Showing posts with label تقطیع. Show all posts
Showing posts with label تقطیع. Show all posts

Sep 11, 2012

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے - شیخ خالد کرار

ریاست جموں و کشمیر، ہندوستان سے ہمارے کرما فرما اور "اردو جاوداں" کے مدیر جناب شیخ خالد کرار صاحب کی ایک غزل۔ انکی مزید شاعری انکی ویب سائٹ "ورود"ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے
مرے اثبات کو انکار سے باندھا ہوا ہے

مرے ہاتھوں میں کِیلیں گاڑھ رکھّی ہیں کسی نے
مرے ہی جسم کو دیوار سے باندھا ہوا ہے

یا رستہ دائروں کی قید میں ہے میری خاطر
یا میرے جسم کو پرکار سے باندھا ہوا ہے
Khalid Karrar, خالد کرار، Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, اردو غزل
Khalid Karrar, خالد کرار

حویلی میں مرے اجداد رہتے تھے مگر اب
انا کے سانپ کو دستار سے باندھا ہوا ہے

مجھے واپس اُسی جنگل میں جانا ہے کسی دن
مجھے تہذیب نے بازار سے باندھا ہوا ہے

میں اُس کو سر اٹھا کر دیکھنا تو چاہتا ہوں
مگر کندھوں کو اُس نے بار سے باندھا ہوا ہے

مجھے ہر گام ہے تازہ ہزیمت عمر بھر کی
کہ میں نے آئنہ کردار سے باندھا ہوا ہے

حیاداری کے دھاگے نے پرو رکھّا ہے خالد
بھرم نے مجھ کو میرے یار سے باندھا ہوا ہے

شیخ خالد کرار
-----

قافیہ - آر یعنی الف رے اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے پندار میں دار، انکار میں کار، دیوار میں وار وغیرہ۔

ردیف - سے باندھا ہوا ہے

بحر - بحر ہزج مثمن محذوف

افاعیل - مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن

علامتی نظام - 2221 / 2221 / 2221 / 221
ہندسوں کو اردو طرز یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2221 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔

تقطیع-

یہی دھڑکا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے
مرے اثبات کو انکار سے باندھا ہوا ہے

یہی دڑکا - مفاعیلن - 2221
مرے پندا - مفاعیلن - 2221
ر سے بادا - مفاعیلن - 2221
ہوا ہے - فعولن - 221

مرے اثبا - مفاعیلن - 2221
ت کو انکا - مفاعیلن - 2221
ر سے بادا - مفاعیلن - 2221
ہوا ہے - فعولن - 221
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 6, 2012

کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا - رانا سعید دوشی

رانا سعید دوشی کی ایک خوبصورت غزل

کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
میں کم شناس مروّت ميں مارا جاؤں گا

میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں
پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا

مجھے بتایا ہوا ہے مری چھٹی حس نے
میں اپنے عہدِ خلافت میں مارا جاؤں گا

مرا یہ خون مرے دشمنوں کے سر ہوگا
میں دوستوں کی حراست ميں مارا جاؤں گا

یہاں کمان اٹھانا مری ضرورت ہے
وگرنہ میں بھی شرافت میں مارا جاؤں گا
Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث, اردو غزل
Rana Saeed Doshi, رانا سعید دوشی

میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا

میں ورغلایا ہوا لڑرہا ہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوقِ شہادت میں مارا جاؤں گا

فراغ میرے لیے موت کی علامت ہے
میں اپنی پہلی فراغت میں مارا جاؤں گا

بس ایک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے
کسی بھی دوسری صورت میں مارا جاؤں گا

نہیں مروں گا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا
میں اب کی بار محبّت میں مارا جاؤں گا

رانا سعید دوشی، واہ کینٹ
------

قافیہ - اَت یعنی تے اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے حمایت میں یَت، مروّت میں وَت، حقیقت میں قَت وغیرہ۔

ردیف - میں مارا جاؤں گا

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں۔ جیسے چھٹے شعر میں الفاظ "میرا ضمیر" کا ٹکڑا "رَ ضمیر" فَعِلان پر تقطیع ہوتا ہے اور آخری شعر میں "سوچ لیا" کا ٹکڑا "چ لیا" فَعِلن پر تقطیع ہوتا ہے۔

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

تقطیع -

کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاؤں گا
میں کم شناس مروّت ميں مارا جاؤں گا

کہا کسی - مفاعلن - 2121
کِ حمایت - فعلاتن - 2211
مِ مارَ جا - مفاعلن - 2121
ؤ گا - فعلن - 22

مِ کم شنا - مفاعلن - 2121
س مروّت - فعلاتن - 2211
مِ مارَ جا - مفاعلن - 2121
ؤ گا - فعلن - 22
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Sep 3, 2012

شُکر کرتا ہوُں، گِلہ لگتا ہے - احمد ندیم قاسمی

احمد ندیم قاسمی مرحوم کی ایک خوبصورت غزل

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے

موسمِ گُل میں سرِ شاخِ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے

مُسکراتا ہے جو اِس عالم میں
بخدا، مجھ کو خُدا لگتا ہے

اتنا مانوس ہوُں سناّٹے سے
کوئی بولے تو بُرا لگتا ہے

کوہِ غم پر سے جو دیکھوں، تو مجھے
دشت، آغوشِ فنا لگتا ہے

سرِ بازار ہے یاروں کی تلاش
جو گزرتا ہے، خفا لگتا ہے
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی, urdu poetry, urdu shairy, urdu ghazal, ilm-e-arooz, ilm-e-Arooz, taqtee, behr, اردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، بحرعلم عروض
Ahmed Nadeem Qasmi, احمد ندیم قاسمی

اُن سے مِل کر بھی نہ کافور ہوُا
درد یہ سب سے جُدا لگتا ہے

نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شُکر کرتا ہوُں، گِلہ لگتا ہے

اِس قدَر تُند ہے رفتارِ حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے

احمد ندیم قاسمی
----

قافیہ - آ یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے سزا میں زا، روا میں وا، بُرا میں را وغیرہ۔

ردیف۔ لگتا ہے

بحر - بحر رمل مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
پہلے رکن میں فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن اور آخری رکن میں فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آ سکتے ہیں یوں اس بحر میں آٹھ اوزان جمع ہو سکتے ہیں۔

علامتی نظام - 2212 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2212 پہلا رکن ہے اس میں بھی پہلے 2  پھر 1 اور اسی ترتیب سے باقی ہندسے ہیں۔ پہلے رکن 2212 کی جگہ 2211 بھی آسکتا ہے اور آخری رکن 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آسکتے ہیں۔

تقطیع-

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے

ساس لینا - فاعلاتن - 2212 - سانس میں نون مخلوط یا ہندی ہے جس کا وزن نہیں ہوتا۔
بِ سزا لگ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22

اب تُ مرنا - فاعلاتن - 2212
بِ روا لگ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22
------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 30, 2012

اس کی عادت بھی آدمی سی ہے - غزلِ گلزار

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

کون پتھّرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے
Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع, Gulzar, گلزار
Gulzar, گلزار

کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے

آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے

گلزار
----

قافیہ - آمی یعنی می اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے نمی، کمی، آدمی میں دَمی وغیرہ۔

ردیف - سی ہے

 بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

علامتی  نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

شام سے آ - فاعلاتن - 2212
ک مے نمی - مفاعلن - 2121 -لفظ  آنکھ میں نون مخلوط یا ہندی ہے جس کا وزن نہیں ہوتا۔
سی ہے - فعلن - 22

آج پر آ - فاعلاتن - 2212
پ کی کمی - مفاعلن - 2121
سی ہے - فعلن - 22
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Aug 16, 2012

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام - غزل اکبر الہ آبادی

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گلِ تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرضِ عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھّا نہیں ہوتا
Urdu Poetry, Akbar Allahabadi, اکبر الہ آبادی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-urooz, Prosody, meters, Behr, Taqtee, ااردو شاعری، اردو غزل، تقطیع، علم عروض،
Akbar Allahabadi, اکبر الہ آبادی

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گُلِ تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے اُن کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
-----

قافیہ - آ یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز جیسے اشارہ کا را، کیا کا آ، شیدا کا دا وغیرہ۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایسے قافیے ہائے ہوز یعنی ہ کے ساتھ بھی کیے جا سکتے ہیں جیسے اشارہ میں قافیہ را کی بجائے رہ ہے لیکن اس کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کا اعلان مطلع میں کیا جائے یعنی ایک ایسا قافیہ مطلع میں لایا جائے اور بعد میں جتنے مرضی لے آئیں جیسے اس غزل میں چہرہ قافیہ بھی آ سکتا تھا۔

ردیف - نہیں ہوتا

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے، جیسے کہ اس غزل کے آخری شعر کے پہلے مصرعے میں الفاظ "ہیں بدنام" کی تقطیع فعولان کے وزن پر ہوگی۔

علامتی نظام - 122 / 1221 / 1221 / 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

غمزہ نَ - مفعول - 122
ہِ ہوتا کِ - مفاعیل - 1221
اشارہ نَ - مفاعیل - 1221
ہِ ہوتا - فعولن - 221

آ کُن سِ - مفعول - 122 - یہاں "آنکھ ان" میں الف کا وصال نوٹ کریں۔
جُ ملتی ہِ - مفاعیل - 1221
تُ کا کا نَ - مفاعیل - 1221
ہِ ہوتا - فعولن - 221
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 24, 2012

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول- مجید امجد

مجید امجد کی ایک خوبصورت غزل

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول

اُفق اُفق پہ زمانوں کی دُھند سے اُبھرے
طیور، نغمے، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول

کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گُل بہ قبائے جہاں، گلاب کے پھول

جہانِ گریۂ شبنم سے کس غرور کے ساتھ
گزر رہے ہیں، تبسّم کناں، گلاب کے پھول

یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ ردائے بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول

کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئے بہ خمِ گیسواں، گلاب کے پھول

خیالِ یار، ترے سلسلے نشوں کی رُتیں
جمالِ یار، تری جھلکیاں گلاب کے پھول
Majeed Amjad, مجید امجد, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Urdu Poetry, Urdu Shairi, اردو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر، بحر مجتث
Majeed Amjad, مجید امجد

مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دِلوں کا دھواں، گلاب کے پھول

سلگتے جاتے ہیں چُپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرہِ پیغمبراں گلاب کے پھول

یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول

کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

(مجید امجد)
-----

قافیہ - آں یعنی الف نون غنہ اور ان سے پہلے زبر کی آواز جیسے فشاں، ارغواں، تتلیاں، دھواں وغیرہ۔

ردیف - گلاب کے پھول

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

علامتی نظام - 2121 / 2211 / 2121 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول

روش روش - مفاعلن - 2121
پ ہِ نکہت - فعلاتن - 2211
فشا گلا - مفاعلن - 2121
ب کِ پھول - فَعِلان - 1211

حسی گلا - مفاعلن - 2121
ب کِ پھولر - فعلاتن - 2211، الف کا وصال یا سقوط ہوا ہے۔
غوا گلا - مفاعلن - 2121
ب کِ پھول - فَعِلان - 1211
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 19, 2012

زبورِ عجم سے علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل مع اردو ترجمہ- دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ

دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ
حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ

میرے بے قید دل نے ایمان کے نور کے ساتھ کافری کی ہے کہ سجدہ تو حرم کو کرتا ہے لیکن چاکری اور غلامی بتوں کی کرتا ہے۔

متاعِ طاعتِ خود را ترازوے برافرازد
ببازارِ قیامت با خدا سوداگری کردہ

(زاہد، عابد، صوفی) اپنے اطاعت کے مال و متاع کو ترازو میں تولتا ہے، گویا کہ قیامت کے بازار میں خدا کے ساتھ سوداگری کرتا ہے۔ اس خیال کا اظہار علامہ نے اپنے اردو اشعار میں بھی کیا ہے اور ان سے پہلے بھی بہت سے شعرا نے کیا ہے کہ خدا کی اطاعت بغیر کسی لالچ کے ہونی چاہیے۔

زمین و آسماں را بر مرادِ خویش می خواہد
غبارِ راہ و با تقدیرِ یزداں داوری کردہ

انسان زمین و آسمان کو اپنی من چاہی خواہشات کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے حالانکہ وہ راہ کے گرد و غبار جیسا ہے اور پھر بھی خدا کی تقدیر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔

گہے با حق در آمیزد، گہے با حق در آویزد
زمانے حیدری کردہ، زمانے خیبری کردہ

(بے یقینی اور تذبذب میں مبتلا انسان) کبھی تو حق کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور کبھی حق کے مخالف ہو جاتا ہے اور اس سے مقابلہ کرتا ہے یعنی کسی لمحے حضرت علی ع کی طرح حیدری کرتا ہے اور دوسرے لمحے خیبر کے مرحب کی طرح ہو جاتا ہے جس نے حضرت علی سے مقابلہ کیا تھا۔ دوسرے مصرعے میں تلمیح تو ہے ہی، تشبیہ بھی بہت خوبصورت ہے۔
Allama Iqbal, علامہ اقبال, Allama Muhammad Iqbal, Allama Iqbal Persian-Farsi poetry with Urdu Translation, Ilm-e-Arooz, Ilm--e-Urooz, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، بحر، بحر ہزج، بحر ہزج مثمن سالم، علامہ اقبال کی فارسی شاعری مع بمع اردو ترجمہ، علامہ محمد اقبال
Allama Iqbal, علامہ اقبال

بایں بے رنگیٴ جوہر ازو نیرنگ می ریزد
کلیمے بیں کہ ہم پیغمبری ہم ساحری کردہ

(حق ناشناس اور دو رنگی میں مبتلا آدمی سے) اپنے جوہر کی بے رنگی کے باوجود نیرنگ کا ظہور ہوتا رہتا ہے یعنی وہ ایک ایسے کلیم کی مانند ہے جو پیغمبری بھی کرتا ہے اور ساحری بھی کرتا ہے۔

نگاہش عقلِ دُوراندیش را ذوقِ جنوں دادہ
ولیکن با جنونِ فتنہ ساماں نشتری کردہ

اُسکی نگاہ نے دوراندیش عقل کو ذوقِ جنوں دیا لیکن فتنہ سامان جنون کے ساتھ نشتری بھی کی یعنی اس کو نشتر لگائے۔ عجب خوبصورت شعر ہے کہ ایک طرف اُس کی نگاہ اگر عقل کو ذوق جنون دیتی ہے تو دوسری طرف جنون کو بھی نشتر لگا لگا کر قابو میں رکھتی ہے۔

بخود کے می رسد ایں راہ پیمائے تن آسانے
ہزاراں سال منزل در مقامِ آزری کردہ

خود تک کیسے پہنچ سکتا ہے یہ تن آسان راہ چلنے والا کہ وہ ہزاروں سال مقامِ آزر میں ہی بیٹھا رہا۔ یعنی انسان کی اصل منزل یہ ہے کہ وہ خود تک پہنچے اور اس کیلیے ضروری ہے کہ جہدِ مسلسل میں لگا ہی رہے اور راہ کی آرام دہ جگہوں پر بیٹھا ہی نہ رہے۔

(علامہ محمد اقبال، زبورِ عجم)
------

قافیہ - آری یعنی ری اور اُس سے پہلے زبر کی آواز، یعنی کافری، چاکری، سوداگری وغیرہ
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ری سے پہلے زبر کی آواز قافیہ ہے تو اصل لفظ تو کافِر ہے یعنی فے کے نیچے زیر ہے تو زبر کیسے آئی تو اسکا جواب یہ ہے کہ لفظ کافر عربی میں تو کافِر ہی ہے لیکن فارسی اور اردو میں فے کی زبر کے ساتھ یعنی کافَر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے، مرزا غالب نے پتھر، ساغر اور  پر کا قافیہ کافَر کیا ہے، اسی طرح اس غزل میں بھی ہے۔

ردیف۔ کردہ

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

علامتی نظام - 2221 / 2221 / 2221 / 2221
(ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

دلِ بے قیدِ من با نورِ ایماں کافری کردہ
حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ

دِلے بے قے - مفاعیلن - 2221
دِ من با نُو - مفاعیلن - 2221
ر ایما کا - مفاعیلن - 2221
فری کردہ - مفاعیلن - 2221

حرم را سج - مفاعیلن - 2221
دَ آوردہ - مفاعیلن - 2221
بتا را چا - مفاعیلن - 2221
کری کردہ -مفاعیلن - 2221
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 12, 2012

اک زخم بے رفو ہے مجھے اب پتا چلا - غزل علی ارمان

اک زخم بے رفو ہے مجھے اب پتا چلا
اے زندگی یہ تُو ہے مجھے اب پتا چلا

جس کے لیے یہ دل ہے لہو سے بھرا ہوا
وُہ اور آرزو ہے مجھے اب پتا چلا

میں جس سے مانگتا رہا پانی تمام عمر
تصویرِ آبجو ہے مجھے اب پتا چلا

پہلےمیں رنگِ گل کو سمجھتا تھا رنگِ گل
یہ بھی مرا لہو ہے مجھے اب پتا چلا

اب لینے آ گیا ہے سکوتِ فنا مجھے
تو کتنی خوش گلو ہے مجھے اب پتا چلا

شکوہ شرابِ شوق کی قلّت کا تھا عبث
ہر غنچہ اک سبو ہے مجھے اب پتا چلا
Ali Arman, علی ارمان, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Behr, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، بحر، تقطیع
Ali Arman, علی ارمان

اس شہرِ دل میں ہیں کئی صحرا بسے ہوئے
سانسیں نہیں یہ لُو ہے مجھے اب پتا چلا

جس نے شجر حجر سے کیا آدمی مجھے
یہ وحشتِ نمو ہے مجھے اب پتا چلا

نقش و نگارِ نغمہٴ ہستی کی ابتدا
بس اک صدائے ہُو ہے مجھے اب پتا چل

علی ارمان
------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے، جیسے کہ اس غزل کے تیسرے شعر کے پہلے مصرعے کے آخر میں ہے۔

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع-

اک زخم بے رفو ہے مجھے اب پتا چلا
اے زندگی یہ تُو ہے مجھے اب پتا چلا

اک زخم - مفعول - 122
بے رفو ہِ - فاعلات - 1212
مُجے اب پَ - مفاعیل - 1221
تا چلا - فاعلن - 212

اے زند - مفعول - 122
گی یِ تُو ہِ - فاعلات - 1212
مُجے اب پَ - مفاعیل - 1221
تا چلا - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 6, 2012

تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں - غزل میر تقی میر

میر تقی میر کی ایک انتہائی خوبصورت غزل

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

بوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دل‌ کش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھیے تو وفا نہیں

شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بتاں
مجھ کو خدا نخواستہ، تم سے تو کچھ گلِا نہیں
Mir Taqi Mir, میر تقی میر, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, Meer Taqi Meer, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی ارو شاعری، علم عروض، تقطیع، بحر
Mir Taqi Mir, میر تقی میر

نالے کِیا نہ کر سُنا، نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے، میں نے تجھے کہا نہیں

چشمِ سفید و اشکِ سرخ، آہ دلِ حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے مے نہیں، ابر نہیں ہوا نہیں

ایک فقط ہے سادگی، تس پہ بلائے جاں ہے تو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں، آن نہیں ادا نہیں

آب و ہوائے ملکِ عشق، تجربہ کی ہے میں بہت
کر کے دوائے دردِ دل، کوئی بھی پھر جِیا نہیں

ہوئے زمانہ کچھ سے کچھ، چھوٹے ہے دل لگا مرا
شوخ کسی بھی آن میں، تجھ سے تو میں جدا نہیں

نازِ بُتاں اٹھا چکا، دیر کو میر ترک کر
کعبے میں جا کے رہ میاں، تیرے مگر خدا نہیں

(میر تقی میر)
------

بحر - بحر رجز مثمن مطوی مخبون

افاعیل - مُفتَعِلُن مُفاعِلُن /مُفتَعِلُن مُفاعِلُن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر ایک ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی ہر ٹکڑے کے اختتام پر عملِ تسبیغ جائز ہے یعنی ہر مفاعلن کو مفاعلان بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس غزل کے پہلے شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں، دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کے دوسرے ٹکڑے میں اور کئی ایک اور جگہوں ہر ہے۔

اشاری نظام - 2112 2121 / 2112 2121
ہندسوں کو اردو طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی 2112 پہلے ہے۔ اس بحر میں ہر 2121 کو 12121 میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

تقطیع-

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

مل نِ لگے - مفتعلن - 2112
ہُ دیر دیر - مفاعلان - 12121
دیک ے کا - مفتعلن - 2112
ہِ کا نہی - مفاعلن - 2121

تم تُ کرو - مفتعلن - 2112
ہُ صاحبی -مفاعلن - 2121
بندِ مِ کچ - مفتعلن - 2112
رہا نہی - مفاعلن - 2121
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jul 4, 2012

ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی - غزلِ جون ایلیا

حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی

بعد بھی تیرے جانِ جاں، دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تری یہاں، پھر تری یاد بھی گئی

صحنِ خیالِ یار میں، کی نہ بسر شبِ فراق
جب سے وہ چاندنہ گیا، جب سے وہ چاندنی گئی
Jaun Elia, جون ایلیا, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، بحر، علم عروض، تقطیع
Jaun Elia, جون ایلیا

اس کے بدن کو دی نمود، ہم نے سخن میں اور پھر
اس کے بدن کے واسطے، ایک قبا بھی سی گئی

اس کی امیدِ ناز کا، ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی

اس کے وصال کے لیے، اپنے کمال کے لیے
حالتِ دل کہ تھی خراب، اور خراب کی گئی

تیرا فراق جانِ جاں، عیش تھا کیا مرے لیے
یعنی ترے فراق میں، خوب شراب پی گئی

اس کی گلی سے اٹھ کے میں، آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی

جون ایلیا

----

بحر - بحر رجز مثمن مطوی مخبون

افاعیل - مُفتَعِلُن مفاعلن /مُفتَعِلُن مفاعلن
یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر ایک ٹکڑا ایک مصرعے کے حکم میں آ سکتا ہے یعنی ہر ٹکڑے کے اختتام پر عملِ تسبیغ جائز ہے یعنی ہر مفاعلن کو مفاعلان بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس غزل کے چوتھے  اور آٹھویں شعروں کے پہلے مصرعے کے آخری ٹکڑے میں اور پانچویں شعر کے دوسرے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں اور آخری شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے ٹکڑے میں۔

اشاری نظام - 2112 2121 / 2112 2121
ہندسوں کو اردو طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی 2112 پہلے ہے۔ اس بحر میں ہر 2121 کو 12121 میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

تقطیع-

حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

حا لتِ حا - مفتعلن - 2112
ل کے سبب - مفاعلن - 2121
حالتِ حا - مفتعلن - 2112
ل ہی گئی - مفاعلن - 2121

شوق مِ کچ - مفتعلن - 2112
نہی گیا - مفاعلن - 2121
شوق کِ زن - مفتعلن - 2112
دگی گئی - مفاعلن - 2121
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 29, 2012

آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ - افتخار عارف

آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ

ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں
اِک نظر تو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ

دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال
دل سنبھل جائے تو سوئے سینہٴ احباب دیکھ

موجہٴ سرکش کناروں سے چھلک جائے تو پھر
کیسی کیسی بستیاں آتی ہیں زیرِ آب دیکھ

بوند میں سارا سمندر آنکھ میں کل کائنات
ایک مشتِ خاک میں سورج کی آب وتاب دیکھ
Iftikhar Arif, افتخار عارف, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، بحر، تقطیع
Iftikhar Arif, افتخار عارف

کچھ قلندر مشربوں سے راہ و رسمِ عشق سیکھ
کچھ ہم آشفتہ مزاجوں کے ادب آداب دیکھ

شب کو خطِّ نور میں لکھّی ہوئی تعبیر پڑھ
صبح تک دیوارِ آئیندہ میں کُھلتے باب دیکھ

افتخار عارف کے تند و تیز لہجے پر نہ جا
افتخار عارف کی آنکھوں میں اُلجھتے خواب دیکھ

افتخار عارف
------

بحر - بحر رمل مثمن محذوف

افاعیل - فاعلاتُن فاعلاتُن فاعلاتُن فاعلُن
(آخری رکن فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 2212 2212 2212 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(آخری 212 کی جگہ 1212 بھی آسکتا ہے)

تقطیع-

آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ

آسمانو - فاعلاتن - 2212
پر نظر کر - فاعلاتن - 2212
انجمو مہ - فاعلاتن - 2212
تاب دیک - فاعلان - 1212

صبح کی بن - فاعلاتن - 2212
یاد رکھنی - فاعلاتن - 2212
ہے تُ پہلے - فاعلاتن - 2212
خاب دیک - فاعلان - 1212
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 25, 2012

کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں - قتیل شفائی

کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ  سچ بولیں

سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اظہار، آؤ سچ بولیں

ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنامِ عظمتِ کردار، آؤ  سچ بولیں

سنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی منصف ہے
پکار کر سرِ دربار، آؤ سچ بولیں
Qateel Shifai, قتیل شفائی, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazl, Taqtee, Behr, علم عروض، تقطیع، اردو شاعری، اردو غزل
Qateel Shifai, قتیل شفائی

تمام شہر میں اب ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار، آؤ سچ بولیں

جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار، آؤ سچ بولیں

چھپائے سے کہیں چھپتے ہیں داغ چہروں کے
نظر ہے آئنہ بردار، آؤ سچ بولیں

قتیل جن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کدھر گئے وہ گنہ گار، آؤ سچ بولیں

قتیل شفائی
------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ  سچ بولیں

کُلا ہ جُو - مفاعلن -2121
ٹ کَ بازا - فعلاتن - 2211
ر آؤ سچ - مفاعلن - 2121
بولے - فعلن - 22

نَ ہو بلا - مفاعلن - 2121
سِ خریدا - فعلاتن - 2211
ر آؤ سچ - مفاعلن - 2121
بولے - فعلن - 22
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 20, 2012

دستِ زردار ترے درہم و دینار پہ خاک - عرفان صدیقی

عرفان صدیقی کی ایک انتہائی خوبصورت غزل، جس کا ایک اک شعر لاجواب ہے، انتہائی مشکل زمین میں کیسے خوبصورت شعر کہے ہیں۔

جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک

تُو نے مٹّی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

ہم نے مدّت سے اُلٹ رکھّا ہے کاسہ اپنا
دستِ زردار ترے درہم و دینار پہ خاک
Irfan Siddiqui, عرفان صدیقی, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع
Irfan Siddiqui, عرفان صدیقی

پُتلیاں گرمیٔ نظّارہ سے جل جاتی ہیں
آنکھ کی خیر میاں رونقِ بازار پہ خاک

جو کسی اور نے لکھّا ہے اسے کیا معلوم
لوحِ تقدیر بجا، چہرۂ اخبار پہ خاک

پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں
اے ہوائے سرِ صحرا تری رفتار پہ خاک

یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمھیں
محضرِ شوق پڑھو، محضرِ سرکار پہ خاک

آپ کیا نقدِ دو عالم سے خریدیں گے اسے
یہ تو دیوانے کا سر ہے سرِ پندار پہ خاک

یہ غزل لکھ کے حریفوں پہ اُڑا دی میں نے
جم رہی تھی مرے آئینۂ اشعار پہ خاک

عرفان صدیقی
------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک

جب ی عالم - فاعلاتن - 2212
ہُ تُ لکھیے - فعلاتن - 2211
لَ بُ رخسا - فعلاتن - 2211
ر پ خاک - فَعِلان - 1211

اڑتِ ہے خا - فاعلاتن - 2212
نَ ء دل کے - فعلاتن - 2211
دَ رُ دیوا - فعلاتن - 2211
ر پ خاک - فَعِلان - 1211
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 18, 2012

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے - غزل اصغر گونڈوی

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے

ہے عشق کہ محشر میں، یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے

ہے عشق کی شورش سے، رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے، وہ رنگِ گلستاں ہے

پھر گرمِ نوازش ہے، ضو مہرِ درخشاں کی
پھر قطرہٴ شبنم میں، ہنگامہٴ طوفاں ہے

اے پیکرِ محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے، وہ دیدہٴ حیراں ہے

سو بار ترا دامن، ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا، اپنا ہی گریباں ہے
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی, Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Urdu Shairi, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Classical Urdu Poetry, Behr, اردو شاعری، اردو غزل، کلاسیکی اردو شاعری، علم عروض، بحر، تقطیع
Asghar Gondvi, اصغر گونڈوی

اک شورشِ بے حاصل، اک آتشِ بے پروا
آفت کدہٴ دل میں، اب کفر نہ ایماں ہے

دھوکا ہے یہ نظروں کا، بازیچہ ہے لذّت کا
جو کنجِ قفس میں تھا، وہ اصلِ گلستاں ہے

اک غنچہٴ افسردہ، یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موج زنی خوں کی، رنگینیِ پیکاں ہے

یہ حسن کی موجیں ہیں یا جوشِ تبسّم ہے
اس شوخ کے ہونٹوں پر، اک برق سی لرزاں ہے

اصغر سے ملے لیکن، اصغر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں، کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

اصغر گونڈوی
------

بحر - بحر ہزج مثمن اخرب
(یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی ہر مصرع دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ٹکڑا، ایک مصرع کے احکام میں آ سکتا ہے۔ )

افاعیل - مَفعُولُ مَفَاعِیلُن / مَفعُولُ مَفَاعِیلُن

اشاری نظام - 122 2221 / 122 2221
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیں یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

تقطیع -

یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے

یہ عشق - مفعول - 122
نِ دیکا ہے - مفاعیلن - 2221
یہ عقل - مفعول - 122
سِ پنہا ہے - مفاعیلن - 2221

قطرہ مِ - مفعول - 122
سمندر ہے - مفاعیلن - 2221
ذر رہ مِ - مفعول - 122
بیابا ہے - مفاعیلن - 2221
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 15, 2012

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت - واصف علی واصف

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت

 جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت

پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن ہی سے فنکار کی صورت
Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazal, Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Behar, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، بحر
Wasif Ali Wasif, واصف علی واصف
اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِ تمنّا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت

اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹّی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت

دل ہاتھ پہ رکھّا ہے کوئی ہے جو خریدے؟
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت

صورت مری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت

واصف کو سرِدار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت

واصف علی واصف

غزل بشکریہ اردو محفل
------

بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)
ہندسوں کو اردو رسم الخظ کے مطابق یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی  122 پہلے ہے اور اس میں بھی 2 پہلے ہے۔

 تقطیع -

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

ہر چہرِ - مفعول - 122
مِ آتی ہِ - مفاعیل - 1221
نظر یار - مفاعیل - 1221
کِ صورت - فعولن - 221

احباب - مفعول - 122
کِ صورت ہُ - مفاعیل - 1221
کِ اغیار - مفاعیل - 1221
کِ صورت - فعولن - 221
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 11, 2012

یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی - سیّد سبطِ علی صبا

یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی
کلوں کے شہر میں بھی نوکری نہیں ملتی

جو سوت کاتنے میں رات بھر رہی مصروف
اسی کو سر کے لئے اوڑھنی نہیں ملتی

رہِ حیات میں کیا ہو گیا درختوں کو
شجر شجر کوئی ٹہنی ہری نہیں ملتی

غنودگی کا کچھ ایسا طلسم طاری ہے
کوئی بھی آنکھ یہاں جاگتی نہیں ملتی
Syed Sibte Ali Saba, سید سبط علی صبا, Urdu Poetry, Urdu Shairy, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, ااردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع، taqtee
Syed Sibte Ali Saba, سید سبط علی صبا
یہ راز کیا ہے کہ دنیا کو چھوڑ دینے سے
خدا تو ملتا ہے پیغمبری نہیں ملتی

گزر رہی ہے حسیں وادیوں سے ریل صبا
ستم ہے یہ کوئی کھڑکی کھلی نہیں ملتی

سبطِ علی صبا
---


بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی
کلوں کے شہر میں بھی نوکری نہیں ملتی


یہا وہا - مفاعلن - 2121
کَ ہِ آسو - فعلاتن - 2211
دگی نہی - مفاعلن - 2121
ملتی - فعلن - 22

کلو کِ شہ - مفاعلن - 2121
ر مِ بی نو - فعلاتن - 2211
کری نہی - مفاعلن - 2121
ملتی - فعلن - 22
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jun 6, 2012

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے - غزل عبدالحمید عدم

عبدالحمید عدم کی ایک انتہائی معروف اور مشہور غزل

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے

بس اک زخمِ نظّارہ، حصّہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری، بادہ خانے ترے

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
Abdul Hameed Adam, عبدالحمید عدم, Urdu Poetry, Urdu Shairi, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع
Abdul Hameed Adam, عبدالحمید عدم
بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

-------

بحر - بحر متقارب مثمن محذوف

افاعیل - فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعِل
آخری رکن میں فَعِل کی جگہ فعول بھی آ سکتا ہے۔

اشاری نظام - 221 221 221 21
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 221 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 21 کی جگہ 121 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

وُ باتے - فعولن - 221
تری وہ - فعولن - 221
فسانے - فعولن - 221
ترے - فَعِل - 21

شگفتہ - فعولن - 221
شگفتہ - فعولن - 221
بہانے - فعولن - 221
ترے - فَعِل - 21
---------

اور یہ غزل طاہرہ سیّد کی آواز میں





مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 26, 2012

غزل - زندگی سے نظر ملاؤ کبھی - پروین شاکر

پروین شاکر کی ایک خوبصورت غزل

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی

اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
 ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
Parveen Shakir, پروین شاکر. Urdu Poetry, Urdu Ghazal, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, اردو شاعری، اردو غزل، علم عروض، تقطیع
Parveen Shakir, پروین شاکر
اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
 حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی

(پروین شاکر)

-------


بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

زندگی سے - فاعلاتن - 2212
نظر ملا - مفاعلن - 2121
ؤ کبی - فَعِلن - 211

ہار کے بع - فاعلاتن - 2212
د مسکرا - مفاعلن - 2121
ؤ کبی - فَعِلن - 211
---------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 19, 2012

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے - داغ دہلوی

فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی کی ایک انتہائی مشہور اور معروف غزل

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغ دہلوی, Daagh Dehlvi, Urdu Poetry, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, علم عروض، تقطیع
داغ دہلوی, Daagh Dehlvi
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

(داغ دہلوی)

------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

لطف وہ عش - فاعلاتن - 2212
ق مِ پائے - فعلاتن - 2211
ہِ کِ جی جا - فعلاتن - 2211
ن تَ ہے - فَعِلن - 211

رنج بی اے - فاعلاتن - 2212
سِ اٹائے - فعلاتن - 2211
ہِ کِ جی جا - فعلاتن - 2211
ن تَ ہے - فَعِلن - 211
-----------

اور یہ غزل ملکہٴ ترنم میڈم نورجہاں کی خوبصورت آواز میں







مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 17, 2012

کرد تاراج دِلَم، فتنہ نگاہے عَجَبے - فارسی غزل سید نصیر الدین نصیر مع اردو ترجمہ

سید نصیر الدین نصیر شاہ مرحوم کی یہ غزل، امیر خسرو علیہ الرحمہ کی خوبصورت غزل "چشمِ مستے عجَبے، زلف درازے عجَبے" کی زمین میں ہے، ترجمے کے ساتھ لکھ رہا ہوں

کرد تاراج دِلَم، فتنہ نگاہے عَجَبے
شعلہ روئے عجَبے، غیرتِ ماہے عَجَبے

میرا دل (دل کی دنیا) تاراج کر دیا، اُس کی نگاہ میں عجب فتنہ ہے، اس کے چہرے کا شعلہ عجب ہے، اس ماہ کی غیرت عجب ہے۔
Persian poetry with Urdu Translation, Farsi poetry with Urdu Translation, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Pir Syyed Naseer-ud-Din Naseer, علم عروض، تقطیع، پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ
Naseer-Ud-Din Naseer
 سید نصیر الدین نصیرشاہ
با ہمہ نامہ سیاہی نہ ہراسَم از حشر
رحمتِ شافعِ حشر است، پناہے عجبے

میں اپنے اعمال نامے کی اس تمام تر سیاہی کے باوجود حشر سے نہیں ڈرتا کہ حشر کے دن کے شافع (ص) کی رحمت کی پناہ بھی عجب ہے۔

رُوئے تابانِ تو در پردۂ گیسوئے سیاہ
بہ شبِ تار درخشانیِ ماہے عجبے

تیرا تاباں چہرہ تیرے سیاہ گیسوؤں کے پردے میں ایسے ہی ہے جیسے تاریک شب میں چاند کی درخشانی،  اور یہ عجب ہی سماں ہے۔

رہزنِ حُسن ربایَد دل و دیں، ہوش و خرَد
گاہ گاہے سرِ راہے بہ نگاہے عجبے

راہزنِ حسن دل و وین اور ہوش و خرد کو لوٹ کر لے جاتا ہے، کبھی کبھی سرِ راہے اپنی عجب نگاہ سے۔

نقدِ جاں باختہ و راہِ بَلا می گیرَند
ہست عشاقِ ترا رسمے و راہے عَجَبے

نقدِ جان فروخت کر دیتے ہیں اور راستے کی بلاؤں کو لے لیتے ہیں، تیرے عاشقوں کی راہ و رسم بھی عجب ہے۔

خواستَم رازِ دِلَم فاش نہ گردَد، لیکن
اشک بر عاشقیم گشت گواہے عجَبے

میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کا راز فاش نہ ہو، لیکن ہم عاشقوں پر (ہمارے) آنسو عجب گواہ بن جاتے ہیں۔

ذرّۂ کوچۂ آں شاہِ مدینہ بُودَن
اے نصیر از پئے ما شوکت و جاہے عَجَبے

اُس شاہِ مدینہ (ص) کے کوچے کا ذرہ بننا، اے نصیر میرے لیے ایک عجب ہی شان و شوکت ہے۔

پیر سیّد نصیر الدین نصیر شاہ مرحوم
--------


بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

کرد تاراج دِلَم، فتنہ نگاہے عَجَبے
شعلہ روئے عجَبے، غیرتِ ماہے عَجَبے

کرد تارا - فاعلاتن - 2212
ج دلم فت - فعلاتن - 2211
نَ نگاہے - فعلاتن - 2211
عَجَبے - فَعِلن - 211

شعلَ روئے - فاعلاتن - 2212
عَجَبے غے - فعلاتن - 2211
رَتِ ماہے - فعلاتن - 2211
عَجَبے - فَعِلن - 211
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔