہیں اور کوئی وزن نہیں رکھتے، پوری غزل کی ردیف میں یہی معاملہ ہے)۔
تمیزِ نا - 2121 - مفاعلن
خُ شُ خُش می - 2211 - فعلاتن
کُنی بلا - 2121 - مفاعلن
ای جاس - 122 - فعلان
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 21, 2009

علامہ اقبال کی ایک خواہش - ایک خوبصورت فارسی نظم

'زبورِ عجم' علامہ اقبال کا وہ شاہکار ہے جسکی 'انقلابی' نظمیں علامہ کی شدید ترین خواہش کا اظہار واشگاف الفاظ میں کرتی ہیں، 'زبورِ عجم' سے انقلاب کے موضوع پر دو نظمیں پہلے اس بلاگ پر لکھ چکا ہوں، ایک 'از خوابِ گراں خیز' اور دوسری وہ جس کا ٹیپ کا مصرع ہی 'انقلاب، اے انقلاب' ہے۔ اسی کتاب میں سے ایک اور نظم لکھ رہا ہوں، دیکھیئے علامہ کیا 'خواہش' کر رہے ہیں۔

یا مُسلماں را مَدہ فرماں کہ جاں بر کف بنہ
یا دریں فرسودہ پیکر تازہ جانے آفریں
یا چُناں کُن یا چُنیں
(اے خدا) یا تو مسلمانوں کو یہ فرمان مت دے کہ وہ اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ لیں یا پھر ان کے کمزور اور فرسودہ جسموں میں نئی جان ڈال دلے (کہ موجودہ حالت میں تو وہ تیرا فرمان بجا لانے سے رہے)۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔

یا بَرَہمن را بَفَرما، نو خداوندے تراش
یا خود اندر سینۂ زنّاریاں خَلوت گزیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا برہمن کو یہ حکم دے کہ وہ اپنے لیے نئے خدا تراش لیں (کہ پرانے خداؤں کی محبت انکے دل سے بھی اٹھ چکی اور خلوص باقی نہیں ہے) یا خود ان زنار باندھنے والوں برہمنوں کے سینوں میں خلوت اختیار کر (کہ یا ان کو بت پرستی میں راسخ کر یا مسلماں کر دے)۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔

یا، دگر آدم کہ از ابلیس باشد کمتَرک
یا، دگر ابلیس بہرِ امتحانِ عقل و دیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا کوئی اور آدم بنا جو ابلیس سے کم ہو (کہ موجودہ آدم ابلیس سے بھی بڑھ چکا ہے) یا عقل اور دین کے امتحان کے لیے کوئی اور ابلیس بنا (کہ تیرا یہ ابلیس تو انسان کی شیطنت کے آگے ہیچ ہو گیا) ۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال
Allama Iqbal, علامہ اقبال
یا جہانے تازۂ یا امتحانے تازۂ
می کنی تا چند با ما آنچہ کردی پیش ازیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا کوئی نیا جہان بنا یا کوئی نیا امتحان بنا، تو ہمارے ساتھ کب تک وہی کچھ کرے گا جو اس سے پہلے بھی کر چکا ہے یعنی ازلوں سے ایک ہی کشمکش ہے، لہذا یا کوئی نیا جہان بنا یا اس آزمائش اور کشمکش کو ہی بدل دے۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔

فقر بخشی؟ با شَکوہِ خسروِ پرویز بخش
یا عطا فرما خرَد با فطرتِ روح الامیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
تُو نے (مسلمانوں کو) فقر بخشا ہے، لیکن انہیں خسرو پرویز جیسی شان و شوکت بھی بخش یعنی طاقت بھی دے، یا انہیں ایسی عقل فرما جسکی فطرت روح الامین (جبریل) جیسی ہو یعنی وہ قرآن سے راہنمائی حاصل کرے۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔

یا بکُش در سینۂ ما آرزوئے انقلاب
یا دگرگوں کُن نہادِ ایں زمان و ایں زمیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا تو میرے سینے میں انقلاب کی آرزو ہی (ہمیشہ کیلیے) ختم کر دے یا اس زمان و مکان (زمانے) کی بنیاد ہی دگرگوں کر دے، الٹ پلٹ دے، تہ و بالا کر دے، یعنی اس میں انقلاب برپا کر دے۔ ویسا کر یا ایسا کر۔
-----


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 17, 2009

حافظ شیرازی کی ایک شاہکار غزل - در خراباتِ مُغاں نورِ خدا می بینَم

در خراباتِ مُغاں نورِ خدا می بینَم
ویں عجب بیں کہ چہ نُورے ز کجا می بینَم
مغاں کہ میکدے میں نورِ خدا دیکھتا ہوں، اس تعجب انگیز بات کو دیکھو (غور کرو) کہ کیا نور ہے اور میں کہاں دیکھتا ہوں۔

کیست دُردی کشِ ایں میکدہ یا رب، کہ دَرَش
قبلۂ حاجت و محرابِ دعا می بینَم
یا رب، اس میکدے کی تلچھٹ پینے والا یہ کون ہے کہ اس کا در مجھے قبلۂ حاجات اور دعا کی محراب نظر آتا ہے۔

جلوہ بر من مَفَروش اے مَلِکُ الحاج کہ تو
خانہ می بینی و من خانہ خدا می بینَم
اے حاجیوں کے سردار میرے سامنے خود نمائی نہ کر کہ تُو گھر کو دیکھتا ہے اور میں گھر کے مالک خدا کو دیکھتا ہوں۔

سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر، نالۂ شب
ایں ہمہ از اثَرِ لطفِ شُما می بینَم
سوزِ دل، اشکِ رواں، آہِ سحر اور نالۂ شب، یہ سب آپ کی مہربانی کا اثر ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Mazar Hafiz Sheerazi, مزار حافظ شیرازی
مزار خواجہ حافظ شیرازی
Mazar Hafiz Sheerazi
خواہم از زلفِ بتاں نافہ کشائی کردَن
فکرِ دُورست، ہمانا کہ خطا می بینَم
چاہتا ہوں کہ زلفِ بتاں سے نافہ کشائی (خوشبو حاصل) کروں مگر یہ ایک دُور کی سوچ ہے، بیشک میں غلط ہی خیال کر رہا ہوں۔

ہر دم از روئے تو نقشے زَنَدَم راہِ خیال
با کہ گویم کہ دریں پردہ چہا می بینَم
ہر دم تیرے چہرے کا اک نیا نقشہ میرے خیال پر ڈاکہ ڈالتا ہے، میں کس سے کہوں کہ اس پردے میں کیا کیا دیکھتا ہوں۔

کس ندیدست ز مشکِ خُتَن و نافۂ چیں
آنچہ من ہر سحر از بادِ صبا می بینَم
کسی نے حاصل نہیں کیا مشکِ ختن اور نافۂ چین سے وہ کچھ (ایسی خوشبو) جو میں ہر صبح بادِ صبا سے حاصل کرتا ہوں۔

نیست در دائرہ یک نقطہ خلاف از کم و بیش
کہ من ایں مسئلہ بے چون و چرا می بینَم
اس دائرے (آسمان کی گردش) میں ایک نقطہ کی بھی کمی بیشی کا اختلاف نہیں ہے، اور میں اس مسئلے کو بے چون و چرا جانتا ہوں۔

منصبِ عاشقی و رندی و شاہد بازی
ہمہ از تربیتِ لطفِ شُما می بینَم
منصبِ عاشقی، رندی اور شاہدی بازی، یہ سب کچھ آپ کی تربیت کی مہربانی سے مجھے حاصل ہوا ہے۔

دوستاں، عیبِ نظر بازیِ حافظ مَکُنید
کہ من او را، ز مُحبّانِ خدا می بینَم
اے دوستو، حافظ کی نظر بازی پر عیب مت لگاؤ، کہ میں اُس کو (حافظ کو) خدا کے دوستوں میں سے دیکھتا ہوں۔
----------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن یعنی فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فَعِلاتُن بھی آ سکتا ہے اور آخری رکن یعنی فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں گویا آٹھ اوزان اس بحر میں جمع ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -
در خراباتِ مغاں نورِ خدا می بینم
ویں عجب بیں کہ چہ نُورے ز کجا می بینم

در خَ را با - 2212 - فاعلاتن
تِ مُ غا نُو - 2211 - فعلاتن
رِ خُ دا می - 2211 - فعلاتن
بی نَم - 22 - فعلن

وی عَ جَب بی - 2212 - فاعلاتن
کہ چہ نورے - 2211 - فعلاتن
ز کُ جا می - 2211 - فعلاتن
بی نم - 22 - فعلن
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 12, 2009

جاوید نامہ مصوّر سے ایک منظر کی تصاویر

"بانگِ درا کی بیشتر نظمیں میری طالب علمی کے زمانے کی ہیں، زیادہ پختہ کلام افسوس کہ فارسی میں ہوا۔۔۔۔۔۔۔ اس (بانگِ درا) سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ جاوید نامہ کا تمام و کمال ترجمہ کیا جائے، یہ نظم ایک قسم کی "ڈیوائن کامیڈی" ہے۔ مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کر لینا یقینی امر ہے اگر وہ ترجمے میں کامیاب ہو جائے، اور اگر اس ترجمہ کا کوئی عمدہ مصوّر (السٹریٹ) بھی کر دے تو یورپ اور ایشیا میں مقبول تر ہوگا۔ اس کتاب میں بعض بالکل نئے تخیلات ہیں اور مصوّر کے لیے بہت عمدہ مسالہ ہے۔"

یہ اُس خط سے ایک اقتباس ہے جو علامہ اقبال نے ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی کو 30 مارچ 1933ء کو لکھا، صوفی صاحب نے انہیں بتایا تھا کہ ان (صوفی صاحب) کا ایک دوست "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" کا انگریزی منظوم ترجمہ کر رہا ہے۔

اسی طرح 25 جون 1935ء کو علامہ اقبال ایک مصوّر ضرار احمد کاظمی کو جو "شکوہ" اور "جوابِ شکوہ" کو مصوّر کر رہے تھے، لکھتے ہیں۔

"میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف "جاوید نامہ" ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصوّر طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے مگر اس کے لیے پوری مہارتِ فن کے علاوہ الہامِ الٰہی اور صرفِ کثیر کی ضرورت ہے۔"

اسی مصور کو اپنی وفات سے صرف تین دن پہلے 18 اپریل 1938ء کو لکھتے ہیں: "پوری مہارتِ فن کے بعد اگر آپ نے "جاوید نامہ" پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہو گے۔"

ان تمام خطوط کے اقتباسات، جن سے علامہ اقبال کی نظر میں اپنی کتاب "جاوید نامہ" کی اہمیت اور اس کو مصوّر کرنے کی شدید خواہش ظاہر ہوتی ہے، میں نے "جاوید نامہ" کی ایک طبعِ خاص (ڈیلکس ایڈیشن) سے لیئے ہیں، جسے اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نے 1982ء میں شائع کیا تھا۔ اس ڈیلکس ایڈیشن کی سب سے خصوصی بات یہ ہے کہ اس میں "جاوید نامہ" کے مختلف حصوں کی جمی انجنیئر کی مصوّر کی ہوئی تصاویر ہیں۔ دراصل جمی انجنیئر نے علامہ اقبال کے فرزند، ڈاکٹر جاوید اقبال کی اقامت گاہ کی دیواروں پر جاوید نامہ کے جملہ مناظر نقش کیے تھے اور انہی مناظر میں سے اقبال اکادمی نے 35 تصاویر جاوید نامہ کے مذکورہ ڈیلکس ایڈیشن میں شائع کی ہیں۔ کتاب میں شائع کرنے کیلیے تصاویر کو منتخب کرنے کا فریضہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے سرانجام دیا تھا۔ اور اسی ایڈیشن میں سے چار تصاویر میں یہاں پیش کر رہا ہوں، یہ چار تصاویر "جاوید نامہ" کے ایک منظر کو واضح کرتی ہیں۔ ان تصاویر پر میں نے نہ صرف "جاوید نامہ" میں سے متعلقہ حصے کا نام لکھا دیا ہے بلکہ اس طبعِ خاص میں تصاویر کے نیچے جو اشعار دیئے گئے ہیں وہ بھی (مع ترجمہ) لکھ دیئے ہیں اور یوں علیحدہ علیحدہ تصویر بھی اپنی جگہ پر مکمل سی ہے۔ تصاویر کو بڑا دیکھنے کیلیے ان پر 'کلک' کیجیے۔

اس منظر کا سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ مولانا رومی، علامہ اقبال کو افلاک کی سیر پر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں جسے علامہ نے "سیاحتِ عالمِ علوی" کا نام دیا ہے۔ اپنے اس سفر پر سب سے پہلے وہ "فلکِ قمر" پر پہنچتے ہیں اور وہاں پر چاند کی ایک وادی "یرغمید" کو دیکھتے ہیں۔ اس وادی میں رومی، علامہ کو نبوت کے چار مناظر دکھاتے ہیں۔ اس تصویر میں اسی منظر کی بیان کیا گیا ہے اور اگلی تصاویر میں انہی مناظر کو بڑا کر کے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر میں مولانا رومی علامہ کو سنگِ قمر کی دیورا پر نقش چار "طاسینِ نبوت" یا نبوت کی تعلیمات دکھاتے ہیں جن کی تفصیل نیچے آ رہی ہے، یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان حصوں کے عناوین سے بھی علامہ کے تخیل کا اوج دکھائی دیتا ہے۔

Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
طاسینِ گوتم - توبہ آوردن زنِ رقاصۂ عشوہ فروش یعنی گوتم کی تعلیمات، ایک عشوہ فروش رقاصہ کا توبہ کرنا۔ یہ دراصل گوتم بدھ اور ایک رقاصہ کا مکالمہ ہے، جس میں گوتم بدھ رقاصہ سے بات کرتا ہے اور جواباً رقاصہ توبہ کرتی ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
اس سے اگلے حصے کا نام "طاسینِ زرتشت - آزمایش کردن اہرمن زرتشت را" یعنی زرتشت کی تعلیمات، اہرمن (شیطان) کا زرتشت کی آزمائش کرنا۔ یہ بھی ایک مکالمہ ہے جس میں اہرمن، زرتشت کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور جواباً زرتشت اپنے نظریات بیان کرتا ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی

اس سے اگلا حصہ بھی دلچسپ ہے، "طاسینِ مسیح، رویائے حکیم طالسطائی" یعنی مسیح (ع) کی تعلیمات، حکیم ٹالسٹائی کا خواب۔ افسوس کہ اس منظر کی بڑی تصویر ڈاکٹر جاوید اقبال نے کتاب کے لیے منتخب نہیں کی (نہ جانے کیوں) لیکن پہلی تصویر میں اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں مشہور روسی ناول نگار اور مذہبی مصلح، ٹالسٹائی کا ایک خواب علامہ نے دکھایا ہے کہ ایک شخص چاندی کی ندی کے پارے میں کمر تک غرق ہے اور ندی کے کنارے ایک ساحر اور حسین عورت کھڑی ہے اور ان کے درمیان ایک مکالمہ ہوتا ہے، وہ عورت، جسے علامہ نے افرنگیں کا نام دیا ہے اور وہ استعارہ ہے مغربی تہذیب کا، اس مرد (یہودیوں) کو طعنہ مارتی ہے کہ تم لوگوں نے مسیح کے ساتھ کیا کیا کہ ان کو سولی پر لٹکا دیا اور اب چاندی کے (یعنی میرے پجاری) بنے ہوئے ہو اور جواب میں وہ شخص اس پر اعتراضات کرتا ہے کہ تم نے ہم لوگوں کو گمراہ کر دیا، یہ دراصل وہ اعتراضات ہیں جو ٹالسٹائی نے اپنی تصنیفات میں عیسائی مذہب پر کیے تھے۔ اس حصے کا یہ شعر بہت خوبصورت ہے۔

آنچہ ما کردیم با ناسوتِ اُو
ملّتِ اُو کرد با لاہوتِ اُو

(وہ شخص، اس عورت کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ) کہ ہم نے جو کچھ بھی اُس (عیسیٰ ع) کے جسم (ناسوت) کے ساتھ کیا، ان کی ملّت نے وہی کچھ ان کی روح (لاہوت) کے ساتھ کیا، یعنی ہم نے تو فقط عیسیٰ کے جسم کو سولی پر چڑھایا تھا، ان کی قوم نے انکی روح کو سولی پر چڑھا دیا۔

اور اس منظر کا آخری حصہ بھی انتہائی دلچسپ پے، "طاسینِ محمد، نوحہ روحِ ابوجہل در حرمِ کعبہ" یعنی حضرت محمد (ص) کی تعلیمات، ابوجہل کی روح کا حرمِ کعبہ میں نوحہ، یہ مکمل حصہ میں اپنے بلاگ پر پوسٹ کر چکا ہوں، خواہش مند قارئین اس ربط پر اسے پڑھ سکتے ہیں، اس میں ابوجہل کی روح حرم کعبہ میں نوحہ کرتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ انکے اور انکے بتوں کے ساتھ حضرت محمد (ص) نے کیا کیا۔ یہ تصویر میں نے اُس پوسٹ میں بھی شامل کر دی ہے۔
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation, Allama Iqbal, علامہ اقبال, Javiad Nama, جاوید نامہ, Maulana Rumi, مولانا رومی
جمی انجنیئر اپنی اس کاوش میں کس حد تک کامیاب رہے، یہ تو علامہ ہی بہتر بتا سکتے تھے اگر وہ زندہ ہوتے لیکن بہرحال انکی کاوش قابلِ تحسین ہے۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔