May 21, 2012

متفرق فارسی اشعار - 6

حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

(مولانا عبدالرحمن جامی)

آپ (ص) رکھتے ہیں یوسف (ع) کا حسن، عیسٰی (ع) کا دم (وہ الفاظ جس سے وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے) اور موسٰی (ع) کا سفید ہاتھ والا معجزہ یعنی کہ وہ تمام کمالات جو باقی سب حسینوں (نبیوں) کے پاس تھے وہ تنہا آپ (ص) کی ذات میں اللہ نے جمع کر دیئے۔
--------

با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش

(عبدالقادر بیدل)

ہر کمال کے ساتھ ساتھ تھوڑی آشفتگی (عشق، دیوانگی) بھی اچھی (ضروری) ہے، ہر چند کہ تُو عقلِ کُل ہی ہو جائے، جنون کے بغیر مت رہ۔
--------

از من بگیر عبرت و کسبِ ہنر مکن
با بختِ خود عداوتِ ہفت آسماں مخواہ

(عرفی شیرازی)

مجھ سے عبرت حاصل کر اور ہنر پیدا کرنے کا خیال چھوڑ دے، تو کیوں چاہتا ہے کہ سات آسمانوں کی دشمنی خواہ مخواہ مول لے لے۔
--------

ز خود آنرا کہ پادشاہی نیست
بر گیاہیش پادشاہ شمار

(حکیم سنائی)

جس شخص کو اپنی ذات پر حکمرانی نہیں تو اسے صرف گھاس پر بادشاہ شمار کرو (وہ ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے پاس کچھ  اختیار نہیں۔)
--------

گر دلے داری بہ دلبندی بدہ
ضایع آں کشور کہ سلطانیش نیست

(سعدی شیرازی)

اگر دل رکھتا ہے تو اسے کسی دلدار کو دے دے، ضایع ہو جاتی ہے وہ سلطنت کہ جسکا کوئی سلطان نہ ہو۔
--------

حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا

(امیر خسرو)

تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔
--------

تُو و طوبٰی و ما و قامتِ یار
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست

تو اور طوبیٰ (کا خیال) ہے میں (ہوں) اور دوست کا قد و قامت، ہر کسی کی فکر اسکی ہمت کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔
--------

سرکشی با ہر کہ کردی رام او باید شدن
شعلہ ساں از ہر کجا برخاستی آنجانشیں

(ابو طالب کلیم کاشانی)

تُو نے جس کے ساتھ سرکشی کی ہے پھر اس کی اطاعت کر لے، شعلے کی طرح جس جگہ سے اٹھا تھا اُسی جگہ پر بیٹھ جا۔
--------


Persian poetry with Urdu Translation, Farsi Poetry with Urdu Translation, Allama Iqbal Persian poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، اقبال کی فارسی شاعری مع اردو ترجمہ
رباعی

احوالِ جہاں بر دلم آساں می کُن
و افعالِ بدم ز خلق پنہاں می کن
امروز خوشم بدارد، فردا با من
آنچہ ز کرمِ توی سزد آں می کن

(عمر خیام)

(اے خدا)، زمانے کے حالات میرے دل کیلیئے آسان کر دے، اور میرے بُرے اعمال لوگوں (کی نظروں) سے پنہاں کر دے، میرا آج (حال) میرے لیئے بہت خوش کن ہے اور کل (مستقبل) میرے حق میں، جیسا تیرا (لطف و رحم و) کرم چاہے ویسا ہی کر دے۔
--------

اوّل‌ آں‌ کس‌ کہ‌ خریدار شدش‌ مَن‌ بُودم‌
باعثِ‌ گرمیِ بازار شدش‌ من بودم‌

(وحشی بافقی)

سب سے پہلا وہ کون تھا جو اسکا خریدار بنا، میں (آدم، آدمی) تھا۔ اسکے بازار کی گرمی کا باعث میں بنا تھا۔
--------

بیا بہ مجلسِ اقبال و یک دو ساغر کش
اگرچہ سر نتراشد قلندری داند

(اقبال لاہوری)

اقبال کی مجلس (محفل) کی طرف آؤ اور ایک دو ساغر کھینچو، اگرچہ اس کا سر مُنڈھا ہوا نہیں ہے (لیکن پھر بھی) وہ قلندری رکھتا (قلندری کے اسرار و رموز جانتا) ہے۔
--------

درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش

(شاعر۔ نا معلوم)

دریا کی منجدھار میں مجھے تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار ہشیار رہنا تمھارا دامن تر نہ ہونے پائے۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 19, 2012

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے - داغ دہلوی

فصیح الملک نواب مرزا خان داغ دہلوی کی ایک انتہائی مشہور اور معروف غزل

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

جو زمانے کے ستم ہیں ، وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
داغ دہلوی, Daagh Dehlvi, Urdu Poetry, Classical Urdu Poetry, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, علم عروض، تقطیع
داغ دہلوی, Daagh Dehlvi
تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز
وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

سادگی، بانکپن، اغماض، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

دوستی میں تری درپردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں دونوں آنکھیں
ایسے جلوے نظر آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

(داغ دہلوی)

------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

لطف وہ عش - فاعلاتن - 2212
ق مِ پائے - فعلاتن - 2211
ہِ کِ جی جا - فعلاتن - 2211
ن تَ ہے - فَعِلن - 211

رنج بی اے - فاعلاتن - 2212
سِ اٹائے - فعلاتن - 2211
ہِ کِ جی جا - فعلاتن - 2211
ن تَ ہے - فَعِلن - 211
-----------

اور یہ غزل ملکہٴ ترنم میڈم نورجہاں کی خوبصورت آواز میں







مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 17, 2012

کرد تاراج دِلَم، فتنہ نگاہے عَجَبے - فارسی غزل سید نصیر الدین نصیر مع اردو ترجمہ

سید نصیر الدین نصیر شاہ مرحوم کی یہ غزل، امیر خسرو علیہ الرحمہ کی خوبصورت غزل "چشمِ مستے عجَبے، زلف درازے عجَبے" کی زمین میں ہے، ترجمے کے ساتھ لکھ رہا ہوں

کرد تاراج دِلَم، فتنہ نگاہے عَجَبے
شعلہ روئے عجَبے، غیرتِ ماہے عَجَبے

میرا دل (دل کی دنیا) تاراج کر دیا، اُس کی نگاہ میں عجب فتنہ ہے، اس کے چہرے کا شعلہ عجب ہے، اس ماہ کی غیرت عجب ہے۔
Persian poetry with Urdu Translation, Farsi poetry with Urdu Translation, Ilm-e-Arooz, Ilm-e-Urooz, Taqtee, Pir Syyed Naseer-ud-Din Naseer, علم عروض، تقطیع، پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ
Naseer-Ud-Din Naseer
 سید نصیر الدین نصیرشاہ
با ہمہ نامہ سیاہی نہ ہراسَم از حشر
رحمتِ شافعِ حشر است، پناہے عجبے

میں اپنے اعمال نامے کی اس تمام تر سیاہی کے باوجود حشر سے نہیں ڈرتا کہ حشر کے دن کے شافع (ص) کی رحمت کی پناہ بھی عجب ہے۔

رُوئے تابانِ تو در پردۂ گیسوئے سیاہ
بہ شبِ تار درخشانیِ ماہے عجبے

تیرا تاباں چہرہ تیرے سیاہ گیسوؤں کے پردے میں ایسے ہی ہے جیسے تاریک شب میں چاند کی درخشانی،  اور یہ عجب ہی سماں ہے۔

رہزنِ حُسن ربایَد دل و دیں، ہوش و خرَد
گاہ گاہے سرِ راہے بہ نگاہے عجبے

راہزنِ حسن دل و وین اور ہوش و خرد کو لوٹ کر لے جاتا ہے، کبھی کبھی سرِ راہے اپنی عجب نگاہ سے۔

نقدِ جاں باختہ و راہِ بَلا می گیرَند
ہست عشاقِ ترا رسمے و راہے عَجَبے

نقدِ جان فروخت کر دیتے ہیں اور راستے کی بلاؤں کو لے لیتے ہیں، تیرے عاشقوں کی راہ و رسم بھی عجب ہے۔

خواستَم رازِ دِلَم فاش نہ گردَد، لیکن
اشک بر عاشقیم گشت گواہے عجَبے

میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کا راز فاش نہ ہو، لیکن ہم عاشقوں پر (ہمارے) آنسو عجب گواہ بن جاتے ہیں۔

ذرّۂ کوچۂ آں شاہِ مدینہ بُودَن
اے نصیر از پئے ما شوکت و جاہے عَجَبے

اُس شاہِ مدینہ (ص) کے کوچے کا ذرہ بننا، اے نصیر میرے لیے ایک عجب ہی شان و شوکت ہے۔

پیر سیّد نصیر الدین نصیر شاہ مرحوم
--------


بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

کرد تاراج دِلَم، فتنہ نگاہے عَجَبے
شعلہ روئے عجَبے، غیرتِ ماہے عَجَبے

کرد تارا - فاعلاتن - 2212
ج دلم فت - فعلاتن - 2211
نَ نگاہے - فعلاتن - 2211
عَجَبے - فَعِلن - 211

شعلَ روئے - فاعلاتن - 2212
عَجَبے غے - فعلاتن - 2211
رَتِ ماہے - فعلاتن - 2211
عَجَبے - فَعِلن - 211
------


مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 15, 2012

عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے - احمد مشتاق

احمد مشتاق عصرِ حاضر کے ایک انتہائی اہم شاعر ہیں، کم کم شاعری کرتے ہیں لیکن انکی جتنی بھی شاعری ہے لاجواب ہے۔ انکی غزلوں میں سے ایک انتہائی خوبصورت غزل  جس کا ہر شعر ہی لاجواب ہے، ملاحظہ کیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔

مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
Ahmed Mushtaq, احمد مشتاق, Urdu Poetry, Ilm-e-Urooz, Ilm-e-Arooz, Taqtee,
Ahmed Mushtaq, احمد مشتاق
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جُگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے

دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے

احمد مشتاق
-----


بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

مل ہِ جائے - فاعلاتن - 2212
گَ کبی دل - فعلاتن - 2211
کُ یقی رہ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22

وہ اسی شہ - فاعلاتن - 2212
ر کِ گلیو - فعلاتن - 2211
مِ کہی رہ - فعلاتن - 2211
تا ہے - فعلن - 22
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 5, 2012

کلاسیکی موسیقی - ترانہ

ترانہ، برصغیر پاک و ہند کی کلاسیکی موسیقی میں گانے کا ایک خاص اور دلفریب انداز جس میں فارسی، عربی اور ہندی کے کچھ بے معنی الفاظ کی درمیانی (مدھ) اور تیز (دُرت)لے میں اس خوبصورتی کے ساتھ تکرار کی جاتی ہے کہ سماں بندھ جاتا ہے اور سننے والے مسحور ہو جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ترانہ، گانے کا طریقہ اور اسکے بول دونوں، خاص امیر خسرو کی اختراع  ہے، کچھ محقیقین کو اس میں اعتراض بھی ہے۔ لیکن شاید حقیقت یہی  ہے کہ ترانہ امیر خسرو ہی کی ایجاد ہے اور اس صنف کو مقبول بھی امیر خسرو نے کیا ہے، اور پچھے سات سو سال سے برصغیر میں ترانہ گایا اور سنا جا رہا ہے، واضح رہے کہ ترانہ فارسی شاعری کی ایک صنف کا بھی نام ہے۔

ترانہ کی اختراع کے بارے میں ایک دلچسپ حکایت بھی چلی آ رہی ہے، جو موضوع ہی سہی لیکن دلچسپی سے خالی نہیں، کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ علاءالدین خلجی کے دربار میں موسقی کا ایک مقابلہ ہوا جس کے آخر میں صرف دو گائیک رہ گئے، ایک ہندو پنڈت اور دوسرے امیر خسرو۔ ہندو پنڈت نے جب دیکھا کہ حریف بہت سخت ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ سنسکرت نہیں جانتا، سنسکرت کے کچھ بھاری بھر کم الفاظ انتہائی تیز لے میں گائے، جواب میں امیر خسرو نے انہی سروں میں اور اسی لے کے ساتھ فارسی کے کچھ بے معنی الفاظ گائے اور درباریوں کا دل جیتتے ہوئے  مقابلہ بھی جیت لیا اور یوں ترانہ ایجاد ہوا۔
amir, khusro, amir khusro, امیر خسرو، امیر، خسرو، کلاسیکی موسیقی، موسیقی، ترانہ، classical music, tarana
امیر خسرو علیہ الرحمة، ایک خاکہ
یہ کہانی گھڑی ہوئی اور موضوع ہی سہی لیکن صنف ترانہ پر بہت خوبصورتی سے روشنی ڈالتی ہے۔ ترانہ نام ہی خالص تجریدی موسیقی کے تجربے کا ہے۔ ترانہ کے مقابلے میں دیگر کلاسیکی گائیکی کے جتنے بھی اوضاع ہیں جیسے خیال، دھرپد اور ٹپہ جو کہ دونوں اب بہت حد تک متروک ہو چکے ہیں، ٹھمری یا  دادرا وغیرہ، ان سب میں با معنی الفاظ یا شاعری کو گایا جاتا ہے لیکن ترانہ میں شاعری کا عنصر سرے سے نکال ہی دیا گیا ہے اور خالص تجریدی موسیقی پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے تا کہ سننے والوں کا ذہن شاعری میں نہ بھٹکے اور ان کا دھیان صرف موسیقی میں رہے اور خالص موسیقی اور سروں سے لطف اندوز ہوں جب کہ بعض دفعہ تجرے کے طور پر ترانہ میں کچھ اشعار بھی گائے جاتے ہیں، جیسا کہ امیر خسرو ہی کا ایک ترانہ "یارِ من بیا بیا" ہے جس میں امیر خسرو کا ایک شعر بھی گایا جاتا ہے لیکن ایسی مثالیں چند ایک ہی ہیں اور زیادہ ترانے فقط بے معنی الفاظ پر مشتمل ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر آیا ترانہ عموماً مدھ اور درت لے میں گایا جاتا ہے لیکن بلمپت یا دھیمی لے میں بھی ترانہ گایا جاتا ہے گو اسکی مثالیں خال خال ہی ہیں۔ ترانہ کو کسی بھی راگ میں علیحدہ بھی گایا جا سکتا ہے اور کسی خیال کے آخر میں بھی، ہر دوصورت میں یہ لطف سے خالی نہیں، لیکن چونکہ خیال اور اس میں بھی بڑا خیال کافی طویل ہوتا ہے لہذا علیحدہ سے گائے ہوئے ترانے آج کل زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔

ترانہ میں جن بے معنی الفاظ کی بار بار تکرار ہوتی ہے ان میں سے کچھ نیچے درج کر رہا ہوں، یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے عام طور پر یہ سارے الفاظ انہتائی سہل اور ادا کرنے میں ثقیل نہیں ہیں، جیسے

او دانی
تو دانی
نادر دانی
تنن
درآ
تا نا
تا نی
تا نوم
توم
دھیم
ری
یعلا
یعلی
وغیرہ وغیرہ

کچھ موسیقاروں نے اوپر مندرج فارسی الفاظ کو معنی پہنانے کی بھی کوشش کی ہے جیسا کہ ان کا کچھ نہ کچھ مطلب نکالا بھی جا سکتا ہے لیکن یہ کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی اور اس کا حسن انہی بے معنی الفاظ کی تکرار ہی میں ہے وگرنہ جتنی دیر میں کوئی سننے والا کسی جملے کے معنی ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا اتنی دیر میں گائیک کہیں سے کہیں پہنچ چکا ہوگا۔

ان بے معنی الفاظ کے ساتھ ساتھ ترانہ میں سرگم کے سروں کی خوبصورت تکرار اور کچھ سازوں مثلاً طبلہ، پکھاوج، ستار وغیرہ کے بول جیسے دھا، ترکٹ، تک، دِر دِر وغیرہ کی بھی تکرار کی جاتی ہے۔ گائیک کے منہ سے ساز کے بول اور ساز کی انہی بولوں کی آواز، ایک سماں باندھتے ہیں جسے ہوا میں گرہ باندھنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

برصغیر میں تقریباً ہر کلاسیکی گائیک نے ترانہ بھی ضرور گایا ہے، انہی میں سے کچھ اپنی پسند کے اور جو یوٹیوب پر مل سکے ہیں یہاں شامل کر رہا ہوں۔

سب سے پہلے میرے پسندیدہ گائیک استاد بڑے غلام علی خان صاحب مرحوم قصور گھرانہ کا ایک ترانہ۔







استاد فتح علی خان پٹیالہ گھرانہ کا ایک ترانہ، جو انہوں نے راگ درباری خیال گاتے ہوئے گایا ہے۔


ایک اور عظیم فنکار، استاد سلامت علی خان مرحوم، شام چوراسی گھرانہ، راگ سرسوتی میں ترانہ


اگر آپ میری پسند کچھ اور ترانے سننا چاہتے ہیں تو یہ ربط دیکھیے یا یو ٹیوب پر اپنی پسند کے ترانوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
---------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

May 2, 2012

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا - غزلِ سودا

مرزا محمد رفیع سودا کی ایک خوبصورت غزل

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مِل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دِل بنا

سرگرمِ نالہ ان دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متّصِل بنا

جب تیشہ کوہ کن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سِل بنا
مرزا، رفیع، سودا، مرزا رفیع سودا، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، mirza, rafi, sauda, mirza rafi sauda, classical urdy poetry, urdu poetry
 مرزا محمد رفیع سودا, Mirza Rafi Sauda
جس تیرگی سے روز ہے عشّاق کا سیاہ
شاید اسی سے چہرہٴ خوباں پہ تِل بنا

لب زندگی میں کب ملے اُس لب سے اے کلال
ساغر ہماری خاک کو مت کرکے گِل بنا

اپنا ہنر دکھاویں گے ہم تجھ کو شیشہ گر
 ٹوٹا ہوا کسی کا اگر ہم سے دِل بنا

سُن سُن کے عرضِ حال مرا یار نے کہا
سودا نہ باتیں بیٹھ کے یاں متّصِل بنا

مرزا محمد رفیع سودا

------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--


آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا


آدم کَ - مفعول - 122
جسم جب کِ -فاعلات - 1212
عناصر سِ - مفاعیل - 1221
مل بنا - فاعلن - 212

کچ آگ - مفعول - 122
بچ رہی تِ - فاعلات - 1212
سُ عاشق کَ - مفاعیل - 1221
دل بنا - فاعلن - 212
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 30, 2012

عبور درد کا سیلِ چناب کس نے کیا - اختر ھوشیارپوری

عبور درد کا سیلِ چناب کس نے کیا
خود اپنی جاں کا یہاں احتساب کس نے کیا

زمانہ مجھ سے شناسا نہ میں زمانے سے
میں سوچتا ہوں مرا انتخاب کس نے کیا

جو میں نہیں ہوں تو میرے بدن میں لرزہ کیا
جو وہ نہیں تھا تو مجھ سے خطاب کس نے کیا

میں اس طرح سے کہاں نادم اپنے آپ سے تھا
حضورِ ذات مجھے آب آب کس نے کیا

بہار آتی تو پت جھڑ بھی دیکھ لیتا میں
ابھی سے خواب کو تعبیرِ خواب کس نے کیا

دیئے جلا کے مجھے راستے میں چھوڑ گیا
وہ کون شخص تھا، مجھ کو خراب کس نے کیا

سوال گونجتے رہتے ہیں حرفِ نو کی طرح
جو چپ ہے وہ تو مجھے لاجواب کس نے کیا

وہ ایک لفظ جو سنّاٹا بن کے گونجا تھا
اس ایک لفظ کو اختر کتاب کس نے کیا

اختر ھوشیارپوری
--------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -


عبور درد کا سیلِ چناب کس نے کیا
خود اپنی جاں کا یہاں احتساب کس نے کیا


عبور در - مفاعلن - 2121
د کَ سیلے - فعلاتن - 2211
چناب کس - مفاعلن - 2121
نِ کیا - فَعِلن - 211

خُ دپ نِ جا - مفاعلن - 2121
کَ یہا اح - فعلاتن - 2211
تساب کس - مفاعلن - 2121
نِ کیا - فَعِلن - 211
-------------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 26, 2012

کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا - غزلِ میر

کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا

شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا

سب سے مل جل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈھا بھی تو نہ پائیے گا

نہ ہوئے ہم اسیری میں تو نسیم
کوئی دن اور باؤ کھائیے گا

کہیے گا اس سے قصّہٴ مجنوں
یعنی پردے میں غم بتائیے گا
meer, taqi, meer taqi, meer, classical urdu poetry, urdu poetry, میر، تقی، میر تقی میر، کلاسیکی اردو شاعری، اردو شاعری, Mir Taqi Mir
میر تقی میر, Mir Taqi Mir
اس کے پاؤں کو جا لگی ہے حنا
خوب سے ہاتھ اسے لگائیے گا

اس کے پابوس کی توقّع پر
اپنے تئیں خاک میں ملائیے گا

شرکتِ شیخ و برہمن سے میر
کعبہ و دیر سے بھی جائیے گا

اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جُدا مسجد
کسو ویرانے میں بنائیے گا
--------

بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا


کب تلک یہ - فاعلاتن -2212
ستم اُ ٹا - مفاعلن - 2121
ء ی گا - فَعِلن - 211

ایک دن یو - فاعلاتن - 2212
ہِ جی سِ جا - مفاعلن - 2121
ء ی گا - فَعِلن - 211
-------

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 23, 2012

راگ درباری کانہڑہ - ایک تعارف

راگ درباری برصغیر کی موسیقی کے مقبول ترین راگوں میں سے ہے اور مقبولیت میں اس سے زیادہ شاید صرف راگ بھیرویں ہی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں بندشیں، غزلیں اور گیت درباری میں بنے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں، گانے اور پہچاننے میں بھی آسان ہے لیکن اسے اس کی نزاکتوں کے ساتھ گانا صرف اساتذہٴ فن ہی کا کام ہے۔

مانا جاتا ہے کہ اس راگ کو میاں تان سین نے دربارِ اکبری میں گانے کیلیے خاص طور پر اختراع کیا تھا اور اسی لیے اس راگ میں گھمبیرتا ہے اور اسے راگوں کی دنیا میں گھمبیر، بارعب، با وقار، سنجیدہ اور متین  راگ سمجھا جاتا ہے۔

 میں یہاں درباری کا مختصر تعارف لکھ رہا ہوں اور اس میں گائے ہوئے ایک دو خیال اور غزلیں وغیرہ بھی اس کے ساتھ شامل ہیں۔

 نوٹیشن کا طریقہ
 تیور سروں کو یہاں پورے نام سے ظاہر کیا جائے گا، مثال کے طور پر تیور گندھار کیلیے "گا" لکھا جائے گا جب کہ کومل سُروں کو پورے نام کی بجائے صرف پہلے حرف سے ظاہر کیا جائے گا یعنی کومل گندھار کو "گ" سے ظاہر کیا جائے گا۔  تار سپتک یعنی اوپر والی سپتک کے سر کے بعد ایک ڈیش - لگائی جائے یعنی تار سپتک کے سا کو، "سا-" کے ساتھ ظاہر کیا جائے گا اور مندر سپتک یعنی نچلی سپتک کے سر سے پہلے ڈیش لگائی جائے گی یعنی مندر سپتک کے سا کو "-سا" سے ظاہر کیا جائے گا۔ جب کہ کسی سُر کے ساتھ کوئی ڈیش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ مدھ سپتک یعنی درمیانی سپتک کا سر ہے اور بنیادی سپتک بھی یہی مدھ سپتک ہے۔

 راگ - درباری کانہڑہ
 یہ اس راگ کا مکمل نام ہے اور یہ کانہڑے کی ایک شکل ہے، عام طور پر (یا پیار سے) اسے صرف درباری ہی کہا جاتا ہے۔

 ٹھاٹھ - اساوری
 ایک خوبصورت ٹھاٹھ یعنی راگوں کا گروپ جس کا بنیادی راگ، راگ اساوری ہے ١ور اس راگ کے نام پر ہی اس ٹھاٹھ کا نام ہے۔ اس خاکسار کو ذاتی طور پر یہ ٹھاٹھ حد سے زیادہ پسند ہے کیونکہ میرے کچھ پسندیدہ ترین راگوں یعنی دربای، اساوری، جونپوری کا تعلق اسی ٹھاٹھ سے ہے۔

 اساوری ٹھاٹھ میں، رکھب یعنی رے تیور ہے جبکہ گندھار یعنی گا، مدھم یعنی ما، دھیوت یعنی دھا اور نکھاد یعنی نی، چاروں کومل سر ہیں۔  جبکہ کھرج سا اور پنچم پا ہوتے ہی اچل ہیں یعنی انکے کومل اور تیور سُر نہیں ہوتے۔ اگر شُدھ سُروں میں بات کریں تو اس ٹھاٹھ میں سا، رے، ما اور پا شدھ سر ہیں۔ اور یہی ترتیب درباری میں ہے۔

 جاتی یا ذات - سمپورن + کھاڈو (یا شاڈو)
 یعنی آروہی میں سات سر اور اوروہی میں چھ سر۔ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا۔

 آروہی یا ترتیبِ صعودی
 یعنی نیچے سے اوپر جاتے ہوئے اس راگ کے سر یہ ہیں۔

 -ن سا رے گ رے سا، م پا د ن سا-

 (کچھ اساتذہ آخری ٹکڑے کو م پا د ن رے- سا- بھی کہتے ہیں)

 اوروہی یا ترتیبِ نزولی
 یعنی اوپر سے نیچے آتے ہوئے

 سا- د ن پا، م پا، گ م رے سا

 یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے۔ جیسے کہ اس راگ کی جاتی میں لکھا گیا کہ اوروہی میں دھیوت ورجت ہے یعنی نہیں لگایا جاتا لیکن اوروہی لکھتے ہوئے آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ دھیوت یعنی د لکھا گیا ہے تو پھر یہ ورجت کیسے ہوا یا اوروہی کھاڈو کیسے ہوئی۔ اس بات کی وضاحت آج تک کسی کتاب یا ویب سائٹ پر میری نظر سے نہیں گزری سب یہی لکھ دیتے ہیں کہ دھیوت ورجت ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اوروہی میں دھیوت تو لگ رہا ہے لیکن اپنی ترتیب میں نہیں یعنی سا- کے بعد نکھاد کی جگہ دھیوت آ گیا ہے اور دھیوت کے فوری بعد پنچم کی بجائے نکھاد ہے یوں " د ن" کا ٹکڑا اوروہی کا حصہ بننے کی بجائے آروہی کا حصہ بن گیا ہے اور یہی اس بات کا مطلب ہے کہ دھیوت اوروہی میں ورجت ہے۔ یعنی اوروہی میں کبھی بھی دھیوت کے بعد پنچم نہیں آے گا بلکہ دھیوت کے بعد ہمیشہ ہی نکھاد آئے گا اور نکھاد کے بعد پنچم اور یہی اس راگ کی نزاکت ہے جسے قائم رکھنا بہت ضروری ہے اس کی خلاف ورزی کرنے سے درباری، درباری نہیں رہے گا۔

سروں کی مزید تفہیم کیلیے ایک تصویر شامل کر رہا ہوں جس میں درباری کے سروں کی ہارمونیم پر نشاندہی کی گئی ہے۔


 پکڑ
 یعنی سروں کے وہ ٹکڑے جو کسی راگ میں بار بار لگائے جاتے ہیں اور راگ اس سے پہچانا جاتا ہے۔ درباری کی مختلف پکڑیں مشہور ہیں، کچھ مشہور اسطرح سے ہیں

 گ م رے سا
 -د -ن سا رے سا
 وغیرہ

 وادی سُر - رکھب
 یعنی کسی راگ کا سب سے اہم سُر، جس کو بار بار لگایا جاتا ہے یا اس پر رکا جاتا ہے یا اس پر زور دیا جاتا ہے-

 سَم وادی سُر - پنچم
 وادی سُر کے بعد دوسرا سب سے اہم سُر-

 وقت - رات کا دوسرا پہر یا آدھی رات
 یعنی وہ خاص وقت جس میں عموماً کوئی راگ گایا جاتا ہے اور اپنا سماں باندھ دیتا ہے۔

 درباری کی کچھ مزید خصوصیات
 - اس میں دو سُر یعنی کومل گندھار اور کومل دھیوت کا اندوہلن کیا جاتا ہے یعنی ان سُروں کو جھولایا جاتا ہے اور یہ اس راگ کا خاص انگ ہے جو اس کو دوسروں سے الگ کرتا ہے اور بہت لطف دیتا ہے۔
 - یہ پوروانگ کا راگ ہے یعنی عام طور پر نچلے سروں میں گایا جاتا ہے۔
 - یہ راگ بلمپت لے یعنی دھیمی لے (سلو ٹیمپو) میں زیادہ اچھا لگتا ہے۔ - اسکی آروہی میں کومل گندھار دُربل یعنی کمزور رہتا ہے یعنی اس سُر پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔

------

سب سے پہلے عصرِ حاضر کے تان سین استاد بڑے غلام علی خان مرحوم ( قصور پٹیالہ گھرانہ) کی راگ درباری میں ایک انتہائی خوبصورت بندش  "انوکھا لاڈلا"۔



اور میرے ایک اور پسندیدہ گلوکار استاد فتح علی خان پٹیالہ گھرانہ کی ایک خوبصورت بندش راگ درباری میں



ایک خوبصورت ترانہ اسی راگ میں, استاد نزاکت علی اور استاد سلامت علی شام چوراسی گھرانہ


اور مہدی حسن کی ایک خوبصورت غزل کو بکو پھیل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔



فلم بیجو باورا کے لیے گائی گئی اُستاد امیر خان کی راگ درباری میں خوبصورت سرگم


اسکے علاوہ کچھ اور خوبصورت غزلیں جو اسی راگ میں ہیں، انکے نام لکھ رہا ہوں

- ہنگامہ ہے کیوں برپا - غلام علی
- تسکیں کو ہم نہ روئیں - اقبال بانو
- آ میرے پیار کی خوشبو - استاد امانت علی

اس پوسٹ میں یو ٹیوب کی بہت زیادہ ویڈیوز نہیں لگا رہا کہ کچھ قارئین کو کوفت نہ ہو، اگر آپ اس راگ میں بنائی گائی میری پسند کی کچھ اور چیزیں سننا چاہتے ہیں تو یہ ربط دیکھیے، بصورتِ دیگر آپ کی اپنی پسند کیلیے یو ٹیوب تو ہے ہی۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 14, 2012

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے - غزل شان الحق حقّی

ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے

کچھ اس کے تصوّر میں وہ راحت ہے کہ برسوں
بیٹھے یونہی اس وادیٔ گُل پوش میں رہیے

اک سادہ تبسّم میں وہ جادو ہے کہ پہروں
ڈوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہیے

ہوتی ہے یہاں قدر کسے دیدہ وری کی
آنکھوں کی طرح اپنے ہی آغوش میں رہیے

ٹھہرائی ہے اب حالِ غمِ دل نے یہ صورت
مستی کی طرح دیدۂ مے نوش میں رہیے
shan, haqqi, shan-ul-haq-haqqi, poetry, urdu poetry, ghazal, شان، شان الحق حقی، اردو شاعری، اردو غزل، شاعری، غزل
ڈاکٹر شان الحق حقّی, Shan-ul-Haq Haqqi
ہمّت نے چلن اب یہ نکالا ہے کہ چبھ کر
کانٹے کی طرح پائے طلب کوش میں رہیے

آسودہ دلی راس نہیں عرضِ سُخن کو
ہے شرط کہ دریا کی طرح جوش میں رہیے

ہستی میں وہ حالت ہے دل و جاں کی کہ جیسے
جا کر کسی مینارۂ خاموش میں رہیے

کیوں دیکھیے خونابہ فشانی کو کسی کی
آرائشِ رخسار و لب و گوش میں رہیے

یا ربط خدایانِ جفا کیش سے رکھیے
یا حلقۂ یارانِ وفا کوش میں رہیے

حقّی وہی اب پھر غمِ ایّام کا دکھڑا
یہ محفلِ رنداں ہے ذرا ہوش میں رہیے

ڈاکٹر شان الحق حقّی
--------
بحر - بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

 افاعیل: مَفعُولُ مَفَاعیلُ مَفَاعیلُ فَعُولُن
(آخری رکن فعولن کی جگہ مسبغ رکن فعولان بھی آ سکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1221 1221 221
(آخری رکن 221 کی جگہ 1221 بھی آ سکتا ہے)

 تقطیع -


ہرچند کہ ساغر کی طرَح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے


ہر چند - مفعول - 122
کہ ساغر کِ - مفاعیل - 1221
طرَح جوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221

ساقی سِ - مفعول - 122
ملے آک - مفاعیل - 1221
تُ پر ہوش - مفاعیل - 1221
مِ رہیے - فعولن - 221
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 6, 2012

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو - احسان دانش

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو
 کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

 زندہ ہے دل تو اس میں محبت بھی چاہیے
 آنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلو

 آذر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیک
 صر صر بنی ہوئی ہے صبا دیکھ کر چلو

 امسال دیدنی ہے چمن میں جنوں کا رنگ
 گُل چاک کر رہے ہیں قبا دیکھ کر چلو

 گُلچیں کے سدّباب سے انکار ہے کسے
 لیکن اصولِ نشو و نما دیکھ کر چلو
Ehsan, Ahsan, Danish, Ehsan Danish, Ahsan Danish, urdu poetry, poetry, ghazal, احسان، دانش، احسان دانش، اردو شاعری، شاعری، غزل
احسان دانش, Ehsan Danish
 کچھ سرپھروں کو ذکرِ وفا بھی ہے ناگوار
 یہ انحطاطِ مہر و وفا دیکھ کر چلو

 ہاں انفرادیت بھی بُری چیز تو نہیں
 چلنا اگر ہے سب سے جدا دیکھ کر چلو

 آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو ہر شے ہے بے نقاب
 اے بندگانِ حرص و ہوا دیکھ کر چلو

 ذوقِ عبودیت ہو کہ گستاخیِ نگاہ
 تخمینۂ جزا و سزا دیکھ کر چلو

 ناموسِ زندگی بھی بڑی شے ہے دوستو
 دیکھو بلند و پست فضا دیکھ کر چلو

 یہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیست
 اس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلو

 عرفان و آگہی بھی عبادت سہی مگر
 طرز و طریقِ اہلِ وفا دیکھ کر چلو

 اسبابِ ظاہری پہ بھی درکار ہے نظر
 باوصف اعتمادِ خدا دیکھ کر چلو

 ممکن ہے روحِ سرو و سمن سے ہو ساز باز
 کیا دے گئی گلوں کو صبا دیکھ کر چلو

 ہر کشمکش نہیں ہے امینِ سکونِ دل
 ہر موت میں نہیں ہے بقا دیکھ کر چلو

 ہر لحظہ ہے پیمبرِ اندیشہ و عمل
 کیا چاہتا ہے رنگِ فضا دیکھ کر چلو

 یہ بھی روش نہ ہو رہِ مقصود کے خلاف
 آئی ہے یہ کدھر سے صدا "دیکھ کر چلو"

ہمدرد بن کے دشمنِ دانش ہوئے ہیں لوگ
یہ بھی ہے دوستی کی ادا دیکھ کر چلو

 (احسان دانش)

------

 بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو
 کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

ہستی کَ - مفعول - 122
ہر نفس ہِ - فاعلات - 1212
نیا دیک - مفاعیل - 1221
کر چلو - فاعلن - 212

کس رُخ کِ - مفعول - 122
چل رہی ہِ - فاعلات - 1212
ہوا دیک - مفاعیل - 1221
کر چلو - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Apr 2, 2012

رباعیاتِ سرمد شہید مع اردو ترجمہ -۳


(13)
سرمد اگرش وفاست خود می آید
گر آمدنش رواست خود می آید
بیہودہ چرا درپئے اُو می گردی
بنشیں، اگر اُو خداست خود می آید

سرمد اگر وہ با وفا ہے تو خود ہی آئے گا۔ اگر اس کا آنا روا اور ممکن ہے تو وہ خود ہی آئے گا۔ تُو کاہے اسکی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، آرام سے بیٹھ رہ، اگر وہ خدا ہے تو خود ہی آئے گا۔


(14)
از جُرم فزوں یافتہ ام فضل ترا
ایں شد سببِ معصیتِ بیش مرا
ہر چند گنہ بیش، کرم بیش تر است
دیدم ہمہ جا و آزمودم ہمہ را

میرے گناہوں سے تیرا فضل بہت بڑھ کے ہے اور میرے گناہ اسی وجہ سے زیادہ ہیں۔ ہر چند کہ میرے گناہ بہت زیادہ ہیں لیکن تیرا کرم ان سے بہت ہی زیادہ ہے اور یہی بات میں نے ہر جگہ دیکھی ہے اور یہی بات ہر کسی کا تجربہ ہے۔

(15)
دیوانہٴ رنگینیِ یارِ دگرم
حیرت زدہٴ نقش و نگارِ دگرم
عالم ہمہ در فکر و خیالِ دگر است
من در غم و اندیشہٴ کارِ دگرم

میں کسی اور ہی محبوب کی رنگینی کا دیوانہ ہوں۔ میں کسی اور ہی کے نقش و نگار سے حیرت زدہ ہوں۔ ساری دنیا اوروں کے خیال میں محو ہے جبکہ میں اور ہی طرح کے غموں میں مگن ہوں۔

(16)
مشہور شدی بہ دلربائی ہمہ جا
بے مثل شدی در آشنائی ہمہ جا
من عاشقِ ایں طورِ تو ام، می بینم
خود را نہ نمائی و نمائی ہمہ جا

ہر جگہ تیری دلربائی کہ وجہ سے تیرے چرچے ہیں، اور آشنائی میں بھی تو بے مثل ہے۔ میں تیرے انہی طور طریقوں پر عاشق ہوں اور دیکھتا ہوں کہ تُو خود کو عیاں نہیں کرتا اور ہر جگہ عیاں بھی ہے۔
mazar, sarmad, shaheed, mazar sarmad shaheed, persian, persian poetry, farsi, farsi poetry, rubai, مزار، مزار سرمد شہید، سرمد، شہید، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی
مزار سرمد شہید mazar sarmad shaheed
(17)
اے جلوہ گرِ نہاں، عیاں شو بدر آ
در فکر بجستیم کہ ہستی تو کجا
خواہم کہ در آغوش وکنارت گیرم
تاچند تو در پردہ نمائی خود را

اے تو کہ جو پردوں کے پیچھے ہے، ظاہر ہو اور سامنے آ، میں اسی فکر میں سرگرداں رہتا ہوں کہ تیری ہستی کیا ہے۔  میری خواہش ہے کہ تیرا وصال ہو اور میں تجھے چھوؤں اور اپنی آغوش میں لوں، یہ پردوں کے پیچھے سے اپنے آپ کو نمایاں کرنا کب تک۔

(18)
ہرچند کہ صد دوست بہ من دشمن شُد
از دوستیِ یکے دلم ایمن شد
وحدت بگزیدم و ز کثرت رستم
آخر من ازو شدم و اُو از من شد

اگرچہ سینکڑوں دوست میرے دشمن بن گئے لیکن ایک کی دوستی نے  میری روح کو امن و قرار دے دیا (اور مجھے سب سے بے نیاز کر دیا)۔ میں نے ایک کو پکڑ لیا اور کثرت کو چھوڑ دیا اور آخرِ کار میں وہ بن گیا اور وہ میں بن گیا۔

(19)
دنیا نَشَود آخرِ دم بہ تو رفیق
در راہِ خدا کوش، رفیق است شفیق
خواہی کہ بسر منزلِ دلدار رسی
گفتم بہ تو اے دوست، ہمیں است طریق

دنیا تیرے آخری دموں تک تیری رفیق نہیں بنے گی لیکن خدا کی راہ میں لگا رہ کہ جو نہ صرف رفیق ہے بلکہ شفیق بھی ہے۔ اگر تو چاہتا کہ اپنے دلدار تک پہنچے تو پھر اے دوست تجھ سے یہی کہتا ہوں کہ طریقہ یہی ہے (جو میں نے تجھے بتایا)۔

(20)
ہر نیک و بدے کہ ہست در دستِ خداست
ایں معنیٴ پیدا و نہاں در ہمہ جاست
باور نہ کنی اگر دریں جا بنگر
ایں ضعفِ من و قوّتِ شیطاں ز کجاست

ہر نیکی اور بدی جو کچھ بھی ہے سب خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ بات چاہے ظاہر ہو یا چھپی ہوئی ہر جگہ ہے، اگر تو اس بات کا یقین نہیں کرتا تو میری طرف دیکھ کہ یہ میرا ضعف اور شیطان کی قوت کہاں سے آئی ہے۔

حصہٴ اول
حصہٴ دوم
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 17, 2012

متفرق فارسی اشعار - 5

غلط گفتی "چرا سجّادۂ تقویٰ گِرو کردی؟"
بہ زہد آلودہ بودم، گر نمی کردم، چہ می کردم؟

(یغمائے جندقی)

تُو نے یہ غلط کہا ہے کہ "پارسائی کا سجادہ (پیر مغاں کے پاس) گروی کیوں رکھ دیا؟"۔ میں زہد سے آلودہ ہو گیا تھا اگر ایسا نہ کرتا تو کیا کرتا؟
-----

حافظ از بادِ خزاں در چمنِ دہر مرنج
فکرِ معقول بفرما، گلِ بے خار کجاست

(حافظ شیرازی)

حافظ، زمانے کے چمن میں خزاں کی ہوا سے رنج نہ کر، صحیح بات سوچ، بغیر کانٹے کے پھول کہاں ہے؟
-----

شمع خود را می گدازَد درمیانِ انجمن
نورِ ما چوں آتشِ سنگ از نظر پنہاں خوش است

(میر رضی دانش)

شمع انجمن میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے (اور صبح تک ختم ہو جاتی ہے)، ہمارا نور آتشِ سنگ کی طرح نظر سے پنہاں ہے لیکن اچھا ہے (کہ دائمی ہے)۔
-----

مَپُرس وجہ سوادِ سفینہ ہا غالب
سخن بہ مرگِ سخن رس سیاہ پوش آمد

غالب، میری بیاضوں کی سیاہی کا سبب مت پوچھ، (کہ میری) شاعری سخن شناس انسانوں کی موت پر سیاہ (ماتمی) لباس پہنے ہوئے ہے۔

(غالب دھلوی)
-----

شاخِ نہالِ سدرۂ، خار و خسِ چمن مَشو
منکرِ او اگر شدی، منکرِ خویشتن مشو

(علامہ اقبال)

تُو سدرہ کے پودے کی شاخ ہے، چمن کا کوڑا کرکٹ مت بن، اگر تُو اُس کا منکر ہو گیا ہے تو اپنا منکر تو نہ بن۔
-----
جاں بہ جاناں کی رسد، جاناں کُجا و جاں کُجا
ذرّه است ایں، آفتاب است، ایں کجا و آں کجا

(ھاتف اصفہانی)

(اپنی) جان، جاناں پر کیا واروں کہ جاناں کہاں اور (میری) جان کہاں۔ یہ (جان) ذرہ ہے، (وہ جاناں) آفتاب ہے، یہ کہاں اور وہ کہاں۔
-----

رباعی

در کعبہ اگر دل سوئے غیرست ترا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دیرست ترا
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکده ‌ای
مے نوش کہ عاقبت بخیرست ترا

(ابوسعید ابوالخیر)

کعبہ میں اگر تیرا دل غیر کی طرف ہے، (تو پھر) تیری ساری طاعت بھی سب فسق ہے اور کعبہ بھی تیرے لیے بتخانہ ہے۔ اور (اگر) تیرا دل خدا کی طرف ہے اور تو (چاہے) میکدے میں رہتا ہے تو (بے فکر) مے نوش کر کہ (پھر) تیری عاقبت بخیر ہے۔
-----

من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری

(امیر خسرو دہلوی)

میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔
-----

دل کہ جمع است، غم از بے سر و سامانی نیست
فکرِ جمعیّت اگر نیست، پریشانی نیست

(نظیری نیشاپوری)

دل (خاطر) جمع ہے، سو بے سر و سامانی کا کوئی غم نہیں ہے، اگر جمع کرنے کی فکر نہ ہو تو (دنیا میں) کوئی پریشانی نہیں ہے۔
-----

آں کیست نہاں در غم؟ ایں کیست نہاں در دل؟
دل رقص کناں در غم، غم رقص کناں در دل

(جگر مراد آبادی، شعلۂ طور)

وہ کیا ہے جو غم میں چُھپا ہے، یہ کیا ہے جو دل میں چُھپا ہے، (کہ) دل غم میں رقص کناں ہے، اور غم دل میں رقص کناں ہے۔
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 13, 2012

لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر - غزل میر تقی میر

گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو یک نظر دیکھو

یوں عرق جلوہ گر ہے اس مونہہ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو

ہر خراشِ جبیں جراحت ہے
ناخنِ شوق کا ہنر دیکھو

تھی ہمیں آرزو لبِ خنداں
سو عوض اس کے چشمِ تر دیکھو
meer, taqi, meer taqi, meer, classical urdu poetry, urdu poetry, میر، تقی، میر تقی میر، کلاسیکی اردو شاعری، اردو شاعری, ilm-e-arooz, taqtee, Mir Taqi Mir
میر تقی میر Mir Taqi Mir
رنگِ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے
ایک دن آؤ یاں سحر دیکھو

دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو

پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دُور گر دیکھو

لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو

----


بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -


گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو


گر چ کب دے - فاعلاتن - 2212
ک تے ہُ پر - مفاعلن - 2121
دیکو - فعلن - 22

آرزو ہے - فاعلاتن - 2212
کِ تم ادر - مفاعلن - 2121
دیکو - فعلن - 22
-----

مزید پڑھیے۔۔۔۔

Mar 6, 2012

کہاں کھو گئی روح کی روشنی - غزل خلیل الرحمٰن اعظمی

کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بتا میری راتوں کی آوارگی

غموں پر تبسّم کی ڈالی نقاب
تو ہونے لگی اور بے پردگی

مگر جاگنا اپنی قسمت میں تھا
بلاتی رہی نیند کی جل پری

جو تعمیر کی کنجِ تنہائی میں
وہ دیوار اپنے ہی سر پر گری

Khalil-ur-Rahman Azmi, خلیل الرحمٰن اعظمی, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
خلیل الرحمٰن اعظمی Khalil-ur-Rahman Azmi
نہ تھا بند ہم پر درِ مے کدہ
صراحی مگر دل کی خالی رہی

گذاری ہے کتنوں نے اس طرح عمر
بالاقساط کرتے رہے خود کشی

(خلیل الرحمٰن اعظمی)
--------

بحر - بحر متقارب مثمن محذوف

افاعیل - فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعِل
آخری رکن میں فَعِل کی جگہ فعول بھی آ سکتا ہے۔

اشاری نظام - 221 221 221 21
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 221 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 21 کی جگہ 121 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

کہاں کھو گئی روح کی روشنی
بتا میری راتوں کی آوارگی

کہا کو - فعولن - 221
گئی رُو - فعولن - 221
ح کی رو - فعولن - 221
شنی - فعِل - 21

بتا مے - فعولن - 221
رِ راتو - فعولن - 221
کِ آوا - فعولن - 221
رگی - فعِل - 21
-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 23, 2012

رباعیاتِ سرمد شہید مع اردو ترجمہ - ۲

سرمد شہید کی کچھ مزید رباعیات، پہلی پوسٹ اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔

(6)
صد شُکر کہ دلدار ز من خوشنُود است
ہر دم بہ کرم و ہر نفَس در جُود است
نقصاں بہ من از مہر و محبت نہ رسید
سودا کہ دلم کرد، تمامش سُود است

خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہمارا دلدار ہم سے خوش ہے۔ ہر دم اور ہر لحظہ اسکے جوُد و کرم مجھ پر ہیں۔ اس مہر و محبت میں مجھے ذرہ بھر نقصان نہیں پہنچا کہ میرے دل نے جو سودا کیا ہے وہ تمام کا تمام منافع ہی ہے۔
mazar, sarmad, shaheed, mazar sarmad shaheed, persian, persian poetry, farsi, farsi poetry, rubai, مزار، مزار سرمد شہید، سرمد، شہید، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی
مزار سرمد شہید mazar sarmad shaheed
(7)
آں شوخ بہ من نظر نہ دارَد، چہ کُنَم
آہِ دلِ من اثر نہ دارَد، چہ کُنَم
با آنکہ ہمیشہ در دلم می مانَد
از حالِ دلم خبر نہ دارَد، چہ کُنَم

وہ شوخ ہم پر نظر ہی نہیں کرتا، کیا کروں۔ میرے دل کی آہ کچھ اثر ہی نہیں رکھتی، کدھر جاؤں۔ وہ کہ جو ہمیشہ میرے دل میں جا گزیں ہے، اسے میرے دل کے حال کی کچھ خبر ہی نہیں ہے، ہائے کیا کروں، کدھر جاؤں۔

(8)
ہر چند گل و خار دریں باغ خوش است
بے یار دل از باغ نہ از راغ خوش است
چوں خونِ دلم، لالہ بہ بیں در رنگست
ایں چشم و چراغ نیز با داغ خوش است

ہرچند کہ اس گلستان میں پھول اور  کانٹے خوب ہیں لیکن دوست کے بغیر دل نہ گلستان سے خوش ہے اور نہ ہی چمن زار سے۔ دیکھو کہ لالہ کا رنگ میرے دل کے خون کی طرح ہے، لیکن چمنستان کا یہ چشم و چراغ خوبصورت اسی وجہ سے ہے کہ اس کے دل میں بھی داغ ہے۔

(9)
دُوری نَفَسے مرا از اُو ممکن نیست
ایں یک جہتی بہ گفتگو ممکن نیست
اُو بحر، دلم سبوست، ایں حرفِ غلط
گنجائشِ بحر در سبو ممکن نیست

اس سے ایک لمحے کے لیے بھی دُوری میرے لیے ممکن نہیں، اور یہ یک جہتی باتوں باتوں میں ممکن نہیں۔ وہ سمندر ہے، میرا دل پیمانہ ہے، یہ سب باتیں غلط، کیونکہ سبو میں سمندر کی گنجائش ممکن ہی نہیں۔

(10)
دلخواہ نہ شد دو چار بارے بہ جہاں
غمخوار نہ دیدیم بکارے بہ جہاں
آں گل کہ دہد بوئے وفا نایاب است
کُن سیرِ خزانے و بہارے بہ جہاں

اس دنیا میں جسے میرا دل چاہتا ہے ایک بار بھی نہیں ملا اور نہ ہی یہاں کوئی غمخوار ملا ہے۔ وہ پھول کہ جس سے بوئے وفا آتی ہو نایاب ہے، چاہے تم اس جہان کی خزاں میں سیر کر لو چاہے بہار میں۔

(11)
تنہا نہ ہمیں دیر و حرم خانہٴ اُوست
ایں ارض و سما تمام کاشانہٴ اُوست
عالم ہمہ دیوانہٴ افسانہٴ اُوست
عاقل بوَد آں کسے کہ ویوانہٴ اُوست

صرف یہ دیر و حرم ہی اسکے ٹھکانے نہیں ہیں بلکہ یہ تمام ارض و سماوات اسکے کاشانے ہیں۔ ساری دنیا اسکے افسانوں میں کھوئی ہوئی ہے لیکن عقل مند وہی ہے جو صرف اسکا دیوانہ ہے۔


(12)
سرمد در دیں عجب شکستے کردی
ایماں بہ فدائے چشمِ مستے کردی
با عجز و نیاز، جملہ نقدِ خود را
رفتی و نثارِ بُت پرستے کردی

سرمد تو نے مذہب میں عجب شکست و ریخت کر دی کہ اپنا ایمان ان مست نظروں پر قربان کر دیا اور اپنا  سب کا سب (دین و دنیا کا) سرمایہ بُت پرست پر عجز و نیاز کے ساتھ نثار کر دیا۔


مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 20, 2012

مانا کہ تم رہا کیے دار و رسَن سے دُور - غزل مولانا محمد علی جوہر

یادِ وَطَن نہ آئے ہمیں کیوں وَطَن سے دُور
جاتی نہیں ہے بُوئے چمن کیا چمن سے دُور

گر بُوئے گُل نہیں، نہ سہی، یادِ گُل تو ہے
صیّاد لاکھ رکھّے قفس کو چمن سے دُور

پاداشِ جرمِ عشق سے کب تک مفَر بھلا
مانا کہ تم رہا کیے دار و رسَن سے دُور
Maulana, Muhammad, Ali, Johar, Maulana Muhammad Ali Johar, urdu poetry, poetry, مولانا، محمد، علی، جوہر، مولانا محمد علی جوہر، اردو شاعری، شاعری، غزل، ghazal
مولانا محمد علی جوہر
Maulana Muhammad Ali Johar
آساں نہ تھا تقرّبِ شیریں تو کیا ہوا
تیشہ کو کوئی رکھ نہ سکا کوہکن سے دُور

ہم تک جو دَورِ جام پھر آئے تو کیا عَجَب
یہ بھی نہیں ہے گردشِ چرخِ کہن سے دُور

شاید کہ آج حسرتِ جوہر نکل گئی
اک لاش تھی پڑی ہوئی گور و کفن سے دُور

(مولانا محمد علی جوہر)

------

بحر - بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 / 1212 / 1221 / 212
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 122 پہلے ہے اور اس میں بھی 22 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

یادِ وَطَن نہ آئے ہمیں کیوں وَطَن سے دُور
جاتی نہیں ہے بُوئے چمن کیا چمن سے دُور

یا دے وَ - مفعول - 122
طن نَ آ ء - فاعلات - 1212
ہَ مے کُو وَ - مفاعیل - 1221
طَن سِ دُور - فاعلان - 1212

جاتی نَ - مفعول - 122
ہی ہِ بُو ء - فاعلات - 1212
چمن کا چَ - مفاعیل - 1221
مَن سے دُور - فاعلان - 1212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 18, 2012

صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت - خواجہ الطاف حسین حالی

خواجہ الطاف حسین حالی کی ایک معروف غزل

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی، گلِ تر کی صورت
Altaf، Hussain، Hali, Altaf Hussain Hali, urdu poetry, poetry, classical urdu poetry, ghazal, خواجہ، الطاف، حسین، حالی، خواجہ الطاف حسین حالی، اردو شاعری، کلاسیکی اردو شاعری، شاعری، غزل
خواجہ الطاف حسین حالی
Altaf Hussain Hali
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت

دیکھئے شیخ، مصوّر سے کِچھے یا نہ کِچھے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت

واعظو، آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت

شوق میں اس کے مزا، درد میں اس کے لذّت
ناصحو، اس سے نہیں کوئی مفر کی صورت

رہنماؤں کے ہوئے جاتے ہیں اوسان خطا
راہ میں کچھ نظر آتی ہے خطر کی صورت

(مولانا الطاف حسین حالی)
------

بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

اس کِ جاتے - فاعلاتن - 2212
ہِ یِ کا ہو - فعلاتن - 2211
گ ء گر کی - فعلاتن - 2211
صورت - فعلن - 22

نَ وُ دیوا - فعلاتن - 2211
ر کِ صورت - فعلاتن - 2211
ہِ نَ در کی - فعلاتن - 2211
صورت - فعلن - 22
----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 16, 2012

کہ چوب و تار و صدائے تنن تنن ہمہ اُوست - غزل شاہ نیاز احمد

شاہ نیاز احمد بریلوی (رح) سلسلہٴ چشتیہ نظامیہ کے ایک نامور صوفی تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اردو اور فارسی کے بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ اور دہلی میں نامور اردو شاعر اور مسلم الثبوت استاذ، مصحفی کے استاذ تھے جیسا کہ مصحفی نے خود اپنی کتاب "ریاض الفصحاء" میں ذکر کیا ہے۔ انہی شاہ نیاز کی ایک خوبصورت فارسی غزل آپ دوستوں کی خدمت میں پیش کررہا ہوں جو کہ صوفیا کے مشہور و معروف نظامِ فکر "ہمہ اوست" کی نمائندگی کرتی ہے اور جس کی بازگشت عراقی اور رومی سے لیکر متاخرین تک کے تمام صوفی شعراء کے کلام میں دیکھی جا سکتی ہے۔

شاہ نیاز کی یہ غزل، پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اپنی مشہور کتاب "تاریخِ مشائخِ چشت" میں درج کی ہے۔ شاہ صاحب کی شاعری اور مصحفی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔۔

"جب مصحفی لکھنؤ چلے گئے اور ان کے شاعرانہ کمالات کا شہرہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے کانوں تک پہنچا تو اپنی ایک غزل مصحفی کو لکھ کر بھیجی۔"

نظامی صاحب نے یہ غزل بغیر اردو ترجمے کے درج کی ہے سو ترجمہ لکھ رہا ہوں اور کسی کمی بیشی کیلیے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔

کسیکہ سرّ ِ نہاں است۔۔۔۔۔۔۔۔ہمہ اُوست
عروسِ خلوت و ہم شمعِ انجمن ہمہ اُوست


افسوس کہ یہ خوبصورت مطلع، مصرعِ اولیٰ کے ایک یا دو الفاظ نہ ہونے کی وجہ سے نامکمل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پروفیسر نظامی صاحب کو بھی یہ مصرع مکمل نہ ملا ہو یا پھر ناشر کی کارستانی بھی ہو سکتی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ شاہ نیاز کا دیوان شائع ہو چکا ہے لہذا دوستوں سے گذارش ہے کہ اگر کسی کے پاس شاہ نیاز کا دیوان ہو اور اس میں یہ غزل ہو تو مکمل مصرع عطا فرما کر مشکور ہوں۔ دوسرے مصرعے کا مطلب کچھ یوں ہے کہ تنہائی کی رونق اور سرخوشی بھی وہی ہے اور شمعِ انجمن بھی وہی ہے۔

ز مصحفِ رُخِ خوباں ہمیں موذِ رقم
کہ خط و خال و رُخ و زلفِ پُر شکن ہمہ اُوست


رُخِ خوباں کے مصحف پر یہی رقم ہے کہ خط و خال اور رخ اور زلفِ پُر شکن سبھی کچھ وہی ہے۔ موذ لفظ باوجود تلاش کے کسی لغت میں نہیں ملا، اسکا مطلب کسی دوست کے علم میں ہو تو مطلع فرما کر مشکور ہوں۔

نظر بہ عیب مکن در ظہورِ باغِ وجود
کہ طوطیانِ چمن و زاغ و ہم زغن ہمہ اُوست


اس وجود کے گلستان کے ظاہر پر عیب کی نظر مت ڈال کہ طوطیان چمن بھی وہی ہے اور زاغ و زغن بھی وہی ہے۔

از سرّ ِ عشق چو واقف شوی، یقیں دانی
کہ قیس و لیلیٰ و شیریں و کوہ کن ہمہ اُوست


جب تُو عشق کے اسرار سے واقف ہو جائے تو یقین کر لے کہ قیس بھی وہی ہے اورو لیلیٰ بھی، شیریں بھی وہی ہے اور فرہاد بھی۔
Shah Niaz Ahmed, Farsi, Farsi with urdu translation, persian, persian poetry with urdu translation, فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، شاہ نیاز احمد بریلوی
مزار شاہ نیاز احمد، بریلی، ہندوستان
Mazar Shah Niaz Ahmed
شنیدہ ام بہ صنم خانہ از زبانِ صنم
صنم پرست و صنم گر و صنم شکن ہمہ اُوست


میں نے صنم خانے میں صنم کی زبان سے سنا ہے کہ صنم پرست بھی وہی ہے اور صنم گر بھی وہی ہےا ور صنم شکن بھی وہی ہے۔

رساند مطربِ خوش گو ہمیں ندا در گوش
کہ چوب و تار و صدائے تنن تنن ہمہ اُوست


مطربِ خوش گو کی یہی آواز ہمارے کانوں تک پہنچی ہے کہ (ساز کی ) چوب بھی وہی ہے اور تار بھی اور صدائے تنن تنن بھی وہی ہے۔
---------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Feb 14, 2012

سرمد شہید کی رباعیات - ١

سرمد شہید کا اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھوں قتل مذہب کے پردے میں ایک سیاسی قتل تھا، جیسا کہ مؤرخین اور صوفیاء کا خیال ہے اور علماء میں سے بھی امامِ الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی ایسا ہی لکھا ہے اور مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے بھی "رودِ کوثر" میں سرمد شہید کے حالات کے تحت اس واقعے پر روشنی ڈالی ہے۔ سرمد شہید کے قتل کی اصل وجہ انکی اورنگ زیب عالمگیر کے صوفی منش بھائی شہزادہ دارا شکوہ سے مصاحبت تھی لیکن الزام کفر اور زندقہ کا لگا۔ خیر یہاں مقصودِ نظر مذہب اور سیاست نہیں ہے بلکہ سرمد شہید کی شاعری ہے۔ سرمد شہید ایک انتہائی اچھے شاعر تھے۔ انکی رباعیات انتہائی پُر لطف اور پُر کیف ہیں اور سوز و مستی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

سرمد شہید کی کچھ رباعیات اپنے ٹوٹے پھوٹے ترجمے کے ساتھ پیش کر رہا ہوں، امید ہے اہلِ علم ترجمے کی فروگزاشات سے صرفِ نظر کریں گے کہ خاکسار ترجمے کی جرات فقط اپنے قارئین کیلیے کرتا ہے۔

(1)
سرمد غمِ عشق بوالہوس را نہ دہند
سوزِ دلِ پروانہ مگس را نہ دہند
عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
ایں دولتِ سرمد ہمہ کس را نہ دہند

اے سرمد، غمِ عشق کسی بوالہوس کو نہیں دیا جاتا۔ پروانے کے دل کا سوز کسی شہد کی مکھی کو نہیں دیا جاتا۔ عمریں گزر جاتی ہیں اور پھر کہیں جا کر یار کا وصال نصیب ہوتا ہے، یہ سرمدی اور دائمی دولت ہر کسی کو نہیں دی جاتی۔
--------

(2)
سرمد تو حدیثِ کعبہ و دیر مَکُن
در کوچۂ شک چو گمرہاں سیر مَکُن
ہاں شیوہٴ بندگی ز شیطان آموز
یک قبلہ گزیں و سجدۂ غیر مَکُن

سرمد تو کعبے اور بُتخانے کی باتیں مت کر، شک و شبہات کے کوچے میں گمراہوں کی طرح سیر مت کر، ہاں تو بندگی کا شیوہ شیطان سے سیکھ کہ ایک قبلہ پسند کر لے (پکڑ لے) اور ﴿پھر ساری زندگی﴾ غیر کو سجدہ مت کر۔
--------
mazar, sarmad, shaheed, mazar sarmad shaheed, persian, persian poetry, farsi, farsi poetry, rubai, مزار، مزار سرمد شہید، سرمد، شہید، فارسی شاعری مع اردو ترجمہ، رباعی
مزار سرمد شہید mazar sarmad shaheed
(3)
سرمد گلہ اختصار می باید کرد
یک کار ازیں دو کار می باید کرد
یا تن برضائے یار می باید داد
یا قطع نظر ز یار می باید کرد

سرمد گلے شکوے کو مختصر کر دے اور ان دو کاموں میں سے ایک کام کر، یا اپنے آپ کو یار کی رضا پر چھوڑ دے، یا (اگر ہو سکے تو) یار سے قطع نظر کر لے۔
--------

(4)
انتہائی خوبصورت نعتیہ رباعی

اے از رُخِ تو شکستہ خاطر گُلِ سُرخ
باطن ہمہ خونِ دل و ظاہِر گُلِ سرخ
زاں دیر برآمدی ز یُوسُف کہ بباغ
اوّل گُلِ زرد آمد و آخِر گُلِ سُرخ

اے کہ آپ (ص) کے رخ (کے جمال) سے گُلِ سرخ شکستہ خاطر ہے، اُس کا باطن تو سب دل کا خون ہے اور ظاہر گل سرخ ہے۔ آپ (ص) یوسف (ع) کے بعد اس لیئے تشریف لائے کہ باغ میں، پہلے زرد پھول آتا (کھلتا) ہے اور سرخ پھول بعد میں۔
--------

(5)
از منصبِ عشق سرفرازَم کردند
وز منّتِ خلق بے نیازَم کردند
چو شمع در ایں بزم گدازم کردند
از سوختگی محرمِ رازم کردند

مجھے منصبِ عشق سے سرفراز کر دیا گیا، اور خلق کی منت سماجت سے بے نیاز کر دیا گیا، شمع کی طرح اس بزم میں مجھے پگھلا دیا گیا اور اس سوختگی کی وجہ سے مجھے محرمِ راز کر دیا گیا۔
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 28, 2012

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی - سیّد سبطِ علی صبا

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے

ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئنے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لیے

میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
Syyed Sibt-e-Ali Saba, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
سیّد سبطِ علی صبا
Syyed Sibt-e-Ali Saba
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے

ہر حُرملہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچّے چھپا لیے

(سیّد سبطِ علی صبا)
-------

افاعیل - مَفعُولُ فاعِلاتُ مَفاعِیلُ فاعِلُن
(آخری رکن میں‌ فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے)

اشاری نظام - 122 1212 1221 212
ہندسے دائیں سے بائیں، اردو کی طرح پڑھیے۔
(آخری رکن میں‌ 212 کی جگہ 1212 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع--

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے

ملبوس - مفعول - 122
جب ہوا نِ - فاعلات - 1212
بدن سے چُ - مفاعیل - 1221
را لیے - فاعلن - 212

دوشیز - مفعول - 122
گان صبح - فاعلات - 1212
نِ چہرے چُ- مفاعیل - 1221
پا لیے - فاعلن - 212
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 26, 2012

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں - کرشن بہاری نُور لکھنوی

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

سچ گھٹے یا بڑے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں

زندگی، موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں

جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں

اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نُور سنسار سے گیا ہی نہیں

(کرشن بہاری نُور لکھنوی)

---

بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔ تفصیل کیلیئے میرا مقالہ “ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف” دیکھیئے)

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

زندگی سے - فاعلاتن - 2212
بڑی سزا - مفاعلن - 2121
ہِ نہی - فَعِلن - 211

اور کیا جر - فاعلاتن - 2212
م ہے پتا - مفاعلن - 2121
ہِ نہی - فَعِلن - 211
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 24, 2012

وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا - ہوش ترمذی

وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا

مرنے جینے کو نہ سمجھے تو خطا کس کی ہے
کون سا حکم ہے جو ان کے اشاروں میں نہ تھا

ہر قدم خاک سے دامن کو بچایا تم نے
پھر یہ شکوہ ہے کہ میں راہگزاروں میں نہ تھا

تم سا لاکھوں میں نہ تھا، جانِ تمنا لیکن
ہم سا محروم ِ تمنا بھی ہزاروں میں نہ تھا

ہوش کرتے نہ اگر ضبطِ فغاں، کیا کرتے
پرسشِ غم کا سلیقہ بھی تو یاروں میں نہ تھا

(ہوش ترمذی)
-----


بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2212 2211 2211 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر دائیں سے بائیں پڑھیے۔ یعنی 2212 پہلے ہے اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)

تقطیع -

وہ تقاضائے جنوں اب کے بہاروں میں نہ تھا
ایک دامن بھی تو الجھا ہوا خاروں میں نہ تھا

وہ تقاضا - فاعلاتن - 2212
ء جنو اب - فعلاتن - 2211
کِ بہارو - فعلاتن - 2211
مِ نہ تھا - فعِلن - 211

ایک دامن - فاعلاتن - 2212
بِ تُ الجھا - فعلاتن - 2211
ہُ وَ خارو - فعلاتن - 2211
مِ نہ تھا - فعِلن - 211

-----
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 14, 2012

متفرق فارسی اشعار - 4

بسازِ حادثہ ہم نغمہ بُودن آرام است
اگر زمانہ قیامت کُنَد تو طوفاں باش

(مرزا عبدالقادر بیدل)

حادثہ کے ساز کے ساتھ ہم نغمہ ہونا (سُر ملانا) ہی آرام ہے، اگر زمانہ قیامت بپا کرتا ہے تو تُو طوفان بن جا۔
------

گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را

(شاعر: نا معلوم)

کبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کر، اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں۔
------
Persian poetry, Persian Poetry with Urdu translation, Farsi poetry, Farsi poetry with urdu translation,

بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مَجو
در سینہ ہائے مردمِ عارف مزارِ ما

(سعدی شیرازی)

وفات کے بعد میری قبر زمین میں تلاش مت کرنا، کہ عارف لوگوں کہ سینوں میں میرا مزار ہے۔

------
رباعی

خواہی کہ ترا دولتِ ابرار رسَد
مپسند کہ از تو بہ کس آزار رسَد
از مرگ مَیَندیش و غمِ رزق مَخور
کایں ھر دو بہ وقتِ خویش ناچار رسَد

(شیخ ابو سعید ابو الخیر)

اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے نیک لوگوں کی دولت مل جائے (تو پھر) نہ پسند کر کہ تجھ سے کسی کو آزار پہنچے، موت کی فکر نہ کر اور رزق کا غم مت کھا، کیوں کہ یہ دونوں اپنے اپنے وقت پر چار و ناچار (لازماً) پہنچ کر رہیں گے۔
------

حافظ اگر سجدہ تو کرد مکن عیب
کافرِ عشق اے صنم گناہ ندارد

(حافظ شیرازی)

حافظ نے اگر تجھے سجدہ کیا تو کوئی عیب نہیں کہ اے صنم عشق کے کافر پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
------

گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ آں آوارۂ کوئے بتاں، آوارہ تر بادا

(امیر خسرو دہلوی)

اگر اے زاہد تو میرے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو میرے لیے یہ کہہ کہ کوئے بتاں کا آوارہ، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔
------

حاصلِ خاقانی است دفترِ غم ہائے تو
زاں چوں قلم بر درت راہ بہ سر می رود

(خاقانی شروانی)

خاقانی کا حاصل تیرے غموں کے قصے ہیں کہ قلم کی طرح تیرے در کے راستے پر سر کے بل چلتا ہے۔
------

چہ خوش است از دو یکدل سرِ حرف باز کردن
سخنِ گذشتہ گفتن، گلہ را دراز کردن

(نظیری نیشاپوری)

کیا ہی اچھا (ہوتا) ہے دو گہرے دوستوں کا (آپس میں) گفتگو کا پھر سے آغاز کرنا، بیتی باتوں کو یاد کرنا اور گلوں کو دراز کرنا۔
------

من خکم و من گردم من اشکم و من دردم
تو مہری و تو نوری تو عشقی و تو جانی

(شاہد افلکی)

میں خاک ہوں (تُو آفتاب ہے)، میں گرد و غبار ہوں (تُو نور ہے)، میں آنسو ہوں (تُو عشق ہے)، میں درد ہوں (تُو جان ہے)۔
------

یک نگہ، یک خندۂ دزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دگر

(اقبال لاہوری)

ایک نگاہ، (پھر) ایک زیرِ لب تبسم، (اور اسکے بعد آنکھوں سے بہتا ہوا) ایک چمکتا آنسو، محبت کے پیمان کیلیے اس کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں ہے۔
------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 11, 2012

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے - قتیل شفائی

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے

ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکن
نظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے

نظر آتا ہے سجدے میں جو اکثر شیخ صاحب کو
وہ جلوہ، جلوۂ جانانہ بن جائے تو کیا کیجے
Qateel Shifai, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
قتیل شفائی Qateel Shifai
ترے ملنے سے جو مجھ کو ہمیشہ منع کرتا ہے
اگر وہ بھی ترا دیوانہ بن جائے تو کیا کیجے

خدا کا گھر سمجھ رکّھا ہے اب تک ہم نے جس دل کو
قتیل اس میں بھی اک بُتخانہ بن جائے تو کیا کیجے

(قتیل شفائی)
--------

بحر - بحر ہزج مثمن سالم

افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن

اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221
(ہندسوں کو دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 1 پہلے اور 222 بعد میں)

تقطیع -

حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے

حقیقت کا - مفاعیلن - 2221
اگر افسا - مفاعیلن - 2221
نہ بن جائے - مفاعیلن - 2221
تُ کا کیجے - مفاعیلن - 2221

گلے مل کر - مفاعیلن - 2221
بِ وہ بیگا - مفاعیلن - 2221
نہ بن جائے - مفاعیلن - 2221
تُ کا کیجے - مفاعیلن - 2221

-----

اور یہ غزل استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں




مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 9, 2012

دل میں اب آواز کہاں ہے - مولانا ماہر القادری

دل میں اب آواز کہاں ہے
ٹوٹ گیا تو ساز کہاں ہے

آنکھ میں آنسو لب پہ خموشی
دل کی بات اب راز کہاں ہے

سرو و صنوبر سب کو دیکھا
ان کا سا اندا ز کہاں ہے
Maulana Mahir-ul-Qadri, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مولانا ماہر القادری
Maulana Mahir-ul-Qadri
دل خوابیدہ، روح فسردہ
وہ جوشِ آغاز کہاں ہے

پردہ بھی جلوہ بن جاتا ہے
آنکھ تجلی ساز کہاں ہے

بت خانے کا عزم ہے ماہر
کعبے کا در باز کہاں ہے

(مولانا ماہر القادری)
--------
مزید پڑھیے۔۔۔۔

Jan 3, 2012

یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا - غزل مجید امجد

مجید امجد کی ایک انتہائی خوبصورت غزل

جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا
میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا

یہ تیرگئ مسلسل میں ایک وقفۂ نور
یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا
Majeed Amjad, urdu poetry, urdu ghazal, ilm-e-arooz, taqtee
مجید امجد
جو تم ہو برقِ نشیمن، تو میں نشیمنِ برق
الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا

ہجومِ رنگ فراواں سہی، مگر پھر بھی
بہار، نوحۂ صد عندلیب، کیا کہنا

ہزار قافلۂ زندگی کی تیرہ شبی
یہ روشنی سی افق کے قریب، کیا کہنا

لرز گئی تری لو میرے ڈگمگانے سے
چراغِ گوشۂ کوئے حبیب، کیا کہنا

(مجید امجد)

مآخذ - نقوش غزل نمبر، لاہور 1985ء

------

بحر - بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف مقطوع

افاعیل: مَفاعِلُن فَعِلاتُن مَفاعِلُن فَعلُن
(آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلُن اور فعِلان بھی آ سکتے ہیں)

اشاری نظام - 2121 2211 2121 22
ہندسوں کو اردو کی طرز پر یعنی دائیں سے بائیں پڑھیے یعنی 2121 پہلے ہے اور اس میں بھی 1 پہلے ہے۔
(آخری رکن میں 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتے ہیں)

پہلے شعر کی تقطیع -

جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا
میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا

جنون عش - مفاعلن - 2121
ق کِ رس مے - فعلاتن - 2211
عجیب کا - مفاعلن - 2121
کہنا - فعلن - 22

مِ اُن سِ دُو - مفاعلن - 2121
ر وُ میرے - فعلاتن - 2211
قریب کا - مفاعلن - 2121
کہنا - فعلن - 22
-------
مزید پڑھیے۔۔۔۔