Showing posts with label اردو شاعری. Show all posts
Showing posts with label اردو شاعری. Show all posts

Apr 14, 2012

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے - غزل شان الحق حقّی

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے

کچھ اس کے تصوّر میں وہ راحت ہے کہ برسوں
بیٹھے یونہی اس وادیٔ گُل پوش میں رہیے

اک سادہ تبسّم میں وہ جادو ہے کہ پہروں
ڈوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہیے

ہوتی ہے یہاں قدر کسے دیدہ وری کی
آنکھوں کی طرح اپنے ہی آغوش میں رہیے

ٹھہرائی ہے اب حالِ غمِ دل نے یہ صورت
مستی کی طرح دیدۂ مے نوش میں رہیے
shan, haqqi, shan-ul-haq-haqqi, poetry, urdu poetry, ghazal, شان، شان الحق حقی، اردو شاعری، اردو غزل، شاعری، غزل
ڈاکٹر شان الحق حقّی, Shan-ul-Haq Haqqi
ہمّت نے چلن اب یہ نکالا ہے کہ چبھ کر
کانٹے کی طرح پائے طلب کوش میں رہیے

آسودہ دلی راس نہیں عرضِ سُخن کو
ہے شرط کہ دریا کی طرح جوش میں رہیے

ہستی میں وہ حالت ہے دل و جاں کی کہ جیسے
جا کر کسی مینارۂ خاموش میں رہیے

کیوں دیکھیے خونابہ فشانی کو کسی کی
آرائشِ رخسار و لب و گوش میں رہیے

یا ربط خدایانِ جفا کیش سے رکھیے
یا حلقۂ یارانِ وفا کوش میں رہیے

حقّی وہی اب پھر غمِ ایّام کا دکھڑا
یہ محفلِ رنداں ہے ذرا ہوش میں رہیے

ڈاکٹر شان الحق حقّی
--------
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -


ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے


ہر چند - مفعول - 122
کہ ساغر کِ - مفاعیل - 1221
طرَح جوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221

ساقی سِ - مفعول - 122
ملے آک - مفاعیل - 1221
تُ پر ہوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 6, 2012

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو - احسان دانش

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو
 کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

 زندہ ہے دل تو اس میں محبت بھی چاہیے
 آنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلو

 آذر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیک
 صر صر بنی ہوئی ہے صبا دیکھ کر چلو

 امسال دیدنی ہے چمن میں جنوں کا رنگ
 گُل چاک کر رہے ہیں قبا دیکھ کر چلو

 گُلچیں کے سدّباب سے انکار ہے کسے
 لیکن اصولِ نشو و نما دیکھ کر چلو
Ehsan, Ahsan, Danish, Ehsan Danish, Ahsan Danish, urdu poetry, poetry, ghazal, احسان، دانش، احسان دانش، اردو شاعری، شاعری، غزل
احسان دانش, Ehsan Danish
 کچھ سرپھروں کو ذکرِ وفا بھی ہے ناگوار
 یہ انحطاطِ مہر و وفا دیکھ کر چلو

 ہاں انفرادیت بھی بُری چیز تو نہیں
 چلنا اگر ہے سب سے جدا دیکھ کر چلو

 آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو ہر شے ہے بے نقاب
 اے بندگانِ حرص و ہوا دیکھ کر چلو

 ذوقِ عبودیت ہو کہ گستاخیِ نگاہ
 تخمینۂ جزا و سزا دیکھ کر چلو

 ناموسِ زندگی بھی بڑی شے ہے دوستو
 دیکھو بلند و پست فضا دیکھ کر چلو

 یہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیست
 اس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلو

 عرفان و آگہی بھی عبادت سہی مگر
 طرز و طریقِ اہلِ وفا دیکھ کر چلو

 اسبابِ ظاہری پہ بھی درکار ہے نظر
 باوصف اعتمادِ خدا دیکھ کر چلو

 ممکن ہے روحِ سرو و سمن سے ہو ساز باز
 کیا دے گئی گلوں کو صبا دیکھ کر چلو

 ہر کشمکش نہیں ہے امینِ سکونِ دل
 ہر موت میں نہیں ہے بقا دیکھ کر چلو

 ہر لحظہ ہے پیمبرِ اندیشہ و عمل
 کیا چاہتا ہے رنگِ فضا دیکھ کر چلو

 یہ بھی روش نہ ہو رہِ مقصود کے خلاف
 آئی ہے یہ کدھر سے صدا "دیکھ کر چلو"

ہمدرد بن کے دشمنِ دانش ہوئے ہیں لوگ
یہ بھی ہے دوستی کی ادا دیکھ کر چلو

 (احسان دانش)

------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو
 کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

ہستی کَ - مفعول - 122
ہر نفس ہِ - فاعلات - 1212
نیا دیک - مفاعیل - 1221
کر چلو - فاعلن - 212

کس رُخ کِ - مفعول - 122
چل رہی ہِ - فاعلات - 1212
ہوا دیک - مفاعیل - 1221
کر چلو - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 13, 2012

لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر - غزل میر تقی میر

گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو یک نظر دیکھو

یوں عرق جلوہ گر ہے اس مونہہ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو

ہر خراشِ جبیں جراحت ہے
ناخنِ شوق کا ہنر دیکھو

تھی ہمیں آرزو لبِ خنداں
سو عوض اس کے چشمِ تر دیکھو
meer, taqi, meer taqi, meer, classical urdu poetry, urdu poetry, میر، تقی، میر تقی میر، کلاسیکی اردو شاعری، اردو شاعری, ilm-e-arooz, taqtee, Mir Taqi Mir
میر تقی میر Mir Taqi Mir
رنگِ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے
ایک دن آؤ یاں سحر دیکھو

دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو

پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دُور گر دیکھو

لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو

----


بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو


گر چ کب دے - فاعلاتن - 2212
ک تے ہُ پر - مفاعلن - 2121
دیکو - فعلن - 22

آرزو ہے - فاعلاتن - 2212
کِ تم ادر - مفاعلن - 2121
دیکو - فعلن - 22
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 6, 2012

کہاں کھو گئی روح کی روشنی - غزل خلیل الرحمٰن اعظمی

کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بتا میری راتوں کی آوارگی

غموں پر تبسّم کی ڈالی نقاب
تو ہونے لگی اور بے پردگی

مگر جاگنا اپنی قسمت میں تھا
بلاتی رہی نیند کی جل پری

جو تعمیر کی کنجِ تنہائی میں
وہ دیوار اپنے ہی سر پر گری

Khalil-ur-Rahman Azmi, خلیل الرحمٰن اعظمی, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
خلیل الرحمٰن اعظمی Khalil-ur-Rahman Azmi
نہ تھا بند ہم پر درِ مے کدہ
صراحی مگر دل کی خالی رہی

گذاری ہے کتنوں نے اس طرح عمر
بالاقساط کرتے رہے خود کشی

(خلیل الرحمٰن اعظمی)
--------

بحر - بحر متقارب مثمن محذوف

افاعیل - فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعِل
آخری رکن میں فَعِل کی جگہ فعول بھی آ سکتا ہے۔

اشاری نظام - 221 221 221 21
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 221 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 21 کی جگہ 121 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بتا میری راتوں کی آوارگی

کہا کو - فعولن - 221
گئی رُو - فعولن - 221
ح کی رو - فعولن - 221
شنی - فعِل - 21

بتا مے - فعولن - 221
رِ راتو - فعولن - 221
کِ آوا - فعولن - 221
رگی - فعِل - 21
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 20, 2012

مانا کہ تم رہا کیے دار و رسَن سے دُور - غزل مولانا محمد علی جوہر

یادِ وَطَن نہ آئے ہمیں کیوں وَطَن سے دُور
جاتی نہیں ہے بُوئے چمن کیا چمن سے دُور

گر بُوئے گُل نہیں، نہ سہی، یادِ گُل تو ہے
صیّاد لاکھ رکھّے قفس کو چمن سے دُور

پاداشِ جرمِ عشق سے کب تک مفَر بھلا
مانا کہ تم رہا کیے دار و رسَن سے دُور
Maulana, Muhammad, Ali, Johar, Maulana Muhammad Ali Johar, urdu poetry, poetry, مولانا، محمد، علی، جوہر، مولانا محمد علی جوہر، اردو شاعری، شاعری، غزل، ghazal
مولانا محمد علی جوہر
Maulana Muhammad Ali Johar
آساں نہ تھا تقرّبِ شیریں تو کیا ہوا
تیشہ کو کوئی رکھ نہ سکا کوہکن سے دُور

ہم تک جو دَورِ جام پھر آئے تو کیا عَجَب
یہ بھی نہیں ہے گردشِ چرخِ کہن سے دُور

شاید کہ آج حسرتِ جوہر نکل گئی
اک لاش تھی پڑی ہوئی گور و کفن سے دُور

(مولانا محمد علی جوہر)

------

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

یادِ وَطَن نہ آئے ہمیں کیوں وَطَن سے دُور
جاتی نہیں ہے بُوئے چمن کیا چمن سے دُور

یا دے وَ - مفعول - 122
طن نَ آ ء - فاعلات - 1212
ہَ مے کُو وَ - مفاعیل - 1221
طَن سِ دُور - فاعلان - 1212

جاتی نَ - مفعول - 122
ہی ہِ بُو ء - فاعلات - 1212
چمن کا چَ - مفاعیل - 1221
مَن سے دُور - فاعلان - 1212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 18, 2012

صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت - خواجہ الطاف حسین حالی

خواجہ الطاف حسین حالی کی ایک معروف غزل

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی، گلِ تر کی صورت
Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل
خواجہ الطاف حسین حالی
Altaf Hussain Hali
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت

دیکھئے شیخ، مصوّر سے کِچھے یا نہ کِچھے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت

واعظو، آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت

شوق میں اس کے مزا، درد میں اس کے لذّت
ناصحو، اس سے نہیں کوئی مفر کی صورت

رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت

(مولانا الطاف حسین حالی)
------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

اس کِ جاتے - فاعلاتن - 2212
ہِ یِ کا ہو - فعلاتن - 2211
گ ء گر کی - فعلاتن - 2211
صورت - فعلن - 22

نَ وُ دیوا - فعلاتن - 2211
ر کِ صورت - فعلاتن - 2211
ہِ نَ در کی - فعلاتن - 2211
صورت - فعلن - 22
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 28, 2012

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی - سیّد سبطِ علی صبا

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے

ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئنے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لیے

میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
Syyed Sibt-e-Ali Saba, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
سیّد سبطِ علی صبا
Syyed Sibt-e-Ali Saba
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے

ہر حُرملہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچّے چھپا لیے

(سیّد سبطِ علی صبا)
-------

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے

ملبوس - مفعول - 122
جب ہوا نِ - فاعلات - 1212
بدن سے چُ - مفاعیل - 1221
را لیے - فاعلن - 212

دوشیز - مفعول - 122
گان صبح - فاعلات - 1212
نِ چہرے چُ- مفاعیل - 1221
پا لیے - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 26, 2012

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں - کرشن بہاری نُور لکھنوی

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

سچ گھٹے یا بڑے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں

زندگی، موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں

جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں

اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نُور سنسار سے گیا ہی نہیں

(کرشن بہاری نُور لکھنوی)

---

بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

زندگی سے - فاعلاتن - 2212
بڑی سزا - مفاعلن - 2121
ہِ نہی - فَعِلن - 211

اور کیا جر - فاعلاتن - 2212
م ہے پتا - مفاعلن - 2121
ہِ نہی - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 24, 2012

وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا - ہوش ترمذی

وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا

مرنے جینے کو نہ سمجھے تو خطا کس کی ہے
کون سا حکم ہے جو ان کے اشاروں میں نہ تھا

ہر قدم خاک سے دامن کو بچایا تم نے
پھر یہ شکوہ ہے کہ میں راہگزاروں میں نہ تھا

تم سا لاکھوں میں نہ تھا، جانِ تمنا لیکن
ہم سا محروم ِ تمنا بھی ہزاروں میں نہ تھا

ہوش کرتے نہ اگر ضبطِ فغاں، کیا کرتے
پرسشِ غم کا سلیقہ بھی تو یاروں میں نہ تھا

(ہوش ترمذی)
-----


بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا

وہ تقاضا - فاعلاتن - 2212
ء جنو اب - فعلاتن - 2211
کِ بہارو - فعلاتن - 2211
مِ نہ تھا - فعِلن - 211

ایک دامن - فاعلاتن - 2212
بِ تُ الجھا - فعلاتن - 2211
ہُ وَ خارو - فعلاتن - 2211
مِ نہ تھا - فعِلن - 211

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 11, 2012

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے - قتیل شفائی

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے

ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکن
نظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے

نظر آتا ہے سجدے میں جو اکثر شیخ صاحب کو
وہ جلوہ، جلوۂ جانانہ بن جائے تو کیا کیجے
Qateel Shifai, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
قتیل شفائی Qateel Shifai
ترے ملنے سے جو مجھ کو ہمیشہ منع کرتا ہے
اگر وہ بھی ترا دیوانہ بن جائے تو کیا کیجے

خدا کا گھر سمجھ رکّھا ہے اب تک ہم نے جس دل کو
قتیل اس میں بھی اک بُتخانہ بن جائے تو کیا کیجے

(قتیل شفائی)
--------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے

حقیقت کا - مفاعیلن - 2221
اگر افسا - مفاعیلن - 2221
نہ بن جائے - مفاعیلن - 2221
تُ کا کیجے - مفاعیلن - 2221

گلے مل کر - مفاعیلن - 2221
بِ وہ بیگا - مفاعیلن - 2221
نہ بن جائے - مفاعیلن - 2221
تُ کا کیجے - مفاعیلن - 2221

-----

اور یہ غزل استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 9, 2012

دل میں اب آواز کہاں ہے - مولانا ماہر القادری

دل میں اب آواز کہاں ہے
ٹوٹ گیا تو ساز کہاں ہے

آنکھ میں آنسو لب پہ خموشی
دل کی بات اب راز کہاں ہے

سرو و صنوبر سب کو دیکھا
ان کا سا اندا ز کہاں ہے
Maulana Mahir-ul-Qadri, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مولانا ماہر القادری
Maulana Mahir-ul-Qadri
دل خوابیدہ، روح فسردہ
وہ جوشِ آغاز کہاں ہے

پردہ بھی جلوہ بن جاتا ہے
آنکھ تجلی ساز کہاں ہے

بت خانے کا عزم ہے ماہر
کعبے کا در باز کہاں ہے

(مولانا ماہر القادری)
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 3, 2012

یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا - غزل مجید امجد

مجید امجد کی ایک انتہائی خوبصورت غزل

جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا
میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا

یہ تیرگئ مسلسل میں ایک وقفۂ نور
یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا
Majeed Amjad, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مجید امجد
جو تم ہو برقِ نشیمن، تو میں نشیمنِ برق
الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا

ہجومِ رنگ فراواں سہی، مگر پھر بھی
بہار، نوحۂ صد عندلیب، کیا کہنا

ہزار قافلۂ زندگی کی تیرہ شبی
یہ روشنی سی افق کے قریب، کیا کہنا

لرز گئی تری لو میرے ڈگمگانے سے
چراغِ گوشۂ کوئے حبیب، کیا کہنا

(مجید امجد)

مآخذ - نقوش غزل نمبر، لاہور 1985ء

------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا
میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا

جنون عش - مفاعلن - 2121
ق کِ رس مے - فعلاتن - 2211
عجیب کا - مفاعلن - 2121
کہنا - فعلن - 22

مِ اُن سِ دُو - مفاعلن - 2121
ر وُ میرے - فعلاتن - 2211
قریب کا - مفاعلن - 2121
کہنا - فعلن - 22
-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 28, 2011

کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں - اصغر گونڈوی

اصغر گونڈوی اردو شاعری کا ایک اہم نام ہیں لیکن جس قدر ان کا کلام اچھا ہے اس قدر وہ مقبول نہ ہو سکے۔ آپ ایک صوفیِ باصفا تھے اور کلام میں بھی تصوف کی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے۔ علامہ اقبال انکی شاعری کی بہت تعریف فرماتے تھے اور مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ اگر اردو شاعری کو ایک اکائی فرض کیا جائے تو آدھی شاعری صرف اصغر گونڈوی کی ہے۔

اصغر گونڈوی کی ایک خوبصورت غزل

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ رُوحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مُغاں برسوں
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, asghar gondvi
اصغر گونڈوی Asghar Gondvi
کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں
کہ فرطِ ذوق سے جھومی ہے شاخِ آشیاں برسوں

جبینِ شوق لائی ہے وہاں سے داغِ ناکامی
یہ کیا کرتی رہی کم بخت، ننگِ آستاں برسوں

وہی تھا حال میرا، جو بیاں میں آ نہ سکتا تھا
جسے کرتا رہا افشا، سکوتِ رازداں برسوں

نہ پوچھو، مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشقِ حسرت سے
قفس کے سامنے رکھّا رہا ہے آشیاں برسوں

خروشِ آرزو ہو، نغمۂ خاموش الفت بن
یہ کیا اک شیوۂ فرسودۂ آہ و فغاں برسوں

نہ کی کچھ لذّتِ افتادگی میں اعتنا میں نے
مجھے دیکھا کِیا اُٹھ کر غبارِ کارواں برسوں

وہاں کیا ہے؟ نگاہِ ناز کی ہلکی سی جنبش ہے
مزے لے لے کے اب تڑپا کریں اربابِ جاں برسوں

محبّت ابتدا سے تھی مجھے گُلہائے رنگیں سے
رہا ہوں آشیاں میں لے کے برقِ آشیاں برسوں

میں وہ ہر گز نہیں جس کو قفس سے موت آتی ہو
میں وہ ہوں جس نے خود دیکھا نہ سوئے آشیاں برسوں

غزل میں دردِ رنگیں تُو نے اصغر بھر دیا ایسا
کہ اس میدان میں روتے رہیں گے نوحہ خواں برسوں

اصغر گونڈوی

--------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

نہ ہوگا کا - مفاعیلن - 2221
وَ شے بے مُد - مفاعیلن - 2221
دَ عا کا را - مفاعیلن - 2221
ز دا بر سو - مفاعیلن - 2221

وُ زاہد جو - مفاعیلن - 2221
رہا سر گش - مفاعیلن - 2221
تَ اے سُو دو - مفاعیلن - 2221
ز یا بر سو - مفاعیلن - 2221

-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 19, 2011

غزل - سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ - شبنم شکیل

سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ
برسوں بعد وہ دیکھ کے مجھ کو رہ جائے گا دنگ

ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے
اکھڑی اکھڑی باتیں اس کی، غیروں جیسے ڈھنگ

تارہ بن کے دور افق پر کانپے، لرزے، ڈولے
کچی ڈور سے اڑنے والی دیکھو ایک پتنگ
urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee, Shabnam Shakeel
شبنم شکیل Shabnam Shakee
دل کو تو پہلے ہی درد کی دیمک چاٹ گئی تھی
روح کو بھی اب کھاتا جائے تنہائی کا زنگ

انہی کے صدقے یا رب میری مشکل کر آسان
میرے جیسے اور بھی ہیں جو دل کے ہاتھوں تنگ

سب کچھ دے کر ہنس دی اور پھر کہنے لگی تقدیر
کبھی نہ ہوگی پوری تیرے دل کی ایک امنگ

شبنم کوئی جو تجھ سے ہارے، جیت پہ مان نہ کرنا
جیت وہ ہوگی جب جیتو گی اپنے آپ سے جنگ

(شبنم شکیل)

--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 10, 2011

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں - غزلِ حالی

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں

ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں

یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں
Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل, Ilm-e-Arooz, Taqtee
خواجہ الطاف حسین حالی
Altaf Hussain Hali
اِک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھّی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں

بس ہو چکا بیاں کَسَل و رنج و راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں

(خواجہ الطاف حسین حالی)
------

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں

ہے جُستَ - مفعول - 122
جُو کِ خوب - فاعلات - 1212
سِ ہے خوب - مفاعیل - 1221
تر کہا - فاعلن - 212

اب ٹھیر - مفعول - 122
تی ہِ دے کِ - فاعلات - 1212
یِ جا کر نَ - مفاعیل - 1221
ظر کہا - فاعلن - 212

----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 4, 2011

علی کے گل رُخوں سے بُوئے زھرائی نہیں جاتی - سلام از سیّد نصیر الدین نصیر

سیّد نصیر الدین نصیر مرحوم کا ایک خوبصورت سلام

تڑپ اٹھتا ہے دل، لفظوں میں دہرائی نہیں جاتی
زباں پر کربلا کی داستاں لائی نہیں جاتی

حسین ابنِ علی کے غم میں ہوں دنیا سے بیگانہ
ہجومِ خلق میں بھی میری تنہائی نہیں جاتی

اداسی چھا رہی ہے روح پر شامِ غریباں کی
طبیعت ہے کہ بہلانے سے بہلائی نہیں جاتی
urdu poetry, ilm-e-arooz, taqtee, salam, karbala, syyed naseer-ud-din naseer
سیّد نصیر الدین نصیر مرحوم
Syyed Naseer-ud-Din Naseer
کہا عبّاس نے افسوس، بازو کٹ گئے میرے
سکینہ تک یہ مشکِ آب لے جائی نہیں جاتی

جتن ہر دور میں کیا کیا نہ اہلِ شر نے کر دیکھے
مگر زھرا کے پیاروں کی پذیرائی نہیں جاتی

دلیل اس سے ہو بڑھ کر کیا شہیدوں کی طہارت پر
کہ میّت دفن کی جاتی ہے، نہلائی نہیں جاتی

طمانچے مار لو، خیمے جلا لو، قید میں رکھ لو
علی کے گل رُخوں سے بُوئے زھرائی نہیں جاتی

کہا شبّیر نے، عبّاس تم مجھ کو سہارا دو
کہ تنہا لاشِ اکبر مجھ سے دفنائی نہیں جاتی

حُسینیّت کو پانا ہے تو ٹکّر لے یزیدوں سے
یہ وہ منزل ہے جو لفظوں میں سمجھائی نہیں جاتی

وہ جن چہروں کو زینت غازۂ خاکِ نجف بخشے
دمِ آخر بھی ان چہروں کی زیبائی نہیں جاتی

نصیر آخر عداوت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں
کسی بیمار کو زنجیر پہنائی نہیں جاتی

(سید نصیر الدین نصیر)
-------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

تڑپ اٹھتا ہے دل، لفظوں میں دہرائی نہیں جاتی
زباں پر کربلا کی داستاں لائی نہیں جاتی

تڑپ اٹھتا - مفاعیلن - 2221
ہِ دل لفظو - مفاعیلن - 2221
مِ دہرائی - مفاعیلن - 2221
نہی جاتی - مفاعیلن - 2221

زبا پر کر - مفاعیلن - 2221
بلا کی دا - مفاعیلن - 2221
س تا لائی - مفاعیلن - 2221
نہی جاتی - مفاعیلن - 2221

--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Dec 1, 2011

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد - غزل مولانا محمد علی جوہر

سرنامے میں مولانا محمد علی جوہر کے جس شعر کا مصرع ہے وہ شعر کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں، یہ شعر ان خوش قسمت شعروں میں سے ہے جو نہ صرف خود زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے خالق کو بھی کر دیتے ہیں۔ وگرنہ مولانا محمد علی جوہر کی سیاسی حیثیت جو بھی ہے بطور شاعر کم ہی لوگ ان کو جانتے ہیں حالانکہ مولانا باقاعدہ شاعر تھے، جوہر تخلص کرتے تھے اور کلام بھی چھپ چکا ہے شاید "فیروز سنز" نے شائع کیا ہے۔ ان کا کلام تو میری نظر سے نہیں گزرا لیکن جس غزل کا یہ شعر ہے وہ غزل اور ایک مزید غزل "نقوش غزل نمبر"، لاہور 1985ء میں موجود ہے وہیں سے یہ غزل لکھ رہا ہوں۔

دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدّعا کے بعد

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

لذّت ہنوز مائدہٴ عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنّا، سزا کے بعد
Maulana, Muhammad, Ali, Johar, Maulana Muhammad Ali Johar, urdu poetry, poetry, مولانا، محمد، علی، جوہر، مولانا محمد علی جوہر، اردو شاعری، شاعری، غزل، ghazal, karbala, salam, کربلا، سلام
مولانا محمد علی جوہر
Maulana Muhammad Ali Johar
قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مولانا محمد علی جوہر بحوالہ "نقوش غزل نمبر"، لاہور، 1985ء
-----

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

دورِ حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

دورے ح - مفعول - 122
یات آء - فاعلات - 1212
گَ قاتل قَ - مفاعیل - 1221
ضا کِ بعد - فاعلان - 1212

ہے ابتِ - مفعول - 122
دا ہمارِ - فاعلات - 1212
تری انتِ - مفاعیل - 1221
ہا کِ بعد - فاعلان - 1212

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 16, 2011

کون کسی کا یار ہے سائیں - راغب مراد آبادی

کون کسی کا یار ہے سائیں
یاری بھی بیوپار ہے سائیں

یہ بھی جھوٹا، وہ بھی جھوٹا
جھوٹا سب سنسار ہے سائیں
Raghib Muradabadi,urdu poetry, urdu ghazal,
راغب مرادآبادی
Raghib Muradabadi
ہم تو ہیں بس رمتے جوگی
آپ کا تو گھر بار ہے سائیں

کب سے اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں
جس کو مجھ سے پیار ہے سائیں

کرودھ کپٹ ہے جس کے من میں
مفلس اور نادار ہے سائیں

ڈول رہی ہے پریم کی نیا
داتا کھیون ہار ہے سائیں

بات کبھی ہے پھول کی ڈالی
بات کبھی تلوار ہے سائیں

گاؤں کی عزت کا رکھوالا
گاؤں کا لمبردار ہے سائیں

راغب مراد آبادی
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 4, 2011

پروفیسر اقبال عظیم کی ایک خوبصورت غزل

پروفیسر اقبال عظیم کی ایک خوبصورت اور مرصع غزل

وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

کفِ دست نازک حنائی حنائی، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹُونا، وہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی
Iqbal Azeem, اقبال عظیم, urdu poetry, urdu ghazal,
Iqbal Azeem, اقبال عظیم
کبھی خوش مزاجی، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری، ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی

نہ حرفِ تکلّم، نہ سعیِ تخاطب، سرِ بزم لیکن بہم ہم کلامی
اِدھر چند آنسو سوالی سوالی، اُدھر کچھ تبسّم جوابی جوابی

وہ سیلابِ خوشبو گلستاں گلستاں، وہ سروِ خراماں بہاراں بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی

نہ ہونٹوں پہ سرخی، نہ آنکھوں میں کاجل، نہ ہاتھوں میں کنگن، نہ پیروں میں پائل
مگر حُسنِ سادہ مثالی مثالی، جوابِ شمائل فقط لاجوابی

وہ شہرِ نگاراں کی گلیوں کے پھیرے، سرِ کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے
مگر حرفِ پُرسش نہ اِذنِ گزارش، کبھی نامرادی کبھی باریابی

یہ سب کچھ کبھی تھا، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے
نہ تیشہ بدوشی، نہ خارہ شگافی، نہ آہیں نہ آنسو نہ خانہ خرابی

کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے، جدھر دیکھیئے ایک مریم کھڑی ہے
نجابت سراپا، شرافت تبسّم، بہ عصمت مزاجی، بہ عفّت مآبی

جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں، جن آنکھوں میں جادو تھا اب با وضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے یہ معصوم آنکھیں، نہ وہ بے حجابی نہ وہ بے نقابی

وہ عشقِ مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدّس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حُسنِ نگاراں فریبِ نظر تھا، فرشتوں کی صورت ہے گِردوں جنابی

وہ صورت پرستی سے اُکتا گیا ہے، خلوصِ نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے
نہ موجِ تبسّم، نہ دستِ حنائی، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

نہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی، نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی

پروفیسر اقبال عظیم

غزل بشکریہ حجاب، اُردو محفل

------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Nov 1, 2011

کوہکن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے - غزل ڈاکٹر خورشید رضوی

موجودہ عہد کے ایک انتہائی اہم اور صاحبِ اسلوب شاعر پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کی ایک خوبصورت غزل

نبضِ ایّام ترے کھوج میں چلنا چاہے
وقت خود شیشہٴ ساعت سے نکلنا چاہے

دستکیں دیتا ہے پیہم مری شریانوں میں
ایک چشمہ کہ جو پتھّر سے اُبلنا چاہے
Dr. Khursheed Rizvi, ڈاکٹر خورشید رضوی, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee,
پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی
Dr. Khursheed Rizvi
مجھ کو منظور ہے وہ سلسلہٴ سنگِ گراں
کوہکن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے

تھم گیا آ کے دمِ بازپسیں، لب پہ وہ نام
دل یہ موتی نہ اگلنا نہ نگلنا چاہے

ہم تو اے دورِ زماں خاک کے ذرّے ٹھہرے
تُو تو پھولوں کو بھی قدموں میں مسلنا چاہے

کہہ رہی ہے یہ زمستاں کی شبِ چار دہم
کوئی پروانہ جو اس آگ میں جلنا چاہے

صبح دم جس نے اچھالا تھا فضا میں خورشید
دل سرِ شام اُسی بام پہ ڈھلنا چاہے

ڈاکٹر خورشید رضوی

--------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

نبضِ ایّام ترے کھوج میں چلنا چاہے
وقت خود شیشہٴ ساعت سے نکلنا چاہے

نبض ای یا - فاعلاتن - 2212
م ترے کو - فعلاتن - 2211
ج مِ چلنا - فعلاتن - 2211
چاہے - فعلن - 22

وقت خُد شی - فاعلاتن - 2212
شَ ء ساعت - فعلاتن - 2211
سِ نکلنا - فعلاتن - 2211
چاہے - فعلن - 22

-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔