Showing posts with label اردو غزل. Show all posts
Showing posts with label اردو غزل. Show all posts

Jul 6, 2012

تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں - غزل میر تقی میر

میر تقی میر کی ایک انتہائی خوبصورت غزل

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

بوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دل‌ کش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھیے تو وفا نہیں

شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بتاں
مجھ کو خدا نخواستہ، تم سے تو کچھ گلِا نہیں
Mir Taqi Mir, میر تقی میر, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Meer Taqi Meer, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی ارو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر
Mir Taqi Mir, میر تقی میر

نالے کِیا نہ کر سُنا، نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے، میں نے تجھے کہا نہیں

چشمِ سفید و اشکِ سرخ، آہ دلِ حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے مے نہیں، ابر نہیں ہوا نہیں

ایک فقط ہے سادگی، تس پہ بلائے جاں ہے تو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں، آن نہیں ادا نہیں

آب و ہوائے ملکِ عشق، تجربہ کی ہے میں بہت
کر کے دوائے دردِ دل، کوئی بھی پھر جِیا نہیں

ہوئے زمانہ کچھ سے کچھ، چھوٹے ہے دل لگا مرا
شوخ کسی بھی آن میں، تجھ سے تو میں جدا نہیں

نازِ بُتاں اٹھا چکا، دیر کو میر ترک کر
کعبے میں جا کے رہ میاں، تیرے مگر خدا نہیں

(میر تقی میر)
------

بحر - بحر رجز مثمن مطوی مخبون

افاعیل - مُفتَعِلُن مُفاعِلُن /مُفتَعِلُن مُفاعِلُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر ایک ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی ہر ٹکڑے کے اختتام پر عملِ تسبیغ جائز ہے یعنی ہر مفاعلن کو مفاعلان بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس غزل کے پہلے شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں، دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کے دوسرے ٹکڑے میں اور کئی ایک اور جگہوں ہر ہے۔

اشاری نظام - 2112 2121 / 2112 2121
ہندسوں کو اردو طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی 2112 پہلے ہے۔ اس بحر میں ہر 2121 کو 12121 میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

تقطیع-

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

مل نِ لگے - مفتعلن - 2112
ہُ دیر دیر - مفاعلان - 12121
دیک ے کا - مفتعلن - 2112
ہِ کا نہی - مفاعلن - 2121

تم تُ کرو - مفتعلن - 2112
ہُ صاحبی -مفاعلن - 2121
بندِ مِ کچ - مفتعلن - 2112
رہا نہی - مفاعلن - 2121
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 4, 2012

ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی - غزلِ جون ایلیا

حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی

بعد بھی تیرے جانِ جاں، دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تری یہاں، پھر تری یاد بھی گئی

صحنِ خیالِ یار میں، کی نہ بسر شبِ فراق
جب سے وہ چاندنہ گیا، جب سے وہ چاندنی گئی
Jaun Elia, جون ایلیا, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، بحر، علم عروض، تقطیع
Jaun Elia, جون ایلیا

اس کے بدن کو دی نمود، ہم نے سخن میں اور پھر
اس کے بدن کے واسطے، ایک قبا بھی سی گئی

اس کی امیدِ ناز کا، ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی

اس کے وصال کے لیے، اپنے کمال کے لیے
حالتِ دل کہ تھی خراب، اور خراب کی گئی

تیرا فراق جانِ جاں، عیش تھا کیا مرے لیے
یعنی ترے فراق میں، خوب شراب پی گئی

اس کی گلی سے اٹھ کے میں، آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی

جون ایلیا

----

بحر - بحر رجز مثمن مطوی مخبون

افاعیل - مُفتَعِلُن مفاعلن /مُفتَعِلُن مفاعلن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر ایک ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی ہر ٹکڑے کے اختتام پر عملِ تسبیغ جائز ہے یعنی ہر مفاعلن کو مفاعلان بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس غزل کے چوتھے  اور آٹھویں شعروں کے پہلے مصرعے کے آخری ٹکڑے میں اور پانچویں شعر کے دوسرے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں اور آخری شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں۔

اشاری نظام - 2112 2121 / 2112 2121
ہندسوں کو اردو طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی 2112 پہلے ہے۔ اس بحر میں ہر 2121 کو 12121 میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

تقطیع-

حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

حا لتِ حا - مفتعلن - 2112
ل کے سبب - مفاعلن - 2121
حالتِ حا - مفتعلن - 2112
ل ہی گئی - مفاعلن - 2121

شوق مِ کچ - مفتعلن - 2112
نہی گیا - مفاعلن - 2121
شوق کِ زن - مفتعلن - 2112
دگی گئی - مفاعلن - 2121
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 29, 2012

آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ - افتخار عارف

آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ

ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں
اِک نظر تو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ

دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال
دل سنبھل جائے تو سوئے سینہٴ احباب دیکھ

موجہٴ سرکش کناروں سے چھلک جائے تو پھر
کیسی کیسی بستیاں آتی ہیں زیرِ آب دیکھ

بوند میں سارا سمندر آنکھ میں کل کائنات
ایک مشتِ خاک میں سورج کی آب وتاب دیکھ
Iftikhar Arif, افتخار عارف, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، بحر، تقطیع
Iftikhar Arif, افتخار عارف

کچھ قلندر مشربوں سے راہ و رسمِ عشق سیکھ
کچھ ہم آشفتہ مزاجوں کے ادب آداب دیکھ

شب کو خطِّ نور میں لکھّی ہوئی تعبیر پڑھ
صبح تک دیوارِ آئیندہ میں کُھلتے باب دیکھ

افتخار عارف کے تند و تیز لہجے پر نہ جا
افتخار عارف کی آنکھوں میں اُلجھتے خواب دیکھ

افتخار عارف
------

بحر - بحر رمل مثمن محذوف

افاعیل - فاعلاتُن فاعلاتُن فاعلاتُن فاعلُن
(آخری رکن فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آسکتا ہے)

تقطیع-

آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ

آسمانو - فاعلاتن - 2212
پر نظر کر - فاعلاتن - 2212
انجمو مہ - فاعلاتن - 2212
تاب دیک - فاعلان - 1212

صبح کی بن - فاعلاتن - 2212
یاد رکھنی - فاعلاتن - 2212
ہے تُ پہلے - فاعلاتن - 2212
خاب دیک - فاعلان - 1212
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 25, 2012

کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں - قتیل شفائی

کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ  سچ بولیں

سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اظہار، آؤ سچ بولیں

ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنامِ عظمتِ کردار، آؤ  سچ بولیں

سنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی منصف ہے
پکار کر سرِ دربار، آؤ سچ بولیں
Qateel Shifai, قتیل شفائی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Qateel Shifai, قتیل شفائی

تمام شہر میں اب ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار، آؤ سچ بولیں

جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار، آؤ سچ بولیں

چھپائے سے کہیں چھپتے ہیں داغ چہروں کے
نظر ہے آئنہ بردار، آؤ سچ بولیں

قتیل جن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کدھر گئے وہ گنہ گار، آؤ سچ بولیں

قتیل شفائی
------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ  سچ بولیں

کُلا ہ جُو - مفاعلن -2121
ٹ کَ بازا - فعلاتن - 2211
ر آؤ سچ - مفاعلن - 2121
بولے - فعلن - 22

نَ ہو بلا - مفاعلن - 2121
سِ خریدا - فعلاتن - 2211
ر آؤ سچ - مفاعلن - 2121
بولے - فعلن - 22
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 20, 2012

دستِ زردار ترے درہم و دینار پہ خاک - عرفان صدیقی

عرفان صدیقی کی ایک انتہائی خوبصورت غزل، جس کا ایک اک شعر لاجواب ہے، انتہائی مشکل زمین میں کیسے خوبصورت شعر کہے ہیں۔

جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک

تُو نے مٹّی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

ہم نے مدّت سے اُلٹ رکھّا ہے کاسہ اپنا
دستِ زردار ترے درہم و دینار پہ خاک
Irfan Siddiqui, عرفان صدیقی, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع
Irfan Siddiqui, عرفان صدیقی

پُتلیاں گرمیٔ نظّارہ سے جل جاتی ہیں
آنکھ کی خیر میاں رونقِ بازار پہ خاک

جو کسی اور نے لکھّا ہے اسے کیا معلوم
لوحِ تقدیر بجا، چہرۂ اخبار پہ خاک

پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں
اے ہوائے سرِ صحرا تری رفتار پہ خاک

یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمھیں
محضرِ شوق پڑھو، محضرِ سرکار پہ خاک

آپ کیا نقدِ دو عالم سے خریدیں گے اسے
یہ تو دیوانے کا سر ہے سرِ پندار پہ خاک

یہ غزل لکھ کے حریفوں پہ اُڑا دی میں نے
جم رہی تھی مرے آئینۂ اشعار پہ خاک

عرفان صدیقی
------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک

جب ی عالم - فاعلاتن - 2212
ہُ تُ لکھیے - فعلاتن - 2211
لَ بُ رخسا - فعلاتن - 2211
ر پ خاک - فَعِلان - 1211

اڑتِ ہے خا - فاعلاتن - 2212
نَ ء دل کے - فعلاتن - 2211
دَ رُ دیوا - فعلاتن - 2211
ر پ خاک - فَعِلان - 1211
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 18, 2012

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے - غزل اصغر گونڈوی

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے

ہے عشق کہ محشر میں، یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے

ہے عشق کی شورش سے، رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے، وہ رنگِ گلستاں ہے

پھر گرمِ نوازش ہے، ضو مہرِ درخشاں کی
پھر قطرہٴ شبنم میں، ہنگامہٴ طوفاں ہے

اے پیکرِ محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے، وہ دیدہٴ حیراں ہے

سو بار ترا دامن، ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا، اپنا ہی گریباں ہے
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Classical Urdu Poetry, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی اردو شاعری، علم عروض، بحر، تقطیع
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی

اک شورشِ بے حاصل، اک آتشِ بے پروا
آفت کدہٴ دل میں، اب کفر نہ ایماں ہے

دھوکا ہے یہ نظروں کا، بازیچہ ہے لذّت کا
جو کنجِ قفس میں تھا، وہ اصلِ گلستاں ہے

اک غنچہٴ افسردہ، یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موج زنی خوں کی، رنگینیِ پیکاں ہے

یہ حسن کی موجیں ہیں یا جوشِ تبسّم ہے
اس شوخ کے ہونٹوں پر، اک برق سی لرزاں ہے

اصغر سے ملے لیکن، اصغر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں، کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

اصغر گونڈوی
------

بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
(یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔ )

افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُن

اشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

تقطیع -

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے

یہ عشق - مفعول - 122
نِ دیکا ہے - مفاعیلن - 2221
یہ عقل - مفعول - 122
سِ پنہا ہے - مفاعیلن - 2221

قطرہ مِ - مفعول - 122
سمندر ہے - مفاعیلن - 2221
ذر رہ مِ - مفعول - 122
بیابا ہے - مفاعیلن - 2221
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 15, 2012

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت - واصف علی واصف

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت

 جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت

پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن ہی سے فنکار کی صورت
Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazal, Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behar, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف
اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِ تمنّا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت

اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹّی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت

دل ہاتھ پہ رکھّا ہے کوئی ہے جو خریدے؟
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت

صورت مری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت

واصف کو سرِدار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت

واصف علی واصف

غزل بشکریہ اردو محفل
------

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

ہر چہرِ - مفعول - 122
مِ آتی ہِ - مفاعیل - 1221
نظر یار - مفاعیل - 1221
کِ صورت - فعولن - 221

احباب - مفعول - 122
کِ صورت ہُ - مفاعیل - 1221
کِ اغیار - مفاعیل - 1221
کِ صورت - فعولن - 221
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 11, 2012

یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی - سیّد سبطِ علی صبا

یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی
کلوں کے شہر میں بھی نوکری نہیں ملتی

جو سوت کاتنے میں رات بھر رہی مصروف
اسی کو سر کے لئے اوڑھنی نہیں ملتی

رہِ حیات میں کیا ہو گیا درختوں کو
شجر شجر کوئی ٹہنی ہری نہیں ملتی

غنودگی کا کچھ ایسا طلسم طاری ہے
کوئی بھی آنکھ یہاں جاگتی نہیں ملتی
Syed Sibte Ali Saba, سید سبط علی صبا, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, ااردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، taqtee
Syed Sibte Ali Saba, سید سبط علی صبا
یہ راز کیا ہے کہ دنیا کو چھوڑ دینے سے
خدا تو ملتا ہے پیغمبری نہیں ملتی

گزر رہی ہے حسیں وادیوں سے ریل صبا
ستم ہے یہ کوئی کھڑکی کھلی نہیں ملتی

سبطِ علی صبا
---


بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی
کلوں کے شہر میں بھی نوکری نہیں ملتی


یہا وہا - مفاعلن - 2121
کَ ہِ آسو - فعلاتن - 2211
دگی نہی - مفاعلن - 2121
ملتی - فعلن - 22

کلو کِ شہ - مفاعلن - 2121
ر مِ بی نو - فعلاتن - 2211
کری نہی - مفاعلن - 2121
ملتی - فعلن - 22
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 6, 2012

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے - غزل عبدالحمید عدم

عبدالحمید عدم کی ایک انتہائی معروف اور مشہور غزل

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے

بس اک زخمِ نظّارہ، حصّہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری، بادہ خانے ترے

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
Abdul Hameed Adam, عبدالحمید عدم, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع
Abdul Hameed Adam, عبدالحمید عدم
بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

-------

بحر - بحر متقارب مثمن محذوف

افاعیل - فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعِل
آخری رکن میں فَعِل کی جگہ فعول بھی آ سکتا ہے۔

اشاری نظام - 221 221 221 21
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 221 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 21 کی جگہ 121 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

وُ باتے - فعولن - 221
تری وہ - فعولن - 221
فسانے - فعولن - 221
ترے - فَعِل - 21

شگفتہ - فعولن - 221
شگفتہ - فعولن - 221
بہانے - فعولن - 221
ترے - فَعِل - 21
---------

اور یہ غزل طاہرہ سیّد کی آواز میں





مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 26, 2012

غزل - زندگی سے نظر ملاؤ کبھی - پروین شاکر

پروین شاکر کی ایک خوبصورت غزل

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی

اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
 ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
Parveen Shakir, پروین شاکر. Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع
Parveen Shakir, پروین شاکر
اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
 حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی

(پروین شاکر)

-------


بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

زندگی سے - فاعلاتن - 2212
نظر ملا - مفاعلن - 2121
ؤ کبی - فَعِلن - 211

ہار کے بع - فاعلاتن - 2212
د مسکرا - مفاعلن - 2121
ؤ کبی - فَعِلن - 211
---------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 19, 2012

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے - داغ دہلوی

فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی کی ایک انتہائی مشہور اور معروف غزل

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغ دہلوی, Daagh Dehlvi, Urdu Poetry, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, علم عروض، تقطیع
داغ دہلوی, Daagh Dehlvi
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

(داغ دہلوی)

------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

لطف وہ عش - فاعلاتن - 2212
ق مِ پائے - فعلاتن - 2211
ہِ کِ جی جا - فعلاتن - 2211
ن تَ ہے - فَعِلن - 211

رنج بی اے - فاعلاتن - 2212
سِ اٹائے - فعلاتن - 2211
ہِ کِ جی جا - فعلاتن - 2211
ن تَ ہے - فَعِلن - 211
-----------

اور یہ غزل ملکہٴ ترنم میڈم نورجہاں کی خوبصورت آواز میں







مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 15, 2012

عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے - احمد مشتاق

احمد مشتاق عصرِ حاضر کے ایک انتہائی اہم شاعر ہیں، کم کم شاعری کرتے ہیں لیکن انکی جتنی بھی شاعری ہے لاجواب ہے۔ انکی غزلوں میں سے ایک انتہائی خوبصورت غزل  جس کا ہر شعر ہی لاجواب ہے، ملاحظہ کیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔

مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
Ahmed Mushtaq, احمد مشتاق, Urdu Poetry, Ilm-e-Urooz, Ilm-e-Arooz, Taqtee,
Ahmed Mushtaq, احمد مشتاق
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جُگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے

دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے

احمد مشتاق
-----


بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

مل ہِ جائے - فاعلاتن - 2212
گَ کبی دل - فعلاتن - 2211
کُ یقی رہ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22

وہ اسی شہ - فاعلاتن - 2212
ر کِ گلیو - فعلاتن - 2211
مِ کہی رہ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 2, 2012

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا - غزلِ سودا

مرزا محمد رفیع سودا کی ایک خوبصورت غزل

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مِل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دِل بنا

سرگرمِ نالہ ان دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متّصِل بنا

جب تیشہ کوہ کن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سِل بنا
مرزا، رفیع، سودا، مرزا رفیع سودا، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، mirza, rafi, sauda, mirza rafi sauda, classical urdy poetry, urdu poetry
 مرزا محمد رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda
جس تیرگی سے روز ہے عشّاق کا سیاہ
شاید اسی سے چہرہٴ خوباں پہ تِل بنا

لب زندگی میں کب ملے اُس لب سے اے کلال
ساغر ہماری خاک کو مت کرکے گِل بنا

اپنا ہنر دکھاویں گے ہم تجھ کو شیشہ گر
 ٹوٹا ہوا کسی کا اگر ہم سے دِل بنا

سُن سُن کے عرضِ حال مرا یار نے کہا
سودا نہ باتیں بیٹھ کے یاں متّصِل بنا

مرزا محمد رفیع سودا

------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--


آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا


آدم کَ - مفعول - 122
جسم جب کِ -فاعلات - 1212
عناصر سِ - مفاعیل - 1221
مل بنا - فاعلن - 212

کچ آگ - مفعول - 122
بچ رہی تِ - فاعلات - 1212
سُ عاشق کَ - مفاعیل - 1221
دل بنا - فاعلن - 212
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 30, 2012

عبور درد کا سیلِ چناب کس نے کیا - اختر ھوشیارپوری

عبور درد کا سیلِ چناب کس نے کیا
خود اپنی جاں کا یہاں احتساب کس نے کیا

زمانہ مجھ سے شناسا نہ میں زمانے سے
میں سوچتا ہوں مرا انتخاب کس نے کیا

جو میں نہیں ہوں تو میرے بدن میں لرزہ کیا
جو وہ نہیں تھا تو مجھ سے خطاب کس نے کیا

میں اس طرح سے کہاں نادم اپنے آپ سے تھا
حضورِ ذات مجھے آب آب کس نے کیا

بہار آتی تو پت جھڑ بھی دیکھ لیتا میں
ابھی سے خواب کو تعبیرِ خواب کس نے کیا

دیئے جلا کے مجھے راستے میں چھوڑ گیا
وہ کون شخص تھا، مجھ کو خراب کس نے کیا

سوال گونجتے رہتے ہیں حرفِ نو کی طرح
جو چپ ہے وہ تو مجھے لاجواب کس نے کیا

وہ ایک لفظ جو سنّاٹا بن کے گونجا تھا
اس ایک لفظ کو اختر کتاب کس نے کیا

اختر ھوشیارپوری
--------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -


عبور درد کا سیلِ چناب کس نے کیا
خود اپنی جاں کا یہاں احتساب کس نے کیا


عبور در - مفاعلن - 2121
د کَ سیلے - فعلاتن - 2211
چناب کس - مفاعلن - 2121
نِ کیا - فَعِلن - 211

خُ دپ نِ جا - مفاعلن - 2121
کَ یہا اح - فعلاتن - 2211
تساب کس - مفاعلن - 2121
نِ کیا - فَعِلن - 211
-------------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 26, 2012

کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا - غزلِ میر

کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا

شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا

سب سے مل جل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈھا بھی تو نہ پائیے گا

نہ ہوئے ہم اسیری میں تو نسیم
کوئی دن اور باؤ کھائیے گا

کہیے گا اس سے قصّہٴ مجنوں
یعنی پردے میں غم بتائیے گا
meer, taqi, meer taqi, meer, classical urdu poetry, urdu poetry, میر، تقی، میر تقی میر، کلاسیکی اردو شاعری، اردو شاعری, Mir Taqi Mir
میر تقی میر, Mir Taqi Mir
اس کے پاؤں کو جا لگی ہے حنا
خوب سے ہاتھ اسے لگائیے گا

اس کے پابوس کی توقّع پر
اپنے تئیں خاک میں ملائیے گا

شرکتِ شیخ و برہمن سے میر
کعبہ و دیر سے بھی جائیے گا

اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جُدا مسجد
کسو ویرانے میں بنائیے گا
--------

بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا


کب تلک یہ - فاعلاتن -2212
ستم اُ ٹا - مفاعلن - 2121
ء ی گا - فَعِلن - 211

ایک دن یو - فاعلاتن - 2212
ہِ جی سِ جا - مفاعلن - 2121
ء ی گا - فَعِلن - 211
-------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 14, 2012

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے - غزل شان الحق حقّی

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے

کچھ اس کے تصوّر میں وہ راحت ہے کہ برسوں
بیٹھے یونہی اس وادیٔ گُل پوش میں رہیے

اک سادہ تبسّم میں وہ جادو ہے کہ پہروں
ڈوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہیے

ہوتی ہے یہاں قدر کسے دیدہ وری کی
آنکھوں کی طرح اپنے ہی آغوش میں رہیے

ٹھہرائی ہے اب حالِ غمِ دل نے یہ صورت
مستی کی طرح دیدۂ مے نوش میں رہیے
shan, haqqi, shan-ul-haq-haqqi, poetry, urdu poetry, ghazal, شان، شان الحق حقی، اردو شاعری، اردو غزل، شاعری، غزل
ڈاکٹر شان الحق حقّی, Shan-ul-Haq Haqqi
ہمّت نے چلن اب یہ نکالا ہے کہ چبھ کر
کانٹے کی طرح پائے طلب کوش میں رہیے

آسودہ دلی راس نہیں عرضِ سُخن کو
ہے شرط کہ دریا کی طرح جوش میں رہیے

ہستی میں وہ حالت ہے دل و جاں کی کہ جیسے
جا کر کسی مینارۂ خاموش میں رہیے

کیوں دیکھیے خونابہ فشانی کو کسی کی
آرائشِ رخسار و لب و گوش میں رہیے

یا ربط خدایانِ جفا کیش سے رکھیے
یا حلقۂ یارانِ وفا کوش میں رہیے

حقّی وہی اب پھر غمِ ایّام کا دکھڑا
یہ محفلِ رنداں ہے ذرا ہوش میں رہیے

ڈاکٹر شان الحق حقّی
--------
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -


ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے


ہر چند - مفعول - 122
کہ ساغر کِ - مفاعیل - 1221
طرَح جوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221

ساقی سِ - مفعول - 122
ملے آک - مفاعیل - 1221
تُ پر ہوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 6, 2012

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو - احسان دانش

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو
 کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

 زندہ ہے دل تو اس میں محبت بھی چاہیے
 آنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلو

 آذر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیک
 صر صر بنی ہوئی ہے صبا دیکھ کر چلو

 امسال دیدنی ہے چمن میں جنوں کا رنگ
 گُل چاک کر رہے ہیں قبا دیکھ کر چلو

 گُلچیں کے سدّباب سے انکار ہے کسے
 لیکن اصولِ نشو و نما دیکھ کر چلو
Ehsan, Ahsan, Danish, Ehsan Danish, Ahsan Danish, urdu poetry, poetry, ghazal, احسان، دانش، احسان دانش، اردو شاعری، شاعری، غزل
احسان دانش, Ehsan Danish
 کچھ سرپھروں کو ذکرِ وفا بھی ہے ناگوار
 یہ انحطاطِ مہر و وفا دیکھ کر چلو

 ہاں انفرادیت بھی بُری چیز تو نہیں
 چلنا اگر ہے سب سے جدا دیکھ کر چلو

 آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو ہر شے ہے بے نقاب
 اے بندگانِ حرص و ہوا دیکھ کر چلو

 ذوقِ عبودیت ہو کہ گستاخیِ نگاہ
 تخمینۂ جزا و سزا دیکھ کر چلو

 ناموسِ زندگی بھی بڑی شے ہے دوستو
 دیکھو بلند و پست فضا دیکھ کر چلو

 یہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیست
 اس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلو

 عرفان و آگہی بھی عبادت سہی مگر
 طرز و طریقِ اہلِ وفا دیکھ کر چلو

 اسبابِ ظاہری پہ بھی درکار ہے نظر
 باوصف اعتمادِ خدا دیکھ کر چلو

 ممکن ہے روحِ سرو و سمن سے ہو ساز باز
 کیا دے گئی گلوں کو صبا دیکھ کر چلو

 ہر کشمکش نہیں ہے امینِ سکونِ دل
 ہر موت میں نہیں ہے بقا دیکھ کر چلو

 ہر لحظہ ہے پیمبرِ اندیشہ و عمل
 کیا چاہتا ہے رنگِ فضا دیکھ کر چلو

 یہ بھی روش نہ ہو رہِ مقصود کے خلاف
 آئی ہے یہ کدھر سے صدا "دیکھ کر چلو"

ہمدرد بن کے دشمنِ دانش ہوئے ہیں لوگ
یہ بھی ہے دوستی کی ادا دیکھ کر چلو

 (احسان دانش)

------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو
 کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

ہستی کَ - مفعول - 122
ہر نفس ہِ - فاعلات - 1212
نیا دیک - مفاعیل - 1221
کر چلو - فاعلن - 212

کس رُخ کِ - مفعول - 122
چل رہی ہِ - فاعلات - 1212
ہوا دیک - مفاعیل - 1221
کر چلو - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 13, 2012

لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر - غزل میر تقی میر

گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو یک نظر دیکھو

یوں عرق جلوہ گر ہے اس مونہہ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو

ہر خراشِ جبیں جراحت ہے
ناخنِ شوق کا ہنر دیکھو

تھی ہمیں آرزو لبِ خنداں
سو عوض اس کے چشمِ تر دیکھو
meer, taqi, meer taqi, meer, classical urdu poetry, urdu poetry, میر، تقی، میر تقی میر، کلاسیکی اردو شاعری، اردو شاعری, ilm-e-arooz, taqtee, Mir Taqi Mir
میر تقی میر Mir Taqi Mir
رنگِ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے
ایک دن آؤ یاں سحر دیکھو

دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو

پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دُور گر دیکھو

لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو

----


بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو


گر چ کب دے - فاعلاتن - 2212
ک تے ہُ پر - مفاعلن - 2121
دیکو - فعلن - 22

آرزو ہے - فاعلاتن - 2212
کِ تم ادر - مفاعلن - 2121
دیکو - فعلن - 22
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 6, 2012

کہاں کھو گئی روح کی روشنی - غزل خلیل الرحمٰن اعظمی

کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بتا میری راتوں کی آوارگی

غموں پر تبسّم کی ڈالی نقاب
تو ہونے لگی اور بے پردگی

مگر جاگنا اپنی قسمت میں تھا
بلاتی رہی نیند کی جل پری

جو تعمیر کی کنجِ تنہائی میں
وہ دیوار اپنے ہی سر پر گری

Khalil-ur-Rahman Azmi, خلیل الرحمٰن اعظمی, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
خلیل الرحمٰن اعظمی Khalil-ur-Rahman Azmi
نہ تھا بند ہم پر درِ مے کدہ
صراحی مگر دل کی خالی رہی

گذاری ہے کتنوں نے اس طرح عمر
بالاقساط کرتے رہے خود کشی

(خلیل الرحمٰن اعظمی)
--------

بحر - بحر متقارب مثمن محذوف

افاعیل - فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعِل
آخری رکن میں فَعِل کی جگہ فعول بھی آ سکتا ہے۔

اشاری نظام - 221 221 221 21
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 221 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 21 کی جگہ 121 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بتا میری راتوں کی آوارگی

کہا کو - فعولن - 221
گئی رُو - فعولن - 221
ح کی رو - فعولن - 221
شنی - فعِل - 21

بتا مے - فعولن - 221
رِ راتو - فعولن - 221
کِ آوا - فعولن - 221
رگی - فعِل - 21
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 20, 2012

مانا کہ تم رہا کیے دار و رسَن سے دُور - غزل مولانا محمد علی جوہر

یادِ وَطَن نہ آئے ہمیں کیوں وَطَن سے دُور
جاتی نہیں ہے بُوئے چمن کیا چمن سے دُور

گر بُوئے گُل نہیں، نہ سہی، یادِ گُل تو ہے
صیّاد لاکھ رکھّے قفس کو چمن سے دُور

پاداشِ جرمِ عشق سے کب تک مفَر بھلا
مانا کہ تم رہا کیے دار و رسَن سے دُور
Maulana, Muhammad, Ali, Johar, Maulana Muhammad Ali Johar, urdu poetry, poetry, مولانا، محمد، علی، جوہر، مولانا محمد علی جوہر، اردو شاعری، شاعری، غزل، ghazal
مولانا محمد علی جوہر
Maulana Muhammad Ali Johar
آساں نہ تھا تقرّبِ شیریں تو کیا ہوا
تیشہ کو کوئی رکھ نہ سکا کوہکن سے دُور

ہم تک جو دَورِ جام پھر آئے تو کیا عَجَب
یہ بھی نہیں ہے گردشِ چرخِ کہن سے دُور

شاید کہ آج حسرتِ جوہر نکل گئی
اک لاش تھی پڑی ہوئی گور و کفن سے دُور

(مولانا محمد علی جوہر)

------

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

یادِ وَطَن نہ آئے ہمیں کیوں وَطَن سے دُور
جاتی نہیں ہے بُوئے چمن کیا چمن سے دُور

یا دے وَ - مفعول - 122
طن نَ آ ء - فاعلات - 1212
ہَ مے کُو وَ - مفاعیل - 1221
طَن سِ دُور - فاعلان - 1212

جاتی نَ - مفعول - 122
ہی ہِ بُو ء - فاعلات - 1212
چمن کا چَ - مفاعیل - 1221
مَن سے دُور - فاعلان - 1212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔